ماہ رمضان میں زکوة اور خیرات سے حقدار محروم نہ رہ جائیں

جاویدجمال الدین

ہندوستان میں بھی کروڑوں مسلمان ماہ رمضان ایمانی جوش وجذبہ سے مناتے ہیں ،عبادت ،قرآن کی تلاوت ،ذکر اور تسبیح میں مشغول رہنے کے ساتھ ساتھ مستحق اور ضرورت مندوںکو زکوة اور خیرات کی ادائیگی بھی کرتے ہیں ،ویسے زکوة سال بھر کی جمع پونجی پر دی جاتی ہے اور اس کی کئی اقسام ہیں ،لیکن مسلمانوں نے ماہ رمضان میں زیادہ ثواب کی نیت سے اداکرنا شروع کردیا ہے اور یہ ایک رواج بن چکا ہے۔مسلمانوں میں ہمیشہ سے یہ کوشش رہی ہے کہ زکوة اور خیرات کی ادائیگی مستحق وضرورت مند کو پہنچے ،لیکن ایسا نہیں ہوتا ہے ،پہلے مدرسوںاور دارالعلوم کے نام پر اور حال میں غیر سرکاری تنظیموں (این جی اوز)اور طبّی امداد کے نام پر سینکڑوں اداروںاور تنظیموں نے زکوة حاصل کرنے کے لیے سراٹھالیاہے ۔

حال میں ایک عالم دین کا ایک بیان سنا ،جس سے پتہ چلتا ہے کہ ایک انسان کی زندگی میں کون کون اس کی مالی اعانت کا حقدار ہے ،لیکن اس سے پہلے ایک واقعہ پیش کرنا چاہتا ہوں۔جوکہ ایک عالم دین نے چند سال قبل ممبئی میں سنایا تھا،کہ جے پورمیں مسلمانوں کی ایک تقریب میں راجستھان کے آنجہانی وزیراعلیٰ اور سابق نائب صدربھیرون سنگھ شیخاوت اور جے پورکے کلکٹر بھی شریک ہوئے ۔اس موقع پر بھیرون سنگھ شیخاوت نے اپنی تقریر میں مسلمانوں کومخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ”میں نے دین اسلام کا بڑی باریکی سے مطالعہ کیا ہے اور زکوة کے نظام کی اسٹڈی کرتے ہوئے ،یہ محسوس ہوا ہے کہ اگر اسے جامع وٹھوس مالی نظام ہونے کے باوجود مسلمان پسماندگی اور غربت کا شکار کیوں ہیں،جبکہ اس نظام کو بہتر انداز میں نافذ کیا جائے تو ان کی غربت اور معاشی بدحالی کو دورکیا جاسکتا ہے اور اس کے بہترین نتائج سامنے آسکتے ہیں۔“

اس موقع پر موجود ضلع کلکٹر نے ایک قدم آگے بڑھ کر کہا کہ ”میرا تو یہ کہنا ہے کہ زکوة کے سسٹم کو ملک میں نافذ کردیا جائے تو اس سے مسلمانوں کی ہی نہیں بلکہ ہندوستان کی معاشی اور اقتصادی حالت کو بہتربنانے سے کوئی روک نہیں سکتا ہے اور ملک اپنے پیروں پر کھڑا ہوجائے گا۔“ان عالم دین نے جوکہ تقریب میں موجودتھے ،انہیں بتایا کہ مسلمانوں کے امراءوخواص زکوة دینے میں کوتاہی کرتے ہیں یا یہ حقداروں کی پہنچ سے دورہے۔میں نے بھی محسوس کیا ہے کہ ہمارے علمائے کرام اور قوم وملت کے دردمندوںنے اس جانب کبھی اتنی سنجیدگی سے توجہ نہیں دی ہے ،اس کا مجھے کوئی انداز ہ نہیں ہے اور نہ ہی اس ضمن میں کوئی پہل کرتے ہوئے میں نے پایا ہے۔

جیسا کہ میں نے ابتداءمیں ذکرکیا تھا کہ ایک عالم دین مولانا وصی حسن خان نے اپنے ایک انٹرویو میںحضورکی ایک حدیث پیش کی ،جس میں آپ نے فرمایا کہ اگر کسی انسان کے پاس دس درہم ہیں تو وہ کس طرح پانچ مدمیں انہیں خرچ کرے ،ان میں اوّل مقام والدین کا آتا ہے کہ سب سے پہلے والدین کی دیکھ بھال اور رہن سہن پر خرچ کیا جائے ،دوسرا ذکرخود کا اور اہل خانہ کا نمبر آتا ہے۔خاندان یعنی اپنے بال بچوں سے پہلے ماں باپ کو ترجیح دی گئی ہے ،اور اپنے خاندان کے بعد تیسرے اور چوتھے نمبر پر بالترتیب غریب رشتہ دار اور غریب پڑوسی مستحق ہیں اور پانچویں نمبر پر فی سبیل اللہ یعنی راہ خدا میں خرچ کیا جائے ،لیکن ہم نے اس بہترین طریقہ کار اور نظام کو اپنے مفاد میں استعمال کرنا شروع کردیا ہے اور پہلے حقداروںکو بالکل نظرانداز کردیتے ہیں۔

حال میں ملک کی ایک غیر منافع بخش تنظیم ایسو سی ایشن آف مسلم پروفیشنلس (اے ایم پی) نے اس تعلق سے ایک جامع رپورٹ پیش کی ہے۔مذکورہ تنظیم گذشتہ پانچ برسوں سے زکوة کے مرکزی نظام کے لیے جدو جہد کررہی ہے تاکہ معاشی طور پر مسلمانوں کے پسماندہ افراد کی زندگیوں میں بہتری لائے جاسکے اور انھیں ”زکوة لینے والوں سے زکوة دینے والوں“ میں تبدیل کیا جاسکے، اس سلسلہ میں اے ایم پی کے صدرعامر ادریسی نے کا کہنا ہے کہ تنظیم گزشتہ ایک عشرہ سے مسلمانوں میں ان کے تعلیم اور معاشی استحکام کے لیے کوشاں ہے۔اس درمیان زکوة کو مستحق حضرات تک پہنچانے کے لیے منصوبہ بندی کرنے کابھی فیصلہ کیا گیا ہے ،واضح رہے کہ زکوة اسلام کے پانچ بنیادی ارکان توحید،نماز،روزہ ،حج کے ساتھ چوتھے مقام پر ہے۔ یہ ان تمام مسلمانوں کے لیے فرض ہے جو دولت کی مخصوص شرط کو پورا کرتے ہوں۔ ایسے تمام مسلمان جن پر زکاة فرض ہے، انھیں سالانہ اپنے خاندانی اخراجات نفی کرنے کے بعد اپنی مال و دولت پر ڈھائی فیصد یا اس کا چالیسواں حصہ زکوة کے طور پر دینا ہوتا ہے۔ زکوة نیکی اور تقویٰ کا وہ ذریعہ ہے جس کے ذریعے پسماندہ اور معاشی طوربدحال اپنے کمزور بھائیوں کی مالی مدد کی جاسکتی ہے۔

زکوة کی صحیح اور منصوبہ بندی سے کی جانے والی تقسیم سے ہمارے سماج اور معاشرے امیر و غریب کے درمیان باہمی آہنگی کا ذریعہ ہے۔ یہ ایک ایسا ذریعہ یا آلہ ہے کہ اگر منظم اور صحیح طریقے سے اس کا اجماع اور تقسیم کا نظم کیا جائے تو اس کے ذریعے وسائل سے محروم مسلمانوں کے پسماندہ افراد کی زندگی کو تبدیل کیا جاسکتا ہے۔

مسلمانوںکے ایسے ضرورت منداور مستحق افراد میں زکوة کے حصول اور تقسیم کے نظام کو سمجھنے، اسکی کمی کے اثرات کو جاننے کے لیے اے ا یم پی نے ”قومی زکوة سروے“ کرنے کا فیصلہ کیا۔ اس ضمن میںجو اقدامات کیے گئے ،ڈاٹا اور حقائق کی بنیاد پر رپورٹ تیار کی گئی اور قارئین کو یہ سن کر حیرت ہوگی کہ 84فیصد افراد جن پر زکوة فرض ہے وہ زکوة ادا کرتے ہیں، لیکن 33فیصدمسلمانوں کو زکوة اور اسکے فوائد کے تعلق سے معلومات ہی نہیں ہے۔ رپورٹ میں مزید یہ انکشاف کیا گیاہے کہ قابل افسوس بات یہ ہے کہ 60 فیصدمسلمان ہر سال یکساں افراد کو زکوة ادا کرتے ہیں اور یہ پوچھے جانے پر کہ کیا انھوں نے ان افراد کی زندگی میں کوئی تبدیلی محسوس کی ہے تقریباً نصف سے زائدنے نفی میں جواب دیا ،بلکہ ان کا کہنا تھا کہ انھیں اس کی کوئی فکر نہیں اور وہ صرف اپنی زکوة کی ذمہ داریوں سے بری الذمہ ہونا چاہتے ہیں۔

اے ایم پی کے زکوةسروے میں ایک اہم بات یہ بھی پتہ چلی ہے کہ اس میں حصہ لینے والے چالیس فیصد افراد نے کہاکہ وہ زکوة کی حساب وکتاب کے صحیح طریقے سے بھی واقف نہیں ہیں۔ اے ایم پی نے پہلے آسانی کے لیے اس ضمن میں اپنی ویب سائٹ پر زکوة کیلکولیٹر اپلوڈ کیا ہے تاکہ صاحب حیثیت صحیح طریقے سے زکوة تحسیب کرسکیں۔

زکوة کے سلسلے میں جو سروے رپورٹ پیش کی گئی ہے ،اس کے مطابق90فیصد زکوة دینے والے افرادتسلیم کرتے ہیں کہ زکوة کا ایک ایسا منظم لائحہ عمل ہو کہ آج زکوة لینے والے افراد کل زکوة دینے والے بن جائیں۔بلکہ وہ اس سلسلہ میں عزم کریں کہ مستقبل میں وہ اپنی بہتر مالی حالت کے سبب لوگوں میں زکوة کی تقسیم کرسکیں۔

اے ایم پی نے قومی سطح پر جو جائزہ پیش کیا ہے ، اس قومی زکوة سروے کے ذریعے ایک قابلِ ستائش کام کیا ہے،کیونکہ ہر کوئی واقف ہے کہ توحید ، نماز و روزہ کے بعد زکوة اسلام کا ایک اہم رکن ہے۔ عربی میں زکوة کا مطلب ہے اضافہ، ترقی اور خالص ہونا۔اگر ایک جامع اور ٹھوس انداز میں اس کی تقسیم ہوتو، ہندوستان میں پانچ کروڑ پسماندہ مسلمانوں کے مسائل کو حل کیا جاسکتا ہے اور زکوة ادا کرنے والے افراد منظم طریقے سے زکوة جمع کریں اور ان کی تقسیم کا صحیح طریقہ اختیارکیا جائے۔ ہمارے تعلیم یافتہ طبقے کو مذہبی ذمہ داریوں کو سمجھنا ہوگا تاکہ وہ بھی دنیا اور آخرت میں اللہ کی رحمت سے محروم نہ ہوں۔

خیال رہے کہ زکوة کا مقصد ہی منظم اور مرکزی طریقے سے زکوة کی وصولی اور تقسیم کرنا ہے تاکہ سب کو برابری کا موقع مل سکے۔ دراصل زکوة مسلمانوں کے پاس ایک ایسا معاشی ذریعہ ہے جو مسلم فرقہ کے معاشی بدحالی کا شکارہے ،اس کو ہی نہیں بلکہ موجودہ پسماندگی سے ملک کی ترقی میں میں سربراہی کرنے والا بنا سکتا ہے ،جہاں اے ایم پی کا تعلق ہے ، وہ اس ضمن میں مسلم پروفیشنلس کی استطاعت کے مطابق اقدامات کررہی ہے اور زکوة کی منظم وصولی اور تقسیم کاری کے اس قدم کے ذریعے مسلمانوں اور ملک کی ترقی میں اہم رول ادا کرنے کا عزم کیے ہوئے ہے۔ہمیں بھی اپنے آس پاس ،گاﺅں،قصبہ اور شہر میں ایسی مہم میں حصہ لینا چاہئے کہ مسلمانوںمیں پائی جانے والی معاشی اور اقتصادی بدحالی کو ختم نہیں تو کم کرسکیں۔اگر صحیح اور بہتر منصوبے پر عمل کیا گیا تو کامیابی ضرورحاصل ہوگی۔

تبصرے بند ہیں۔