ماہ رمضان کا نظام خوراک صحت اور عبادت میں معاون

حکیم نازش احتشام اعظمی

رمضان المبارک میں بہترین صحت برقرار رکھنے کیلئے سحر و افطار میں کھانے کے حوالے سے غذائی ماہرین نے روزہ داروں کیلئے قیمتی غذائی ترکیب  بیان کی ہے۔ ماہرین کہتے ہیں کہ سحری میں چنے آٹے کی روٹی، دلیہ، چاول، پھلی دانے بہترین انتخاب ہیں۔ فائبر سے بھرپور پھل اور سبزیاں ، سیب امرود آڑو آلو اور پالک جیسے کھانوں کو ترجیح دی جائے۔ روزہ کے طویل دورانیہ کی پیش نظر ریشے والی غذائیں کھانا زیادہ بہتر ہے۔ گوشت اور مرغن غذاؤں کا استعمال ہر ممکن حد تک کم کیا جائے۔

سحر و افطار میں چائے کا کم استعمال یا مکمل گریز کرنا صحت کے لیے بہترین ہے۔ دودھ دہی اور ان کے استعمال سے تیار کردہ اشیاء کے استعمال کو دستر خوان کا لازمی حصہ بنائیں۔ سحر و افطار میں ضرورت سے زیادہ کھانا صحت کیلئے انتہائی خطرناک عمل ہے۔ زیادہ چکنائی، نمک اور چینی پر مشتمل کھانوں کا استعمال کم سے کم کیا جائے۔ افطاری کے فورا بعد زیادہ پانی پینے سے اجتناب کیا جائے۔

افطار میں میٹھے مشروبات اور کاربونیٹڈ کولا ڈرنکس کی بجائے لیموں پانی استعمال کیا جائے۔ گھروں میں پکوڑے سموسے تیار کرنے میں استعمال شدہ تیل کا دوبارہ استعمال مت کریں۔ تلی ہوئی اشیاء کے استعمال کو معمول سے زیادہ نہ کریں۔ رمضان المبارک میں جسمانی ورزش میں کمی کسی صورت نہ کریں۔ ماہرین نے خبردار کیاہے کہ رمضان میں غذائی لاپرواہی اور بسیار خوری صحت کی خرابی کا باعث بنتی ہیں۔

رمضان کریم کا بیش قیمت تحفہ یہ ہے کہ وہ انسان کو روحانی اور جسمانی، دونوں لحاظ سے اعلیٰ درجے تک پہنچانے کا سامان مہیا کرتا ہے۔ اور جسمانی تندرستی پانے کا راز اس گر میں پوشیدہ ہے کہ روزے دار اس مبارک مہینے میں صحیح اور متناسب غذا کھائے۔ اگر ایسا نہ ہو، تووہ الٹا اپنی صحت خراب کرسکتا ہے۔

سحری اور افطار میں رواے داروں کے سامنے رنگ برنگ کھانوں کا ڈھیر لگا ہوتا ہے۔ اشتہا انگیز غذائیں دیکھ کر بہت سے مردوزن خود پر قابو نہیں رکھ پاتے اور الم غلم اشیاء سے پیٹ بھرلیتے ہیں۔ انہیں احساس ہی نہیں ہوتا کہ وہ مضر صحت غذائیں بڑی تعداد میں چٹ کرجاتے ہیں۔ ماہرین غذائیات کا کہنا ہے کہ سحرو افطار میں کھجور ضرور کھائیے۔ یہ بہترین پھل بڑی تعداد میں کا ر بو ہا ئیڈ ر یٹ، ریشہ (فائبر)، شکر اور پوٹاشیم رکھتا ہے۔ چناں چہ روزے کے طویل دور میں جسم کو اس پھل سے مسلسل توانائی ملتی رہتی ہے۔ کھجور بھوک ختم کرتا اور ہاضمہ بہتر بناتا ہے۔ اس میں چکنائی موجود نہیں ہوتی اور نہ کولیسٹرول ملتا ہے۔ کھجور میگنیشیم اور وٹامن بی۔6 کا بھی عمدہ ذریعہ ہے۔محققین کی رائے ہے کہ افطاری میں کھجوریں کھائی جائیں تو انسان بسیار خوری سے بچ سکتا ہے۔ وجہ یہ کہ چند کھجوریں کھا کر ہی پیٹ بھر جاتا ہے۔ آج کل یہ رواج بن چکاہے کہ سحر و افطار، دونوں مواقع پر ہمہ قسم کے مشروبات نوش کیے جاتے ہیں۔ عام طور پہ دسترخوان پر پانی کہیں نظر نہیں آتا۔ یہ مشروبات چینی اور کیمیائی مادوں کے حامل ہوتے اور انسان کو فربہ بناتے ہیں۔ پانی ان سے کہیں بہتر قدرتی مشروب ہے۔مگر افسوس کہ روزے داروں کی اکثریت خصوصاً افطاری کے وقت عموماً پانی سے اجتناب برتتی ہے۔

بعض مردوزن افطاری میں مشروبات کے کئی گلاس چڑھا جاتے ہیں۔ یہ صحت بخش چلن نہیں ہے۔ یوں وہ خصوصاً گرمیوں میں مسلسل پیاس کا شکار رہتے ہیں۔ وجہ یہ ہے کہ مشروبات برف ڈال کر ٹھنڈے بنائے جاتے ہیں۔ اور مشروب یا پانی جتنا زیادہ ٹھنڈا ہو، وہ اتنا ہی زیادہ پیاس لگاتا ہے۔ لہٰذا زیادہ سرد پانی بھی ہرگز نوش نہ کریں۔ روزے کے دوران سعی کیجیے کہ آپ کا پسینہ نہ نکلے۔ پسینہ نکلنے سے جسم بیش قیمت پانی سے محروم ہوجاتا ہے۔ چناں چہ دھوپ میں یا گرم جگہ کم سے کم وقت گزارئیے۔

ہمارے ہاں یہ چلن بھی جنم لے چکاہے کہ افطاری کے موقع پر پکوڑے، سموسے، کچوریاں ، چپس وغیرہ ضرور موجود ہوں اور لوگوں کی اکثریت انہیں کھا کر ہی روزہ افطار کرتی ہے۔ یہ مضر صحت رواج ہے۔

ماہرین غذائیات کے مطابق روزے میں افطاری ہی سب سے اہم وقت ہے۔ تب پچھلے پندرہ گھنٹے سے جسم حالتِ آرام میں ہوتا ہے۔ اس کیفیت میں پیٹ سکڑ جاتا ہے اور آنتیں بھی متحرک نہیں رہتیں۔ ایسی حالت میں نہایت ضروی ہے کہ ٹھوس غذا رفتہ رفتہ نظام ہضم میں داخل کی جائے۔ اگر افطاری میں انسان پیٹ سموسوں ، پکوڑوں وغیرہ سے بھرلے، تو نہ صرف نظام ہضم خراب ہوتا ہے، بلکہ گردوں جیسے اہم اعضا کو بھی نقصان پہنچ سکتا ہے۔اسی طرح افطار کرنے کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ پہلے چند کھجوریں کھائیے پھر دو گلاس پانی نوش کریں۔ پھر گوشت یا سبزیوں کی یخنی پیجیے جو جسم کی کھوئی ہوئی توانائی بحال کرتی ہے۔ آخر میں سلاد کھائیے۔ جب یہ سب کچھ کھاپی چکنے کے بعد بھی آپ بھوک محسوس کریں ، تب ٹھوس غذا کی طرف متوجہ ہوں۔ اگر سلاد کھانے کے بعد آپ کا پیٹ بھرجائے، تو دسترخوان سے اٹھ جائیے۔ نماز پڑھیے اور کچھ کام کاج کیجیے۔ آپ ٹھوس غذا بعد میں بھی کھاسکتے ہیں۔ یاد رکھیے!  افطار کے موقع پر بسیار خوری کرنا کئی امراض کو دعوت دینا ہے۔ زیادہ کھانے پینے سے نفسیاتی و جسمانی، دونوں طرح سے انسانی صحت کو نقصان پہنچتا ہے۔

روزے دار خوب کھاپی لے، تو وہ طبیعت میں سستی اور کسل مندی محسوس کرتا ہے۔ ایسی حالت میں بعض اوقات نماز بھی چھوٹ جاتی ہے جو گناہ ہے، جبکہ بسیار خوری سو بیماریوں کی ماں ہے، موٹاپا انسان کو آ چمٹتا ہے۔ لہٰذا بہ موقع افطار سیال اشیاء سے پیٹ بھرئیے تاکہ پہلے جسم کھوئی ہوئی توانائی پاسکے۔اگر بھوک ختم نہ ہو،تب ٹھوس غذا کام میں لائیے۔

کوشش کیجیے کہ سحری اور افطار میں معدنیات و وٹامن سے بھر پور غذائیں کھائیے۔ جبکہ زیادہ حرارے (کیلوریز)، نمک، چینی اور چکنائی رکھنے والی غذاؤں سے پرہیز کیجیے۔ یہ یاد رہے کہ غذاؤں کے پانچ بڑے گروپ ہیں۔ اناج، سبزیاں ، پھل، گوشت اور ڈیری مصنوعات۔ ان گروہوں میں سے صحت مند غذاؤں کا انتخاب کیجیے۔ماہرین غذائیات کا کہنا ہے کہ روزانہ انسان کی آدھی غذا سبزیوں و پھلوں پر مشتمل ہونی چاہیے۔ اس کے بعد 25 فیصد غذا اناج اور بقیہ 25 غذا گوشت اور ڈیری پر مشتمل ہو۔یوں انسان کو غذا سے وافر معدنیات اور وٹامن ملتے ہیں اور اس کی صحت تسلی بخش رہتی ہے۔

تیل میں تلے کھانے کم سے کم کھائیے۔ نیز چکنائی سے بھرپور غذاؤں سے بھی دور رہیے۔ آپ گوشت کھانے کے شوقین نہیں ، تو غذا میں انڈا، دودھ اور دالیں ضرور شامل رکھیے۔ یہ غذائیں ہمیں پروٹین فراہم کرتی ہیں۔ جسم کے خلیے یہی عنصر پاکر اپنا کام بخوبی انجام دیتے ہیں۔

افطار میں پانی پینے کے بعد کھجور کے علاوہ دیگر شکر والی غذاؤں سے پرہیز کیجیے جن میں کیک، بسکٹ، مٹھائیاں وغیرہ شامل ہیں۔ ایسی میٹھی اشیا ء دراصل پیٹ میں گیس و اپھارہ پیدا کرتی ہیں ، نیز ہاضمے کا عمل سست کردیتی ہیں۔ میٹھی غذاؤں کی ایک بڑی خرابی یہ ہے کہ وہ خون میں شکر کا توازن بگاڑ دیتی ہیں۔ اسی بگاڑ کی وجہ سے انسان کا معدہ مزید میٹھی غذائیں مانگتا اور ان کا عادی بن جاتا ہے۔ ماہرین غذائیات مشورہ دیتے ہیں کہ افطار کے دو تین گھنٹے بعد اعتدال سے میٹھی غذائیں مثلاً کھیر، سوئیاں ، کیک وغیرہ تناول کیجیے۔واضح رہے کہ پھلوں اور دیگر غذاؤں میں قدرتی طور پر پائی جانے والی شکر ہماری صحت بخش غذا کا حصہ ہے۔ اس شکر کا اعتدال سے استعمال ضروری ہے۔ اصل مسئلہ چینی اور دیگر مصنوعی مٹھاسیں پیدا کرتی ہیں۔ ان کے زیادہ استعمال سے انسان ذیابیطس، ہائی بلڈ پریشر اور موٹاپے جیسی موذی بیماریوں کا شکار ہوجاتا ہے۔

اسی طرح خصوصاً افطار کے موقع پر نمکین غذاؤں مثلاً پکوڑے، سموسے، کچوریاں ، چپس ،پیزہ وغیرہ کی فراوانی بھی انسانی صحت کیلئے بہت نقصان دہ ہے۔ انسان کو روزانہ صرف ایک چمچ نمک درکار ہوتا ہے۔ اس نمک میں شامل سوڈیم انسانی جسمانی نظام کو صحت مند رکھتا ہے۔ مگر نمکین غذاؤں کا زیادہ استعمال خاصا خطرناک ہے۔جسم میں نمک کی زیادتی سے انسان کینسر، امراض قلب، فالج، ہائی بلڈپریشر اور امراض گردہ میں مبتلا ہوسکتا ہے۔ ان بیماریوں سے محفوظ رہنے کی خاطر نمکین غذاؤں کو اعتدال میں کھائیے۔میٹھی، نمکین، مسالے دار اور پروسیسڈ یعنی تیار شدہ غذائیں حد سے زیادہ کھانے کا ایک بڑا نقصان یہ ہے کہ انھیں کھانے کے بعد پیاس بہت لگتی ہے۔ مزید براں جسم ان غذاؤں کو بہت جلد ہضم کرلیتا ہے۔ چناں چہ بھوک بھی جلد چمک اٹھتی ہے۔ نتیجتاً انسان ایسی غذائیں خوب کھاپی کر موٹا ہوتا چلا جاتا ہے۔ رمضان المبارک کے آخر میں وہ حیرت سے سوچتا ہے: ’’ارے یہ کیا ہوا؟ میں نے روزے تو پورے رکھے ہیں ، پھر میرا وزن کیسے بڑھ گیا؟‘‘ اسے احساس نہیں ہوتا کہ اس خرابی کے ذمے دار غیر صحت بخش کھانے ہیں۔

گلوکوز ہمارے جسم کا ایندھن ہے۔ ہم یہی ایندھن پاکر اپنے کام سرگرمی سے انجام دیتے ہیں۔ ہمارا جسم غذا کے ذریعے گلوکوز حاصل کرتا ہے۔ یہ گلوکوز زیادہ سے زیادہ پانچ گھنٹے کام آتی ہے۔ پھر جسم کو گلوکوز نہ ملے، تو وہ جسم میں ذخیرہ شدہ چکنائی سے بطور ایندھن کام لیتا ہے۔ یہ بات روزے داروں کو یاد رکھنی چاہیے۔بہت سے مردوزن رمضان المبارک کی آمد پر وزن کم کرنے کا پروگرام بنا لیتے ہیں۔ تب وہ جان بوجھ کر کم غذا کھاتے ہیں تاکہ اپنا وزن کم کرسکیں۔ مسئلہ یہ ہے کہ ہمارے جسم میں ذخیرہ شدہ چکنائی چند دن ہی جسمانی نظام کو ایندھن فراہم کرپاتی ہے۔ جب کہ رمضان کریم تو پورا ایک ماہ برقرار رہتا ہے۔چناں چہ انسان پورا ایک ماہ کم غذا کھائے، تو وہ ایک خطرناک طبی خلل ’’کیٹو ایسڈوسیسز‘‘(Ketoacidosis) میں مبتلا ہوجاتا ہے۔ دراصل جب انسانی جسم ذخیرہ شدہ چکنا ئی یا چربی استعمال کرے، تو اس کی ٹوٹ پھوٹ سے کیٹون (Ketone) نامی تیزابی مادہ جنم لیتا ہے۔ اگر جسم میں اس تیزابی مادے کی کثرت ہوجائے، تو یہ حالت ’’کیٹو ایسڈوسیسز‘‘ کہلاتی ہے۔ اس حالت میں خون زہریلا ہونے کے باعث انسان مر بھی سکتا ہے۔ اسی لیے ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ اگر انسانی جسم ذخیرہ شدہ چکنائی استعمال کرے، تو یہ صورت حال چند دن ہی رہنی چاہیے۔ طویل مدت برقرار رہے تو کیٹو ایسڈوسیسز کی خطرناک کیفیت جنم لے گی۔ اس خطرے کے باعث ماہ رمضان میں وزن کم کرنے کا منصوبہ ہرگز نہ بنائیے۔مرد وزن سحری میں غذا کھا پی لیں ، تو انھیں روزمرہ کام انجام دینے کی خاطر توانائی مل جاتی ہے۔ کوشش کیجیے کہ سحری میں ثابت اناج سے بنی اشیا کھائیے۔ یہ غذائیں آہستہ آہستہ ہضم ہوتیں اور طویل عرصہ خون میں شکر کی سطح متوازن رکھتی ہیں۔

تبصرے بند ہیں۔