مدارس اسلام کے قلعے اور امن کی آماجگاہ ہیں

محمد وسیم

 مدرسہ را پر کسرہ کے ساتھ، معنی ہیں : درس و تدریس کی جگہ، تعلیم دینے کی جگہ، اسلام کا مطلب ہے امن و شانتی، مدارس میں اسلام کی تعلیم کے ساتھ ساتھ دوسرے علوم کی بهی تعلیم دی جاتی ہے، مدرسے میں اسلامی تعلیمات کو سمجھنے پر زور دیا جاتا ہے، مدارس میں دین کے داعی اور اسلام کے سپاہی تیار ہوتے ہیں ، مدرسہ عالمِ اسلام کا Power House (بجلی گهر) ہے، جہاں سے نہ صرف اسلامی آبادی بلکہ انسانی آبادی میں بجلی تقسیم ہوتی ہے، مدرسے کا تعلق کسی تمدن، کسی عہد، کسی کلچر اور زبان و ادب سے نہیں – بلکہ اس کا تعلق براہ راست نبوّت محمدی سے ہے، جو عالم گیر بهی ہے، یہاں رحمت للعالمین (حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم) کی سیرت کی روشنی میں انسانیت سے محبت کی تعلیم دی جاتی ہے، مدرسہ در اصل قدیم و جدید کی بحثوں سے بالاتر ہے، وہ تو ایسی جگہ ہے جہاں نبوّت محمدی کی ابدیت اور زندگی کا نمو اور حرکت دونوں پاےء جاتے ہیں

مدارس اسلام کے قلعے ہیں ، وہ اسلام جو راستے سے معمولی چیز ہٹانے پر بھی اجر و ثواب کا مستحق قرار دیتا ہے، جو اپنے مسلمان بهائی سے مسکرا کر ملنے کو تحسین کی نظر سے دیکھتا ہے، مدارس نے ہمیشہ انسانیت سے محبت کی تعلیم دی ہے، مدارس میں اس شخصیت(حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم) کی سیرت کی تعلیم دی جاتی ہے، جس کے اوپر ایک بڑھیا دشمنی میں ہر روز کوڑا کرکٹ پهینکتی تهی، ایک دن بڑهیا نے کوڑا نہیں پهنیکا تو وہ شخصیت اس کے گهر چلی گئی اور پوچھا کہ تم نے آج میرے اوپر کوڑا نہیں پهینکا ؟ بڑهیا اس دن بیمار تهی مگر اس عظیم شخصیت نے اس کی عیادت کی، مدارس اپنا کام چهوڑ دیں تو زندگی کے کهیت سوکھ جائیں ، دنیا میں ہر ادارے، ہر مرکز، ہر این جی او، ہر فرد و جماعت کو راحت ہے، اس کو اپنے کام سے چھٹی مل سکتی ہے، مگر مدرسے کو راحت نہیں ، جب زندگی رواں دواں ہے تو مدرسے میں جمود و تعطل کہاں ؟ اسے تو قدم قدم پر زندگی کا جائزہ لینا ہے، نئے نئے فتنوں کا مقابلہ کرنا ہے اور بہکے ہوئے قدموں کو صحیح راستے پر لگانا ہے

مدارس نے جب زندگی کی رہنمائی اور دست گیری کا ذمہ لیا تو اسے اب فرصت کہاں ؟ اس تو ایک ایک انسان کی بھلائی اور اس کی دین و دنیا کی کامیابی کے لئے کوششیں کرنی ہیں ، مدارس اول دن سے ہی نہ صرف تعلیم پر زور دیتے ہیں بلکہ تعلیم کے ساتھ ساتھ تربیت کو بھی ضروری قرار دیتے ہیں ، یہاں انسان کی جس طرح سے شخصیت سازی کی جاتی ہے دنیا کے کسی بھی ادارے میں ویسی شخصیت سازی ممکن نہیں ، یہاں تو چهوٹے چهوٹے بچوں کو بهی اپنے کافر پڑوسی کے ساتھ حسنِ سلوک کی تاکید کی جاتی ہے، یہاں تک کہ ماں باپ کے کافر دوستوں کے ساتھ بهی اچھے اخلاق سے پیش آنے کی تعلیم دی جاتی ہے، غرض کہ مدرسہ ایک ایسی جگہ ہے جہاں سے امن و شانتی کی ہوائیں چلتی ہیں اور انسانیت کو سکون ملتا ہے، اسی چیز کو معروف شاعر علامہ اقبال نے بڑی خوبی کے ساتھ ایک شعر میں بیان کیا ہے:

یہ مدرسہ ہے ترا میکدہ نہیں ساقی
یہاں کی خاک سے انساں بناےء جاتے ہیں

قارئینِ کرام ! اس مختصر سی تحریر سے یہ واضح ہو گیا کہ مدارس امن و شانتی کی آماجگاہ ہیں ، یہاں نفرت، دشمنی اور دہشت گردی کا وجود تک نہیں ہے، سچ تو یہ ہے کہ دنیا میں اسلام کی وجہ سے روشنی پھیلی مگر اسلام کے دشمنوں کو یہ گوارہ نہ ہوا- اور جنگ کر کے دنیا میں تباہی پھیلائی- مگر پهر بهی مدارس وجود میں آئے اور دینی و علمی حلقے لگنے لگے، آج ہندوستان میں بھی مدارس دشمنوں کے نشانے پر ہیں ، حکومت مدارس کے خلاف کارروائی کرنے پر آمادہ ہے، بیان دیا جاتا ہے کہ مدارس دہشت گردی کے اڈے ہیں اور وہاں سے دہشت گرد پیدا ہوتے ہیں ، حکومت مدارس میں مداخلت کی کوشش کرتی ہے، مدارس کے خلاف دہشت گردی کے بیانات کو ہم مسترد کرتے ہیں اور ان کے خلاف ہر قسم کی سازشوں کو اعلانِ جنگ تصور کرتے ہیں – مدارس نے ہمیشہ بھٹکتی انسانیت کو صراطِ مستقیم پر لانے کی کوشش کی ہے، سب سے اہم خاصیت یہ ہے کہ مدارس نے اقراء کے شور میں باسم ربک الذی خلق کے سبق کو آج بھی نہیں بهلایا ہے، دین کی اصل روح اور مساجد ان ہی مدارس سے باقی ہیں:

پاسباں ہیں یہی اطور کے، کرداروں کے
یہی بنیاد بنے قوم کے معماروں کے

تبصرے بند ہیں۔