مسلمانان عالم سے عیدین اورحج و قربانی کا مطالبہ!

ڈاکٹراسلم جاوید

ذوالحجہ اسلامی اور قمری سال کا آخری مہینہ ہے۔ اس کی حرمت روز اوّل سے مسلم ہے۔ حرمت کے چار مہینوں میں اس کا شمار ہوتا ہے۔ یہ مہینہ بابرکت، مبارک اور اس کی فضیلت قرآن و حدیث سے ثابت ہے۔ اس مہینے کی کچھ عبادات ایسی ہیں جو سال کے کسی مہینے اور دن میں نہیں کی جاسکتیں، جیسے حج اور قربانی۔ ذوالحجہ کے پہلے دس ایام کی فضیلت قرآن و حدیث میں واضح الفاظ میں ذکر ہے۔ اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں ان ایام کی قسم اٹھا کر فرماتا ہے ’’ فجر کی قسم اور دس راتوں کی قسم۔ ‘‘ (سورہ الفجر)

صاحب جلالین فرماتے ہیں کہ دس راتوں سے ذو الحجہ کی دس راتیں مراد ہیں۔ امام قرطبی رقم طراز ہیں، ابن عباس ؓ کا قول ہے کہ وہ ذو الحجہ کی دس راتیں ہیں۔ اکثر مفسرین نے ’’ولیال عشرۃ‘‘ سے ذو الحجہ کی دس راتیں ہی مراد لی ہیں۔

اللہ تعالی کاٰ قرآن مجید میں کسی چیز کا قسم کھانا اپنی کسی بات کی توثیق کے لیے نہیں ہوتا، بلکہ جس چیز کی قسم اللہ تعالیٰ اٹھاتا ہے تو اس سے مقصود اس کی جلالت شان اور عظمت کو بیان کرنا ہوتا ہے۔ یہاں پر بھی ذوالحجہ کی پہلی دس راتوں کی اہمیت اور فضیلت کو اجاگر کرنا مقصود ہے۔ حضور اکرمؐ ان ایام کی فضیلت بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں ’’ ان ایام کی عبادت جہاد سے بڑھ کر ہے۔ ‘‘ (بخاری)

تاریخ اسلام میں عشرۂ ذء الحجہ کی فضیلت اس لئے بھی ہے کہ اس کی پہلی تاریخ کو سیدہ ٔعالم حضرت خاتونِ جنت فاطمہ زہراء رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا نکاح سیدنا حضرت علی مرتضیٰ کرم اللہ تعالیٰ وجہہ الکریم کے ساتھ ہوا۔

اس ماہ کی آٹھویں تاریخ کو یومِ ترویہ کہتے ہیں۔ کیوں کہ حجاج اس دن اپنے اونٹوں کو پانی سے خوب سیراب کرتے تھے۔ تاکہ عرفہ کے روز تک ان کو پیاس نہ لگے۔ یا اس لئے اس کو یوم ترویہ (سوچ بچار) کہتے ہیں کہ سیدنا حضرت ابراہیم خلیل اللہ علیٰ نبینا و علیہ الصلوٰۃ والسلام نے آٹھویں ذی الحجہ کو رات کے وقت خواب میں دیکھا تھا کہ کوئی کہنے والا کہہ رہا ہے کہ اللہ تعالیٰ تجھے حکم دیتا ہے کہ اپنے بیٹے کو ذبح کر۔ تو آپ نے صبح کے وقت سوچا اور غور کیا کہ آیا یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے یا شیطان کی طرف سے۔ اس لئے اس کو یومِ ترویہ کہتے ہیں اور اس کی نویں تاریخ کو عرفہ کہتے ہیں۔ کیوں کہ سیدنا حضرت ابراہیم علیہ الصلوٰۃ والسلام نے جب نویں تاریخ کی رات کو وہی خواب دیکھا تو پہچان لیا کہ یہ خواب اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے۔ اسی دن حج کا فریضہ سر انجام دیا جاتا ہے۔ دسویں تاریخ کو یوم نحر کہتے ہیں۔ کیوں کہ اسی روز سیدنا حضرت اسماعیل علیہ الصلوٰۃ والسلام کی قربانی کی صورت پیدا ہوئی۔ اور اسی دن عام مسلمان قربانیاں ادا کرتے ہیں۔ واضح رہے کہ عیدالفطر اور عید الاضحی مسلمانوں کے دو تہوار ہیں۔ یہ دونوں تہوار دو عظیم واقعات کی یادگار ہیں، ان دونوں تہواروں کا تعلق تخلیق آدم کے مقصد سے ہے، اس لیے دیگر اقوام کے مقابلے میں مسلمانوں کے دونوں تہوار نہ صرف مسلمانوں کو بلکہ پوری دنیائے انسانیت کو ان کا مقصد زندگی یاد دلانے کے لیے آتے ہیں۔

 یہ دونوں تہوار قیامت تک اسلام کی عالم گیر تحریک کا حصّہ ہیں جو روئے زمین پر اہل اسلام کی بیداری کا پیغام لے کر آتے ہیں۔ عیدالفطر کا تہوار ماہِ رمضان کے اختتام کی شکر گزاری کا اعلان ہے۔ اس ماہ میں انسانیت کے نام رب کائنات نے خاتم الانبیاء حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کے واسطے سے اپنا آخری پیغام ہدایت بھیجا تھا، اس لیے یہ ماہ اسلامی دنیا میں قرآن کے پیغام کو یاد دلاتا ہے، جبکہ عید الاضحی ماہ حج میں آتا ہے، یہ مہینہ بھی روئے زمین میں اسلام کی بیداری اور حیات نو کا پیغام لے کر آتا ہے ماہ حج میں ایک طرف دنیا کے ہر خطے سے ہزاروں لوگ اپنے اپنے قومی لباس اتار کر ایک بے سلا لباس پہن کر نسل ورنگ اور قوم وملک کی تفریق اور تمیز سے بے پروا ہوکر خدائے واحد کی بندگی کا اعلان کرتے ہیں اور ساتھ ہی اس بات کا عہد بھی کرتے ہیں کہ روئے زمین پر اللہ کے علاوہ کسی کا  کوئی اقتدار اور حکومت نہیں ہے۔ یہ مناسک حج اور یوم عید الاضحی اسلام کی دعوتِ توحید کی بازگشت ہے جس کا اعلان حضرت ابراہیمؑ اور حضرت اسماعیل ؑ نے کیا تھا۔ یوم عید الاضحی جسے مناسک کے پانچ ایام میں ’’یوم النحر‘‘ بھی کہا جاتا ہے۔ حضرت ابراہیمؑ اور حضرت اسماعیل ؑ کی ایسی قربانی کی یادگار ہے جس کا تصور بھی رونگٹے کھڑے کردینے کے لیے کافی ہے۔ دنیا بھر کے مسلمان یوم النحر یا یوم عید الاضحی کو سنتِ ابراہیمی کی پیروی کرتے ہوئے اللہ کے راستے میں جانوروں کو قربان کرتے ہیں۔ رسول اکرم صلی اللہ  علیہ وسلم کے ایک ارشاد مبارک کے مطابق اللہ کے نزدیک ’’یوم النحر‘‘ (قربانی کا دن) سب سے زیادہ عظمت والا دن ہے، اس دن اللہ کو جانوروں کی قربانی سے زیادہ کوئی عمل محبوب نہیں ہے۔ دنیا کے ہر ملک کے مسلمان یوم عید الاضحی کو قربانی کرتے ہوئے، عید الاضحیکی نمازاداکرتے  ہیں اوران لاکھوں مسلمانوں کے ساتھ شریک ہوجاتے ہیں جو اللہ کے پہلے اور قدیم گھر میں حج کے لیے حاضر ہوتے ہیں۔ حج کے موقع پر لاکھوں مسلمانوں کا اجتماع مسلمانوں کی عالمی برادری تشکیل دیتا ہے، جو ہرقسم کے نسلی، علاقائی، ملکی تعصبات سے پاک ہوتا ہے۔ اللہ کے گھر کو اللہ نے امن کا گھر بھی قرار دیا ہے۔ یہاں جمع ہونے والوں میں ہم خیالی، ہم آہنگی، یک دلی اور یکجہتی پائی جاتی ہے۔ اس مرکز میں آنے والوں کے درمیان حقیقی مساوات قائم ہوجاتی ہے، لیکن افسوس ناک بات یہ ہے کہ کلمہ گو مسلمانوں کا عظیم اجتماع، اللہ اکبر اور لبیک کی صدائیں لاکھوں جانوروں کی قربانیاں امتِ مسلمہ کی شوکت وعظمت کے اظہار کے بجائے ان کی نکبت وزوال کا نوحہ بن گئی ہیں۔ حج اور قربانی کے جو فضائل بیان کیے گئے ہیں ان کی نشانیاں اور علامتیں نظر نہیں آتیں۔ قربانی کا جانور قربانی کرنے والوں کیلئے ذریعہ نجات بنتا ہے۔ اس سے پہلے کہ جانور ذبح کرنے کے لیے زمین پر گرایا جائے، اس کا خون بہایا جائے، اللہ کے نزدیک قبول کرلیا جاتا ہے، لیکن قبولیت اعمال کی جوبرکتیں معاشرے میں نظر آنی چاہئیں وہ نظر نہیں آتیں۔ آخر اس کی کیا وجوہات ہیں امت مسلمہ کو ایک بار اس پر ضرور غور کرنا چاہئے۔ قربانی یعنی اللہ کے حکم کی تابعداری کے باوجودہماری زندگی میں کوئی تغیر نظر نہیں آ تا، حالاں کہ محسن انسانیت ؐ کے ارشادات کے مطابق قربانی جیسی محبوب عبادت کی ادائیگی کے بعد اس کے مثبت اثرات ہماری زندگی میں ضرور نظرآ نا چاہئے۔ مگرمعاملہ یہاں بالکل برعکس ہے۔ مسلمانوں کی ذاتی، معاشرتی، سیاسی اور اجتماعی زندگی میں فساد اور بگاڑ کے علاوہ کچھ نظر نہیں آتا، جرائم اور بدعنوانی ہماری قومی اور اجتماعی زندگی کی پہچان بن گئے ہیں۔ ہادی عالم ؐ نے نماز کے نتیجے میں برائی سے محفوظ ہوجانے کے موضوع پر فرمایاتھا کہ ’وہ نماز نمازہی نہیں ہے جوتمہیں جرائم کے ارتکاب اور اللہ کی نافرمانی سے نہ روک سکے‘۔ قربانی بھی اسی طرح ایک عبادت ہے اورعنداللہ نہایت محبوب عمل۔ اگراس کی ادائیگی کے بعد بھی اسلامی معاشرہ پر اس کے مثبت اثرات دکھائی نہیں دے رہے ہیں تو ہمیں اپنی نیتوں اوراعمال کی طرف ضرور توجہ دینی چاہئے۔

یوم عید الاضحی ہمیں یہ پیغام بھی دیتا ہے کہ جانوروں کو اللہ راستے میں قربان کرتے ہوئے اس مقصد پر بھی غور کریں جس کے لیے اللہ نے عید کے تین دنوں میں جانور قربان کرنے کا حکم دیا ہے اور کہا گیا ہے کہ اس دن اللہ کو جانور کا خون بہانے سے زیادہ کوئی عمل مرغوب اور پسندیدہ نہیں ہے۔

قربانی کرنے والے کو قربانی کے جانور کے بالوں کی تعداد کے برابر نیکیاں عطا کی جاتی ہیں، لیکن ان نیکیوں کی برکات کے مظاہر ہمیں نظر نہیں آتے، اس کی وجہ یہ ہے کہ ارکان اسلام مذہبی اور سماجی رسوم میں تبدیل ہوگئے ہیں۔ اس لیے ہمارا معاشرہ بشارت دی ہوئی برکتوں سے محروم ہے۔ قربانی کے جانوروں کو اللہ نے شعائر اللہ قرار دیا ہے۔ شعائر اللہ کا مطلب یہ ہے کہ مسلمان کا کوئی بھی عمل شعور سے خالی نہیں ہوتا، اسی طرح یوم الحج ’’یوم عرفہ‘‘کا نام ہے، حج مناسک حج اور قربانی کے عرفان اور شعور کے بغیر برکتوں کا حصول ممکن نہیں ہے، حقیقی شعور وعرفان موجود نہ ہوتو عبادات رسم، نمائش اور ریاکاری بن جاتی ہے۔ آج اگر ہماری زندگی ان اعمال صالحہ کے ثمرات سے محروم نظر آ تی ہے تو اس میں اصل قصور کس کا ہے؟ اس کی سچائی جاننے کیلئے ہمیں اپنے دل سے رجوع کرنا چاہئے۔ خالق کائنات جل جلالہٗ ہمیں اس کی توفیق عنایت فرمایے اورہمارے ٹوٹے پھوٹے اعمال وعبادات کو شرف قبولیت سے نوازے۔ آمین

تبصرے بند ہیں۔