نمازی کے آگے سے گزرنے سے بچنا کیوں ضروری ہے؟

ڈاکٹر محمد واسع ظفر

ان دنوں مساجد میں لوگوں کا ایک عجیب رویہ مشاہدہ میں آرہا ہے کہ بعض تو امام کے سلام پھیرتے ہی اور بعض امام کی اجتماعی دعا کے اختتام پر اور بعض اپنی انفرادی نمازوں یعنی سنن و نوافل کے ختم ہوتے ہی اس جلدبازی میں مسجد سے باہر نکلنے کی کوشش کرتے ہیں کہ وہ اپنے پیچھے، دائیں یا بائیں جانب نماز ادا کر رہے مصلیان کا بھی خیال نہیں کرتے اور ان کے سامنے سے گزر جاتے ہیں حتیٰ کہ بعض کے سروں اور کندھوں کو بھی پھلانگ جاتے ہیں جو کہ نہایت ہی غیرمہذبانہ اور انتہائی قبیح عمل ہے۔بعض افراد کو ایسا کوئی فوری تقاضہ درپیش ہوسکتا ہے جس کے سبب کبھی ایسا کرنے کی نوبت آجائے لیکن جس کثرت سے لوگ ایسا کرتے دیکھے جارہے ہیں، سب کے ساتھ ایسی ہی صورتحال ہو یہ سمجھ سے بالاتر ہے۔ایسا لگتا ہے کہ نمازی کے آگے سے گزرنے کی جو ممانعت ہے یا تو انہیں اس کا علم نہیں اور وہ اسے گناہ ہی نہیں سمجھتے یا اس عمل پر جو گناہ ہے اس کو وہ معمولی اور ہلکا سمجھتے ہیں جس کے نتیجہ میں ایک تو لوگوں کی نمازیں ان کے خشوع و خضوع میں حائل ہوکر خراب کرتے ہیں اور دوسرے یہ کہ بجائے مسجد سے نیکی لے کر جانے کے گناہوں کا بوجھ لے کر جاتے ہیں۔ اسی مشاہدہ اور احساس نے راقم کو اس موضوع اور اس کے متعلقہ مسائل کو اس تحریر کے ذریعہ منظر عام پرلانے کے لئے برانگیختہ کیا تاکہ لوگ اس گناہ بے لذت سے خود کو محفوظ رکھ سکیں۔

 یہ جاننا چاہیے کہ نبی کریمﷺ نے نمازی کے سامنے سے گزرنے سے بچنے کی سخت تاکید کی ہے۔ آپؐ نے ارشاد فرمایا :

’’لَوْ یَعْلَمُ الْمَارُّ بَیْنَ یَدَيِ الْمُصَلِّي مَاذَا عَلَیْہِ، لَکَانَ أَنْ یَّقِفَ أَرْبَعِیْنَ خَیْراً لَّہُ مِنْ أَنْ یَّمُرَّبَیْنَ یَدَیْہِ‘‘

 ’’اگر نمازی کے سامنے سے گزرنے والا جانتا کہ اس کا کتنا بڑا گناہ ہے تو اس کے سامنے سے گزرنے کے بجائے چالیس (سال) تک وہیں کھڑے رہنے کو پسند کرتا‘‘۔(صحیح بخاری، کتاب الصّلاۃ، باب اِثْمِ الْمَارِّ بَیْنَ یَدَيِ الْمُصَلِّي، بروایت ابو جہیم عبداللہ انصاریؓ )۔

اس حدیث کے راوی ابوالنضرنے کہا کہ مجھے یاد نہیں کہ مجھ سے بسر بن سعید نے چالیس دن کہا یا مہینہ یا سال لیکن اکثر محدثین نے یہاں چالیس سال ہی مراد لیا ہے( جس کی تائید مسند بزار کی روایت سے ہوتی ہے جس میں اربعین خریفاً کا لفظ ہے یعنی چالیس موسم خریف) اور یہ حدیث اسی طرح دیگر کتب صحاح یعنی صحیح مسلم، جامع ترمذی، سنن ابی داؤد، سنن نسائی، سنن ابن ماجہ اور مؤطا امام مالک میں بھی موجود ہے۔اگر اس حدیث کو مدت قلیل یعنی چالیس دن سے ہی مقید کیا جائے جب بھی نمازی کے آگے سے گزرنے کے عمل کی شناعت ظاہر ہے۔

 اس کے علاوہ سنن ابن ماجہ اور صحیح ابن حبان میں ایک حدیث ابوہریرہؓ سے مروی ہے جس میں نمازی کے آگے سے گزرنے کے بجائے سو سال کھڑے رہنے کو ترجیح دینے کی بات کہی گئی ہے۔ابن ماجہ کے الفاظ اس طرح ہیں :

’’لَوْ یَعْلَمُ أَحَدُکُمْ مَا لَہُ فِي أَنْ یَمُرَّبَیْنَ یَدَيْ أَخِیْہِ، مُعْتَرِضاً فِي الصَّلَاۃِ، کَانَ لَأَنْ یُقِیْمَ مِائَۃَ عَامٍ خَیْرٌ لَہُ مِنَ الْخَطْوَۃِ  الَّتِي خَطَاھَا‘‘

 ’’اگر تم میں سے کسی کو معلوم ہوجائے کہ نماز میں مشغول اپنے بھائی کے سامنے سے گزرنے میں کتنا گناہ ہوگا تو وہ سو سال کھڑا رہنا اس (طرح گزرنے میں ) ایک قدم اٹھانے سے بہتر سمجھے‘‘۔(سنن ابن ماجہ، کتاب اقامۃ الصلوٰۃ و السنۃ فیہا، بابُ المُرُوْرِ بَیْنَ یَدَيِ الْمُصَلِّي)۔

نیزامام مالک نے مؤطا میں کعب الاحبارؓ کا یہ اثر نقل کیا ہے :’’لَوْ یَعْلَمُ الْمَارُّ بَیْنَ یَدَيِ الْمُصَلِّي مَاذَا عَلَیْہِ، لَکَانَ أَنْ یُخْسَفَ بِہِ خَیْراً لَہُ مِنْ أَنْ یَمُرَّبَیْنَ یَدَیْہِ‘‘یعنی ’’اگر نمازی کے سامنے سے گزرنے والا کو معلوم ہوتا کہ اس پر کتنا گناہ ہے تو اس کے لئے زمین میں دھنس جانانمازی کے سامنے گزرنے سے بہتر ہوتا‘‘۔(مؤطا امام مالک، کتاب قصر الصّلاۃ فی السفر، باب التَّشْدِیْدِ فِی أَنْ یَّمُرَّ أَحَدٌ بَیْنَ یَدَيِ الْمُصَلِّي، بروایت عطاء بن یسارؒ)۔مزید بر آں نبی کریمﷺ نے نمازی کے سامنے سے گزرنے والے کو شیطان قرار دیا ہے۔آپؐ نے فرمایا: ’’اِذَا مَرَّ بَیْنَ یَدَي أَحَدِکُمْ  شَيئٌ وَ ھُوَ یُصَلِّي فَلْیَمْنَعْہُ، فَاِنْ أَبَی فَلْیَمْنَعْہُ، فَاِنْ أَبَی فَلْیُقَاتِلہُ فَاِنَّمَا ھُوَ شَیْطَانٌ‘‘یعنی اگر تم میں سے نماز پڑھنے میں کسی شخص کے سامنے سے کوئی گزرے تو اسے گزرنے سے روکے، اگر وہ نہ رکے تو پھر روکے اور اگر اب بھی نہ رکے تو اس سے لڑے وہ شیطان ہے‘‘۔ (صحیح بخاری، کتابُ بَدْئِ الْخَلْقِ، بابُ صِفَۃِ اِبْلِیْسَ وَ جُنُوْدِہِ، بروایت ابوہریرہؓ )۔

ان احادیث کی وجہ سے فقہاء اور محدثین نے نمازی کے آگے سے گزرنے کے عمل کے سلسلہ میں سخت موقف اپنایا ہے۔ امام شوکانیؒ فرماتے ہیں کہ’’یہ حدیث (یعنی ابوجہیمؓ کی مذکورہ بالا روایت) دلیل ہے کہ نمازی کے آگے سے گزرنا ایسے کبیرہ گناہوں (میں ) سے ہے جو آگ کو واجب کرنے والے ہیں ‘‘۔ (فقہ الحدیث، فقہ الحدیث پبلیکیشنز، لاہور، ۲۰۰۴ ؁ء، جلد ۱، صفحہ ۳۷۴)۔علامہ سید سابقؒ اپنی شہرۂ آفاق کتاب فقہ السنہ میں رقمطراز ہیں : ’’احادیث نمازی کے آگے سے یا اس کے اورسترہ کے مابین سے گزرنے کی تحریم پر دال ہیں اور یہ کبیرہ گناہ ہے‘‘۔(فقہ السنہ از سید سابق (اردو)، مکتبہ اسلامیہ، لاہور، ۲۰۱۵ ؁ء، جلد ۱، صفحہ ۲۶۴)۔ علامہ ابن رشد مالکیؒ کے مطابق اس امر پر جمہور کا اتفاق ہے کہ’’ نمازی خواہ اکیلے پڑھ رہا ہو یا امام ہو، اس کے آگے سے گزرنا ممنوع ہے جب کہ وہ بغیر سترہ کے نماز پڑھ رہا ہویا اس کے اور سترہ کے درمیان سے کوئی گزرے۔سترہ کے پیچھے سے گزرنے میں فقہاء کوئی مضائقہ نہیں سمجھتے‘‘۔ (بدایۃ المجتھد و نہایۃ المقتصد اردو ترجمہ ڈاکٹر عبیداللہ فہد فلاحی، دارالتذکیرلاہور،۲۰۰۹ ؁ء، صفحہ ۲۵۵)۔مملکت سعودی عربیہ کے دارالافتاء کی فتویٰ کمیٹی کے رکن رہے شیخ عبد العزیز بن عبداللہ بن بازؒ، شیخ محمد بن صالح العثیمینؒ اور شیخ عبداللہ بن عبدالرحمٰن الجبرین کا متفقہ فتویٰ ہے کہ ’ ’نمازیوں کے آگے سے گزرنا حرام ہے خواہ وہ یہ اسلامی اسکیموں مثلاً مساجد کے بنانے یا ان کی مرمت کرنے یا ان میں قالین وغیرہ ڈالنے کے لئے صدقات جمع کرنے کے لئے ہو۔اس طرح کے فعل خیر کے لئے قیام، نمازیوں کے آگے سے گزرنے کا جواز نہیں بن سکتا کیوں کہ ابوجہیمؓ سے مروی نبیﷺ کی اس حدیث کے عموم کا یہی تقاضا ہے‘‘۔ (فتاویٰ اسلامیہ جمع و ترتیب فضیلۃ الشیخ محمد بن عبد العزیز المسند حفظہ اللہ، مطبوعہ دارالسلام، ریاض جلد ۱، ص۳۵۷)۔

   فقہاء و محدثین کے اقوال سے یہ ظاہر ہے کہ نمازی کے سامنے سے گزرنا اس وقت گناہ ہے جب نمازی اور گزرنے والے کے درمیان کوئی آڑ( جسے حدیث و فقہ میں سترہ کہا گیا ہے ) نہ ہو یا نمازی نے جو سترہ قائم کیا ہو اس کے اور نمازی کے درمیان سے کوئی گزرے۔اگر سترہ کے آگے سے کوئی گزرے تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔اس موقف کی تائید اس روایت سے ہوتی جس کے الفاظ اس طرح ہیں :

’’اِذَا وَضَعَ  أَحَدُکُمْ بَیْنَ یَدَیْہِ مِثلَ مُوْخِرَۃِ الرَّحْلِ فَلْیُصَلِّ، وَ لَایُبَالِ مَنْ مَّرَّ وَرَائَ ذٰلِکَ‘‘

’’تم میں سے کوئی اپنے سامنے کجاوے کی پچھلی لکڑی جیسی کوئی چیز رکھ کر نماز ادا کرے تو پھر اس کے آگے سے گزرنے والے کی کوئی پرواہ نہ کرے‘‘۔  (صحیح مسلم، کتابُ الصّلاۃ، بابُ سُتْرَۃِِ الْمُصَلِّي، بروایت طلحہؓ)۔

 اس لئے نمازی کے لئے بھی سنت طریقہ یہ ہے کہ وہ اپنے سامنے کوئی سترہ قائم کرلے تاکہ لوگوں کے سامنے سے گزرنے کے گناہ کا سبب نہ بنے اور اس کی نماز کے خشوع و خضوع میں خلل بھی واقع نہ ہو۔سترہ کوئی بھی چیز ہوسکتا ہے جس کی لمبائی ایک ہاتھ سے کچھ زائداور موٹائی کم از کم ایک انگشت ہو کیوں کہ کجاوے کی پچھلی لکڑی جس کا تذکرہ حدیث بالا میں ہے کا سائز کچھ ایسا ہی ہوتا ہے۔اگر نمازی سترہ نہ رکھ سکے تو کوئی دوسرا شخص بھی گزرنے کی خاطر اس کے سامنے سترہ قائم کرسکتا ہے اور اگر یہ ممکن نہ ہو تو گزرنے والے کو احتیاط لازم ہے۔ علامہ عبدالرحمٰن الجزیریؒ اپنی مایہ ناز تصنیف ’کتاب الفقہ علی المذاہب الاربعہ‘ میں یوں رقمطراز ہیں : ’ ’نمازی کے آگے سے گزرنا حرام ہے اگرچہ نمازی نے بغیر کسی عذر کے سترہ نہ رکھا ہو۔اسی طرح نماز پڑھنے والے کے لئے بھی یہ حرام ہے کہ اپنی نماز سے لوگوں کے آنے جانے میں رکاوٹ ڈالے، بایں طور کہ بغیر سترہ رکھے ایسی جگہ پر نماز پڑھنے لگے جہاں اس کے سامنے سے لوگوں کی بکثرت آمدو رفت ہو۔ایسی صورت میں اگر نمازی کے آگے سے کوئی گزر جائے تو سردست اس بات کا گناہ (اس نمازی کو) ہوگا کہ اس جگہ نماز پڑھی جہاں لوگوں کو سامنے سے گزرنا پڑا‘‘۔ (کتاب الفقہ علی المذاہب الاربعہ ( اردو)، علماء اکیڈمی، شعبہ مطبوعات محکمہ اوقاف پنجاب، ۲۰۱۳ ؁ء، جلد ۱، ص ۳۲۹)۔

 فقہ حنفی کی مشہور کتاب درمختار میں حلیہ کے حوالہ سے اس بات کو واضح کیا گیا ہے کہ نمازی کے سامنے سے گزرنے کی صورت میں گناہ گار کون ہوگا، نمازی یا گزرنے والا؟ لکھا ہے کہ اس مسئلہ میں چار صورتیں ہیں ؛ ’’ اول یہ کہ گذرنے والے کو گنجائش ہے کہ نمازی کے سامنے کو نہ گذرے اور نمازی نے راستہ روکا نہیں تو اس صورت میں اگر گذرے گاتو گناہ خاص کرنے والے (یعنی گزرنے والے) پر ہوگا،دوم یہ کہ اور طرف کو راستہ نہیں اور نمازی نے راستہ روک لیا ہے تو اس صورت میں گناہ نمازی پر ہوگا، سوم یہ کہ نمازی نے راستہ روکا ہے مگر گذرنے والا اور طرف کو بھی نکل سکتا ہے تو اب گذرنے سے دونوں گناہگار ہوں گے، چہارم یہ کہ نمازی نے راستہ نہیں روکا اور گذرنے والے کو اور طرف راہ نہیں تو اس میں کسی پر گناہ نہیں ‘‘۔(غایۃ الاوطار اردو ترجمہ درمختار، ایچ ایم سعید کمپنی، کراچی، ۱۳۹۹ ؁ھ، جلد ۱، صفحہ ۳۳۴)۔اس مسئلہ میں بعینہٖ یہی تفصیلات علامہ عبدالرحمٰن الجزیریؒ نے ’کتاب الفقہ علی المذاہب الاربعہ‘ میں (حوالہ بالا) اور ڈاکٹر وہبۃ الزحیلی نے اپنی تصنیف  الفقہ الاسلامی و ادلتہٗ میں تحریر کیا ہے۔(دیکھیں  الفقہ الاسلامی و ادلتہٗ  (اردو)،دارالاشاعت، کراچی، ۲۰۱۲ ؁ء، جلد۲، ص۵۹۴)۔

  ان تفصیلات کے بعد اس مسئلہ کی وضاحت بھی ضروری ہے کہ اگر نمازی نے اپنے سامنے سترہ قائم نہیں کیا (جیسا کہ مسجد میں اکثر ممکن بھی نہیں ہوتا)خواہ وہ مسجد میں ہو یا مسجد سے باہر ہو تو اس کے سامنے کتنی دوری تک سے گزرنا گناہ ہے۔ فقہاء ہندنے اس سلسلہ میں جو موقف اپنایا ہے ان میں سے کچھ کی تفصیلات حسب ذیل ہیں۔ مفتی محمدکفایت اللہ دہلویؒ لکھتے ہیں : ’’ نماز پڑھنے والے کے آگے سے چھوٹی مسجد یا چھوٹے مکان میں گزرنا ناجائز ہے جب تک کہ اس کے آگے کوئی آڑ نہ ہو اور بڑی مسجد یا بڑا مکان یا میدان ہو تو اتنے آگے سے گزرنا جائز ہے کہ اگر نمازی اپنی نظر سجدہ کی جگہ پر رکھے تو گزرنے والا اسے نظر نہ آئے‘‘۔(کفایت المفتی، دارالاشاعت، کراچی، ۲۰۰۱ ؁ء، جلد ۳، ص۴۹۴)۔مفتی نظام الدین اعظمیؒ، سابق مفتی دارالعلوم، دیوبند کا فتویٰ یہ ہے کہ اگر میدان ہو یا بڑی مسجد جو تقریباً ۶۰ ہاتھ چوڑی اور ۶۰ ہاتھ لمبی ہو تو اس میں تین صف ’’تقریباً ۱۲ ؍فٹ‘‘ کے بعدنمازی کے آگے سے گذرجانے کی اجازت ہے اور اس سے کم میں بغیر کسی سترہ کے حائل ہوئے گذرنا درست نہیں۔ ( منتخبات نظام الفتاویٰ، جلد اول، طبع دوم، ۲۰۰۱ ؁ء، اسلامی فقہ اکیڈمی (انڈیا)، صفحہ ۳۲۲؛ جلد دوم، مطبوعہ قاضی پبلشرز اینڈ ڈسٹری بیوٹرز، ۱۹۹۷ ؁ء، صفحہ ۷۱-۷۲)۔شیخ خالد سیف اللہ رحمانی کی رائے میں ’’ بڑی مسجد سے مراد طول کے اعتبار سے یعنی مشرق سے مغرب چالیس ہاتھ لمبی مسجد ہے، ایسی مسجد میں نمازی کے اتنے آگے سے گزرنے میں کچھ حرج نہیں کہ اگر وہ نماز پڑھنے والاخشوع و خضوع سے نماز پڑھے اور اپنی سجدہ گاہ پر نگاہ رکھے تو اس کی نگاہ کے دائرے میں جو حصہ آتا ہے اور بلا ارادہ نظر آجاتا ہے یہ اس سے باہر ہو۔ ’ان کان بحال لوصلی صلاۃ خاشع  لا یقع بصرہ علی المار‘۔ (البحر الرائق:۲؍۱۵)۔فقہاء نے محتاط طریقہ پر اس کا اندازہ بتایا ہے کہ نمازی کی صف اور مزید ایک صف چھوڑ کر آگے سے گزر سکتا ہے‘‘۔( کتاب الفتاویٰ، زمزم پبلشرز، کراچی، ۲۰۰۸؁ء، جلد ۳، ص ۱۱۶)۔

 حقیقت یہ ہے کہ یہ ان فقہاء کی اجتہادی رائے ہے اور اس سلسلہ میں نبی کریمﷺ سے کوئی بھی صحیح روایت منقول نہیں ہے جس سے یہ استدلال کیا جاسکے کہ کتنا آگے سے نمازی کے سامنے سے گزرنا درست ہے۔ ایک روایت سنن ابی داؤد کے اندر ہے جس کے الفاظ اس طرح ہیں :

’’اِذَا صَلّٰی اَحَدُکُمْ اِلٰی غَیْرِ سُتْرَۃٍ فَاِنَّہٗ یَقْطَعُ صَلٰوتَہُ الْکَلْبُ وَ الْحِمَارُ وَالْخِنْزِیْرُ وَالْیَھُوْدِیُّ وَالْمَجُوْسِیُّ وَالْمَرْأَۃُ وَیُجْزِیُٔ عَنْہُ اِذَا مَرُّوْا بَیْْنَ یَدَیْہِ عَلٰی قَذْفَۃٍ بِحَجَرٍ‘‘۔

’’تم میں سے کوئی شخص سترہ کے بغیر نماز ادا کر رہا ہو تو اس کی نماز اس کے سامنے سے کتا، گدھا، سور، یہودی، مجوسی اور عورت کے گزرنے سے ٹوٹ جاتی ہے، البتہ اگر یہ ایک پتھر کی مار کی دوری سے گزر یں تو کوئی حرج نہیں ہے‘‘۔  (سنن ابی داؤد، کتاب الصلوٰۃ، بابُ مَا یَقْطَعُ الصَّلٰوۃَ، بروایت عبداللہ بن عباسؓ)۔

اس حدیث کو امام ابی جعفر احمد بن محمد الازدی المصری الطحاوی ؒ بھی معانی الآثار میں الفاظ کے تھوڑے فرق کے ساتھ لائے ہیں۔ انہوں نے لکھا ہے کہ عکرمہ نے حضرت ابن عباسؓ سے یہ روایت نقل کی ہے اور میرے خیال میں انہوں نے اس کی اسناد جناب نبی کریمﷺ تک پہنچائی ہے کہ فرمایا:

’’یَقْطَعُ الصَّلَاۃَ الْمَرْأَۃُ الْحَائِضُ، وَ الْکَلْبُ وَ الْحِمَارُ، وَالْیَھُوْدِیُّ وَالنَّصْرَانِیُّ  وَالْخِنْزِیْرُ وَ  یَکْفِیْکَ اِذَا کَانُوْا مِنْکَ قَدْرَ رَمِیَّۃٍ، لَمْ  یَقْطَعُوْا عَلَیکَ صَلَاتَکَ‘‘۔

’’حائضہ عورت، کتا، گدھا، یہودی، نصرانی اور خنزیر نماز کو منقطع کردیتے ہیں اور اگر ایک پتھر پھینکنے کے فاصلے پر ہوں پھریہ گزر بھی جائیں تو تمھاری نماز منقطع نہ ہوگی۔ (معانی الآثار، کتاب الصلوٰۃ، بابُ الْمُرُوْرِ بَیْنَ یَدَيِ الْمُصَلِّي  ھَلْ یَقْطَعُ عَلَیہِ ذَالِکَ صَلَاتَہُ أَم لَا)۔

اس حدیث سے یہ سمجھ میں آتا ہے کہ اگر نمازی کے آگے سترہ نہ ہو تو اتنی دور سے گزرنا جہاں پھینکا ہوا پتھر جاپڑے گویا درست ہے کیوں کہ یہ نمازی کے نماز میں خلل واقع نہیں کرتا لیکن اس روایت سے مذکورہ مسئلہ پر کسی نے بھی استدلال نہیں کیا۔اس کی وجہ یہ ہے کہ بعض محدثین کے نزدیک یہ روایت ضعیف ہے اور بعض نے اسے ابن عباسؓ پر موقوفاً صحیح کہا ہے یعنی یہ ان کا ذاتی قول ہوسکتا ہے۔خود امام ابوداؤدؒ نے اس روایت پر اپنے عدم اطمینان کا اظہار کیا ہے اور امام طحاویؒ تو قطع صلوٰۃ والی روایات کو ہی چند دوسری روایات کی بنیاد پر منسوخ قراردیتے ہیں۔ اس لئے احتیاط کا تقاضہ یہ ہے کہ خواہ مسجد ہو یا کوئی اور جگہ اگر نمازی کے آگے کوئی سترہ نہ ہو تو خواہ کتنی دوری سے ہی کیوں نہ ہو گزرنے سے پرہیز کیا جائے کیوں کہ اس عمل پر سخت گناہ کا خدشہ ہے اور چند منٹ انتظار کرلینے میں کوئی قیامت برپا نہیں ہوجاتی؟

اس موقف کی تائید میں مفتی عبداللہ خالد مظاہری کی رائے پیش کی جاسکتی ہے، فرماتے ہیں : ’ نمازی کے سامنے سے کتنی دور سے گزرنا جائز ہے، اس میں علماء کا اختلاف ہے۔بعض حضرات فرماتے ہیں کہ مسجد کبیر اور صحرا میں مقام سجدہ کے اندر سے گزرنا جائز نہیں، اس کے آگے سے گزر سکتے ہیں، گھر اور (چھوٹی) مسجد میں کہیں سے بھی جب تک (کوئی چیز) حائل نہ ہو گذرنا جائز نہیں۔ بعض حضرات فرماتے ہیں کہ اس کی حد ایک ذراع ہے، بعض حضرات فرماتے ہیں کہ سنت طریقہ پر نماز پڑھنے والے کی نظر جہاں تک جاتی ہو وہاں تک سے نہیں گذرا جاسکتاہے، اس لئے احتیاط کا تقاضہ یہ ہے کہ مطلقاً بغیر حائل اور سترہ کے گذرا ہی نہ جائے‘‘۔(فتاویٰ امارت شرعیہ، شعبہ نشر و اشاعت امارت شرعیہ بہار،اڑیسہ و جھارکھنڈ، پٹنہ، ۲۰۰۱ ؁ء، جلد ۲، ص۴۱۸-۴۱۹)۔

 ایک اور مسئلہ کہ اگر کوئی شخص کسی ایسے نمازی کے بالکل آگے بیٹھا ہوجو نماز میں مشغول ہے تو کیا اس کے لئے اپنی جگہ سے ہٹنے کی گنجائش ہے یا اسے نمازی کے نماز ختم کرنے کا انتظار کرنا چاہیے؟ اس سلسلہ میں مفتی نظام الدین اعظمی صاحب کا فتویٰ یہ ہے کہ ’’ بیٹھے رہنا اور ختم نماز کا انتظار کرنا اولیٰ (بہتر) ہے، اور ہٹ جانا بھی درست ہے، البتہ اگر نمازی دائیں جانب کچھ ہٹا ہوا ہے تو اس کے بائیں جانب سے ہٹے اور اگر بائیں جانب کچھ ہٹا ہوا ہے تو اس کے دائیں جانب سے ہٹے اور اگر بالکل ہی محاذات میں ہو ہر طرف سے ہٹ سکتے ہیں ‘‘۔( منتخبات نظام الفتاویٰ، جلد اول، طبع دوم، ۲۰۰۱؁ء، اسلامی فقہ اکیڈمی (انڈیا)، صفحہ۷۵-۷۶)۔

 بعض حضرات کو دیکھا کہ وہ اپنے پیچھے نماز ادا کرنے والے شخص کے نماز سے فارغ ہونے کا انتظار کرتے ہیں لیکن ان کا طریقہ یہ ہوتا ہے کہ وہ نمازی کی طرف منہ کرکے یا تو کھڑے ہوجاتے ہیں یا بیٹھ جاتے ہیں، یہ بھی ایک نہایت ہی مکروہ فعل اور بری بات ہے۔ جاننا چاہیے کہ جس طرح نماز ادا کر رہے شخص کے سامنے سے گزرنا ناجائز ہے اسی طرح اس کی طرف رخ کرکے کھڑا ہونا یا بیٹھنا بھی علماء کی نظر میں جائز نہیں کیوں کہ صحابہ بھی اس حرکت کو پسند نہیں فرماتے تھے۔( دیکھیں انعام الباری از مفتی تقی عثمانی، مکتبۃ الحراء، کراچی، ۲۰۱۰ ؁ء، جلد ۳، صفحہ ۲۸۸ )۔اس سلسلہ میں حضرت عثمانؓ کے بارے میں امام بخاری نے روایت کیا ہے جس کے الفاظ اس طرح ہیں :

’’وَ کَرِہَ عُثْمَانُ أَنْ یُسْتَقْبَلَ الرَّجُلُ وَ ھُوَ یُصَلِّي‘‘۔

’’عثمانؓ نے ناپسند فرمایا ہے کہ کوئی شخص دوسرے کا استقبال کرے (یعنی اس کی طرف رخ کرے) اور وہ حالت نماز میں ہو‘‘۔(صحیح بخاری، کتاب الصلاۃ، بابُ اسْتِقْبَالِ الرَّجُلِ الرَّجُلَ وَ ھُوَ یُصَلِّي)۔

صحیح بخاری کے اسی باب میں دوسری روایت سے اس عمل پر حضرت عائشہؓ کی ناپسندیدگی کا بھی پتہ چلتا ہے۔اس لئے اس بات کا بھی خیال رکھنا چاہیے اور قبلہ کی طرف رخ کرکے بیٹھ کر ہی نماز ی کے نماز سے فارغ ہونے کا انتظار کرنا چاہیے۔کھڑے رہنے سے ایسا محسوس ہوتا ہے گویاوہ نمازی کے سینہ پر سوار ہے اور یہ دباؤ بنارہا ہے کہ جلد از جلد نماز ختم کرو۔اس سے نمازی کو سخت کوفت ہوتی ہے اور اس کے خشوع و خضوع میں بھی  سخت خلل واقع ہوتا ہے۔ اس طرح کھڑے ہوکر نمازی کے نماز کے اختتام کا انتظار کرنے سے تو بہتر ہے کہ فقہاء کے بتائے ہوئے طریقہ سے وہاں سے ہٹ جائے۔

اب ایک آخری مسئلہ حرم کے اندر نمازی کے سامنے سے گزرنے سے متعلق ہے۔ اس سلسلہ میں یہ عرض ہے کہ’’ تمام فقہاء کا اس بات پر اتفاق ہے کہ طواف کرنے والا، خانہ کعبہ میں داخل اور مقام ابراہیم پر موجود حضرات نمازی کے سامنے سے گزریں تو یہ بالکل جائز ہے اگرچہ اس نے سترہ بھی رکھا ہوجبکہ حنابلہ کے ہاں پوری وادی مکہ میں نمازی کے سامنے سے گزرنا حرام نہیں ‘‘۔( ڈاکٹر وہبۃ الزحیلی، الفقہ الاسلامی و ادلتہٗ  (اردو )،دارالاشاعت، کراچی، ۲۰۱۲؁ء، جلد۲، ص۵۹۴)۔ان کا استدلال مطلب بن ابووداعہ سہمیؓ کی روایت سے ہے کہ انہوں نے فرمایا: ’’رَأَیْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَ سَلَّمَ اِذَا فَرَغَ مِنْ سَبْعِہِ جَائَ حَتّٰی یُحَاذِیَ بِالرُّکْنِ فَصَلّٰی رَکْعَتَیْنِ فِي حَاشِیَۃِ الْمَطَافِ وَ لَیْسَ بَیْنَہُ وَ بَیْنَ الطُّوَّافِ أَحَدٌ‘‘ یعنی ’’ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا کہ آپ جب سات چکروں سے فارغ ہوئے تو تشریف لائے حتی کہ حجر اسود کے برابر آگئے۔ پھر آپ نے مطاف (طواف کی جگہ) کے کنارے پر دو رکعتیں ادا کیں جب کہ آپ کے اور طواف والوں کے درمیان کوئی (شخص یا سترہ) نہیں تھا‘‘۔ (سنن ابن ماجہ، کتاب ابواب المناسک، بابُ الْرَّکْعَتَیْنِ بَعْدَ الطَّوَاف)۔ یہ حدیث سنن نسائی، کتاب مناسک الحج، باب اَیْنَ یُصَلِّی رَکْعَتِ الطَّوَاف اور سنن ابی داؤد، کتاب المناسک، باب فِیْ مَکَّۃَ میں بھی موجود ہے۔ سنن ابی داؤد کی روایت میں اس بات کی وضاحت ہے کہ آپؐ کے آگے کوئی سترہ نہیں تھا اور لوگ آپؐ کے سامنے سے گزر رہے تھے۔ لیکن محدثین کے نزدیک یہ حدیث ضعیف ہے جس سے استدلال درست نہیں۔ ڈاکٹر عبدالرحمٰن بن عبدالجبار الفریوائی، استاذ حدیث امام محمد بن سعود اسلامک یونیورسٹی، ریاض لکھتے ہیں : ’’یہ حدیث ضعیف ہے، اس لئے اس سے استدلال نہیں کیا جاسکتا، سترہ کے بارے میں وارد تمام احادیث مطلق اور عام ہیں، ان میں کسی جگہ کی کوئی قید نہیں خواہ صحراء ہو یا مسجدحتی کہ حرمین شریفین کی مساجد بھی اس حکم سے مستثنیٰ نہیں ہیں، اس لئے ہر جگہ سترہ کا اہتمام کرنا چاہیے‘‘۔(سنن ابی داؤد عربی متن معہ اردو ترجمہ، تخریج و تحشیہ، مطبوعہ دار الدعوۃ ایجوکیشنل اینڈ ویلفیرفاؤنڈیشن، کتاب و سنت ڈاٹ کام، صفحہ ۵۸۰)۔

 اس لئے فقہاء کے مذکورہ فتویٰ کو اضطراری حالت میں دی گئی ایک رخصت پر محمول کرنا چاہیے کیوں کہ مطاف میں ہر وقت طواف کرنے والوں کی کثرت کی وجہ سے سترہ یا نمازی کے آگے سے گزرنے سے بچنے کا اہتمام ممکن نہیں ہوپاتا لیکن مطاف کے علاوہ مسجد حرام کے دیگر حصوں میں ان پر اہتمام ممکن ہے اور ان حصوں میں مذکورہ رخصت کے سلسلہ میں فقہاء کا اختلاف بھی ہے، اس لئے احتیاط کا تقاضہ یہ ہے کہ جہاں تک ممکن ہو مسجد حرام میں بھی سترہ یا نمازی کے آگے سے گزرنے سے بچنے کا اہتمام کرنا چاہیے اور مسجد نبویؐ کے تعلق سے مذکورہ رخصت کے سلسلہ میں تو کوئی ضعیف حدیث بھی نہیں، اس لئے وہاں یہ اہتمام اور بھی ضروری ہے۔افسوس کہ لوگوں کی عام تساہلی اور تغافلی نے ان مقدس مقامات میں اس مسئلہ کی اہمیت کو ہی ختم کردیاہے جو یکسر صحیح نہیں کہا جاسکتا۔

 ان تمام مباحث کا خلاصہ یہ ہے کہ جب تک سترہ حائل نہ ہو نمازی کے سامنے سے گزرنے سے حتی الامکان پرہیز کیا جائے۔البتہ اگر کسی کے ساتھ کوئی اضطراری حالت ہو مثلاً پیشاب یا پاخانہ کا زور ہو یا گاڑی چھوٹنے کا امکان ہو وغیرہ تو فقہاء اور مفتیان کی دی گئی رخصتوں سے فائدہ اٹھا سکتا ہے۔اللہ سے دعا ہے کہ وہ اس سیہ کار کو بھی ان باتوں پر عمل کی توفیق عنایت فرمائے اور مسلمانوں کو بھی اس گناہ سے بچنے کی توفیق عنایت کرے۔ آمین!

تبصرے بند ہیں۔