کیا اسلام واقعی اللہ کی جانب سے ایک پیغام ہے؟

علامہ محمد اسد (لیوپولڈویسی) ۔۔۔۔۔۔ ترتیب: عبدالعزیز

علامہ محمد اسد کو بیسویں صدی میں یورپ کے نہایت متاثر کن مسلمانوں میں شمار کیا جاتا ہے۔ وہ ایک صحافی، مصنف، مفکر اور سماجی نقاد کے ساتھ ساتھ ماہر لسانیات، اصلاح پسند، سفیر، سیاسی نظریہ دان، مترجم اور محقق بھی ہیں۔
وہ2جولائی 1900ء میں لیمبرگ، آسٹریا ۔ ہنگری کے ایک یہودی ربی گھرانے میں پیدا ہوئے۔ والدین نے ان کا نام Leopold Weiss رکھا۔ والد نے اپنی خاندانی روایت سے انحراف کرتے ہوئے Weiss کو ربی کی بجائے وکیل بنانا چاہا۔ انھوں نے مذہبی تعلیم حاصل کی اور بہت چھوٹی عمر میں ہی عبرانی زبان سیکھ لی۔ اس کے علاوہ آرامی زبان سے بھی واقفیت پیدا کی۔ انھوں نے عہد نامۂ عتیق، تالمود کی تفاسیر وغیرہ کا مطالعہ کیا۔ ویانا یونیورسٹی کو چھوڑنے کے بعد وہ 1920ء کی دہائی کے دوران جرمنی میں بوہیمائی انداز کی زندگی گزارتے رہے۔ کچھ عرصہاظہاریت پسند فلم ڈائریکٹر Fritz Lang کے ساتھ کام کیا۔ پھر برلن کی ایک امریکی نیوز ایجنسی میں ٹیلیفون آپریٹر کی ملازمت اختیار کرلی اور اتفاقاً صحافی بن گئے۔
Weiss بعد ازاں برطانیہ کے زیر انتظام فلسطین گئے اور یروشلم میں اپنے ایک چچا کے ہاں قیام کیا جو سگمنڈ فرائیڈ کے شاگرد تھے۔ جلد ہی انھیں صف اول کے جرمن اخبار ’’فرینکفرٹرز ایئتونگ‘‘ میں نامہ نگار کا عہدہ مل گیا، اگر چہ بطور صحافی کوئی شناخت نہیں رکھتے تھے اور نہ ہی ان کی کوئی تحریر شائع ہوئی تھی۔ یہ ساری کامیابیاں ایک لحاظ سے ’معجزاتی‘ تھیں۔
اسی زمانے میں انھوں نے فلسطین میں ایک ’یہودی وطن‘ کے تصور کی تنقیدی انداز میں جانچ پڑتال شروع کی اور اسے نہایت غیر منطقی اور ظالمانہ پایا۔ Weiss نے اپنے مضامین میں صیہونی منصوبے کو مسترد کیا۔ اخبار کیلئے خدمات انجام دینے کے سلسلے میں ہی انھیں عرب دنیا کو گہرائی میں دیکھنے کا موقع ملا۔ عرب انداز حیات اور روایات کے علاوہ مذہب اسلام کے کچھ اصولوں نے انھیں اپنی جانب متوجہ کیا اور کافی سوچ ویچار کے بعد انھوں نے برلن کی ایک مسجد میں امام کے ہاتھ پر اسلام قبول کرلیا (1926ء) اور محمد اسد نام اپنایا۔
ان کا قدم اسلام کی طرف آہستہ آہستہ بڑھا مگر قرآن کو آنحضرتؐ کی کتاب سمجھتے رہے۔ یہی سوچ ان کے اسلام کے درمیان بہت دنوں تک حائل رہی لیکن برلن کی زمین دوز ٹرین میں خوشحال طبقہ کے نوجوانوں کے چہرہ پر گھبراہٹ دیکھ کر ان کے اندر ایک تجسس کا جذبہ پیدا ہوا مگر اس کا جواب نہیں مل رہا تھا۔ کہ اچانک ان کی نظر قرآن مجید کے سورہ تکاثر پر پڑی جس میں ان کے سوال کا پورا جواب تھا۔ پھر انھیں کلمۂ حق پڑھنے میں کوئی ہچکچاہٹ نہیں ہوئی۔
علامہ محمد اسد اپنی کتاب ’’شاہراہِ مکہ‘‘ (Road to Makkah) میں اپنے ایمان لانے کا واقعہ کچھ اس طرح بیان کرتے ہیں:
جہاں تک میرا اپنا معاملہ ہے تو میں جان گیا تھا کہ میری پیش رفت اسلام کی جانب ہورہی ہے، لیکن ایک آخری ہچکچاہٹ نے مجھے حتمی، ناقابل تنسیخ اقدام سے روکے رکھا۔ اسلام قبول کرنے کے متعلق سوچنے کا مطلب دو مختلف دنیاؤں کے درمیان حائل کھائی پر پل باندھنے کی کوشش کرنے جیسا تھا: ایک اس قدر طویل پل کہ ناقابل واپسی نقطے پہ پہنچ کر ہی دوسرا سرا دکھائی دیتا تھا۔ میں بخوبی آگاہ تھا کہ اگر میں مسلمان ہوگیا تو اس دنیا سے کٹ جاؤں گا جہاں میری پرورش ہوئی تھی۔ کوئی اور نتیجہ ممکن نہیں تھا۔ آپ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی آواز پر لبیک کہنے کے بعد بھی ایک ایسے معاشرے کے ساتھ اندرونی روابط قائم نہیں رکھ سکتے تھے جہاں قطعی متضاد تصورات کا راج تھا، لیکن کیا اسلام واقعی اللہ کی جانب سے ایک پیغام تھا یا ایک عظیم مگر خطا وار انسان کی دانش کا ہی نتیجہ تھا۔۔۔؟
ستمبر 1926ء میں ایک روز ایلسا (رفیقۂ حیات) اور میں برلن کی سب وے میں سفر کر رہے تھے۔ یہ ایک اپر کلاس کوچ تھا۔ میری نظر یونہی اپنے سامنے بیٹھے ایک خوش پوش پر پڑی۔ وہ غالباً ایک کھاتا پیتا کاروباری شخص تھا؛ گھٹنے پر ایک خوبصورت بریف کیس اور انگلی میں ہیرے کی بڑی سی انگوٹھی۔ میں یونہی سوچنے لگا کہ اس آدمی کی تصویر ان دنوں وسطی یورپ میں ہر جگہ پر نظر آنے والی خوش حالی کی تصویر سے کس قدر مطابقت رکھتی تھی: وہ خوش حالی جو افراط زر کے کئی برس بعد (جب اقتصادی زندگی نہایت خراب حالات سے دوچار تھی) نہایت نمایاں ہوگئی تھی۔ زیادہ تر لوگ اچھا کھاتے اور اچھا پہنتے تھے اور میرے سامنے بیٹھا آدمی بھی انہی میں سے تھا؛ لیکن اس کے چہرے پہ نظر ڈالی تو وہ خوش نہ لگا۔ وہ پریشان تھا: اور صرف پریشان ہی نہیں بلکہ شدید ناخوش، خالی نظریں اور دہن کے کنارے جیسے تکلیف کے عالم میں بھنچے ہوئے ۔۔۔ لیکن یہ تکلیف جسمانی نہیں تھی۔ بد ااخلاقی سے گریز کرتے ہوئے میں نے اپنی نظریں موڑ لیں اور اس کے ساتھ بیٹھی نفیس خاتون کی طرف دیکھا۔ اس کے چہرے پر بھی ناخوشی کا عجیب سا تاثر تھا کہ جیسے کسی تکلیف دہ چیز سے دوچار ہو؛ بایں ہمہ اس کے منہ پر مسکراہٹ سے مشابہ کوئی چیز جمی ہوئی تھی۔ مجھے یقین تھا کہ یہ محض عادتاً ہوگی۔ تب میں ڈبے میں موجود دیگر چہروں پر نظر دوڑانے لگا۔ بلا شبہ سبھی لوگ اچھا کھانے پینے اور پہننے والے تھے: اور تقریباً ہر ایک کے چہرے پر مخفی تکلیف کا ایک تاثر دیکھا جاسکتا تھا، اس قدر مخفی کہ ان کے مالک کا چہرہ اس سے قطعی نابلد محسوس ہوتا تھا۔
یہ واقعی بہت عجیب تھا۔ میں نے اس سے پہلے کبھی اتنے زیادہ ناخوش چہرے اپنے آس پاس نہیں دیکھے تھے: یا شاید میں نے اس سے پہلے کبھی یہ جاننے کی جستجو ہی نہیں کی تھی؟ میں نے ایلسا کو اس بارے میں بتایا؛ وہ بھی محتاط نظروں سے ادھر ادھر دیکھنے لگی جیسے انسانی خدو خال کے مطالعہ کا ماہر آرٹسٹ دیکھتا ہے۔ وہ کہنے لگی: ’’تم ٹھیک کہتے ہو۔ وہ سبھی عذاب جہنم میں مبتلا لگ رہے ہیں ۔۔۔ میں سوچ رہی ہوں کہ کیا انھیں خود بھی اس صورت حال کا علم ہے یا نہیں؟‘‘
میں جانتا تھا کہ انھیں علم نہیں ہے، ورنہ وہ اسی طریقہ سے اپنی زندگیوں کو ضائع کرنا جاری نہیں رکھ سکتے تھے: صداقتوں پر یقین کے بغیر؛ اپنا ’معیار‘ حیات بلند کرنے کی خواہش کے علاوہ کسی مقصد کے بغیر؛ مزید مادی سہولیات، مزید آلات اور شاید مزید طاقت کے سوا کچھ اور حاصل کرنے کی کسی امید کے بغیر ۔۔۔۔
جب ہم گھر واپس پہنچے تو اپنی میز پر رکھے قرآن مجید (جو میں قبل ازیں پڑھ رہا تھا) کے کھلے ہوئے ایک صفحہ پر میری نظر پڑی۔ میں نے خود کار انداز میں کتاب سنبھال کر رکھنے کی غرض سے اٹھالی لیکن اسے بند کرنے ہی لگا تھا کہ سامنے والے صفحے پر لکھے حروف پڑھنے لگا:
’’تم لوگوں کو زیادہ سے زیادہ اور ایک دوسرے سے بڑھ کر دنیا حاصل کرنے کی دھن نے غفلت میں ڈال رکھا ہے یہاں تک کہ (اسی فکر میں) تم لبِ گور تک پہنچ جاتے ہو۔ ہر گز نہیں، عنقریب تم کو معلوم ہوجائے گا۔ پھر (سن لو کہ) ہر گز نہیں، عنقریب تم کو معلوم ہوجائے گا۔ ہر گز نہیں، اگر تم یقینی علم کی حیثیت سے (اس روش کے انجام کو) جانتے ہوتے (تو تمہارا یہ طرز عمل نہ ہوتا)۔ تم دوزخ دیکھ کر رہوگے پھر (سن لو کہ) تم بالکل یقین کے ساتھ اسے دیکھ لوگے۔ پھر ضرور اس روز تم سے ان نعمتوں کے بارے میں جواب طلبی کی جائے گی‘‘۔ (سورہ تکاثر)
کچھ دیر تک میرے منہ سے کوئی لفظ نہ نکل سکا۔ مجھے لگا کہ کتاب میرے ہاتھوں میں لرز رہی تھی۔ تب میں نے ایلسا کو کتاب پکڑاتے ہوئے کہا: ’’یہ پڑھو، کیا یہ سب وے میں دیکھے ہوئے منظر کا جواب نہیں ہے؟‘‘
یہ واقعی جواب تھا: اس قدر قطعی جواب کہ تمام شکوک رفع ہوگئے۔ اب میں جان گیا کہ میرے ہاتھوں میں پکڑی ہوئی یہ کتاب بے شک یہ الہامی تھی، کیونکہ تیرہ سو سال پہلے نازل کئے جانے کے باوجود یہ ہمارے الجھاؤ زدہ، مشینی، اوہام زدہ دور پر بھی صادق آتی تھی۔
ہر دور میں لوگ حرص و طمع کا شکار رہے ہیں؛ لیکن آج سے پہلے کبھی بھی یہ حرص محض چیزیں حاصل کرنے کے شوق سے بڑھ کر ایسا خبط نہیں بنی تھی کہ باقی سب کچھ ماند پڑجائے: زیادہ سے زیادہ کچھ لینے اور کرنے کی ناقابل مدافعت پیاس۔ کل سے زیادہ آج اور آج سے زیادہ کل: انسانوں کی گردنوں کی گردنوں پہ سوار شیطان ان کے قلوب کو آگے سے آگے کے اہداف کی جانب مہمیز دے رہا تھا۔ یہ اہداف دور سے چمکتے ہوئے لگتے تھے لیکن قریب پہنچتے ہی قابل حقارت لاشیئیت میں تحلیل ہوجاتے۔ ہمیشہ نئے اہداف سامنے آتے رہتے۔۔۔ اور بھی زیادہ شاندار، زیادہ تحریص انگیز اہداف ۔۔۔ اور گرفت میں آتے ہی مزید لاشیئیت میں گم ہوجاتے؛ اور نئے سے نئے اہداف کی وہ بھوک، وہ ناقابل تسکین بھوک انسانی روح کو کھا رہی تھی: ’’تم دوزخ کو ضرور دیکھ کر رہوگے، پھر تم اسے ضرور یقین کی آنکھ سے دیکھ لوگے ۔۔۔‘‘۔
مسجد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کے صحن پر تاریکی چھاگئی ہے۔ صرف محرابوں کے ستونوں کے درمیان لمبی زنجیروں سے لٹکے چراغ ہی اس تاریکی کو کاٹ رہے ہیں۔ شیخ عبداللہ ابن بلیہد سر سینے پر جھکائے اور آنکھیں بند کئے بیٹھے ہیں۔ انھیں نہ جاننے والا شخص شای انھیں سویا ہوا خیال کرتا؛ لیکن میں جانتا ہوں کہ وہ گہرے انہماک سے میری کہانی سن رہے ہیں اور اسے انسانی قلوب کے متعلق اپنے وسیع تجربے سے ہم آہنگ کرنے کی کوشش میں ہیں۔ وہ کافی دیر بعد سر اوپر اٹھاتے اور آنکھیں کھولتے ہیں:
’’اور پھر؟ اور پھر آپ نے کیا کیا؟‘‘
’’یا شیخ، صاف ظاہر ہے میں نے ایک ہندستانی مسلمان دوست کو ڈھونڈا جو برلن میں چھوٹی سی مسلم برادری کا سربراہ تھا۔ میں نے اسے بتایا کہ میں اسلام قبول کرنا چاہتا ہوں۔ اس نے اپنا دایاں ہاتھ میری طرف بڑھا دیا اور میں نے دو گواہوں کی موجودگی میں اپنا ہاتھ اس کے ہاتھ پر رکھتے ہوئے اعلان کیا: ’’لا الٰہ الااللہ محمد رسول اللہ‘‘۔
’’اور لوگوں نے اس پر کیا کہا؟‘‘
’’ہاں؛ انھیں یہ بات پسند نہ آئی۔ جب میں نے اپنے والد کو بتایا کہ میں مسلمان ہوگیا ہوں۔ انھوں نے میرے خط کا جواب تک نہ دیا۔ کچھ ماہ بعد میری بہن نے خط میں بتایا کہ وہ مجھے مردہ تصور کرچکے تھے ۔۔۔۔ تب میں نے ایک اور خط لکھا اور انھیں یقین دلایا کہ اسلام قبول کرنے سے ان کی جانب میرے رویے اور محبت میں کوئی تبدیلی نہیں آئی کہ اس کے برعکس اسلام مجھے تلقین کرتا ہے کہ کسی بھی شخص سے زیادہ اپنے والدین سے محبت اور ان کا احترام کرو۔۔۔ لیکن اس خط کا بھی کوئی جواب نہ آیا ۔۔۔‘‘۔
’’آپ کے والد ضرور اپنے مذہب کے ساتھ مضبوط بندھن رکھتے ہوں گے۔۔۔‘‘۔
نہیں، یا شیخ ایسا نہیں ہے اور یہی کہانی کا سب سے عجیب حصہ ہے۔ میرے خیال میں وہ سمجھتے ہیں کہ میں نے عقیدے سے زیاہ اس ثقافت کے ساتھ بے وفائی کی ہے جس میں میری پرورش ہوئی اور جس سے ان کا تعلق ہے۔ اپنے مذہب کے ساتھ ان کا تعلق کبھی بھی بہت گہرا نہیں رہا‘‘۔
’’اور کیا آپ کے بعد سے اپنے والد سے نہیں ملے؟‘‘
’نہیں؛ قبول اسلام کے کچھ ہی عرصہ بعد میں اور میری بیوی یورپ سے چلے آئے؛ اب ہم مزید وہاں رہنا گوارا نہیں کرسکتے تھے اور میں نے پھر کبھی پیچھے مڑکر نہیں دیکھا۔۔۔‘‘۔

تبصرے بند ہیں۔