کیا نماز پڑھے بغیر کوئی مسلمان رہ سکتا ہے؟

عبدالعزیز

 عام طور پر جس مجلس میں مراتب کا خیال یا بے علم اور صاحب علم کی میں امتیاز نہیں کیا جاتا اس مجلس میں ہر ایک اپنی رائے دینا ضروری سمجھتا ہے اور بسا اوقات اپنی رائے پر اصرار کرتا ہے ۔دینی معاملہ ہو تو قرآن کے غلط حوالے دینے میں بھی عار محسوس نہیں کرتا ۔کبھی کبھار اپنی باتوں کو اوپر رکھنے کے لئے بغیر کسی اد نیٰ تحقیق کے حدیث کو بھی بالائے طاق رکھنے کی دلیری سے باز نہیں آتا ۔

 اس تمہید کے بعد ایک ایسی مجلس کی روداد پیش خدمت ہے ۔ایک نوجوان جو ترکی  کے ایک رائٹر کی  ایک کتاب جو انگریزی زبان میں تھی میری طلب پر پڑھنے کے لئے دیا مگر دینے کے بعد وہ نوجوان میرے پاس آیا اور کہا یہ کتاب آپ کے پڑھنے کے لائق نہیں ہے یہ کہتے ہوئے کتاب ہاتھ میں لے کر کتاب کے ایک صفحہ کی طرف اشارہ کیا کہ یہ پڑھئے ۔ اس صفحہ میں لکھا ہوا تھا کہ ’’ میں ایک جگہ گیا وہاں دیوار پر قرآن کے حوا لہ سے لکھا ہوا تھا کہ ’’ اللہ نے تمہیں کان ، ناک اور آنکھیں دی ہیں تم اس کا شکر ادا کرو ‘‘ مجھے بہت اچھا لگا مگر دوسری جگہ حدیث کے حوالہ سے درج تھا کہ ’’ جب بچہ تمہارا دس سال کا ہو جائے اور ترغیب کے با وجود نماز نہ پڑھے تو اسے مار بھی سکتے ہو یہ چیز میرے لئے پریشان کن (Disturbing ) تھی ‘‘میں نے کہا یہ شخص نا داں اور جاہل معلوم ہوتا ہے کیونکہ پہلے تو اس نے حدیث کے ایک ٹکڑے کو نقل کر کے اپنی بے چینی کا اظہار کیا اور دوسرے ماں باپ کو وہ اتنا بھی حق دینا گوارا نہیں کرتا کہ وہ تنبیہ کے لئے چھڑی کا بھی استعمال کر سکیں ۔ اس کے بعد میں نے کہا کہ امام احمد بن حنبلؒ نے بالغ اور عاقل مسلمان اگر ترک نماز کرتا ہے تو اسلامی حکومت کو مرتد کی طرح قتل کرنے کا بھی فتویٰ صادر کیا ہے ۔میری اس بات پر پوری مجلس میں بھونچال سا آگیا ۔

 جب میں نے امام صاحب کی اس دلیل کو پیش کرنے کی کوشش کی جو امام صاحب نے انکار زکوٰۃ کے اس واقعہ کے حوالے سے پیش کیا  ہے جو خلیفہ اول حضرت ابوبکر ؓ کے دور میں رونما ہوا تھا تو ایک صاحب نے بر جستہ کہا کہ معاملہ نماز کا ہے زکوٰۃ کی بات کیوں آپ کہہ رہے ہیں جب ان کو قرآن کے حوالہ سے میں نے کہا کہ اَقیموا لصلاۃ و اَتو الزکوٰۃ  ’’  نماز قائم کرو اور زکوٰۃ دو  ‘‘ دونوں کا ذکر ایک ساتھ قرآن میں ایک بار نہیں متعدد بار آیا ہے ۔دونوں   Unseprable ہے۔قرآن میں دوسری چیزوں کے جوڑوں کا بھی ایک ساتھ ذکر کیا گیا ہے ۔اس کے باوجود بھی وہ سننے کے لئے راضی نہ ہوئے اور نہ ہی کسی  اورنے ان کی ضد پر روک لگا ئی بلکہ ایک صاحب نے ان کی ضد کو حق بجانب بتایا ۔ اس دوران کئی اور باتیں بھی سامنے آئیں مثلاً جب میں نے کہا کہ سورہ روم میں نماز نہ پڑھنے والوں کو مشرکین سے تعبیر کیا گیا ہے ۔پھر مجھ سے قرآن میں دکھانے کا مطالبہ کیا گیا ۔قرآن کو کھول کر میں نے دکھایا ۔

  ’’ اور نماز قائم کرو اور نہ ہو جاؤ ان مشرکین میں سے  جنہوں نے اپنا اپنا دین الگ بنا لیا ہے ‘‘ ( سورہ روم  ۳۲۔۳۱)

  گھر آنے کے بعد میں نے درج ذیل  صحابہ کرام ؓکے اقوال کے ساتھ نماز کی اہمیت کے بارے میں دو صفحات xerox  کراکے شرکاء میں سے ایک صاحب کو  پڑھنے پڑھانے کے لئے بھیجا :۔

نماز کی اہمیت :۔

 بین العبد وبین الکفر ترک الصلوٰۃ ( مسند احمد)’’ بندے اور کفر کے درمیان ترک صلوٰۃ واسطہ ہے ‘‘ ۔   ’’ جس پر نماز گراں گذرے وہ خود اس بات کا ثبوت پیش کرتا ہے کہ خدا کی بندگی اور اطاعت کے لئے تیار نہیں ۔یعنی ترک صلوٰۃ وہ پل ہے جس کو عبور کرکے آدمی ایمان سے کفر کی طرف جاتا ہے ۔اسی بنا پر ر حمت اللعالمینؐ نے فرمایا کہ ’’ جو لوگ اذان کی آواز سن کر گھروں سے نہیں نکلتے ، میرا جی چاہتا ہے کہ ان کے گھروں میں آگ لگادوں ۔‘‘ اور اسی بنا پر فرمایا  العھد بیننا و بینھم الصلوٰۃ فمن ترکھا فقد کفر۔(ترمذی ،نسائی، ابن ماجہ )

ہمارے اور عرب کے بدؤں کے درمیان  تعلق کی بنا نماز ہے ۔ جس نے اسے چھوڑ دیا وہ کافر قرار پائے گا ۔اور اس سے ہمارا تعلق ٹوٹ جائے گا ۔

  آج دین سے قطعی ناواقفیت کا نتیجہ یہ ہے کہ جو لوگ نماز نہیں پڑھتے ،جو اذان کی آواز سن کر ٹس سے مس نہیں ہوتے ، جن کو یہ محسوس تک نہیں ہوتا کہ موذن کس کو بلا رہا ہے اور کس کام کے لئے بلا رہا ہے وہ مسلمان سمجھے جاتے ہیں ۔ اور یہ خیال عام ہو گیا ہے کہ نماز کی کوئی اہمیت اسلام میں نہیں ہے ، اس کے بغیر بھی آدمی مسلمان ہو سکتا ہے ۔بلکہ مسلمانوں کا امام اور ملت کا قائد بھی ہو سکتا ہے مگر جب اسلام ایک تحریک کی حیثیت سے زندہ تھا ۔ اس وقت یہ حال نہ تھا ۔ مستند روایت ہے کہ کان اصحاب النبی ﷺ لا یرون شیئاً من الاعمال ترکہ کفر غیر الصلوٰۃ  ( ترمذی ) یعنی نبی ﷺ کے صحابہ میں یہ بات متفق تھی کہ اسلامی اعمال میں صرف نماز ہی وہ عمل ہے جس کو چھوڑ دینا کفر ہے ۔

  ’’ کفر اور ایمان کے درمیان ترک صلوٰۃ واسطہ ہے۔‘‘

  ترمذی نے اس حدیث کو حسن صحیح قرار دیا ہے ۔

   ایک روایت میں ’’ نہیں ہے بندہ ، شرک اور کفر کے درمیان واسطہ مگر ترک صلوٰۃ۔‘‘

  اور ایک دوسری روایت میں جو حضرت جابر ؓسے مروی ہے :

   حضرت بریدہ ؓ اپنے حوالہ سے بیان کرتے ہیں کہ رسول ﷺ نے فرمایا ’’ یقیناً ہمارے اور ان کے ( کفار کے ) ما بین صلوٰۃ واسطہ ہے ۔لہٰذا جس نے اسے ترک کر دیا ، وہ کافر ہو گیا ۔‘‘( نسائی۔ ابن ماجہ)

  حضرت عبداللہ بن شقیق عقیلی نے بیان کیا کہ ’’ نبی ﷺ کے صحابہ سوائے ترک صلوٰۃ کے دوسریء کسی عمل کو کفر تصور نہیں کرتے تھے ۔‘‘

  ’’ بندے، کفر اور ایمان کے درمیان نماز واسطہ ہے ۔ لہٰذا جب کسی نے اسے ترک کردیا تو اس نے شرک کا ارتکاب کیا ۔‘‘(طبری)

 ’’ بندے اور کفر یا شرک کے درمیان ترک صلوٰۃ واسطہ ہے لہٰذا جب کسی نے ترک صلوٰۃ کیا تو وہ کافرہو گیا۔ ‘‘ ( ابن ماجہ)

 ’’ بندے اور شرک کے درمیان نہیں ہے واسطہ مگر ترک صلوٰۃ ۔ لہٰذا جب کسی نے اسے ترک کیا تو اس نے شرک کیا ۔‘‘ ( ابن ماجہ)

 ’’کفر، شرک اور ایمان کے ما بین جو چیزواسطہ ہے وہ ترک صلوٰۃ ہے ۔‘‘( دار قطنی)

  ’’ جس نے عمداً یا جان بوجھ کر ترک صلوٰہ کیا تو اس نے علانیہ سب کے روبرو کفر کا ارتکاب کیا ۔‘‘ ( دار قطنی)

 ابن ابی شیبہؓ بیان کرتے ہیں کہ نبی ﷺ نے فرمایا جس نے نماز کو ترک کیا اس نے  یقیناًکفر کیا ۔

  محمد بن مرزوی ؓنے بیان کیا کہ میں نے اسحاق کو نبی ﷺ کا یہ ارشاد بیان کرتے ہو ئے سنا ۔’’ تارک صلوٰۃ یقیناً کافر ہے ‘‘۔( دار قطنی)

 حضرت علیؓ فرماتے ہیں کہ’’ جس نے نماز نہ پڑھی وہ کا فر ہے ‘‘( بخاری)

 حضرت عبداللہ بن مسعودؓ کا قول ہے کہ ’’ جس نے ترک صلوٰۃ کیا اس کا کو ئی دین نہیں ‘‘( محمد بن نصر)

حضرت عبداللہ بن عباس ؓ کا قول ہے کہ ’’ جس نے نماز ترک کی وہ یقیناً کافر ہو گیا ‘‘( ابن عبد البر موقوفا)

حضرت جابر بن عبداللہ ؓ کا قول ہے کہ ’’ جس نے نماز نہ پڑھی وہ کافر ہے ‘‘۔( ابن عبد ا لبر)

  حضرت ابو دردا ؓ کا قول ہے  ’’ جس کی نماز نہیں ، اس کا دین ہی نہیں اور جس کا وضو نہیں اسکی نماز ہی نہیں ‘‘۔( دار قطنی)

  شرکاء میں سے ایک صاحب کو sms کیا کہ امام احمد بن حنبل ؒکا مذہب ( School of Thought )  ہے کہ ایک مسلمان جو بغیر عذر شرعی کے ترک نماز کا مرتکب ہو جائے اسے ایک مرتد کی طر ح اسلامی حکومت  سزائے موت دے سکتی ہے اور اسکا نہ غسل دیا جائے اور نہ نماز جنازہ ادا کی جائے ۔ مسلک شافعی میں جو نماز ترک کردیتا ہے اسے مرتد قرار نہیں دیا جا سکتا مگر اسکی سزا سزائے موت ہے ۔

  مالکی مسلک میں بھی تارک نماز کی یہی سزا ہے ۔ حنفی مسلک میں ہے کہ اسوقت تک اسے جیل خانہ میں قیدی بناکر رکھا جائے جبتک وہ نماز شروع نہ کرے یا اس وقت تک اسے مارا جائے  جب تک کہ وہ نماز پڑھنے نہ لگے ۔ یہ آئمہ اربہ کے فتویٰ ہیں جو قرآن و حدیث کی روشنی میں بحث و  مباحثہ کے بعدپیش کئے گئے ہیں ۔اگر کوئی صاحب ان فتووں کوقابل اعتنا نہیں سمجھتا تو اسے حق ہے کہ تحقیق کے بعد وہ کسی نتیجے پر پہنچے لیکن اگر کوئی سارے آئمہ کے فتووں کو بغیر تحقیق کے رد کر دیتا ہے تو اسے اپنے ایمان کی خیر منانا چاہئے۔

 اس مجلس میں دو اہم نکتے دو افراد کی جانب سے اٹھائے گئے۔ ایک صاحب نے جو ایک اخبار کے مدیر مسؤل ہیں اور جواں سال ہیں کہا کہ choice( حق انتخاب)سے اپنا مذہب تھوڑے کسی نے چنا ہے ۔اور ایک دوسرے صاحب نے جو جواں سال اور جواں فکر ہیں کہا کہ دین میں کوئی سختی نہیں ۔جہاں تک آخر ا لذکر کی بات ہے تو  ان کومیں نے سمجھایا کہ یقینا ’’ لا اکراہ فی الدین‘‘ دین میں کوئی سختی نہیں یہ اللہ کا قرآن میں صریحاً اعلان ہے مگر اسکا مطلب وہ نہیں ہے جو جواں سال کے ذہن میں ہے ۔ جو لوگ اللہ کے رسول ؐ کے ہاتھ پر بیعت کرتے تھے وہ وعدہ کرتے تھے کہ اسلام کے ارکان کی پوری پابندی کرینگے یہی وجہ ہے کہ اللہ کے رسول ؐ اکثرو بیشتر فرمایا کرتے تھے کہ

 ’’جو امانت کا خیال نہیں کرتا اس کا کوئی ایمان نہیں اورجو وعدہ کا پاس نہیں کرتا اسکا کوئی دین نہیں ۔ ‘‘قرآن میں کئی مقامات پر وعدہ کی حفاظت پر زور دیا گیا ہے ۔وعدہ کی خلاف ورزی کو  منا فق کی نشانیوں میں سے کہا گیا اور اللہ نے تضاد بیا نی یا وعدہ خلافی کو سخت نا پسند کیا ہے :۔

 ’’ اے لوگوں جو ایمان لائے ہو ، تم کیوں وہ بات کہتے ہو جو کرتے نہیں ۔ اللہ کے نزدیک یہ سخت نا پسندیدہ حرکت ہے کہ تم کہو وہ بات جو کرتے نہیں ‘‘ (سورہ صف ۲۔۳)

 بعض مفسرین نے ان آیتوں کی تشریح میں بخاری مسلم کی درج ذیل حدیث پیش کی ہے:

 ’’ چار صفتیں ایسی ہیں کہ جس شخص میں وہ چاروں پا ئی جائیں وہ خالص منافق ہے ، اور جس میں کوئی ایک صفت ان میں سے پائی جائے اس کے اندر نفاق کی ایک خصلت ہے جب تک کہ وہ اس کو چھوڑ نہ دے ۔ یہ کہ جب امانت اس کے سپرد کی جائے تو اس میں خیانت کرے، اور جب بولے تو جھوٹ بولے ، اور جب عہد کرے تو اسکے خلاف ورزی کر جائے ، اور جب لڑے تو اخلاق و دیانت کی حدیں توڑ ڈالے ۔‘‘

جواں نے میری باتوں پر خاموشی اختیار کی۔مدیر مسؤل کو کہیں جانا تھاوہ چلے گئے مگر ان میں سے ایک صاحب کو محسوس ہوا کہ مدیر مسؤل کی باتوں کی میں نے صاحب اخبار ہونے کی وجہ سے سراہنا کی ۔ میں نے مدیر مسؤل کی اس بات کی تائید کی کہ بہت سارے لوگ پیدائشی اختیار سے (By birth ) مسلمان ہیں ان کو بہت کم غورو خوض کرکے اپنے دین پر استقامت سے  قائم رہنے کی تربیت  ملی ہے ۔ اسکے باوجود وہ جذباتی انداز سے وہ دین کے ارکان پر عمل پیرا ہوں یا نہ ہوں دین سے وابستگی کا اظہار کرتے ہیں بلکہ بعض معاملات میں جینے مرنے پر تیار ہو جاتے ہیں ۔

 جب میں نے موجود شرکاء کو بتایا کہ اخبار سے راقم کی وابستگی رہ چکی ہے ۔ وہ ایک اخبار کا ایڈیٹر رہ چکا ہے ۔وہ سچائی اور حق کے اظہار میں کسی بھی چیز کو پہلے بھی اور آج بھی آڑے نہیں آنے دیتا ۔یہ  نہ صرف ان اخباروں کے صفحات  گواہ ہیں جن سے راقم کا براہ راست تعلق  تھا بلکہ غیروں کے اخبارات کی بھی یہی گواہی ہے ۔ اس پر شرکاء خموش رہے کسی نے خموشی توڑنے کی ضرورت محسوس نہیں کی ۔

مدیر مسؤل کی بات ایک صاحب فکر کی بات ہے اس پر مسلمانوں کو غور و فکر کرنا چاہئے کہ آیا  دین کووہ محض جذباتی لگاؤ سے اپنا ئیں گے یا عملی ،علمی اور عقلی طور پر اپنانے کی کوشش کریں گے ۔ اسلام نے غورو فکر کے بعد ہی اسلام قبول کرنے پر زور دیا ہے ۔بے علمی کی بنیاد پر اسلام قبول کرنے والوں کی حوصلہ افزائی نہیں کی ہے ۔مگر جو بغیر سمجھے بوجھے قبول کرلیتے ہیں ان کو عقلی اور علمی طور پر قبول کرنے کی بات سکھانے پر زور دیا گیا ۔ عرب کے صحرائی بدؤں کو اللہ نے ابتدائی زمانے میں ہی کہا :۔

 ’’ یہ بدوی کہتے ہیں کہ ’’ ہم ایمان لائے ‘‘ ان سے کہو تم ایمان نہیں لائے بلکہ تم مطیع ہو گئے ‘‘ ( یعنی اسلام کی برتری کو قبول کر لیا ) ایمان ابھی تمہارے دلوں میں داخل نہیں ہوا ‘‘ ( سورہ الحجرات آیت ۱۴)

قرآن کی اصطلاح میں ’’ اسلام ‘‘ اس دین حق کا نام ہے جو اللہ نے نوع انسان کے لئے نازل کیا ہے ۔ اس کے مفہوم میں ایمان اور اطاعتِ امر دونوں شامل ہیں اور مسلم وہ ہے جو سچے دل سے مانے اور عملاً اطاعت کرے ۔

  مزید معلومات کے لئے آل عمران ۔۸۵ ، المائدہ ۔۳، الانعام ۔۱۲۵ اور ۱۴، المائدہ ۴۴ کی آ یتوں کامطالعہ کیا جا سکتا ہے ۔

  قرآن مجید میں مسلم یا مومن کی جہاں بھی باتیں کی گئی ہیں اس سے مراد وہ شخص ہے جو دل سے اسلام کو مانے بس ظاہری طور پر بابا دادا کا مذہب سمجھ کر اسلام کو قبول کرلے یہ ہر گز مطلب نہیں ہے ۔ بلا شبہ قرآن کے بکثرت مقامات ایسے بھی ہیں جہاں  یہ الفاظ ظاہری اقرار ایمان کے لئے  بھی استعمال کئے گئے ہیں جیسے  ’’ یا ایہا الذین آ منو ‘‘کہہ کر ان سب لوگوں کو خطاب کیا گیا ہے جو زبانی اقرار کرکے مسلمانوں کے گروہ میں شامل ہو گئے ہوں قطع نظر کہ وہ سچے مومن ہوں یا ضعیف الایمان ، یا محض منافق ، اس کی بہت سی مثالوں میں صرف چند کے لئے ملا حظہ ہو  آل عمران  آیت ۱۵۶، النساء۔۱۳۶، المائدہ۔۵۴،الانفال ۲۰۔۲۷،التوبہ۔۳۸،الحدید۔۲۸، الصف ۔۲۔

تبصرے بند ہیں۔