گرمی اور دھوپ کی شدت انسانوں کے لئے درسِ عبرت

موسم گرما اپنے پورے شباب کے ساتھ آیا ہوا ہے ،ابتداء ہی مرحلہ میں اس کی سختی اور شدت کا عجیب حال چل رہا ہے ،دھوپ کی تمازت ،گرمی کی شدت نے لوگوں کو آنے والے دنوں کے بارے میں اور بھی متنبہ کر دیا ہے کہ جب آغاز میں یہ حال ہے تو آئندہ کیا صورت ہوسکتی ہے ۔گرما کے قہر سے کھیت و کھلیان سوکھے پڑے ہوئے ہیں ،کنوئیں اور ندی نالے خشک ہیں ،لوگ پانی کے لئے سخت حالات سے دوچار ہیں ،کئی کئی دیہات پانی کی قلت سے زبردست مشکلات کا سامنا کررہے ہیں،اور پھر دھوپ آئے دن اپنے ریکارڈ بنانے میں لگی ہوئی ہے ،ایسے سخت حالات میں ہر انسان ہر ممکن دھوپ سے بچنے اور گرمی سے محفوظ رہنے والا انتظام کرتا ہے ،جھلسادینے والی دھوپ اور اس کی جان لیوا ل لوُ سے حفاظت کی پوری تدبیریں کرتا ہے ،راستہ چلتے اگر کہیں سایہ نظر آجائے اور کچھ دیر راحت حاصل کرنے کا موقع مل جائے تو فائدہ اٹھانے کی کوشش کرتا ہے ،گرمی کی سختی کی وجہ سے اگر حلق خشک ہوکر سوکھ جائے تو جہاں پانی نظر آئے فوری اپنی پیاس بجھانے اور حلق بھگانے میں دیر نہیں کرتا ۔گھر میں ٹھنڈک کا جو نظم وہ کرسکتا ہے کرگزرتا ہے ،ٹھنڈی ہوا کے حصول کے لئے اپنی حیثیت اور بساط کے مطابق انتظام کرتا ہے ۔سر پر ٹوپی اور رومال اوڑھ کر پورے بندوبست کے ساتھ باہر نکلتا ہے اور اپنے ہی گھر میں زمین پر ننگا پیر نہیں رکھتا کہ کہیں جل نہ جائے؟دو تین مہینہ کے موسم گرما کے لئے اتنے سارے انتظامات کرتا ہے ،اس مختصر وقت میں اگر گرمی زیادہ ہوجائے اور چلچلاتی دھوپ ہوتو ہر ایک کی زبان پر بس اسی کا ذکر ہوتا ہے ، اس ے بچاؤ اور حفاظت پر روز دیا جاتا ہے ۔ اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ گرمی جب بڑھ جاتی ہے اور دھوپ کی تمازت میں غیر معمولی اضافہ ہوجاتا ہے تو بہت سے لوگ اس کی تاب نہ لاکر لقمۂ اجل بھی بن جاتے ہیں ،تندرست و توانا انسان بھی بے بس ہوکر ڈھیر ہوجاتا ہے ،اور سیکڑوں لوگ موت کے گھاٹ اتر جاتے ہیں۔دنیا کی معمولی اور چند ماہ کی دھوپ اور گرمی جب انسان کے لئے اس درجہ پریشان کن ہوتی ہے ا س موقع پر ہمیں سوچنا چاہیے کہ اگر انسان اس دنیا میں رہ کر خدا کی نافرمانی کرکے مرے تو پھر حشر کی سختیوں اور جہنم کی ہولناکیوں کو وہ کیسے برداشت کرپائے گا۔یہاں کی گرمی اور سختی سے بچنے کے لئے جب اتنے سارا اہتمام اور فکر ہوتی ہے تو وہاں کی کلفتوں اور خطرناکیوں سے محفوظ رہنے کے بارے میں کس درجہ کا خیال کر نا چاہیے؟
اس کائنات کا مالک و خالق اللہ ہے ، اس نے اپنی کائنات کی ہر چیز میں انسانو ں کے لئے عبرت اور نصیحت کے بے شمار پہلو رکھے ہیں ،وہ دنیا کی ہر چیز سے انسانوں کو سبق سکھا تا ہے ،اور پیغام دیتا ہے ۔عقل مند انسان ان سے سبق حاصل کرتے ہیں اور اپنی زندگی کو سدھار تے ہیں ۔اللہ تعالی نے اپنی قدرت کی نشانیوں اور عبرت کی چیزوں کو دنیا میں بکھیر دیا ہے ۔ یہ موسموں کا تبدیل ہونابھی قدر ت کی بڑی عجیب و غریب نشانی ہے،وہی دن ورات اور وہی چاند و سورج لیکن جب اللہ چاہتا ہے تو اسی سے خنکی اور ٹھنڈک کے خوش گوار جھونکے ملتے ہیں ،ہواؤں سے لطف وسرور نصیب ہوتا ہے ،اورجب چاہے اسی سے گرمی و شدت کی آگ برستی نظر آتی ہے ،اور یہی سورج اپنی سختی سے شعلہ کی طرح بھڑکتا دکھائی دیتا ہے ۔انسان جب بصیرت کی نگاہ سے دنیا مین رونماں ہونے والی تبدیلی کو دیکھے گا ،خدائی قدرت کا نظارہ کرے گا اور اس کے ذریعہ دئیے جانے والے سبق اور پیغام پر غور وفکر کرے گا تو پھر وہ پوری زندگی کو مالک کی مرضی اور اس کے منشا کے مطابق بسر کرنے کی سعی و کوشش میں لگا رہے گا۔ہم دنیا کی اس گرمی سے بچنے اور دھوپ سے محفوظ رہنے کے بہت کچھ کرتے ہیں لیکن ہم نے آخرت کی گرمی اور جہنم کی سختی سے حفاظت کا کتنا انتظام کیا ہے آئیے ایک نظر ان حقیقتوں پر ڈالتے ہیں جس کو نبی کریم ﷺ نے بہت پہلے بیان کردیا اور قرآن کریم نے اس خطرناک ہولناکیوں کی منظر کشی کی ہے، تاکہ ہم یہاں کی معمولی گرمی کے ان سخت ایام میں اس کا تصور بھی ذہن ودل میں تازہ کریں اور عملی زندگی کو بنانے والے بنیں۔
گرمی کا سبب:
دنیا میں سردی یا گرمی کی شدت اور سختی جوپیش آتی ہے اس کا سبب نبی کریم ﷺ نے جہنم کے سانس لینے اور اس کے جوش کو قرار دیا ۔چناں چہ آپ ﷺ کا ارشاد ہے کہ:جب سخت گرمی ہو تو ظہر کی نماز ٹھنڈے وقت میں پڑھا کرو ۔کیوں کہ گرمی کی سختی دوزخ کی تیزی کی وجہ سے ہوتی ہے ۔( پھر فرمایا کہ)دوزخ نے اپنے رب کی بارگاہ میں شکایت کی کہ ( میری تیزی بہت بڑھ گئی ہے حتی کہ ) میرے کچھ حصے دوسرے حصوں کو کھائے جارہے ہیں ،( لہذا مجھے اجازت دی جائے کہ کسی طرح اپنی گرمی ہلکی کروں )اللہ تعالی نے اس کو دومرتبہ سانس لینے کی جازت دی ایک سانس سردی کے موسم میں اور ایک گرمی کے موسم میں ۔لہذا تم جو گرمی محسوس کرتے ہودوزخ کی لوکا اثر ہے ۔( بخاری:حدیث نمبر؛506)ایک حدیث میں آپ ﷺ نے فرمایا:جب گرمی سخت ہو تو ظہر کو ٹھنڈے وقت پڑھا کرو ،کیوں کہ گرمی کی شدت آتشِ دوزخ کے جوش سے ہے۔( بخاری :حدیث نمبر؛504)حضرت مولانا منظور نعمانی ؒ حدیث کی تشریح میں فرماتے ہیں:دنیا میں ہم جو کچھ دیکھتے اور محسوس کرتے ہیں اس کے کچھ ظاہری اسباب ہوتے ہیں جنھیں ہم خود بھی جانتے ہیں اور سمجھتے ہیں اور کچھ باطنی اسباب ہوتے ہیں جو ہمارے احساس و ادراک کی دسترس سے باہر ہوتے ہیں ،ابنیا ء کرام ؑ کبھی کبھی ان کی طرف اشارے فرماتے ہیں ،اس حدیث میں جو یہ فرمایا گیا ہے کہ:گرمی کی شدت آتش دوزخ کے جوش سے ہے ، یہ اسی قبیل کی چیز ہے ،گرمی کی شدت کا ظاہری سبب تو آفتا ب ہے اور اس کو ہر شخص جانتا ہے اور کوئی بھی اس کا نکار نہیں کرسکتا ،لیکن عالم باطن اور عالم غیب میں اس کا تعلق جہنم کی آگ سے بھی ہے ،اور یہ ان حقائق میں سے ہے جو انبیاء کرام ؑ ہی کے ذریعہ معلوم ہوسکتے ہیں۔( معارف الحدیث :3/128)
میدانِ محشر کی گرمی:
دنیا میں تھوڑی سے گرمی کے بڑھ جانے کی وجہ سے بے چینی و بے قراری کا عجب عالم ہوتا ہے ،بدن باربار پسینہ میں شرابور ہوجاتا ہے اور انسان پسینہ کو دور کرکے پاک وصاف ہونے کے لئے غسل کرکے ٹھنڈک حاصل کرتا ہے لیکن میدانِ محشر میں گرمی کا یہ عالم ہوگا کہ سورج ایک میل کے فاصلہ پر آجائے گا اور لوگ پسینے میں اپنے اعمال کے مطابق ڈوبے رہیں گے چناں چہ آپ ﷺ نے فرمایا:روز قیامت سورج مخلوق سے ایک میل کے فاصلے پر آجائے گا اور لوگ اپنے اپنے اعمال کے حساب سے پسینے میں ڈوبے ہوں گے،کوئی ٹخنوں تک ڈوبا ہو گا ،کوئی گھٹنوں پر اور کوئی منہ تک ڈوبا ہوگا۔( مسلم :حدیث نمبر؛5112)

 جہنم کی آگ:
دنیا میں انسان معمولی گرمی اور اس کی لوُ کو برداشت نہیں کرسکتا ،تو پھر جہنم کی آگ کو اور اس کی شدت کو کیسے برادشت کرپائے گا۔جہنم کی آگ کی ہولناکی کو بیان کرتے ہوئے آپ ﷺ نے فرمایا:دوزخ کو ایک ہزار سال تک دھونکا گیا تو اس کی آگ سرخ ہوگئی ،پھر ایک سال تک دھونکا گیا تو اس کی آگ سفید ہوگئی ،پھر ایک ہزار سال تک دھونکا گیا تو اس کی آگ سیاہ ہوگئی ۔چناں چہ اب دوزخ سیاہ اندھیرے والی ہے۔( ترمذی:حدیث نمبر؛2533)ایک حدیث میں آپ ﷺ نے فرمایا:تمہاری یہ آگ جس کو تم جلاتے ہو دوزخ کی آگ کا سترواں حصہ ہے،صحابہؓ نے عرض کیا ( جلانے کو تو یہی بہت ہے )آپ ﷺنے فرمایا( ہاں اس کے باوجود )دنیا کی آگوں سے دوزخ کی آگ گرمی میں۶۹ درجہ بڑھی ہوئی ہے۔( بخاری:حدیث نمبر؛3043)قرآن کریم میں فرمایا گیا :انطلقوا الی ظل ذی ثلث شعب لاظلیل و لایغنی من اللھب انھا ترمی بشرر کالقصر کانہ جملت صفر ۔( المرسلٰت:29۔33)چلو اس سائبان کی طرف جو تین شاخوں والا ہے ،جس میں نہ تو ( ٹھنڈک والا ) سایہ ہے ، اور نہ ہی وہ آگ کی لپٹ سے بچا سکتا ہے ،وہ آگ تو جیسے بڑے بڑے شعلے پھینکے گی ،ایسا لگے گا جیسے وہ زرد رنگ کے اونٹ ہوں۔
جہنم کا پانی:
موسم گرما میں ٹھنڈا پانی ہر کسی کو لذید اور فرحت بخش لگتا ہے ، نہ صرف پانی بلکہ لوگ اپنی تلخی کو مٹانے اور پیاس کو بجھانے کے ساتھ راحت حاصل کرنے کے لئے قسم قسم کے مشروبات کا اہتمام کرتے ہیں ۔عارضی گرمی میں اس قدر فکرکی جاتی ہے جب کہ اللہ تعالی نے قرآن کریم میں ان نافرمان بندوں میں جہنم میں جو غذا دی جائے گی اس کا عبرت انگیز تذکرہ فرمایا ،چناں چہ ارشاد ہے : لا یذقون فیھا بردا و لا شراباالا حمیما وغساقا۔( النباء:24۔25)کہ اس میں نہ وہ کسی ٹھنڈک کا مزہ چکھیں گے ، اور نہ کسی پینے کے قابل چیز کا ،سوائے گرم پانی اور پیپ لہو کے۔نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ : اگر غساق کا ایک ڈول دنیا میں ڈال دیا جائے تو تمام دنیا والے سڑ جائیں۔( ترمذی:حدیث نمبر؛2526)قرآن میں ایک جگہ ارشاد ہے ۔وسقواماء حمیما فقطع امعاء ھم ۔(محمد:15) اور انہیں گرم پانی پلایاجائے گا ، چناں چہ وہ ان کی آنتوں کو ٹکڑے ٹکڑے کردے گا۔اس کے علاوہ بھی کھانے اور پینے کے مختلف قسم کے عذابوں کا ذکر موجود ہے۔
جہنم کے ایک غوطہ کا اثر:
دنیا میں دوطرح کے انسان جیتے ہیں ،کچھ لوگوں کو آسائشیں اور سہولیتیں فراہم ہوتی ہیں اور کچھ تنگی اور مشکلات کا شکار رہتے ہیں ،دنیا کی یہ دونوں چیزیں نعمت اور مشقت آخرت کی نعمت اورکلفت کے سامنے کوئی حیثیت نہیں رکھتے ۔چناں چہ ایک حدیث میں نبی کریم ﷺ نے اسی کو بیان کرتے ہوئے فرمایا:قیامت کے دن دوزخیوں میں سے ایک ایسے شخص کو لایا جائے گا جو دنیا میں سب سے زیادہ عیش و آرام کی زندگی گزارتا تھا اور اپنے عیش و آرام سے بد مست ہوکر ظلم وجور میں بہت بڑھا ہوا تھا ،پھر اس کو دوزخ کا ایک دلاجائے گا یعنی دوزخ میں ڈبویا جائے گا جس طرح کپڑا رنگ میں ڈبویا جاتا ہے اور کہا جائے گا کہ اے ابن آدم ! کیا تونے دنیا میں کبھی راحت و بھلائی دیکھی تھی اور کوئی عیش و آرام اٹھایا تھا ؟وہ دوزخی دوزخ میں ڈالے جانے کے ڈر سے اس قدر سہم جائے گا کہ دنیا کے ان تمام ناز و نعم او ران تمام آسائش وراحت کو فراموش کردے گا جو اس کو حاصل تھیں اور ایسا ظاہر کرے گا جیسا اس کو دنیا میں کوئی راحت و نعمت نصیب ہی نہیں ہوئی تھی ،چناں چہ وہ کہے گا کہ نہیں میرے پروردگار :خداکی قسم !مجھے کوئی راحت ونعمت نصیب نہیں ہوئی تھی، اسی طرح جنتیوں میں سے ایک ایسے شخص کو لایا جائے گا جو دنیا میں سب سے زیادہ غم و الم اور مشقت وکلفت برداشت کرنے والا تھا ،پھر اس کو جنت میں ایک غوطہ دیا جائے گا اور کہا جائے گا:اے ابن آدم ! کیا تونے کبھی کو ئی غم دنیا میں اٹھا یا تھا اور کسی مشقت و تکلیف سے دوچار ہو اتھا؟وہ جنتی جنت کی نعمتیں اور راحتیں دیکھ کر اپنے دنیا کے تمام رنج و غم اور مشقتوں کو بھول جائے گا اور جواب دے گا کہ نہیں میرے پروردگار :خدا کی قسم !میں نے دنیا میں کبھی کوئی رنج و غم نہیں دیکھا اور کو مشقت نہیں اٹھائی۔( مسلم :حدیث نمبر؛5026)
فکر مند لوگ:
نبی کریم ﷺ نے قیامت کی ہولناکیوں کو بیان فرماکر اور جہنم کی خطرناکیوں سے آگاہ کرکے حضرات صحابہ کرامؓ کے اندر ایک بے چینی پیدا کردی تھی ،وہ ہمیشہ فکر آخرت میں رہا کرتے تھے ،زبانِ نبوت ﷺ سے ا ن کو بشارتیں مل جانے کے بعد بھی کبھی انہوں نے بے فکری کی زندگی نہیں گزاری اور نہ ہی اعمال کے سلسلہ میں مطمئن رہیں ۔تاریخ ان کے ایمان افرو ز واقعات سے بھری ہوئی ہے ،اسی طرح ان کے بعد بھی لوگوں میں یہ فکر و احساس جاگزیں رہا ،جب کبھی آخرت کی سختیوں کا تذکرہ چھیڑ جاتا یا کوئی منظر ان کی نگاہوں کے سامنے آجاتا وہ تڑپ اٹھتے اور ان کا بدن کانپ جاتا ، تاریخ سے صرف ایک واقعہ ملاحظہ کیجئے:ربیع بن خثیم ایک جلیل القدر تابعی گزرے ہیں ،جو حضرت عبد اللہ بن مسعودؓ کے خاص شاگرد تھے اورابن مسعودؓ ان سے کہاکرتے تھے کہ : نبی کریم ﷺ تمہیں دیکھ لیتے تو ضرور پسند فرماتے ،اور میں تمہیں ہر وقت متفکر ہی دیکھتا ہوں ،یہ ربیع بن خثیم ایک مرتبہ اپنے استاد سیدنا حضرت عبد اللہ بن مسعودؓ کے ساتھ دریائے فرات کے کنارے جارہے تھے کہ راستہ میں لوہاروں کے پاس سے گزر ہو ا،حضرت ربیع نے جب ان لوہاروں کی انگیٹھیوں کی آگ اور اس کے غیظ و غضب اور چیخ وپکار کو دیکھا تو یہ آیت پڑھی:اذا رأتھم من مکان بعید سمعوا لھا تغیظا وزفیرا۔( الفرقان :12)وہ دوزخ ان کو دور سے دیکھے گی تو جہنمی اس کاجوش و خروش سنیں گے۔تو بے ہوش ہوکر گر پڑے اور اگلی صبح تک بے ہوش رہے۔( تعمیر اخلاق اردو رسالۃ المسترشدین:215)
آگ سے بچنے کا حکم اور اس کی تدبیر:
جہنم کی آگ سے بچنے کا حکم بھی اللہ تعالی نے دیا اور بتایا دیا کہ جہنم کا ایک ایندھن انسان اور پتھر ہوں گے ،ارشاد ہے:یا ایھا الذین اٰمنوا قوا انفسکم واھلیکم نارا وقودھا الناس والحجارۃ علیھا ملائکۃ غلاظ شداد لایعصون اللہ ما امرھم ویفعلون مایؤمرون ۔( التحریم :6)اے ایمان والو!اپنے آپ کو اوراپنے گھر والوں کو اُ س آگ سے بچاؤ جس کا ایندھن انسان اور پتھر ہوں گے۔اُ س پر سخت کڑے مزاج کے فرشتے مقرر ہیں جو اللہ کے کسی حکم میں اُ س کی نافرمانی نہیں کرتے ،اور وہی کرتے ہیں جس کا انہیں حکم دیا جاتا ہے ۔حضرت مجاہدؒ اس آیت کے ذیل میں فرماتے ہیں کہ:تم خود تقوی اختیار کرو اور اپنے گھروالوں کو تقوی کی وصیت کرو۔،حضرت قتادہؒ فرماتے ہیں کہ:ان کو اللہ کی اطاعت کا حکم دو اور اللہ کی نافرمانی سے روکو۔( تفسیر ابن کثیر:14/59)دنیا کی مشقتوں اور تکلیفوں کو دور کرنے کاانتظام انسان کرلیتا ہے ،یہاں کی گرمی سے بچاؤ کی تدبیریں اور سختیوں سے حفاظت کا بندوبست بھی کرتاہے،نبی کریمﷺ نے جہنم کی آگ اور وہاں کی ہولناکیوں سے بھی محفوظ رہنے کا طریقہ بتایا اور مختلف اعمال سکھائے کہ جس کے ذریعہ بندہ آخرت کی تکلیفوں سے بچ جائے ۔حضرت ابن عباسؓ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ جس طرح صحابہ کوقرآن کی سورتیں سکھاتے تھے اسی طرح یہ دعا بھی سکھاتے تھے ۔اللھم انی اعوذبک من عذاب جھنم ،واعوذبک من عذاب القبر ،واعوذبک من فتنۃ المسیح الدجا ل ،واعوذبک من فتنۃ المحیا والممات۔( مسلم :حدیث نمبر؛935) حضرت انسؓ فرماتے ہیں کہ رسول اللہﷺ اکثر یہ دعا فرمایا کرتے تھے۔ربنا آتنا فی الدنیا حسنۃ وفی الاخرۃ حسنۃ وقنا عذاب النار۔( بخاری:حدیث نمبر؛5937)اسی طرح نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ مغرب کی نماز سے فارغ ہو کر کسی سے بات کرنے سے پہلے سات مرتبہ اللہم اجرنی من النار کہاکرے ،اگر کوئی اس کو کہہ لے گا اور اسی رات مرجائے گا تو دوزخ سے خلاصی ہوجائے گی اورجب صبح کی نماز کے بعد اسی طرح سات مرتبہ کہنے سے اس دن مرجائے گا تو دوزخ سے خلاصی کردی جائے گی۔( ابوداؤد: حدیث نمبر؛4419) باقی اس کے علاوہ جن باتوں سے روکا کیا گیا ان پر سے بچنا اور جن کی تعلیم دی گئی اس پر عمل پیرا ہونا ضروری ہے۔
لمحۂ فکریہ:
بہت اختصار کے ساتھ بطو خاص ان چیزوں کا ذکر کیا گیا جس کی اہمیت کا اندازہ ہم موسم گرما میں لگا سکتے ہیں ،چند دن کی سختیاں ہم سے جھیلی نہیں جاتی ،اور اس کے لئے ہم راحتوں کو انتظام کرتے ہیں ،بالکل کرنا چاہیے اللہ تعالی نے جس جو جتنی حیثیت دی ہے وہ اس کے برابر سکون و راحت کو حاصل کرنے کی فکر کرسکتا ہے ۔ لیکن اصل مسئلہ یہ ہے کہ آج کتنے احکامات چھوٹتے ہیں اور اللہ تعالی کی کن کن موقعوں پر نافرمانی ہوتی ہیں اس کی کسی کو پروا نہیں ۔اگر دنیا میں رہ کر کوئی اپنی زندگی مرضئ خدا اور تعلیماتِ شریعت کے خلاف گزارے گا تو وہ آخرت میں سزا کا مستحق قرار پائے گا ،ہمارا بدن اتنا کمزور او رہم اتنے ناتواں ہیں کہ دنیا کی معمولی گرمی اور تھوڑی سی دھوپ ہم سے برادشت نہیں ہوتی تو پھر آخرت کی ہولناکیوں کا کیا مقابلہ کرپائیں گے ۔اسی لئے ہمیں چاہیے کہ ہم زندگی کو اسلامی تعلیمات کے سانچے میں ڈھالیں ،اور دن و رات کی تبدیلیوں اور ماہ وسال کی گردشوں سے سبق لینے والے بنیں کہ یہ ہمیں خاموش پیغام دے رہے ہین اور ہماری اصلاح وتبدیلی کا درس دے رہے ہیں۔

تبصرے بند ہیں۔