کائنات میں اجسام کیوں گردش میں رہتے ہیں؟

رستم علی خان

جیسا کہ آپ سب جانتے ہیں کہ کائنات میں تقریبا تمام چیزیں محو گردش ہیں۔ چاند زمین کے گرد گھوم رہا ہے، انسانوں کے بنائے ہوئے سیارچے یا سیٹلائٹ بھی زمین کے گرد گھوم رہے ہیں۔ زمین اور ہمارے نظام شمسی کے دوسرے سیارے سورج کے گرد گھوم رہے ہیں۔ سورج ہماری کہکشاں ملکی وے کے مرکز کے گرد گھوم رہا ہے۔ اسی طرح ہر ستارہ اپنی اپنی کہکشاں کے گرد چکر لگا رہا ہے۔ یہ گردشیں معلوم و معروف ہیں اورگردشوں کا یہ تصور اپنے ساتھ ایک حسن اور کمال کا احساس لئے ہوئے ہے۔ آج ہم جاننے کی کوشش کرتے ہیں کہ یہ کیوں گردش کر رہے ہیں اور ان کی پیچھے کیا سائنسی وجوہات ہیں۔

پہلے ہم اس کو نیوٹن کی کلاسیکل فزکس کے مطابق سمجھاتے ہیں اور آگے یہ بتاتے ہیں کہ آئنسٹائن کی دریافتوں سے اس میں کیا فرق پڑتا ہے۔ سمجھنے کے لئے کچھ اہم سائنسی اصول یاد رکھیں۔

پہلا اصول یہ ہے کہ مادہ کشش ثقل رکھتا ہے۔ یعنی مادہ دوسرے مادے کو اپنے طرف کھینچتا ہے۔ اس اصول کے اعتبار سے دیکھا جائے تو چاند کو سیدھے آ کر زمین پر گرنا چاہئے تھا۔ لیکن گر نہیں رہا ہے۔ وجہ آگے پتہ چلے گی۔ یہ نیوٹن کا کشش ثقل کا انتہائی اہم قانون ہے۔

دوسرا اصول یہ ہے کہ جس طرح زمین چاند کو کھینچ کر اپنے اوپر گرانے کی کوشش کرتی ہے اسی طرح چاند بھی زمین کو کھینچ کر اپنے پر گرانے کی کوشش کرتا ہے۔

تیسرا اصول یہ ہے کہ کائنات کی خصوصیت ہی یہ ہے کہ اس میں ہر چیز خط مستقیم پر اور یکساں رفتار سے سفر کرتی ہے۔ یہ نیوٹن کا پہلا کلیہ ہے۔ حرکیات میں دراصل یہ کلیہ بہت ہی بنیادی اہمیت رکھتا ہے۔ اس سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ کسی چیز کو مستقل متحرک رکھنے کے لئے کسی توانائی کی ضرورت نہیں ہے۔ ہاں اگر کوئی چیز ساکن تھی اور پھر اس کو متحرک کرنا ہے یا کسی کی رفتار بڑھانا ہے تو پھر اس کو ایک بار توانائی دینے کی ضرورت پڑتی ہے۔ جب وہ چیز ایک بار رفتار پکڑ لے تو یہی رفتار باقی رکھنے کے لئے اضافی توانائی کی ضرورت نہیں ہے۔ یہ بات ہمارے عام مشاہدات اور تجربات کے بر خلاف ہے۔ اس کی وضاحت آگے آرہی ہے۔

چوتھا اصول یہ ہے کہ اگر کسی چیز کو ہم کسی طریقے سے خط مستقیم پر جانے کے بجائے گھمانے یا موڑنے کی کوشش کریں گے تو اس کے لئے اضافی فورس ڈالنا پڑتا ہے۔ وہ چیز چونکہ سیدھے ہی جانے کی کوشش کرتی ہے اس لئے گھماؤ کے باہر کی طرف ایک فورس پیدا ہوجاتا ہے جسے مرکز گریز قوت یا Centrifugal Force کہتے ہیں۔ یہ فورس کسی گھومتی ہوئی شئے کو مسلسل مرکز سے دور کر کے سیدھے چلانے کی کوشش کرتا ہے۔

پانچواں اصول یہ ہے کہ زمین میں ہم دیکھتے ہیں کہ کسی بھی چیز کو مسلسل متحرک رکھنے کے لئے بیرونی قوت دینی پڑتی ہے ورنہ وہ چیز کچھ چل کر رک جاتی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ زمین پر ہر متحرک چیز کسی نہ کسی دوسرے مادے کو چھو رہی ہوتی ہے جس کی وجہ سے دو مادی اجسام میں رگڑ پیدا ہوتی ہے۔ اس وجہ سے اس چیز میں پائی جاتی والی حرکی توانائی آواز اور حرارت پیدا کر کے ضائع ہو جاتی ہے۔ ہوا میں اڑنے والی چیزوں کو ہوائی رگڑ یا friction کا سامنا کرنا پڑتا ہے اس لئے وہاں پر بھی متحرک چیز کی حرکی توانائی ضائع ہوجاتی ہے۔ خلا میں گھومتی ہوئی اشیاء یا اجرام سماوی اپنی پوری فضا کے ساتھ ایک ہی چیز ہوتی ہے اور پوری فضا کے ساتھ ہی گھومتی ہیں اس لئے ان اشیاء کو کوئی رگڑ کا سامنا نہیں کرنا پڑتا۔ اس لئے ان کو مسلسل متحرک رکھنے کے لئے کسی اضافی توانائی کی ضرورت نہیں پڑتی۔

اب جبکہ یہ اصول آپ کی سمجھ میں آگے تو یہ بتاتے ہیں کہ یہ اجسام کس طرح گھومتے ہیں۔ مثال کے لئے ہم زمین کا سورج کے گرد گھومنا لیتے ہیں اور آپ یہ اصول باقی تمام گردشوں پر بھی لاگو کر سکتے ہیں۔

زمین سیدھا جانے کی کوشش کرتی ہے جیسا کہ اوپر تیسرے اصول کے طور پر بیان کیا گیا ہے۔ اگر زمین سیدھی چلی گئی تو سورج سے اس کا فاصلہ بڑھتا چلا جائے گا اور وہ سورج سے بہت دور نکل جائے گی۔ لیکن سورج کی کشش ثقل زمین کو اپنی طرف کھینچتی ہے۔ اس کھنچاؤ کی وجہ سے زمین سیدھی نہیں جاسکتی بلکہ اس کا راستہ مڑ جاتا ہے۔ اور وہ دائروی شکل اختیار کر لیتا ہے۔ وہ قوت جو فطری طور پر زمین کو سیدھا لے جانے کی کوشش کر رہی ہے اسے centrifugal force کہتے ہیں۔ اور کشش ثقل جو زمین کو سورج کی مرکز کی طرف کھینچتی ہے اسے centripetal force کہتے ہیں۔ ان دو قوتوں کی مسلسل کشمکش کی وجہ سے زمین سورج کی گردش میں پھنس کر رہ جاتی ہے۔ نہ وہ سورج کی کشش سے نکل سکتی ہے اور نہ سورج پر گر سکتی ہے۔ اگر سورج کی کشش ثقل بڑھ جائے تو ممکن ہے کہ زمین ایک دھماکے سے سورج پر جاگرے اور ہم یہ سمجھنے کے لئے موجود ہی نہ ہوں کہ یہ چکر پہ چکر کیوں لگ رہے ہیں۔ اور اگر زمین کی رفتار بڑھ جائے تو ممکن ہے کہ زمین سورج کی کشش ثقل سے نکل کر کسی نامعلوم سفر پر روانہ ہوجائے۔ اور پھر دور جانے کے بعد وہ کسی ستارے کی کشش ثقل کی گرفت میں آجائے۔ اور جب یہ کسی ستارے کی کشش ثقل کی گرفت میں آجائے تو یا تو وہ اس ستارے میں جا گرے گی، یا اس کے تھوڑا قریب جانے کے بعد مرکز گریز قوت کی وجہ سے کترا کر نکل جائے گی یا اس کے گرد گھومنا شروع کردیگی۔

اب یہاں پر یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کچھ سمائی اجسام دائرے میں گھومتے ہیں، کچھ بیضوی شکل میں۔ اس کی وجہ کیا ہے۔
جب بھی کوئی شئے کسی بہت بڑے مادے کی کشش ثقل کی گرفت میں آتی ہے تو اس کی قسمت کا فیصلہ اس بات پر ہوتا ہے کہ وہ شئے کتنی رفتار اور کس رخ سے بڑے مادے (اس مثال میں ستارے) کی طرف آئی ہے۔ اس اعتبار سے اس کا فیصلہ ہوگا کہ وہ چیز کیسے گھومے گی۔ ممکنہ طور پر ان میں سے کوئی بھی واقعہ ہوسکتا ہے۔

1۔ متحرک مادہ سیدھے ستارے میں جا گرے

2۔ متحرک مادہ تھوڑا بہت ستارے کے قریب آ کر اپنی رفتار کی وجہ سے اس ستارے سے دور نکل جائے۔ ایسی صورت میں یہ مادہ پیرابوا (Parabola) یا ہایپیرابولا (Hyperbola) والا رستہ اختیار کرے گا۔ دی گئی پہلی تصویر میں یہ تمام ممکنہ راستے دکھائے گئے ہیں۔

3۔ متحرک مادہ ستارے کی گرفت میں آجائے اور دائرے یا بیضوی شکل میں اس کے گرد چکر لگانے لگے۔ بیضوی چکر لگانے کی صورت میں یہ بیضوی شکل بہت لمبوتری بھی ہوسکتی ہے یا بالکل دائرے کے قریب ترین۔ اس کی مثالیں تصویر نمبر دو پر دکھائی گئی ہیں۔

یہ تو رہی ان گردشوں کی وضاحت، اب یہاں پر کچھ ممکنہ سوالات ذہن میں آسکتے ہیں۔ یہاں پر ان ممکنہ سوالات کے جوابات دئے گئے ہیں۔

سوال نمبر 1: بیضوی شکل میں گھومنے کی صورت میں زمین سورج کے قریب بھی جاتی ہے اور دور بھی۔ تو جب زمین سورج کے قریب ہوتی ہے تو سورج کی کشش ثقل اس پر کیوں غالب نہیں آتی۔ اسی طرح دور جانے کی صورت میں یہ سورج کی کشش ثقل سے نکل کیوں نہیں جاتی؟ 

جواب: جب زمین بیضوی شکل میں گھومتی ہے اور جب وہ سورج کے زیادہ قریب ہوجاتی ہے تو اس کی رفتار بڑھ جاتی ہے۔ اب ہہاں پر دو چیزیں ہوجاتی ہیں۔ زمین کے سورج کے قریب ہونے کی وجہ سے کشش ثقل بڑھ گئی، اور زمین کی رفتار بڑھنے کی وجہ سے مرکز گریز قوت بھی بڑھ گئی۔ جی ہاں رفتار بڑھنے سے مرکز گریز قوت بڑھ جاتی ہے۔ اگر آپ کسی کنکر کو دھاگے سے باندھ کر اس گو گھمائیں تو وہ کنکر ایک دائرے کی شکل میں گھومے گا۔ اور اگر آپ اس کے گھومنے کی رفتار کو بڑھائیں تو آپ کو محسوس ہوگا کہ کنکر باہر کو نکلنے کے لئے یا دھاگے کو توڑنے کے لئے زیادہ زور لگارہا ہے۔ اسی طرح جب زمین سورج سے دور جاتی ہے تو کشش ثقل کم ہوجاتی ہے اور مرکز گریز قوت بھی کم ہوجاتی ہے۔ اس طرح بیلینس برقرار رہتا ہے۔
اب آپ یہ سوال پوچھ سکتے ہیں کہ زمین جب سورج کے قریب ہوتی ہے تو رفتار کیوں بڑھتی ہے اور جب دور ہوتی ہے تو رفتار کیوں کم ہوتی ہے۔

اس کی وجہ کشش ثقل کی وجہ سے پایا جانا والا اسراع (Acceleration) ہے۔ آپ جب زمین سے اوپر کی طرف کوئی کنکر اچھالیں۔ جب آپ کے ہاتھ سے وہ کنکر نکلے گا تو اس کی رفتار سب سے زیادہ ہوگی کیوں کہ آپ نے ہاتھ کی پوری قوت اس پر اپلائی کردی۔ لیکن جیسے جیسے وہ کنکر زمین کی سطح سے دور جائے گا کشش ثقل کی وجہ سے اس رفتار کم ہوتی جائے گی۔ اور ایک وقت وہ پتھر واپس نیچے آنا شروع ہوگا۔ اس کی رفتار سب سے کم اس وقت ہوگی جب وہ زمین سے سب زیادہ دور ہوگا۔ پھر جب وہ نیچے آنا شروع ہوگا تو اس کی رفتار بڑھنے لگے گی۔ اور اس کی رفتار سب سے زیادہ اس وقت ہوگی جب وہ زمین سے سب سے زیادہ قریب ہوگا۔ اب یہاں پر ہوتا ہے کہ جب زمین سورج سے سب سے قریب ہوتی ہے تو کشش ثقل بھی زیادہ ہوگی اور رفتار کی وجہ سے مرکز گریز قوت بھی زیادہ ہوگی۔ اور جب دور ہوگی تو کشش ثقل بھی کم ہوگی اور رفتار کم ہونے کی وجہ سے مرکز گریز قوت بھی کم ہوگی۔ اس طرح یہ توازن قائم رہے گا۔

سوال نمبر 2: تو زمین ہی سورج کے گرد کیوں گھومتی ہے، سورج کیوں زمین کے گرد نہیں گھومتا؟

جواب: جب زمین سورج کے گرد چکر لگاتی ہے تو سورج بھی چکر لگا رہا ہوتا ہے۔ لیکن زمین اور سورج کے کمیت میں تناسب کا اتنا زیادہ فرق ہوتا ہے کہ سورج کی گردش بہت ہی زیادہ چھوٹے دائرے میں ہوتی ہے، اتنے چھوٹے دائرے میں کہ وہ دائرہ سورج سے بھی چھوٹا ہوتا ہے اس لئے یہ گردش کوئی خاص معنی نہیں رکھتی۔ بلکہ سورج کے گرد جتنے سیارے چکر لگا رہے ہیں وہ سب سورج کو بھی گھمارہے ہوتے ہیں اور سورج کا مجموعی گھماؤ ان سب سیاروں کا مجموعی اثر ہوتا ہے۔

سوال نمبر 3: جدید سائنس میں ان گردشوں کو آئنسٹائن کے نظریہ اضافت کے سپیس ٹائم خم کے ذریعے سے سمجھایا جاتا ہے، نیوٹن کے نظریات تو غلط ثابت ہوچکے ہیں؟

جواب: نیوٹن نے کشش ثقل کے فارمولے سے یہ بتانے کی کوشش کی ہے کہ ایک مادہ دوسرے میں کیسے اسراع (Acceleration) پیدا کرتا ہے۔ نیوٹن کی تشریح کچھ اس طرح ہے کہ کشش ثقل کا میدان (Gravity field)مادے کے ہر طرف پھیلا ہوا ہے اور جتنا دور جایا جاتا ہے کہ اس میدان کی شدت (Intensity) کم ہوتی جاتی ہے۔ آئینسٹائن نے یہی بات سپیس ٹائم میں خم کے ذریعے سے سمجھائی۔ نظریہ اضافت کے مطابق بھی سورج زمین میں اسراع پیدا کرتا ہے اور اس اسراع کا رخ سورج کی طرف ہی ہوتا ہے۔ فرق تشریح کا ہے اور حساب کا ہے۔ آئنسٹائن کا حساب زیادہ صحیح ہے۔ اس لئے عام طور پر سپیس ٹائم میں خم سیاروں اور ستاروں کی گردش کو سمجھنے میں کوئی خاص اضافہ نہیں کرتا۔

اتنا ضرور ہے کہ سیارہ عطارد کی گردش خالص طور پر بیضوی نہیں ہے۔ اور نظریہ اضافت کی دریافت سے پہلے سائنسدان حیران تھے کہ سیارہ عطارد کیوں نیوٹن کے نظریات کے مطابق گردش نہیں کرتا۔ آئنسٹائن کے نظریہ نے اس مسئلے کو حل کردیا۔ یہاں پر جو تیسری تصویر دی گئی ہے اس میں سیارہ عطارد کی گردش کو دکھایا جا رہا ہے۔

اس سلسلے میں یہ بات یاد رکھیں، چاہے نیوٹن کا نظریہ لیں یا آئنسٹائن کا، نیوٹن کے پہلے کلئے کے مطابق مرکز گریز قوت اور گریوٹی دونوں ضروری ہیں، کسی کو یہ غلط فہمی نہیں ہونی چاہئے سپیس ٹائم کا خم بذات خود (بغیر مرکز گریز قوت کے) ان گردشوں کی تشریح کرسکتا ہے۔

سوال نمبر 4: سیاروں، ستاروں اور سیارچوں کی محوری گردش (Spin) کی کیسے تشریح کی جائے؟ 

جواب: اوپر جو اصول بیان کئے گئے ہیں اس حساب سے جب کوئی چیز متحرک ہوتی ہے تو وہ ہمیشہ متحرک ہوتی ہے جب تک کہ کوئی رگڑ اس کو روک نہ دے۔ یہ محوری گردش ایک حرکی توانائی ہے۔ چونکہ یہ کرّے خلا میں تیر رہے ہوتے ہیں اس لئے کوئی رگڑ ان کو روکنے والی نہیں ہوتی۔ اس لئے ایک بار یہ محوری گردش کرنا شروع کریں تو پھر اسی طرح گھومتے رہتے ہیں۔ ہر کرہ ایک مادہ ہے جو کسی نہ کسی بڑے سیارے یا سپرنوا سے الگ ہوا، یا گیسوں کے جمع ہونے سے ہوا ہے۔ کمیت کے اس طرح جمع ہونے کے عمل میں یا کسی دوسرے مادے سے الگ ہونے کے عمل میں ان کے مجموعی angular momentum ان کی spin کا بھی سبب بنتی ہے۔

سوال نمبر 5: زمین کا سورج کے گرد گھومنا سمجھ میں آتا ہے، چاند کا زمین کے گرد گھومنا بھی سمجھ میں آتا ہے۔ سورج کس طرح کہکشاں کے گرد گھومتا ہے؟

جواب: سورج یا تمام ستارے اپنی اپنی کہکشاؤں کے مرکز کے گرد گھومتے ہیں۔ اول تو یہ جان لیں کہ کہکشاؤں کے مرکز میں ایک بڑا بلیک ہول ہوتا ہے لیکن اس کی کمیت اتنی زیادہ نہیں ہوتی کہ وہ پوری کہکشاں کو اپنے گرد گھما سکے۔ یہاں پر حسابی طور پر یوں مانا جائے گا کہ پوری کی پوری کہکشاں میں پائے جانے والے ستاروں کی کمیت کی مجموعی کشش ثقل کا مرکز کہکشاں کا مرکز ہے۔ یہ حساب کو سادہ بنانے کے لئے ہے ورنہ کہکشاں میں پایا جانے والا ہر ہر ستارہ دوسرے ستارے کو کھینچ رہا ہوگا اور اس کا حساب ناممکن حد تک پیچیدہ ہوگا۔ لیکن اس کو ایسے simplify کیا جاسکتا ہے کہ کہکشاں کے درمیان کہکشاں کی مجموعی Net effective gravity ہوتی ہے۔

سوال نمبر 6: چاند زمین کے گرد چکر لگاتا ہے، سورج کے گرد کیوں نہیں جب کہ سورج کی گریوٹی زمین سے زیادہ ہے؟

جواب: سورج کی کمیت زمین کی کمیت سے تین لاکھ تیس ہزار گنا زیادہ ہے اور چاند کا سورج سے فاصلہ زمین کے فاصلے سے چار سو گنا زیادہ ہے۔ اس اعتبار سے چاند پر زمین کی کشش کے مقابلے میں سورج کی کشش زیادہ اثر انداز ہوتی ہے۔ اس اعتبار سے چاند کو سورج کے گرد گھومنا چاہئے۔ درحقیقت چاند سورج کے گرد بھی گھومتا ہے اور زمین کے گرد بھی۔ چونکہ کائنات کے دیکھنے کا ہمارا حوالہ زمین رہی ہے اس لئے ہم اس پر غور نہیں کرتے۔ جب زمین سورج کے گرد گھومتی تو چاند بھی تو اس کے ساتھ ساتھ سورج کے گرد گھوم رہا ہوتا ہے اور زمین کے گرد اس کا چکر اضافی گردش ہوتی ہے۔ اس کو مزید سمجھنے کے لئے تصویر نمبر چار ملاحظہ فرمائیں جو کہ سورج کے گرد چاند کے چکر کو بھی واضح کرتی ہے۔ اس تصویر میں بیضوی شکل میں جو اضافی اتار چڑھاؤ ہے وہ چاند کا اختیار کردہ راستہ ہے۔ لیکن سمجھانے کے لئے اس اتار چڑھاؤ میں مبالغہ کیا گیا ہے ورنہ پورے بیضوی مدار میں یہ اتار چڑھاؤ اتنا ہلکا ہے کہ یہ تقریباً بیضوی راستہ ہی بنتا ہے۔

تبصرے بند ہیں۔