سوشل میڈیا کا منظم استعمال وقت کی اہم ضرورت 

منورسلطان ندوی

گذشتہ دودہائیوں میں سوشل میڈیانے عالمی انقلابات میں جوزبردست کردار اداکیاہے،وہ اہل فکرونظرسے مخفی نہیں نہیں، تیونس کے انقلاب سے لے کرمصروشام کے انقلاب تک سوشل میڈیاکی کارفرمائی ظاہرہے، گذشتہ چندماہ قبل ترکی میں صدرجب اردگان کے خلاف ہونے والے زبردست انقلاب کی ناکامی بھی اسی سوشل میڈیاکی مرہون منت ہے،خودہمارے ملک میں متعددایسے واقعات ہیں جنہیں ملکی میڈیانے نظرانداز کیا، مگر سوشل میڈیامیں خبروائرل ہونے کی وجہ سے اصل میڈیاکواس کی طرف توجہ دینی پڑی۔

سوشل میڈیاکی حیرت انگیزقوت اورناقابل تصوراثر کی وجہ سے دنیاکی ہرقوم، اورمختلف نظریات کے علمبرداراپنے افکار ومعتقدات (ideology) کوموثرطریقہ پرلوگوں تک پہونچانے کے لئے ان ذرائع کااستعمال پوری منصوبہ بندی کے ساتھ کررہے ہیں، خودسیاسی جماعتیں اپنی پارٹیوں کے اثرونفوذکوبڑھانے اوراپنی پارٹی کو کامیابی سے ہمکنارکرنے کے لئے ان ذرائع کااستعمال بڑی چابکدستی سے کررہی ہیں، اوراس مقصدکے لئے اپنے بجٹ کابڑاحصہ خرچ کرہی ہیں، گذشتہ الیکشن میں زعفرانی پارٹی کی کامیابی کے اسباب میں سے ایک اہم سبب اس سوشل میڈیاکی کیمیااثری کوبھی سمجھا گیاہے۔

اس تناظرمیں غورکیاجائے تواندازہ ہوگاکہ اس بارے میں مسلمانوں کاکیا حال ہے،پرنٹ میڈیااورالیکٹرانک میڈیاکی طرح یہاں بھی مسلمانوں کا وجود صفر کے برابرہے، ایسانہیں کہ مسلمان سوشل میڈیاکی اہمیت سے واقف نہیں ہیں، اورنہ ایسا ہے کہ مسلمانوں کا بڑاطبقہ اس سے جڑانہیں ہے،لیکن بحیثیت مجموعی سوشل میڈیاپراس کی سرگرمیوں کامرکزتفریحی پروگراموں اورکسی قدرخبروں کےعلاوہ اورکیاہے،اصل میں یہ مسئلہ عوام کانہیں بلکہ خواص امت کاہے،انہیں یہ طے کرناچاہیے کہ سوشل میڈیاجیسے اہم، موثر اورطاقتورذرائع کے بارے میں مسلمانوں کاموقف کیاہو،سوشل میڈیاکی شکل میں ایک طاقت ورمیڈیادنیاکوملا،دنیاکے اہل دانش اس سے بھرپورفائدہ اٹھارہے ہیں، لیکن مسلمان جنہیں امت دعوت ہونے پرنازوفخرہے،وہ دین کے پیغام کوپہونچانے کے لئے اس سے کیافائدہ اٹھا رہے ہیں، یہ موجودہ وقت کاسب سے بڑاالمیہ ہے،یہ ذرائع اگرصرف برائی کے لئے مخصوص ہوتے توبھی اس  کے بارے میں سوچناچاہیے، اور اس کے تدارک کی حکمت عملی اپناناچاہیے،چہ جائیکہ یہ ذرائع خیراورشردونوں کامنبع ہیں، اس کادروازہ جس طرح شرکی تشہیروترسیل کے لئے کھلاہواہے اسی طرح خیرکی نشرو اشاعت کے لئے بھی کھلا ہواہے، مسلمانوں کی حرماں نصیبی اس سے زیادہ اورکیاہوگی کہ چندہزارافرادتک اپنی بات پہونچانے کے لئے لاکھوں روپئے خرچ کرتے ہیں، لیکن اربوں کھربوں افرادتک اپنی بات پہونچانے کی جوسہولت چندسوروپئے میں مل رہی ہے، اس کی طرف کوئی توجہ نہیں ہوپارہی ہے۔

سوشل میڈیاموجودہ وقت میں دنیاکاسب سے بڑاپلیٹ فارم ہے،جنہیں مسلمان دین کی دعوت کے لئے استعمال کرسکتے ہیں، جن کے ذریعہ لاکھوں افراد تک نہ صرف اسلام کی تعلیمات پہونچاسکتے ہیں بلکہ ان کے ذہنوں میں موجودشکوک وشبہات کے کانٹوں کوبھی نکال سکتے ہیں، سکون کی تلاش میں لاکھوں انسان بھٹک رہے ہیں، انہیں ساحل مراد تک پہونچانامسلمانوں کی ذمہ داری ہے، اورسوشل میڈیااس کے لئے بہترین ذریعہ ہوسکتاہے،اس لئے سطحی مقاصداورمحض معلومات کے حصول یامعلومات کے تبادلہ کے بجائے دعوتی سرگرمیوں کے لئے ان ذرائع کے استعمال کی منصوبہ بندی کی ضرورت ہے،اورمنظم طریقہ پراس سمت اقدام کرناوقت کااہم ترین تقاضہ ہے۔

اسلام دشمن طاقتوں نے اسلام اورمسلمانوں کے خلاف ہرزہ سرائی اور زہر افشانی کے لئے سوشل میڈیاکوایک منظم محاذ بنارکھا ہے، اسلام اورمسلمانوں کے خلاف سب سے زیادہ یلغار آج اسی سوشل میڈیاپرہے،مذہب کے تعلق سے جوباتیں پہلے اشارہ کنایہ میں بھی نہیں کہی جاتی تھیں آج کھلم کھلاکہی جارہی ہیں، حقائق کومسخ کرکے دنیا کے سامنے پیش کی جارہی ہیں، اسلام اورمسلمانوں کی شبیہ کوداغدارکرنے میں پور توانائی صرف کی جارہی ہے،ایسی صورت حال میں کیایہ ضروری نہیں ہے کہ باطل کی فریب کاریوں کاپردہ اسی سوشل میڈیاپرچاک کیاجائے،اسلام اورمسلمانوں سے متعلق جو غلط پروپیگنڈہ کیا جارہاہے اس کاجواب اسی اندازسے دلائل اورحقائق کی روشنی میں دیا جائے، انسانیت کے پیغام کوعام کرنے کے لئے اس پلیٹ فارم کاخوب خوب استعمال کیا جائے۔

آج وقت کی پکاریہی ہے کہ اس اہم ترین ذریعہ کودینی تعلیمات کی اشاعت کے لئے،بے دینی کے خاتمہ کے لئے،سماجی برائیوں کے ازالہ کے لئے، منصوبہ بندطریقہ سے استعمال کیاجائے،سوشل میڈیاکے بے تکے استعمال سے نوجوانوں کو روکا جائے،انہیں ان ذرائع کامفیداستعمال بتایاجائے،یہ ذہن بنایا جائے کہ ان ذرائع کو اپنی ذات کے لئے، اپنے ادارہ کے لئے،اپنی قوم کے لئے اوراپنے وطن کے لئے مفید طریقہ سے کیسے استعمال کرسکتے ہیں۔

اسی کے ساتھ دینی اداروں، جماعتوں اورتنظیموں کے لئے بھی ضروری ہے کہ اس سلسلہ میں سنجیدگی سے سوچیں، دعوت اوراصلاح کے ان وسائل کونظراندازکرنایابے توجہی برتناکسی طرح عقلمندی نہیں ہے،دعوتی مقاصدکے تحت ان ذرائع کا بھرپور استعمال ہوسکتاہے،ہمارے علمی ورثہ میں ہراعتراض کامدلل اوراطمینان بخش جواب موجود ہے، ہمیں صرف آج کی زبان میں انہیں پیش کرناہے،میڈیاسے متعلق چندپروفیشنل کی خدمات حاصل کی جائیں تواس میدان میں بڑاکام ہوسکتا ہے،آج مسلم نوجوانوں میں دینی کتابوں سے بے رغبتی عام ہے،آنے والی نسلیں کتابوں سے مزیددورہوں گی، مگر ان کی انگلیاں کی بورڈ(keyboard)پرزیادہ متحرک ہوں گی،موجودہ نسل اورآئندہ کی نسلوں کودین سے واقف کرانے کے لئے ان ذرائع کواستعمال کئے بغیرکوئی چارہ نہیں ہے۔

سوشل میڈیاکی ایک بڑی خوبی یہ ہے کہ یہ موجودہ وقت کاسب سے سستا میڈیا ہے، کم پیسوں میں اسے استعمال کیاجاسکتاہے،اورکم وقت میں اس سے بڑاکام لیاجاسکتا ہے،اور اس سے بھی بڑی خوبی یہ ہے کہ جوغلط بات جہاں کہی گئی وہیں اس کاجواب دیاجاسکتا ہے، اس کافائدہ یہ ہے کہ جب بھی کوئی شخص اس موادکوپڑھے گاتومذکورہ اعتراض کے ساتھ ہماراجواب بھی اس کے سامنے ہوگا، اسی طرح ایک اہم فائدہ یہ بھی ہے کہ سوشل میڈیا پر ڈالا گیاکوئی موادختم نہیں کیاجاسکتاہے،اگرڈالنے والااسے ختم بھی کردے توچندسکنڈوں میں وہ بات کہیں سے کہیں پہونچ چکی ہوگی،پھرہرایک کے پاس سے اسے ختم کرناممکن نہیں ہے۔

اس وقت سوشل میڈیاپرکئی طرح سے کام کرنے کی ضرورت ہے :

الف:اسلامی تعلیمات پرمشتمل موادکی ترسیل

۱۔اسلامی تعلیمات اورخصوصاان حصوں کوجن میں دبے کچلے اورمظلوم افراد کے لئے بڑی کشش ہے،موثراندازمیں پیش کیاجائے۔

۱۔امن وسلامتی،انسانیت دوستی،اورمذہبی رواداری سے متعلق اسلامی تعلیمات اور اسلامی تاریخ وہندوستانی تاریخ کے سچے واقعات کواچھے اسلوب میں پیش کیاجائے۔

اس طرح کے موادکوچھوٹے مضامین کی شکل میں سوشل نیٹورکنگ کی مختلف سائٹوں مثلافیس بک،بلاگ،انسٹاگرام،وغیرہ پرپیش کیاجائے، اسی طرح ان موضوعات پرچھوٹے چھوٹے ویڈیو بنا کریوٹیوپ پراپلوڈ کیا جائے۔

ب:اسلام اورمسلمانوں سے متعلق پھیلائی جانے والی غلط فہمیوں کاجواب تحریراورویڈیو دونوں شکلوں میں تیارکرکے سوشل میڈیاکی مختلف سائٹوں پرانہیں داخل کیاجائے۔

ج:مختلف سائٹوں پرجہاں جہاں اسلام مخالف موادموجودہے وہاں تبصرہ کے خانہ میں اس کامختصرجواب لکھاجائے،اورایسے موادکوناپسند (Unlike) کیاجائے، اسی طرح ایسی سائٹوں کے خلاف متعلقہ سائٹ کی کمیونیٹی سے شکایت کی جائے۔

د:الیکٹرانک میڈیاکے ذریعہ اسلام اورمسلمانوں کے خلاف پیش کی جانے والی شرانگیزیوں کا تعاقب کیاجائے،اوراس کاجواب سوشل میڈیاکے ذریعہ دیاجائے۔

ہ:مسلمانوں سے متعلق بہت سے مسائل کو اخبارات اورالیکٹرانک میڈیا نظر اندازکرتے ہیں، ان مسائل اورایشوزکوسوشل میڈیاکے ذریعہ عوام تک لانے کی کوشش کی جائے کہ اپنے مسائل کواگرمسلمان خودنہیں پیش کریں گے تودوسراکون کرے گا۔

اورسب سے اہم یہ کہ سوشل میڈیاکے تعلق سے تعلیم یافتہ نوجوانوں کی ذہن سازی کی جائے،اورانہیں سوشل میڈیاکے ذریعہ دعوتی سرگرمیوں کے وسیع امکانات سے واقف کرایاجائے،انہیں بتایاجائے کہ اپنی مصروفیات کے ساتھ وہ کس طرح دین کی بہترین خدمت انجام دے سکتے ہیں۔

سوشل میڈیاپر جتنی طاقت سے اپنی بات کہنے کی سہولت ہے اتنی ہی طاقت سے اس کے نقصان کابھی امکان ہے،اس لئے اس کام میں منصوبہ بندی بہت ضروری ہے، باصلاحیت اورذہین نوجوان کواس کام کی تربیت دینااو ٹیکنیکل ماہرین کے تعاون کے اس محاذپرمنظم اوربھرپورطریقہ سے سرگرم ہونا اور میڈیائی جنگ سے مقابلہ کے لئے میدان میں آنابیحد ضروری ہے،اگراس وقت اس جانب خاطرخواہ توجہ نہیں دی گئی تواس سے جوناقابل تلافی نقصان ہوگااس کااندازہ مشکل ہے۔

توادھرادھرکی نہ بات کر،یہ بتاکہ قافلہ کیوں لٹا

مجھے رہزنوں سے گلہ، نہیں تری رہبری کاسوال ہے

تبصرے بند ہیں۔