ملت اسلامیہ پر جدیدترین دفاعی ٹیکنالوجی کا حصول واجب ہے

اللہ بخش فریدی

دین اسلام امن و سلامتی کا علمبردار ہے اور بلا وجہ کسی سے چھیڑ خوانی اور جنگ کرنے کی اجازت نہیں دیتا۔ مگر آج خود کو محفوظ رکھنے اور دنیا میں دیرپا امن کے قیام کیلئے طاقت میں توازن ہونا ضروری ہے۔اگر طاقت میں توازن نہیں تو کوئی ملک اپنے آپ کو محفوظ تصور نہیں کر سکتا۔کیونکہ سامراج بدست ہاتھی بنا ہے ، اور وہ طاقت کے گھمنڈ میں بپھرا ہوا ہے۔ وہ کسی وقت بھی اپنے گماشتوں کے ساتھ مل کر ان کا گھیراؤ کر سکتا ہے۔اگر ہم ایٹمی طاقت نہ ہوتے تو نائن الیون کے بعد سامراج اور طاغوتی قوتیں پاکستان کو کبھی معاف نہ کرتیں، یہ ہمارا ایٹم بم ہی تھا جس نے ہمیں مشرق و مغرب کی طاغوتی قوتوں سے محفوظ رکھا۔ پاکستان کی سرزمین اور پاکستان کی عوام کا باعزت تحفظ اسی کی مرحون منت ہے، یہ پاکستان کی مضبوط دفاعی اور فوجی قوت ہی ہے جس نے مخالفین کے جارحانہ قدموں میں زنجیر ڈال رکھی ہے۔

افغانستان ، عراق، شام ، لیبیا کے عوام سے جا کر پوچھیں کہ ملکوں کے پاس مضبوط فوجی و دفاعی نظام نہ ہونے سے ملک کس طرح رسواء ہوتے ہیں۔ اگر عراق کے پاس ایٹمی قوت ہوتی تو نہ ہی اسرائیل اس پر حملہ آور ہوتا اور نہ امریکہ و اتحادی صدام کے ملک کی اینٹ سے اینٹ جرات و جسارت کرتے۔ لیبیا کے کرنل قذافی نے عالمی دباؤ کے سامنے ہتھیار ڈالتے ہوئے اپنا ایٹمی پروگرام رول بیک کر دیااور ا یٹمی بھٹیا ں بھی اٹھا کر امریکہ کے حوالے کردیں تو آج قذافی اور لیبیا کہاں ہے؟ اگر لیبیا ایٹمی قوت ہوتا تو کسی کو اس خوشحال ملک کو تباہ کرنے کی شہ نہ ملتی۔ یوکرائن نے عالمی امن کی محبت میں اپنا ایٹمی پروگرام رول بیک کردیا تو آج وہ روس اور امریکہ کے ہاتھوں ذلیل و رسواء ہو رہا ہے۔ افغانستان ، عراق، لیبیا، شام کا حشر اور ان کے برعکس شمالی کوریا اور ایران کی مثال آپ کے سامنے ہے۔

شمالی کوریا جس کا سامراج نے نصف صدی سے زیادہ عرصہ سے گھیراؤ کر رکھاہے مگر وہ قوت میں ان کے متوازن ہونے کی وجہ سے آج تک محفوظ ہے اورکسی نے اس سے ٹکر لینے کی جرات نہیں کی۔یہ دراصل ان کی دفاعی مضبوطی کے باعث ہے جس سے امریکی سامراج اور خطے میں موجود اس کے گماشتے خوفزدہ ہیں۔ ایران کے پاس بھی ایک مضبوط فوجی و دفاعی نظام ہونے کی بنا کسی نے اس سے ٹکر لینے کی جسارت نہیں کی۔ اگر یہ توازن اور دفاعی مضبوطی نہ ہوتی تو آج شمالی کوریا اور ایران کا حشر بھی افغانستان، عراق، شام اور لیبیا جیسا ہو چکا ہوتا۔

ہر ملک کو اپنے دفاع کا حق حاصل ہے تاکہ وہ اپنی ترقی اور عوام کا تحفظ کر سکے۔ اولاً تو ایٹمی اسلحہ دنیا بھر سے ختم ہو نا چاہیے اور اس سلسلہ میں کسی سے امتیاز نہیں برتا جانا چاہیے۔اگر امریکا، برطانیہ، روس، اسرائیل ، انڈیا و دیگر ممالک اگر اپنے ایٹمی اسلحے کے ذخائر کو تلف کرنے پر راضی نہیں ہیں تو انہیں کوئی حق نہیں پہنچتا کہ وہ دوسرے ممالک کو اپنی حفاظت کے لئے کیے جانیوالے اقدامات سے روکے، مگر اس سلسلہ میں امریکی سامراج اور اس کے حواریوں کی منافقت دنیا بھر پر عیاں ہے۔ اور وہ خاص طور پر اسلام اور اہل اسلام کے خلاف اپنی حرکتوں سے باز نہیں آتے اور ہر وقت کوئی نہ کوئی سازشیں کرتے رہتے ہیں اور مسلمانوں کو اپنے دفاع ، سلامتی و بقاء، دین حق کی بالادستی قائم رکھنے اور دشمن کی چاپلوسیوں، فتنہ انگیزیوں اور تسلط سے محفوظ رہنے کی خاطر اپنے دفاع کو مضبوط بنانے اور ان کے متوازن قوت پیدا کرنے کے سوا اور کوئی چارہ نہیں رہا۔ اس لیے اسلام میں جنگ سے قبل اپنے آپ کو دشمن کے مقابلہ کیلئے تیار رکھنا اور حتیٰ المقدور جنگی سازو سامان جمع کرنا اور ایک منظم فوجی و جہادی قوت قائم کرنا، ماحول اورحالات کے مطابق مؤثرقوت و طاقت ( ہتھیاروں اور سواریوں ) کا حصول واجب بلکہ انتہائی ضروری قرار دیا گیا ہے۔ جیسا کہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے

وَاَعِدُّوْا لَھُمْ مَّا اسْتَطَعْتُمْ مِّنْ قُوَّۃٍ وَّ مِنْ رِّبَاطِ الْخَیْلِ تُرْھِبُوْنَ بِہٖ عَدُوَّ اللّٰہِ وَ عَدُوَّکُمْ وَاٰخَرِیْنَ مِنْ دُوْنِھِمْ لَا تَعْلَمُوْنَھُمْ اَللّٰہُ یَعْلَمُھُمْ o

’’اور ان( دشمنانِ اسلام) کے مقابلہ کیلئے تیار رکھو جو قوت تمہیں بن پڑے اور جتنے گھوڑے باندھ سکتے ہو باندھو کہ اس سے ان کے دلوں میں رعب بٹھاؤ جو اللہ کے اور تمہارے دشمن ہیں اور ان کے سوا کچھ اوروں کے دلوں میں بھی جنہیں تم نہیں جانتے، اللہ انہیں خوب جانتا ہے۔‘‘ (الانفال 60:)

اگر اس آیت مبارکہ کے حوالے سے دیکھا جائے تو پوری ملتِ اسلامیہ پر جدید ترین ایٹمی اسلحے ، میزائل ٹیکنالوجی، تیز ترین جنگی فائٹر طیاروں ، بم باروں، آبدوزوں اور وسیع پیمانے پر تباہی پھیلانے والے مہلک ہتھیاروں کا حصول واجب ہے۔ اس کی کئی وجوہات ہیں۔ ایک وجہ تو یہ ہے کہ یہ اللہ عزوجل کا فرمان ہے کہ تم اپنے دشمنوں کے مقابلہ کیلئے جتنی قوت و طاقت تیار کر سکتے ہو کرو اور جتنے گھوڑے باندھ سکتے ہو باندھو۔ اگر ماحول اور حالات کی مناسبت سے دیکھا جائے تو انہی چیزوں میں ہماری بقاء ہے۔ اگر ہم ایسا نہیں کریں گے تو نہ صرف اللہ تعالیٰ کے حکم کی خلاف ورزی ہو گی بلکہ ہم دشمن کے مقابلہ میں بھی انتہائی کمزور رہیں گے ، دشمن کی سازشوں ، فتنہ انگیزیوں، چاپلوسیوں اور تسلط سے کبھی محفوظ نہیں رہیں گے اور وہ جب چاہے گا ہمیں اچک لے جائے گا اور صفحہ ہستی سے مٹا دے گا۔

دوسری بڑی وجہ یہ ہے کہ ہمارے (اسلام) کے ازلی دشمن سامراجی و صہیونی قوتوں کے پاس بے شمار ایٹمی، کیمیائی اور وسیع پیمانے پر تباہی پھیلانے والے مہلک ہتھیار موجود ہیں ۔ اگر ہمارے پاس ایسے ہتھیار نہیں ہوں گے تو طاقت کا توازن بگڑجائے گا اور جب طاقت کا توازن بگڑ جائے گا تو زمین میں بہت بڑا فتنہ پیدا ہو جائے گا۔ ہم غیر محفوظ ہو جائیں گے، مقابلہ کرنا مشکل ہو گا۔ گویا پھر ہم دشمن کے رحم و کرم پر ہوں گے وہ جب چاہے گا ہماری اینٹ سے اینٹ بجا دے گا اور اپنا تسلط قائم کر لے گا،آج جس طرح افغانستان، عراق، شام، لیبیا و فلسطین ان کے تسلط میں ہیں۔ مشرقی وسطیٰ کی مثال لیں کہ عرب ممالک کے پاس فلسطین اور دیگرعرب علاقوں پر قابض یہودی درندوں کے مقابلہ کی طاقت، منظم فوجی قوت موجود نہیں تو وہ اپنی من مانیاں کر تے پھر رہے ہیں جب چاہتے ہیں جہاں چاہتے ہیں حملہ کر دیتے ہیں کوئی ان کو روکنے والا نہیں، کوئی ملک بھی ان کی چاپلوسیوں اور فتنہ انگیزیوں سے محفوط نہیں۔ لہٰذا دشمن کے تسلط اور فتنہ انگیزیوں سے محفوظ رہنے اور دنیا میں دیرپا امن کے قیام کیلئے طاقت میں توازن پیدا کرنا ضروری ہے۔ طاقت میں توازن پیدا کیے بغیر دنیا میں امن کا قیام مشکل ہی نہیں بلکہ ناممکن ہے۔

تبصرے بند ہیں۔