مولانا آزادؒ کے سائنسی مضامین اور مسلمان (دوسری قسط)

تحریر: ڈاکٹر وہاب قیصر،ترتیب: عبدالعزیز

 اردو میں ابتدا سے تکنیکی موضوعات پر مسلسل لکھنے والے گنے چنے لوگ ہی گزرے ہیں ۔ اکثر ایسے نثر نگار ملیں گے جو کسی سائنسی ایجاد، دریافت یا بہت بڑا واقعہ جیسے خلاء کی تسخیر، چاند پر انسانی قدموں کی پہنچ وغیرہ کو موضوع بنا کر اس سے متعلق معلومات و تفصیلات پر کچھ لکھا اور قارئین کی نذر کیا، لیکن مولانا ابوالکلام آزاد نے ایسے ایسے انوکھے اور اچھوتے موضوعات اور عنوانات پر قلم اٹھایا ہے کہ اس کی نظیر نہیں ملتی۔

چنانچہ مولانا آزاد کی وہ تحریریں جو ’’الندوہ‘‘ کی زینت بنی ہیں ان میں سائنسی موضوع پر صرف ایک مضمون ’’یورپ میں گونگوں کی تعلیم‘‘ شامل رہا ہے۔ یہ مولانا آزاد کے قلم سے نکلا ہوا ایک منفرد انداز کا مضمون ہے۔میرے خیال میں اردو میں اس موضوع پر شاید ہی کسی نے قلم اٹھایا ہو۔ یہ صرف ایک رپورٹ پر مشتمل نہیں ہے بلکہ گونگے پن کی کتنی قسمیں ہوتی ہیں ۔ ان کے اسباب کیا ہوسکتے ہیں ۔ ان کی تفصیلات کان کی فزیا لوجی کو پیش نظر رکھ کر فراہم کی گئی ہیں ۔ مولانا موصوف نے گونگے شخص کو اندھے سے بھی زیادہ قابل رحم قرار دیا ہے۔ وہ اس لئے کہ اندھا صرف ایک قوت سے محروم ہوتا ہے جبکہ گونگا، بہرا بھی ہوتا ہے جس کی دو قوتیں ناکارہ ہوتی ہیں ۔ ’’یورپ میں گونگوں کی تعلیم‘‘ مارچ 1906ء کے شمارہ میں شائع ہوا تھا۔ اس کے ایک اقتباس سے پتہ چلے گا کہ طبی تحقیقات کی روشنی میں گونگے پن کے اسباب کیا ہوسکتے ہیں :

 ’’فزیالوجی کی تحقیقات نے ثقل سماعت کے مختلف اسباب قرار دیئے ہیں ، بعض حالتوں میں کان کی بناوٹ میں کوئی نقص پیدا ہوجاتا ہے یا سماعت کے اندرونی اعضا میں سے کوئی عضو ضعیف ہوجاتا ہے، بعض حالتوں میں کوئی مادہ اس طرح حائل ہوجاتا ہے کہ آواز کی موجیں عصب سماعت تک نہیں پہنچ سکتیں ، اس لئے ذہن ان سے متاثر نہیں ہوتا‘‘۔

  لیکن یورپ کی عام طبی تحقیقات سے خلقی ثقل سماعت کے چار بڑے سبب دریافت ہوئے ہیں ۔

  (1  بہت قریبی رشتہ میں باہمی تزوج۔  (2  خاندانی اثر بطور وراثت کے۔  (3  والدین کا جسمانی ضعف یا صرف ماں باپ کا۔  (4  مرض خنازیر۔

 مولانا آزاد کے وہ سائنسی مضامین جو ماہنامہ ’’خدنگ نظر‘‘ اور ’’الندوہ‘‘ میں شائع ہوئے تھے ان کی حصولیابی بہت کٹھن ثابت ہوئی۔ ’الہلال‘ اور ’البلاغ‘ کے تمام شمارے چونکہ عکسی جلدوں کی شکل میں محفوظ ہیں اس لئے وہ آسانی کے ساتھ دستیاب ہوسکے، لیکن ’خدنگ نظر ‘ 1902ء اور 1903ء کے شماروں کے علاوہ ’الندوہ‘ کے شماروں کی تلاش کیلئے کافی محنت اور عرصہ درکار ہوا۔ اس دوران ملک کی مشہور لائبریریوں کے علاوہ حیدر آباد کے تمام کتب خانوں ، شخصی ذخائر کتب و رسائل کے ساتھ ساتھ اردو شعر و ادب سے دلچسپی رکھنے والی کئی معتبر شخصیتوں سے ان پرچوں کی بابت استفسار کیا گیا۔ جہاں تک خدنگ نظر کے ان شماروں کا تعلق ہے جن میں سائنسی مضامین شائع ہوتے تھے وہ کس سنہ اور ماہ کے تھے اس کا تو علم پہلے ہی ہوچکا تھا لیکن الندوہ کے کس شمارے میں مضمون کی اشاعت عمل میں آئی تھی وہ ابتدا میں ایک ثابت ہوئی۔ صرف اس بات کا پتہ چل سکا تھا کہ الندوہ کے شمارہ نمبر (6) میں مولانا آزاد کا مضمون بعنوان ’’یورپ میں گونگوں کی تعلیم‘‘ شائع ہوا تھا۔ آخر کار چھان بین کے بعد الندوہ کے اس شمارے کا پتہ خدا بخش لائبریری، پٹنہ میں چل گیا اور خدنگ نظر 1902ء کے دو شمارے انڈین کونسل فار کلچرل ریلیشنز، آزاد بھون، نئی دہلی میں قائم گوشۂ آزاد سے دستیاب ہوئے۔ الندوہ کے شمارے میں شائع شدہ مضمون کی زیروکس کاپی حاصل کی گئی جبکہ خدنگ نظر کے شماروں میں شائع شدہ مضمون کی کاپی حاصل کرنے کیلئے بہ نفس نفیس آزاد بھون، نئی دہلی میں کچھ وقت گزارنا پڑا۔

 خدنگ نظر 1903ء کے وہ دو شمارے جن میں مولانا آزاد کا مضمون ’’ضؤ غیر مرئی‘‘ شائع ہوا تھا ان کی تلاش قریب دو سال تک جاری رہی تب کہیں جاکر اس کا حصول ممکن ہوسکا۔ دوران مطالعہ کسی کتاب سے پتہ چلا کہ مولانا آزاد کے تحریر کردہ مضامین ابو سلمان شاہجہاں پوری کتاب ’’ارمغانِ آزاد‘‘میں شائع ہوئے ہیں ۔ تب سے میری تمام تر جستجو اس کتاب کی تلاش تک محدود ہوگئی۔ خدنگ نظر اور الندوہ کی تلاش میں جو جو جتن کئے گئے تھے وہ سارے جتن ’’ارمغان آزاد‘‘کی تلاش میں کئے گئے۔ یہاں تک کہ اس کتاب کی دستیابی کے ماخذ کا پتہ لگانے کیلئے ایک ابو سلمان شاہجہاں پوری کو پاکستان میں لکھا گیا اور ان سے درخواست کی گئی کہ وہ اس جانب رہنمائی فرمائیں ، لیکن وہاں سے کوئی جواب نہیں آیا۔ اس طرح وقفہ وقفہ سے ’ارمغانِ آزاد‘ کی تلاش جاری رہی۔ اتفاق کی بات ہے کہ حیدر آباد ہی میں اردو کے ایک اسکالر کے پاس سے وہ کتاب دستیاب ہوئی جس نے اپنی ڈاکٹریٹ کیلئے ریسرچ کے دوران اس کتاب کو کہیں سے حاصل کیا تھا۔ جب کتاب کا مطالعہ کیا تو پتہ چلا کہ خدنگ نظر کے وہ پرچے ابوسلمان شاہجہاں پوری کی نظر سے ہی نہیں گزرے؛ البتہ اس میں یہ اشارہ ضرور ملا کہ وہ عبدالقوی دسنوی کی نظر سے گزرے تھے۔ تب میں نے عبدالقوی دسنوی صاحب سے بھوپال میں رجوع کیا جس پر انھوں نے اس ضعیفی کے باوجود ان شماروں کو تلاش کرنے کا وعدہ کیا۔ پھر ایک دن انھوں نے مولانا آزاد کے طبع شدہ مضمون ’’ضؤ غیر مرئی‘‘ کی زیروکس کاپی بذریعہ ڈاک مجھے بھیج دی۔ اس دن میری خوشی کا کیا عالم تھا وہ میں ہی جانتا ہوں جیسے کہ بہت بڑا خزانہ میرے ہاتھ لگ گیا ہو۔ اس عنایت کیلئے میں عبدالقوی دسنوی صاحب کا ممنون ہوں کہ انھوں نے میری تلاش و جستجو کو کامیابی سے ہمکنار کیا۔ تب ہی تو مولانا آزاد کے سائنسی موضوعات پر لکھے گئے تمام مضامین اکٹھا ہوسکے اور کتابی شکل میں پیش کئے جاسکے۔

مولانا آزاد کی زیر ادارت ہفتہ وار’ ’الہلال‘‘ 13جولائی 1912ء کو کلکتہ سے جاری ہوا۔ 18نومبر 1914ء کی اشاعت کے بعد انگریز حکومت کی پابندیوں کے سبب اس کی اشاعت مسدود کر دینی پڑی۔ ’الہلال‘ کی اشاعت کے پہلے دور کے اختتام کے بعد مولانا آزاد نے ایک سال تک نہ تو کوئی اخبار نکالا اور نہ ہی کسی اخبار سے وابستہ رہے۔ ان کی زیر ادارت ’’البلاغ‘‘ کا پہلا شمارہ 12نومبر 1915ء کو جاری ہوا مگر اس کی اشاعت بہت جلد یعنی 31مارچ 1916ء کو مسدود ہوگئی۔ بظاہر ’البلاغ‘ ہفتہ وار ’الہلال‘ کا ہی ایک سلسلہ تھا جو نئے نام سے اردو دنیا میں متعارف ہوا تھا۔ الہلال کا دوسرا دور اس وقت شروع ہوا جب اس کا شمارہ 10 جون 1927ء کو نکلا۔ مولانا آذاد کی سیاسی مصروفیات اور حکومت کی زیادتیوں کی وجہ سے اس کو بند کر دینا پڑا۔ اس طرح دوسرے دور میں اس کا آخری شمارہ 9 دسمبر 1927ء کو جاری ہوا۔

  قارئین کو سائنسی علوم اور اس کی تحقیقات، ایجادات اور دریافتوں سے آگہی پیدا کرنے کیلئے مولانا آزاد نے خود اپنے اور قارئین کے تحریر کردہ مضامین کو اس کے صفحات میں جگہ دی۔ سائنسی مضامین کا سلسلہ1913ء میں اس وقت شروع ہوا جب مولوی احمد علی صاحب نے گجرات سے ایک مراسلہ لکھا تھا۔ اس میں انھوں نے ’’ریڈیم‘‘ کی بابت یورپ کے رسائل میں شائع ہونے والے مضامین کے حوالہ سے ایڈیٹر سے خواہش کی تھی کہ وہ اس کی دریافت اور اس کے خواص پر الہلال میں تحریر فرمائیں ۔ چنانچہ مولانا آزاد نے ریڈیم پر مضمون لکھا اور کالم ’’مذاکرۂ علمیہ‘‘ میں مراسلہ کے ساتھ 26فروری 1913ء کے الہلال میں شائع کیا۔

 الہلال کے دوسرے دور میں مولانا آزاد کے قلم سے ’’ریڈیم- خزانۂ فطرت کا سب سے کمیاب جوہر‘‘ بھی شائع ہوا۔ علم طبیعیات پر مشتمل ان کے مضامین کے علاوہ مواصلات پر مولانا کے مضامین ’’نامہ برکبوتر‘‘ اور ’’لاسلکی کا راز‘‘ شائع ہوئے۔ علم فلکیات پر ان کے مضامین ’’غرائب الافلاک‘‘ اور ’’عالم سماوی‘‘ الہلال کے صفحات کی زینت بنے۔ علم کیمیا پر ’’صفحۃ من تاریخ الکیمیا‘‘ اور حیاتیات پر ’’الحیات‘‘۔ ’’صفحۃ من الحیوان‘‘۔ ’’علم نباتات و حیوانات‘‘۔ ’’جے سی بوس، روح نباتات اور احساس‘‘۔ ’’زمین پر کائناتِ حیات کا آغاز‘‘ اور نشو و ارتقاء پر مضامین کی اشاعت عمل میں آئی۔ علم طب پر مولانا آزاد کے دو مضامین ’’شراب کا اثر حیوانات پر‘‘ اور ’’خطرناک مکھی‘‘ شائع ہوئے۔ انھوں نے ’’طبقات الارض‘‘ کے زیر عنوان خالص اور نظریات پر مبنی سائنسی مضمون لکھا جس میں زمین کے مختلف طبقات و مراتب کا احاطہ کیا تھا۔ اس مضمون کیلئے مولوی محمد قاسم صاحب عثمانی نے مستند کتابوں کا مطالعہ کرکے اس کا مواد مولانا آزاد کو فراہم کیا تھا۔ ٹکنالوجی پر مولانا کے مضامین ’’ہوائی ریل‘‘ اور ’’تار پیڈو‘‘شائع ہوئے۔ علم جغرافیہ اور مہم جوئی پر دائرۂ قطب شمالی‘‘ اور قطب جنوبی کیلئے ’’اسکاٹ کی مہم‘‘ جیسے مضامین نکلے۔

 مولانا آزاد کے تحریر کردہ سائنسی مضامین کے مطالعہ سے پتہ چلتا ہے کہ وہ ان مضامین کی تیاری میں سائنسی کتابوں کے علاوہ انگریزی کے مشہور اخبارات اور رسائل گلوب، گریفک، سائنٹفک امریکن اور میکانک سے استفادہ کیا کرتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ ان اخباروں کے مضمون نگار، نامہ نگار اور رپورٹرز کے حوالے جا بجا ملتے ہیں ۔

 ’’الہلا‘‘ 2 اپریل 1913ء کے شمارے میں ’’الحیات‘‘ کے عنوان سے مولانا آزاد کا ایک مضمون شائع ہوا تھا۔ اس مضمون میں برسہا برس سے بنی نوع انسان کے ذہن میں اٹھنے والے سوال ’’حیات کیا ہے؟‘‘ کا ٹھوس بنیادوں پر جواب حاصل کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ اس غرض کیلئے برطانوی ماہر فزیالوجی، ایڈنبرا یونیورسٹی کے پروفیسر شیفر کے اس عنوان پر منعقدہ جلسہ میں دیئے گئے صدارتی خطبہ کے اقتباسات اور ماہرین حیاتیات کی مختلف کتابوں کے حوالے درج کئے گئے ہیں ۔ فطرت میں پائے جانے والے ذی روح مادوں اور غیر ذی روح مادوں کا تقابل کیا گیا ہے۔ جمادات اور ذی حیات مادوں کے فرق کو واضح کرنے کیلئے سیر حاصل بحث کی گئی ہے۔ اس مضمون کا ایک اقتباس پیش کیا جاتا ہے۔

   ’’اکثر لوگ سمجھتے ہیں کہ حیات کا ضد موت ہے، مگر یہ ایک شدید غلطی ہے، موت کا لفظ حیات سابقہ پر دلالت کرتا ہے، گو دلالت التزامی ہے، یعنی موت اس وقت ہوگی جبکہ پہلے حیات ہو‘‘۔

علم وظائف الاعضاء ہمیں بتاتا ہے کہ موت کا شمار مظاہر حیات میں ہے، موت بھی زندگی کا ایک دور ہے مگر آخری اور انتہائی۔

  اس کے علاوہ تضاد کیلئے احد الضدین کا وجود ہر حالت میں ضروری ہے، مگر ہم دیکھتے ہیں کہ مثلاً جمادات نہ زندہ ہیں اور نہ مردہ، اس لئے حیات کا شمار ان کلمات میں کرنا چاہئے، جو اضداد نہیں رکھتے۔

عام طور پر یہ سمجھا جاتا ہے کہ ’’نفس‘‘ و ’’حیات ‘‘ دونوں ایک ہی چیزیں ہیں ، اس خیال کا منشا غالباً یہ ہے کہ نفس کا تصور اس وقت تک نہیں ہوسکتا جب تک کہ اس کے ساتھ حیات کا تصوربھی نہ کیا جائے، اس کے علاوہ تصورِ نفس میں جس قدر ارتقاء ہوا ہے وہ زندہ اجسام کے ترقی یافتہ ترین مظاہر حیات کے مطالعہ سے ہوا ہے۔

  گو یہ خیال عالم گیر ہے مگر کسی خیال کا شیوہ اس کی صحت کی دلیل نہیں ، نفس و حیات میں کامل فرق ہے اور یہ فرق اس وقت تک نہیں جاسکتا جب تک کہ نفس کے معنی میں اس حد تک وسعت نہ پیدا کی جائے، جہاں پہنچ کے ’’نفس‘‘ اپنے مابہ الامتیاز معانی سے محروم ہوجائے۔ یہ اس لئے کہ جن مسائل کا تعلق ’’حیات‘‘ سے ہے، ضرور ان کا تعلق مادہ سے بھی ہے، پس حیات کا وجود بمعنی علمی بغیرمادے کے ناممکن ہے، اس کے علاوہ مظاہر حیات اور مظاہر مادہ کے طرق بحث ایک ہی ہیں ۔

  مظاہر حیات کے نتیجہ بحث سے معلوم ہوتا ہے کہ ’’حیات‘‘ پر بھی انہی قوانین کی حکومت ہے جن کی حکومت جمادات پر ہے، جس قدر ہمارا مطالعہ مظاہر حیات عمیق ہوتا جاتا ہے، اسی قدر ہم اس نظریہ (تھیوری) کے اعتقاد سے قریب اور گزشتہ نظریہ یعنی مخصوص مگر غیر معلوم اسباب کی طرف انتساب سے دور ہوتے جاتے ہیں ۔ پر اگر نفس و حیات دونوں مرادف ہوں گے تو اس کے معنی یہ ہوں گے کہ مباحث نفس بھی مباحث مادہ سے اسی قدر قریب ہیں جس قدر کہ مباحث حیات قریب ہیں ؛ حالانکہ ان دونوں علوم کے مباحث میں وہ نسبت ہے جو خط قطر کے دونوں کنارے میں ہے‘‘۔   (جاری)

تبصرے بند ہیں۔