مولانا آزادؒ کے سائنسی مضامین اور مسلمان (تیسری قسط)

تحریر: ڈاکٹر وہاب قیصر، ترتیب: عبدالعزیز

  3جون 1914ء کے ’الہلال‘ میں مولانا آزاد کا ایک مضمون ’’صفحۃ من تاریخ الکیمیاء‘‘ شائع ہوا تھا جس میں تاریخ کی روشنی میں ، بنیادی عناصر کیا ہیں ؟ پر بحث کی گئی تھی۔ ماہرین کا ایک گروہ پانی  کو اور دوسرا ہوا اور آگ کو عناصر مانتا تھا۔ ایک تیسرا گروہ خاک کے حق میں تھا۔ اس طرح عناصر کے متعلق نظریات بدلتے رہے اور آج جن کیمیائی عناصر پر پوری کیمسٹری اساس کرتی ہے اس کے ماننے سے قبل ایک بہت بڑا دور ایسا گزرا ہے جس میں عناصر اربعہ یعنی آگ، ہوا، پانی اور مٹی کو عناصر مانا جاتا تھا۔

  مولانا آزاد کے قلم سے ایک مضمون ’’اختلاف الوان-صفحۃ من علم الحیوان‘‘ نکلا تھا جو الہلال کے صفحات پر دو اقساط میں شائع ہوا۔ اس میں یہ واضھ کیا گیا ہے کہ کرۂ ارض پر پائے جانے والے جمادات، نباتات اور حیوانات کے رنگوں میں فرق کا پایا جانا صرف ایسے ہی نہیں ہوتا بلکہ اس کے پیچھے کوئی نہ کوئی راز ضرور پوشیدہ رہتا ہے۔ قرآنی آیات کی روشنی میں مولانا نے ان رنگوں میں پائے جانے والے فرق کو قدرتِ الٰہی کی حکمتیں اور مصلحتیں قرار دیا جن کو صاحبان عقل و فکر ہی سمجھ سکتے ہیں ۔ یہ بھی بتلایا کہ ماہرین کی رائے میں کسی بھی شئے کا رنگ ان اجزا کے رنگ کا نتیجہ قرار پاتا ہے جن سے وہ ترکیب  پاتے ہیں ۔ یکم جولائی 1914ء کے شمارے میں شائع شدہ اس مضمون کی دوسری قسط سے یہ صاف ظاہر ہوتا ہے:

 ’’مادی اشیاء خواہ وہ حیوانات ہوں یا نباتیات و جمادات، ان کیلئے اکثر حالتوں میں رنگ لازمی ہے۔ حیوانات اور نباتات ایک طرف رہے، جمادات میں بھی بمشکل کوئی ایسی مثال ملے گی جس کا پانی اور بعض خاص غازوں (گیس) کی طرح کوئی خاص رنگ نہ ہو؛ چونکہ تمام حیوانات اور نباتات کے رنگوں کا موجود ہونا ضروری ہے؛ البتہ ہماری آنکھوں کو صرف وہی رنگ نظر آتا ہے جو جسم کی بالائی سطح سے قریب ہوتا ہے، مگر جب کسی جسم کی تشریح کی جاتی ہے تو اس میں ان تمام جمادات کے رنگ یا ان کے آثار نظر آجاتے ہیں جن سے ان کا قوام مرکب ہوتا ہے۔

 علم الحیات کی اصطلاح میں حیوانات کی ایک قسم پروٹوزوا (Protozoa) حیوانات اولیٰ ہے، جس قسم کے حیوانات پر اس اصطلاح کا اطلاق ہوتا ہے ان کی نسبت ایک اہم سوال یہ ہے کیا درحقیقت وہ سلسلۂ حیوانات کا اولین حلقہ ہیں یا ان سے پہلے بھی کوئی اور کڑی ہونی چاہئے۔ قطعی جواب تو اس کا کوئی نہیں دیا گیا اور غالباً دیا بھی نہیں جاسکتا؛ البتہ معلومات موجودہ یہ مسلم ہے کہ اس وقت تک جس قدر حیوانات دریافت ہوئے ہیں ان سب میں بسیط ترین اور اولین حیوان یہی ہیں‘‘۔

 الہلال میں ملک کے مایہ ناز سائنس داں جگدیش چندر بوس کی علم نباتات میں تحقیقات اور حاصلات پر محیط تفصیلات تین اقساط میں شائع ہوئی ہیں، جس سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ حیوانات کی طرح نباتات بھی احساسات رکھتے ہیں اور ان کے اعصاب نہایت ہی چھوٹے چھوٹے ریشوں پر مشتمل ہوتے ہیں۔ اس مضمون میں بافتوں کے سکڑاؤ (Muscle Contraction) کی روشنی میں چھوئی موئی کے پودوں میں پائی جانے والی حسیت کا جائزہ لیا گیا ہے۔ مضمون کی آخری قسط 5اگست 1914ء کے شمارے میں شائع ہوئی ہیں۔

 انسان کی استفہامیہ نظریں سب سے پہلے آسمان کی طرف اٹھتی ہیں، یہاں تک کہ جب بچے بولنا سیکھتے ہیں تو سب سے پہلے اپنے بڑوں سے جو سوالات کرتے ہیں وہ عام طور پر آسمان، چاند اور ستاروں سے متعلق ہی ہوتے ہیں ؛ جبکہ زمین پر کی اشیاء کے بارے میں استفسار بڑے ہونے کے بعد کرتے ہیں۔

 دور بین کی ایجاد نے اجرام فلکی کے مشاہدہ میں کافی وسعت پیدا کر دی اور فلکیات میں نت نئی انکشافات کا سلسلہ شروع ہوگیا۔ مولانا آزاد کا ایک مضمون ’’غرائب الافلاک‘‘ کے عنوان سے 7 و 14 جنوری 1914ء کے الہلال میں شائع ہوا تھا۔ اس مضمون میں ایک مقام پر وہ لکھتے ہیں :

 ’’حیوان اور انسان دونوں ایک ہی شے کو دیکھتے ہیں۔ وہ شے اگر حیوان کیلئے ضرورت کی ہوتی ہے اور اس کو اس وقت اس شے کی حاجت بھی ہوتی ہے تو وہ رکتا ہے اور اس سے متمتع ہوتا ہے، ورنہ ایک غلط انداز نظر ڈالتا ہوا گزر جاتا ہے۔

  لیکن انسان بہر حال رکھتا ہے اور سوچتا ہے کہ یہ کیا ہے؟ کہاں سے آئی؟ کیونکر آئی؟ وغیرہ وغیرہ۔  یہی شے ہے جس کو ’’تجسس و تفحص‘‘ کہتے ہیں اور یہی انسان کے تمام علوم و معارف کا سرچشمہ اور اس کے مساعی و مجاہدات فکریہ کا محرک اصلی ہے اور اسی لئے قرآن کریم نے جا بجا تدبر و تفکر پر زور دیا ہے۔

  لیکن یہ کیسی عجیب بات ہے کہ اس تجسس کے عمل کا آغاز زمین اور اس کے قرب و جوار کی اشیاء کے بدلے سب سے پہلے آسمان سے ہوتا ہے‘‘۔

  اسپیکٹرا اسکوپ ایک ایسا آلہ ہے جس کی مدد سے اجرام فلکی کی ہیئت اور نوعیت کا پتہ لگایا جاتا ہے۔ اس کیلئے جامعہ عثمانیہ نے ’’طیف پیما‘‘ اور مقتدرہ پاکستان نے ’’طیف نما‘‘ اصطلاح مدون کی تھی۔ مولانا آزاد نے اس کیلئے اصطلاح کیا ہونی چاہئے اس پر حاشیہ میں تفصیل سے روشنی ڈالی ہے:

 ’’یہ نام دو لفظوں سے مرکب ہے۔ ایک اسپیکٹرا اور دوسرا اسکوپ ۔ اسپیکٹرا جمع ہے، اسپیکٹرم کی جو ایک لاطینی نژاد کلمہ ہے۔ اسپیکٹرم کے لغوی معنی ہیں وہ مختلف رنگ جو آنکھیں بند کرنے کے بعد نظر آتے ہیں ،مگر اصطلاح میں نور کے ان رنگوں کو کہتے ہیں ، جو ایک مثلث آلہ کے ذریعہ سے ، جسے Prism کہتے ہیں جدا کرکے اس طرح دکھائے جاتے ہیں ، گویا وہ کسی جالی پر پھیلا دیئے گئے ہیں ۔ اسکوپ کے معنی ہیں ’’نما‘‘ پس اسپیکٹرا اسکوپ کے لفظی معنی ہوئے ’’الوان نور نما‘‘ اور یہی اس آلہ کی تعریف ہے۔

 لیکن ’الوان نور نما‘ کی ترکیب طویل و ثقیل تھی۔ اگر نور حذف کر دیا جائے اور الوان کو رنگ سے بدل دیا جائے تو یہ ’’رنگ نما‘‘ ہوسکتا ہے۔ یہ ترکیب سبک و سہل ہے اور بآسانی زبانوں پر جاری ہوسکتی ہے۔ اسی لئے میں نے صرف رنگ نما کو اختیار کیا؛ البتہ اس صورت میں معنی لغوی معنی اصطلاحی سے کسی قدر عام ہوں گے مگر تداون و استعمال سے اس نقص کی تلافی ہوجائے گی اور تھوڑے عرصے کے بعد ’رنگ نما‘ سے بھی اسی طرح خاص آلہ متبادر ہونے لگے گا، جس طرح کہ آج خورد بین، دوربین، مرغ باد نما، وغیرہ سے خاص خاص آلات ہی متبادر ہوتے ہیں ‘‘۔

  مولانا آزاد کا ایک مضمون الہلال کے 12 اگست 1927ء کے شمارے میں بعنوان ’’زمین پر کائنات حیات کا آغاز‘‘ شائع ہوا تھا۔ اس میں زمین پر زندگی کا آغاز کب اور کس طرح ہوا؟ اور زمین کی حالت موجودہ صورت اختیار کرنے سے پہلے کیا تھی؟ اور اس پر انقلاب کے کتنے دور گزر چکے ہیں ؟ جیسے اہم سوالات پر بحث کی گئی ہے۔

  ’’عالم سماوی‘ کیا ستارے زندگی سے محروم ہیں ‘‘ کے عنوان پر مولانا کا ایک مضمون 14اکتوبر 1927ء کے شمارے میں شائع ہوا تھا، جس میں ماہرین فلکیات گروہوں کے نظریات کے پیش نظر اس گتھی کو سلجھانے کی کوشش کی گئی ہے کہ کیا کائنات میں زندگی کے آثار، زمین کے علاوہ دوسرے سیاروں پر بھی ہوسکتے ہیں ؟ اس بات کے امکانات پر بھی غور کیا گیا کہ زمین پر زندگی کیلئے جن اجزا کی ضرورت ہوتی ہے وہ دوسرے سیاروں پر مختلف ہو۔ یہ بھی ممکن ہے کہ کہیں کہیں پر دوسری ہی قسم کی زندگی ہو اور وہ فہم و فراست میں ، ترقی میں کردۂ ارض پر بسنے والوں سے بہت آگے ہوں ۔

 میڈیکل سائنس کے موضوع پر مولانا آزاد کا ایک مضمون بعنوان ’’شراب کا اثر حیوانات پر‘‘ 2ستمبر 1914ء کے شمارے میں شائع ہوا تھا۔ اس مضمون میں یہ بات واضح کی گئی تھی کہ شراب کے مضر اثرات صرف انسانوں پر ہی نہیں بلکہ جانوروں پر بھی ہوتے ہیں ۔ کتوں اور بلیوں پر کئے گئے مغربی طبی ماہرین کے تجربات کی روشنی میں یہ انکشاف کیا گیا کہ شراب کا مسلسل استعمال ان میں بزدلی، پست ہمتی، کاہلی اور خوف و ہراس پیدا کرتا ہے اور ان کی نسل مردہ، بیمار اور کمزور ہوتی ہے۔ مولانا آزاد اس مضمون کے کی شروعات کچھ اس طرح کرتے ہیں:

 ’’شراب کی مذمت مختلف طریقوں سے کی گئی ہے، لیکن اس کی مذمت میں سب سے زیادہ عام اور متداول فقرہ یہ ہے کہ ’’انسان شراب کے نشے میں انسان نہیں رہتا بلکہ جانور بن جاتا ہے‘‘۔

  لیکن سوال یہ ہے کہ خود جانور بھی شراب کی بدمستی میں جانور باقی رہتا ہے یا نہیں ؟

 جدید طبی اختیارات سے ثابت ہوگیا ہے کہ شراب حیوانات کی قوتِ شعور اور حس و ادراک میں بہت بڑا انحطاط پیدا کر دیتی ہے۔ اس لئے وہ باغیان احکام شریعت، جو شراب کے نشے میں چور رہتے ہیں ، فی الحقیقت اسی درجہ کے جانور ہیں، جن کے پست درجہ کو شراب اور بھی پست ترکر دیتی ہے: ’’ان ہم الا کالانعام بل ہم اضلا سبیلا‘‘۔ وہ لوگ بالکل جانور ہیں بلکہ ان سے بھی گمراہ تو!‘‘

مولانا آزاد ایک مقام پر حدیث مبارکہ کی روشنی میں اور جدید طبی تحقیق کے حوالے سے انسانی صحت پر شراب کے مضر اثرات کا ذکر کرتے ہیں:

 ’’اسلام ایک دین الٰہی و فطری ہے۔ فطرت کے قوانین کے انکشاف کے ساتھ اس کے اسرار و مصالح بھی روز بروز نمایاں ہوتے جاتے ہیں ‘‘۔

 آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک شخص نے پوچھا کہ ہم لوگ سرد ملک کے رہنے والے ہیں اور اعمال شاقہ میں مصروف رہتے ہیں ۔ ہم کو حرارت اور قوت و نشاط کی زیادہ ضرورت ہے، اس لئے ہم لوگ گیہوں کی شراب پیتے ہیں ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ’’کیا وہ نشہ آور ہے؟ انھوں نے کہاکہ ’’ہاں !‘‘ آپؐ نے سختی کے ساتھ ان کو ممانعت کردی‘‘۔

 جدید طبی تحقیقات آج حرف بحرف اس کی تائید کرتی ہے۔ انسان کے نظام عصبی پر شراب کا جو اثر پڑتا ہے اس کا بھی مختلف طریقوں اور مختلف آلات سے تجربہ کیا گیا ہے‘‘۔

اس مضمون میں یہ بات بتائی کہ شراب میں غذائیت نہیں ہوتی بلکہ اس کے اثرات سے انسانی جسم کے وہ اعضا جو غذا سے توانائی حاصل کرتے ہیں اپنے عوامل سے باز رہتے ہیں اور انسانی صحت پر برے اثرات مرتب کرتے ہیں۔

   فطرت میں جہاں انواع و اقسام کے جاندار پائے جاتے ہیں وہیں سمندر کی دنیا بھی مختلف اقسام کی مچھلیوں، جانداروں اور حشرات سے بھری پری ہے۔ چند مچھلیاں ایسی بھی ہوتی ہیں جن کے تیرنے کے دوران ان میں برقی طاقت پیدا ہوتی ہے جس کا مظاہرہ اس وقت ہوتا ہے جب کوئی دوسرا جاندار ان مچھلیوں سے حالت تماس میں آتا ہے۔ یہ مچھلیاں اپنی خصوصیت سے شکار کو برقی شاک دے کر اپنے قابو میں کرلیتی ہیں تاکہ انھیں اپنا نوالہ بنا سکیں۔ ان مچھلیوں میں تار پیڈو، برقی رہے، ستارہ بیں اور برقی ایل قابل ذکر ہیں ۔ فطرت کی عجائب روزگاری پر مولانا آذاد نے اپنے مضمون ’’برقی مچھلیاں ‘‘ میں تفصیل سے روشنی ڈالی ہے جو ’الہلال‘ کے شمارے 24جون 1927ء میں شائع ہوا تھا۔ اس مضمون کے مطالعہ سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ دنیا میں جتنی بھی مخلوقات وقوع پذیر ہوئی ہیں انھیں قدرت کی طرف سے کوئی نہ کوئی قوت ایسی ضرور ملی ہے جس کو وہ حفاظت خود اختیاری کے طور پر استعمال کرتے ہوئے ایک طرف اپنے دشمن کے شر سے محفوظ رہ سکتی ہیں اور دوسری طرف وہ اس قوت کو استعمال کرتے ہوئے اپنے شکار کو زیر کرسکتی ہیں تاکہ وہ ان پر زندہ رہ سکیں۔  (جاری)

2 تبصرے
  1. آصف علی کہتے ہیں

    یورپ میں نشاة ثانیہ کی تحریک اور اصلاح مذاہب کی تحریکوں نے مسیحیوں کو ذہنی طور پر باشعور کیا اور مسیحیت کو زیادہ سے زیادہ عقلی بنیادوں پر قائم کرنے کی کوشش کی گئی۔احیا علوم اور اصلاحی تحریکوں نے آزادی فکر کے راستے ہموار کئے, جس نے بعد میں مذہب کو ریاست سے الگ کر دیا۔فرانس میں والٹیر اور اس کے ساتھیوں نے انقلابی سوچ کو پروان چڑھایا جبکہ روسوؔ نے انسان کو فطرتی آزادی کا پیغام دیا۔اسی دور میں یورپ نے سائنسی تحقیق کے میدان میں بھی لازوال کارنامے سرانجام دیے جس سے تمام انسانیت مستفید ہوئی۔امریکہ کی دریافت نے نئی دنیا کی تشکیل کی طرف قدم بڑھایا اور سرمایہ داری نظام نے اپنی جڑیں مظبوط کیں۔بڑی استعماری قوتوں نے مظلوم قوموں کو غلام بنایا اور ان کے وسائل کو بے دردی سے لوٹا۔مگر مغرب میں اٹھتے ہوے فکری آزادی کے طوفان نے پورے یورپ کو اپنی لپیٹ میں لے لیا اور ہر طرف علم کا دور دورہ ہو گیا۔اسی اثنا میں امریکہ کی دریافت اور انقلاب فرانس نے فیصلہ کن کردار ادا کیا اور نئے دور کا آغاز ہوا۔انسانی حقوق اور آزادی کے چارٹر سامنے آئےاور ایک تدریجی عمل سے گزر کر یورپی ذہن نے پختگی حاصل کی۔یورپ کی فکری آزادی میں مغربی فکر اور فلسفہ کو بہت اہم مقام حاصل ہے, ان فلسفیوں میں ڈیکارٹ سے کر ہیگل تک نے فکری سفر میں اپنا کردار ادا کیا۔یہ بات قابل غور ہے ک ان فلسفیوں میں بہت کم نے ملحد ہونے کا دعوی’ کیا جبکہ آہستہ آہستہ مسیحیت کو اپنے رنگ میں رنگتے رہے,جس نے بعد میں مسیحیت کی عقلی صورت حال کو واضح کیا۔لاک ،ہیوم ،نطشے ،ہیگل فیورباغ ،شوپنہار ،برگساں ہوبس اور مارکس نے فکر اور عمل کے نئے راستے استوار کئے۔اگر یہ کہا جائے کے ان علوم کی روشنی میں مغربی ذہن ایک مثبت مشق سے گزرا تو غلط نہ ہو گا۔
    دوسری طرف اگر اسی تناظر میں ہم مسلمانوں کے ذہنی ارتقا کی طرف دیکھیں تو ایسی کوئی حرکیاتی سوچ نظر نہیں آتی۔مشرق میں مغربی علوم نوآبادیات کے ساتھ ہی آئے اور ان سے مسلمانوں نے کوئی زیادہ استفادہ بھی نہیں کیا۔برطانیہ جو دنیا کا سب سے بڑا سامراج تھا جہاں بھی گیا اپنی تہذیب کو کمزور قوموں پر نقش کرتا گیا اور اسلامی تہذیب ان میں سے ایک تھی۔مسلم ممالک میں زیادہ سے زیادہ یہ ہوا کہ مذہب کا استعمال کرتے ہوے اس نئی مغربی تہذیب کے علوم کا مقابلہ کرنے کے لئے علم کلام کو نکال کر باہر لے آئے..ان میں فکری آزادی نام کی کوئی چیز موجود نہ تھی نہ کوئی علمی نوعیت کی درسگاہیں تھیں اور بد قسمتی سے نہ ہی کوئی ایسے اہل علم پیدا ہوئے جو مسلمانوں کو روشن خیالی کے راستے پر چلاتے۔اگر ہم مجدد الف ثانی،شاہ والی اللّه،سید احمد، رضا خان بریلوی اور اس کے بعد کے عہد میں جمال الدین افغانی٫مولاناابوالکلام آزاد، سید قطب ،محمّد عبدہ،حسن البنا، ابو الاعلی مودودی،آیت اللہ خمینی اور استاذ علی شریعتی کو دیکھیں تو یہ سب فکری آزادی تو دور فکر پر پہرے لگانے والوں میں سے تھے۔ان کی زندگی کا صرف ایک مقصد تھا ک جدید تہذیب اور علوم کو اسلامی لباس پہنا دیا جائے مگر یہ نظریہ شدید طور پر ناکام ہوا۔اس کے برخلاف اسلامی دنیا میں ایسے لوگ سامنے نہ آسکے جو مسلمانوں کو تعصبات سے نجات دلا کر ان کو جدید دنیا میں عزت کا مقام عطا کرواتے۔
    آج کی مسلم دنیا پر نظر دوڑائیں تو مسلمان مظلومیت کی تصویر بنے ہوئے ہیں مغرب ان کو چیرنے پھاڑنے کے لئے تیار بیٹھا ہے مگر ان کی غفلت اور فکری جمود میں کوئی کمی واقع نہیں ہوئی بلکہ ان کو مزید شدت پسند بنایا گیا ہے. تاکہ مذموم مقاصد کی تکمیل ہو سکے۔اس پسماندگی کے عمل میں نہ صرف استعماری طاقتیں ملوث ہیں بلکہ اسلامی ممالک کے اپنے حکمران بھی شریک ہیں۔اگر مسلمانوں نے اپنی روش نہ بدلی تو آنے والا وقت اتنا بھیانک اور تاریک ہو گا کہ اس کا اندازہ اس وقت لگانا مشکل ہے۔مسلمانوں کو دو محازوں پر ترقی کرنے کی اشد ضرورت ہے پہلی تعصبات سے نجات حاصل کر کے فکری آزادی کا راستہ اختیار کرنا دوسرا استعماری طاقتوں سے نبرد آزما ھونا۔جب تک سائنسی علوم میں خود مختاری اور اصولوں کی ترویج نہ کی گئی تب تک عزت اور وقار کا خواب شرمندہ تعبیر نہیں ہو گا۔.

  2. آصف علی کہتے ہیں

    یورپ میں نشاة ثانیہ کی تحریک اور اصلاح مذاہب کی تحریکوں نے مسیحیوں کو ذہنی طور پر باشعور کیا اور مسیحیت کو زیادہ سے زیادہ عقلی بنیادوں پر قائم کرنے کی کوشش کی گئی۔احیا علوم اور اصلاحی تحریکوں نے آزادی فکر کے راستے ہموار کئے جس نے بعد میں مذهب کو ریاست سے الگ کر دیا۔فرانس میں والٹیر اور اس کے ساتھیوں نے انقلابی سوچ کو پروان چڑھایا جبک روسو نے انسان کو فطرتی آزادی کا پیغام دیا۔اسی دور میں یورپ نے سائنسی تحقیق کے میدان میں بھی لازوال کارنامے سرانجام دیے جس سے تمام انسانیت مستفید ہوئی۔امریکہ کی دریافت نے نئی دنیا کی تشکیل کی طرف قدم بڑھایا اور سرمایہ داری نظام نے اپنی جڑیں مظبوط کیں۔بڑی استعماری قوتوں نے مظلوم قوموں کو غلام بنایا اور ان کے وسائل کو بے دردی سے لوٹا۔مگر مغرب میں اٹھتے ہوے فکری آزادی کے طوفان نے پورے یورپ کو اپنی لپیٹ میں لے لیا اور ہر طرف علم کا دور دورہ ہو گیا۔اسی اثنا میں امریکہ کی دریافت اور انقلاب فرانس نے فیصلہ کن کردار ادا کیا اور نیے دور کا آغاز ہوا۔انسانی حقوق اور آزادی کے چارٹر سامنے آے اور ایک تدریجی عمل سے گزر کر یورپی زہن نے پختگی حاصل کی۔یورپ کی فکری آزادی میں مغربی فکر اور فلسفہ کو بہت اہم مقام حاصل ہے ان فلسفیوں میں ڈیکارٹ سے کر ہیگل تک نے فکری سفر میں اپنا کردار ادا کیا۔یہ بات قابل غور ہے ک ان فلسفیوں میں بہت کم نے ملحد ہونے کا دعوع کیا جبک آہستہ آہستہ مسیحیت کو اپنے رنگ میں رنگتے رہے جس نے بعد میں مسیحیت کی عقلی صورتحال کو واضح کیا۔لاک ،ہیوم ،نطشے ،ہیگل فیورباغ ،شوپنہار ،برگساں ہوبس اور مارکس نے فکر اور عمل کے نیے راستے استوار کئے۔اگر یہ کہا جائے کے ان علوم کی روشنی میں مغربی زہن ایک مثبت مشق سے گزرا تو غلط نہ ہو گا۔
    دوسری طرف اگر اسی تناظر میں ہم مسلمانوں کے ذہنی ارتقا کی طرف دیکھیں تو ایسی کوئی حرکیاتی سوچ نظر نہیں آتی۔مشرق میں مغربی علوم نوآبادیات کے ساتھ ہی آے اور ان سے مسلمانوں نے کوئی زیادہ استفادہ بھی نہیں کیا۔برطانیہ جو دنیا کا سب سے بڑا سامراج تھا جہاں بھی گیا اپنی تہذیب کو کمزور قوموں پر نقش کرتا گیا اور اسلامی تہذیب ان میں سے ایک تھی۔مسلم ممالک میں زیادہ سے زیادہ یہ ہوا ک مذهب کا استعمال کرتے ہوے اس نئی مغربی تہذیب کے علوم کا مقابلہ کرنے کے لئے علم کلام کو نکال کر باہر لے آے۔ان میں فکری آزادی نام کی کوئی چیز موجود نہ تھی نہ کوئی علمی نوعیت کی درسگاہیں تھی اور بد قسمتی سے نہ ہی کوئی ایسے اہل علم پیدا ہوے جو مسلمانوں کو روشن خیالی کے راستے پر چلاتے۔اگر ہم مجدد الف ثانی،شاہ والی اللّه،سید احمد، رضا خان بریلوی اور اس کے بعد کے عہد میں جمال الدین افغانی، سید قطب ،محمّد عبدہ،حسن البنا، ابو االامودودی،آیت اللہ خمینی اور استاذ علی شیریعتی کو دیکھیں تو یہ سب فکری آزادی تو دور فکر پر پہرے لگانے والوں میں سے تھے۔ان کی زندگی کا صرف ایک مقصد تھا ک جدید تہذیب اور علوم کو اسلامی لباس پہنا دیا جائے مگر یہ نظریہ شدید طور پر ناکام ہوا۔اس کے برخلاف اسلامی دنیا میں ایسے لوگ سامنے نہ ا سکے جو مسلمانوں کو تعصبات سے نجات دلا کر ان کو جدید دنیا میں عزت کا مقام عطا کرواتے۔
    آج کی مسلم دنیا پر نظر دوڑائیں تو مسلمان مظلومیت کی تصویر بنے ہوے ہیں مغرب ان کو چیرنے پھاڑنے کے لئے تیار بیٹھا ہے مگر ان کی غفلت اور فکری جمود میں کوئی کمی واقع نہیں ہوئی بلک ان کو مزید شدت پسند بنایا گیا ہے تاک مذموم مقاصد کی تکمیل ہو سکے۔اس پسماندگی کے عمل میں نہ صرف استعماری طاقتیں ملوث ہیں بلک اسلامی ممالک کے اپنے حکمران بھی شریک ہیں۔اگر مسلمانوں نے اپنی روش نہ بدلی تو آنے والا وقت اتنا بھیانک اور تاریک ہو گا ک اس کا اندازہ اس وقت لگانا مشکل ہے۔مسلمانوں کو دو محازوں پر ترقی کرنے کی اشد ضرورت ہے پہلی تعصبات سے نجات حاصل کر کے فکری آزادی کا راستہ اختیار کرنا دوسرا استعماری طاقتوں سے نبرد آزما ھونا۔جب تک سائنسی علوم میں خود مختاری اور اصولوں کی ترویج نہ کی گئی تب تک عزت اور وقار کا خواب شرمندہ تعبیر نہیں ہو گا۔

تبصرے بند ہیں۔