کیا قرآن زمین کے مسلسل پھیلاؤ کی بات کرتا ہے؟

 ڈاکٹر احید حسن

ملحدین کہتے ہیں کہ اسلام کا سائنس سے کوئی تعلق نہیں اور اسلام کو سائنس سے جوڑنے کی کوششیں ناکام ہیں۔ اگر اسلام کو سائنس سے جوڑنے کی کوششیں ناکام  ہوتیں تو آج کے انتہائی سائنسی طور پہ جدید اور انقلابی دور میں دنیا کا سب سے زیادہ پھیلنے والا مذہب اسلام اور دنیا میں سب سے کم ہونے والا نظریہ الحاد نہ ہوتا اور جن لوگوں نے عقل و دل کے پردے وا کیے ان پہ بصیرت ضرور آشکار ہوئی۔ یہی وجہ ہے کہ آج مسلمانوں کی تمام تر مغلوبیت کے باوجود اسلام خود اپنے فاتحین میں مقبولیت حاصل کر رہا ہے۔ شرط طلب ہدایت ہے۔ اگر ملحدین کو اس بات سے کوئی مسئلہ ہے تو وہ کبوتر کی طرح آنکھیں بند کرکے اس حقیقت سے راہ فرار اختیار  نہیں کر سکتے۔

جہاں تک بات ہے کہ آسمان کیا ہے، آسمان کی عربی تشریح کیا ہے،عربی میں لفظ آسمان کن کن  معنوں میں استعمال ہوتا ہے تو میں اس پہ پہلے ہی ایک تفصیلی پوسٹ لکھ چکا ہوں۔ ملحدین کو پوچھنے میں دیر ہوئی ہے لیکن الحمدللٰہ ہمیں بتانے میں نہیں۔ اور ہمارا باہمی اختلاف سماء یا آسمان کے عربی لفظ کے حقیقی معنی کے حوالے سے فروعی مسائل میں تو ہوسکتا ہے لیکن مجموعی اعتقادی مسائل میں نہیں۔ ملحدین کو خوش ہونے کی ضرورت نہیں ہے اس پہ۔ اور الحمدللٰہ ہم ثابت کرتے ہیں، کر چکے ہیں اور کرتے رہیں گے اور شکر ہے ہم ایمان کے چنگل میں ہیں اور الحاد کی جہالت اور ضد کے چنگل میں نہیں۔ شکر ہے کہ ہم سبحان اللٰہ کا ورد کرتے ہیں، فانی انسانوں کے قصیدے نہیں پڑھتے۔ ہمیں اس بات پہ فخر ہے.

قرآن مجید کی آیت 21:30 میں مذکور ہے:

"کیا کافر نہیں دیکھتے کہ زمین و آسمان باہم ملے ہوئے تھے، پھر ہم نے ان کو جدا جدا کر دیا۔”

  جہاں تک بات ہے آسمان یعنی کائنات  کے 799•13 بلین سال پہلے وجود میں آنے کی لیکن زمین کے 4•6 بلین سال پہلے وجود میں آنے کی تو یہ اعتراض ملحدین کا صرف اور صرف قرآن کے عربی لفظ سماء یعنی آسمان کے عربی مفہوم کو سمجھنے سے قاصر ہونے کی وجہ سے ہے۔ قرآن میں سماء یعنی آسمان کا لفظ صرف کائنات کے لیے استعمال نہیں ہوتا بلکہ زمین سے نظر آنے والی اس فضا یا نیلی چھت کے لیے بھی استعمال ہوتا ہے جو ہمیں زمین سے نظر آتی ہے۔ لہٰذا یہ کہنا کہ اگر قرآن نے زمین کو آسمان سے الگ کیا تو پھر کائنات چودہ بلین سال پہلے اور زمین صرف چھ بلین سال قبل وجود میں کیسے آئی، بالکل غلط ہے اور دوسری بات یہ کہ قرآن نے لفظ سماوات یعنی کئ آسمان کا لفظ استعمال کیا ہے اور عربی میں لفظ ارض صرف اسی زمین کے لیے استعمال نہیں ہوتا بلکہ قرآن کے مطابق اس زمین جیسی کئ زمینیں ہیں لہٰذا جب قرآن کہتا ہے کہ جب آسمان اور زمین ملے ہوئے تھے اور ہم نے ان کو جدا جدا کر دیا تو اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ صرف یہ زمین اور اس کا آسمان بلکہ قرآن سماوات یعنی کئ آسمان کا لفظ استعمال کرتا ہے لہٰذا قرآن کے بیان کا یہ مطلب نکلتا ہے کہ بگ بینگ سے کئ آسمان اور زمین جو ملے ہوئے تھے ان کو جدا جدا کر دیا گیا۔

اس آیت کا دوسرا مطلب یہ ہوسکتا ہے کہ ابتدا میں ہماری اور باقی  زمینیں باقی کائنات کے ساتھ ضم تھیں جن کو باقی کائنات سے الگ کرکے علیحدہ علیحدہ حیثیت دی گئی۔ اس کا تیسرا مطلب یہ ہوسکتا ہے کہ ابتدا میں خلا یا ظاہری آسمان اور مادی دنیا اکٹھے تھے لیکن بگ بینگ کے ذریعے مادی دنیا کو پھیلا کر ہر ستارے سیارے کے لحاظ سے الگ الگ آسمان یا خلا پیدا کیا گیا اور ہر ستارے یا سیارے کی سطح کو ارض قرار دیا گیا۔ قرآن میں مذکور عربی لفظ سماء یعنی آسمان خود آسمان کے لیے بھی استعمال ہوتا ہے اور کائنات کے لیے بھی۔ چونکہ قرآن کی آیت 41:12 میں مذکور سات آسمان بگ بینگ یا انفجار عظیم کے وقت موجود نہیں تھے ، لہٰذا آیت 21:30 میں مذکور جمع لفظ سماوات یعنی کئ آسمان کی جگہ واحد لفظ لفظ سماء کائنات کی طرف اشارہ کر رہا ہے جس میں تمام زمینیں اور آسمان باہم یکجا تھے جن کو جدا جدا کر دیا گیا، انہی پھیلتی ہوئی گیسوں سے جن سے ستارے سیارے بنے، کائنات کی تخلیق کے سات بلین سال بعد زمین کو بھی تخلیق کرکے علٰیحدہ کر دیا گیا، قرآن یہ بالکل نہیں کہتا کہ زمین کو اسی وقت ہی تخلیق کر دیا گیا بلکہ یہ صرف اتنا کہتا ہے کہ زمین کو آسمان سے الگ کر دیا گیا، لہٰذا جب قرآن نے کہا ہی نہیں کہ ہماری زمین کو بھی اسی وقت تخلیق کر دیا گیا جس وقت بگ بینگ ہوا تو ملحدین خود سے کیسے فرض کر سکتے ہیں کہ جب زمین چھ بلین سال پہلے تخلیق ہوئی تو قرآن نے اس کا تذکرہ تیرہ بلین سال پہلے واقع ہونے والے بگ بینگ یا انفجار عظیم کے ساتھ کیوں کیا، بلکہ یہ مظہر ساتھ ہی ہوا یا بعد میں ہوا، قرآن نے اس بارے میں کوئی بات نہیں کی، لیکن جہاں تک بات ہے زمین کے اسی مادے سے تخلیق ہونے اور کائنات کے دیگر مادے سے علٰیحدہ ہونے کی تو اس بات میں کوئی شک نہیں اور یہ بات قرآن کر چکا ہے، اور آسمان کی تخلیق کے حوالے سے قرآن آیات  41:11 کا بیان کہ آسمان ایک دھواں تھا اور اللٰہ تعالٰی نے اس کو آسمان کی شکل دے دی بالکل سائنس کے مطابق ہے، چونکہ آج سے چودہ سو سال پہلے کوئی بگ بینگ کی ان گرم گیسوں کے گولے کے بارے میں نہیں جانتا تھا لہٰذا قرآن نے اس کے لیے دخان یعنی دھویں کا لفظ استعمال کیا، جو کہ حیرت انگیز طور پہ سائنس کے اس بیان کے بالکل مطابق ہے جس کے مطابق شروع میں کائنات گرم گیسوں کے گولے پہ مشتمل تھی،  عربی میں لفظ سماء بعض اوقات باقی کائنات کے لیے بھی استعمال ہوتا ہے اور آسمان سے مراد اگر باقی کائنات ہے تو 13.799 بلین سال پہلے وجود میں آگئ اور زمین 4-6 بلین سال پہلے۔

یہ سادہ سا نکتہ ہے جس کو ملحدین سمجھنے سے قاصر ہیں۔ لہٰذا قرآن کا بیان سچ ہے کہ زمین و آسمان باہم ملے ہوئے تھے اور ان کو جدا جدا کر دیا گیا، اس سے پہلے کائنات ہائیڈروجن، پروٹان، نیوٹران، ان کے ضد مادی ذرات یا Anti_particles اور شعاعوں یا ریڈی ایشن کے ایک گولے پہ مشتمل تھی جو ایک دھماکے سے الگ ہوگیا اور مادی ذرات چاروں طرف پھیل گئے، چونکہ زمین اور اس کے اوپر موجود آسمان( سورج، چاند، ستارے، سیارے، کہکشائیں دھویں اور گیسوں کے ایک ہی گولے سے بنی ہیں، لہٰذا قرآن کا بیان سائنسی طور پہ بالکل ٹھیک ہے کہ کبھی زمین و آسمان باہم ملے ہوئے تھے اور ان کو جدا جدا کر دیا گیا۔  یہ اس آیت کی ساری تشریح ہے جو ملحدین صرف اس لیے سمجھنے سے قاصر ہیں کیوں کہ وہ عربی زبان سے کورے ہیں۔ پہلے قرآن کی زبان عربی کسی مدرسے سے اچھی طرح سمجھ لیں پھر قرآن پہ سوال اٹھائیں۔

اور جہاں تک بات ہے ملٹی ورس کی تو ملٹی ورس کا نظریہ خود اس وقت تک ایک مفروضاتی نظریہ ہے جس کو کبھی ثابت نہیں کیا گیا بلکہ اس پہ خود سائنس میں بیشمار اعتراضات موجود ہیں۔ پہلے ملٹی ورس ثابت تو کر لیں پھر اعتراض کریں قرآن پہ۔ اور اگر کہتے ہیں کہ ملٹی ورس موجود ہیں تو قرآن تو پہلے ہی کہ چکا ہے کہ الحمدللٰہ رب العالمین یعنی تمام تعریفیں اس رب کے لیے جو تمام جہانوں کا رب ہے۔ اب اس آیت میں۔الٰلہ کئ کائناتوں یا کئ اور اس زمین جیسی زمینوں کی طرف اشارہ کرتا ہے یہ اللٰہ تعالٰی خود ہی بہتر جانتا ہے لیکن ایک اشارہ موجود ہے جس کا کوئی مطلب بھی ہوسکتا ہے۔

اور ملحدین قرآن کو ٹھیک طرح سے پڑھ لیں۔ قرآن نے زمین کو پھیلانے کی بات نہیں کی بلکہ قرآن تو کہتا ہے کہ

والارض ننقصھا من اطرافھا

ہم زمین کو اس کے کناروں سے گھٹاتے چلے آرہے ہیں

جب کہ آسمان کے بارے میں قرآن کہتا ہے کہ

والسماء بنینھا باید وانا لموسعون

اور آسمان کو ہم نے پیدا کیا اور ہم اس کو وسعت دے رہے ہیں

یہ تھا قرآن کا بیان لیکن ملحدین نے اس کو اس طرح بنا دیا کہ قرآن زمین کے بھی پھیلنے کی بات کرتا ہے اور آسمان کے بھی لیکن ملحدین کہتے ہیں کہ کائنات سکڑ رہی ہے۔کائنات کے عمومی پھیلاؤ کی بات کیجئے نہ کہ لوکل سمٹنے کی کیونکہ صرف ملکی وے اور اینڈرو میڈا ایک دوسرے کے قریب آرہی ہیں اور ایک ہوجائیں گی جب کہ عمومی طور پہ کائنات اب بھی پھیل رہی ہے۔ لہٰذا یہ کہنا کہ قرآن کا آسمان کے پھیلاؤ کا بیان نعوذ بااللٰہ ٹھیک نہیں تو یہ بات بالکل غلط ہے اور جہاں تک بات ہے خشکی کے قالین کی طرح پھیلاؤ کی تو یہ زمین کی ظاہری شکل کی بات ہورہی ہے جس میں ہمیں زمین ایک قالین کی طرح دکھائی دیتی ہے نہ کہ کسی اور بات کے متعلق۔ جیسا کہ ابن کثیر کہتے ہیں:

"اللٰہ تعالٰی نے زمین کو پھیلایا،اس کو مضبوط کیا اور اس کو پہاڑوں کے ذریعے جما دیا۔”

اسی طرح آیت 78:6 جس میں مذکور ہے کہ ہم نے زمین کو ایک بچھونے کی طرح بنایا ہے، کا مطلب ابن کثیر کے مطابق یہ ہے کہ اس کو لوگوں کے فائدے کے لیے اس طرح تیار کیا گیا ہے کہ لوگ اس میں گھر تعمیر کر سکیں، فصلیں اگا سکیں اور اس میں سفر کر سکیں۔ لہٰذا یہ آیات زمین کی ظاہری شکل کا بیان ہیں نہ کہ زمین کی تخلیق اور اس کے بعد اس کے مسلسل پھیلاؤ کا۔لیکن اس سے ملحدین کے دعوے کے برعکس یہ بالکل ثابت نہیں ہوتا کہ قرآن کے مطابق زمین ہموار ہے اور یہ اب تک پھیل رہی ہے۔ لہٰذا قرآن کائنات کے پھیلاؤ کا ذکر تو کرتا ہے لیکن زمین کے پھیلاؤ کا نہیں اور قرآن کا یہ بیان سائنسی طور پہ بالکل درست جب کہ ملحدین کا اعتراض بالکل غلط ہے۔

ڈاکٹر الفریڈ کرونر( Alfred Kroner) دنیا کے مشہور ترین ماہرین ارضیات میں سے تھے۔ وہ جوہانز گوٹنبرگ یونیورسٹی، جرمنی میں ارضیات یعنی جیولوجی کے سربراہ تھے۔ وہ کہتے ہیں:

"یہ سوچتے ہوئے کہ محمد( صلی اللٰہ علیہ وسلم) کا تعلق کس علاقے سے تھا، میرا خیال ہے کہ یہ سوچنا بالکل ناممکن ہے کہ وہ کائنات کی ایک مشترکہ ابتدا کے بارے میں خود سے کچھ جانتے تھے کیونکہ کائنات کے متعلق یہ سائنسی حقائق سائنسدانوں نے گزشتہ چند سالوں میں انتہائی ترقی یافتہ اور پیچیدہ آلات سے معلوم کیے ہیں، وہ انسان( آپ صلی اللٰہ علیہ وسلم) جو آج سے چودہ سو سال پہلے نیوکلیائی طبیعات( نیوکلیئر فزکس) کے بارے میں کچھ نہیں جانتا تھا،وہ اس حالت میں بالکل نہیں تھا کہ خود سے یہ بتا سکے کہ کائنات یا زمین و آسمان کی ایک ہی ابتدا ہے( یعنی یہ سب حقائق آپ صلی اللٰہ علیہ وسلم کو اللٰہ تعالٰی کی طرف سے وحی کئے گئے جو اس بات کی دلیل ہے کہ اسلام، قرآن، آپ صلی اللٰہ علیہ وسلم بالکل سچے اور اللٰہ تعالٰی کا وجود بالکل حقیقی ہے کیونکہ یہ حقائق ایک سب سے عظیم ہستی ہی آپ صلی اللٰہ علیہ وسلم کو بتا سکتی تھی اور اس وقت پوری دنیا میں ایک شخص بھی ایسا نہیں تھا جو یہ جانتا ہو)۔”

یہ بات ثابت کرتی ہے کہ قرآن کا کائنات اور زمین و آسمان کی تخلیق کے بارے میں بیان بالکل درست اور ہر طرح کے اعتراضات سے پاک ہے جس کو دنیا کے کچھ نامور سائنسدان بھی تسلیم کر چکے ہیں۔

ھذا ما عندی۔ واللٰہ اعلم بالصواب۔ الحمدللٰہ

حوالہ جات:

http://www.answering-christianity.com/hot_gas.htm
http://ask.yahoo.com/ask/20001027.html
Tafseer Ibn Katheer, 8/247
https://islamqa.info/en/211655
http://www.answering-christianity.com/the_universe.htm
https://www.islam-guide.com/video/kroner-2.ram
https://www.islam-guide.com/video/kroner-1.ram

تبصرے بند ہیں۔