تعلیم نسواں ۔ اسلام اور مغرب کے تناظر میں

اسامہ شعیب علیگ

موجودہ دور میں تعلیمِ نسواں کی اہمیت و افادیت سے انکار نہیں کیاجا سکتا کیوں کہ خواتین معاشرے کا نصف حصہ ہیں، لہٰذاان کی تعلیم و تربیت قوم اور معاشرے دونوں کی ترقی ا ور بھلائی کے لیے ضروری اور ناگزیر ہے۔
لفظ’ تعلیم و تربیت‘ دو اجزا کا مرکب ہے۔ ایک تعلیم یعنی سکھانا، پڑھانا، معلومات پہنچانا اور دوسرا تربیت یعنی اچھی پرورش کرنا، اچھے اخلاق وعادات کا خوگر بنانا۔اس لیے تعلیم اور تربیت دونوں اسلام میں بنیادی اہمیت کے حامل ہیں۔
اسلام کا نظریہِ تعلیم و تربیت: اسلام کی نظر میں تعلیم کا مقصد خالص رضائے الٰہی کا حصول ہے جس کے لیے تعلیم و تربیت دونوں ضروری ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اسلامی نظامِ تعلیم دوسرے نظامِ تعلیم سے منفرد ہے کیوں کہ اس میں تربیت کا بھی تصور پایا جاتا ہے۔ یہ طلبہ و طالبات کو صرف معلومات ہی فراہم نہیں کرتا بلکہ نفس کی تربیت کا بھی اہتمام کرتا ہے اورساتھ ہی انسانی زندگی کے تمام شعبوں میں رہ نمائی کرتا ہے۔
دیگر نظامِ تعلیم صرف ’ایک اچھا شہری‘ بنانا چاہتے ہیں، جب کہ اسلامی نظام تعلیم ’ایک اچھاانسان‘ بنانا چاہتا ہے جس میں تمام اعلیٰ اقدار موجود ہوں، جو کسی ایک مخصوص جغرافیائی خطہ کا نہ ہو،بلکہ’ ایک عالمی شہری‘ ہو کیوں کہ قرآن تمام انسانوں کو مخاطب کرتا ہے نہ کہ کسی ایک خطہ کو(قرآن کریم:30:30)۔
یہی وجہ ہے کہ اسلام نے تعلیم و تربیت کو ابتدا ہی سے بنیادی اہمیت دی اور حصولِ علم کو مردا ورعورت دونوں کے لیے یکساں ولازمی قرار دیا ۔قرآن و حدیث میں علم کی بہت فضیلت بیان کی گئی ہے بلکہ معلوم ہوتا ہے کہ اسلام میں حصولِ علم سے بڑھ کر کوئی چیز نہیں ہے ۔خودنبی کریم ﷺ پر جو پہلی وحی نازل ہوئی اس کا آغاز بھی لفظ اقراء(پڑھو) سے ہوا۔ایک اورجگہ اللہ تعالی نے ارشاد فرمایا :
قل ھل یستوی الذین یعلمون و الذین لا یعلمون( سورۃ الزمر:09)
’’ان سے پوچھو! کیا جاننے والے اور نہ جاننے والے دونوں کبھی یکساں ہوسکتے ہیں؟‘‘
احادیث میں بھی علم کی فضیلت کثرت سے بیان کی گئی ہے ۔ آپؐ نے فرمایا:
طلب العلم فریضۃ علی کل مسلم(ابن ماجہ:224)
’’ ہر مسلمان پر خواہ وہ مرد یاعورت علم حاصل کرنا فرض ہے‘‘
مگر یاد رہے کہ علم کے ساتھ ساتھ عمل بھی ضروری ہے ورنہ علم بغیر عمل کے وبالِ جان بن جائے گا۔
اسلام میں تعلیمِ نسواں: اسلام طبعی و اہلیتی دائرہ بندی اور صنفی ضروریات کے امتیاز کی بنا پر مرد عورت کو یکساں تعلیم کے مواقع فراہم کرنے کے باوجود عورتوں کی تعلیم، نصابِ تعلیم ، مقاصدِ تعلیم اور اسلوبِ تعلیم میں فرق کرتا ہے ۔
اسلام میں تعلیمِ نسواں کا مقصد ایسی تعلیم ہے جو نسوانی زندگی اور نسوانی مقاصدِ حیات سے ہم آہنگ ہواورجو عورت کو ایک باکردار وہمدردماں،صالح و نیک بیٹی،وفاشعار بہن اور فرمابردار بیوی بنائے۔قرآن کریم نے اسی کو کچھ اس طرح بیان کیا ہے:
فالصٰلحٰت قٰنتٰت حٰفظٰت للغیب بما حفظ اللہ (سورۃ النساء:34)
’’جو نیک عورتیں ہیں وہ فرمانبردار ہوتی ہیں، مردوں کی عدم موجودگی میں اللہ کی حفاظت اورنگرانی میں ان کے حقوق کی حفاظت کرتی ہیں‘‘۔
ایک حدیث میں رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
’’سنو! تم میں سے ہر شخص نگراں ہے اور اس سے (روزِقیامت) اپنی اپنی رعیت کے بارے میں سوال کیاجائے گا۔ ایک مرد اپنے گھر والوں کا نگراں ہے۔ اس سے اس کی رعایا کے بارے میں سوال ہوگا اور عورت اپنے شوہر کے گھر اور اس کی اولاد کی نگراں ہے، اس سے ان کے بارے میں سوال ہوگا۔ غلام اپنے آقا کے مال کا نگراں ہے وہ اس کے بارے میں جواب دہ ہے۔ سنو! تم میں سے ہر شخص نگراں ہے اور اس سے اس کی ذمہ داریوں کے بارے میں پوچھا جائے گا‘‘(بخاری:398)
اسی مقصد کی بنیاد پرا سلام نے عورتوں کو تعلیم و تربیت میں مردوں کے برابر قرار دیا اوران کے لیے تعلیم لازمی قرار دی کہ وہ بھی شریعت کے مطابق اپنی زندگی گزار سکیں، البتہ پردہ اور مرد و زن کے اختلاط کے قوانین بھی ان کوبتا دیئے کہ معاشرے میں بگاڑ اور بے راہ روی پیدا نہ ہو۔اسی وجہ سے آپؐنے خواتین کی تعلیم کی طرف خصوصی توجہ فرمائی اور سورۃ البقرۃ کی آیات کے متعلق فرمایا:
’’تم خود بھی ان کو سیکھو اور اپنی خواتین کو بھی سکھاؤ‘‘ (سنن دارمی:0933)
اسی طرح آپ ؐ وفود کو بھی نصیحت فرماتے کہ:
’’تم اپنے گھروں میں واپس جاؤ، اپنے اہل خانہ کے ساتھ رہو، ان کو دین کی تعلیم دو اور ان سے احکامِ دینی پر عمل کراؤ۔(صحیح بخاری:36)
خود آپ ؐنے ہفتہ میں ایک دن صرف خواتین کی تعلیم و تربیت کے لیے مخصوص کیاتھا۔ اس دن خواتین آپؐ کی خدمت میں حاضر ہوتیں اور آپؐ سے مختلف قسم کے سوالات اور روزمرہ مسائل کا حل پوچھتیں۔ اس کے علاوہ آپ ؐ نے امہات المؤمنین کو بھی حکم دے رکھا تھا کہ وہ خواتین کو دینی مسائل سے آگاہ کیا کریں۔
ابتدائی دورِ اسلام میں پانچ خواتین لکھنا پڑھنا جانتی تھیں : امّ کلثمؓ ، عائشہ بنت سعدؓ، مریم بنت مقدادؓ،شفاء بنت عبد اللہؓ اورامّ المؤمنین حضرت عائشہؓ ۔حضرت شفاءؓ حضرت حفصہؓ کو کتابت سکھاتی تھیں تو آپؐنے فرمایا کہ انہیں خوش خطی بھی سکھاؤ۔نبی کریم ؐ کی اس توجہات کا نتیجہ تھا کہ تمام اسلامی علوم و فنون مثلاً تفسیر،حدیث ، فقہ و فتاویٰ ، خطابت ، شاعری اور طب وجراحت میں بے شمار صحابیات نے کمال حاصل کیا(بلاذری:انساب الاشراف)
عہدِ نبوی کے بعد خلفائے راشدین کے دور میں بھی خواتین کی تعلیم و تربیت کی طرف بھرپور توجہ دی گئی۔ حضرت عمرؓبن خطاب نے اپنی مملکت کے تمام اطراف میں یہ فرمان جاری کردیا تھا :
علّمواا نساؤکم سورۃ النور ( الدر المنثور:5/81)
’’ اپنی خواتین کو سورۃ النور ضرور سکھاؤ کہ اس میں خانگی و معاشرتی زندگی کے متعلق بے شمار مسائل اوراَحکام موجود ہیں‘‘
افسوس کہ قرآن و سنت کی اتنی تاکید کے باوجود بھی آج ہم لوگ لڑکیوں کی تعلیم کی طرف سے غافل ہیں۔بعض لوگ کہتے ہیں کہ ہمیں اپنی بچیوں سے نوکری نہیں کرانی ہے یا اپنی بیویوں کی کمائی نہیں کھانی ہے ،لہٰذا ان کو تھوڑی بہت تعلیم دلانا کافی ہے لیکن وہ یہ بھول جاتے ہیں کہ ایک عورت کو تعلیم دلانا پورے خاندان کو تعلیم دلانا ہے کیوں کہ ماں کی گود ہی بچے کی اولین درس گاہ ہوتی ہے ۔اگر وہ تعلیم یافتہ ہو گی تبھی اپنے بچوں کی صحیح تربیت کر سکے گی ۔
بعض لوگوں کا خیال ہوتا ہے کہ اس سے لڑکیاں بگڑ جاتی ہیں لیکن اس کا یہ حل نہیں کہ سرے سے تعلیم ہی نہ دلائی جائے بلکہ ان کی ایسی تربیت کی جائے کہ وہ کہیں بھی جائیں لیکن وہ تبدیل نہ ہوں اور پھر یہ بھی کہ تعلیم کے بعض شعبوں میں مسلم خواتین کا آنا وقت کی اہم ضرورت ہے۔ جیسے اگر خاتون ڈاکٹر نہ ہوں تو مسلم خواتین کو لامحالہ مرد ڈاکٹروں سے علاج کرانا ہوگا اور نہ چاہتے ہوئے بھی ان کے سامنے قابلِ ستر اعضاء کھولنے پڑیں گے ۔ایسے ہی تعلیم یافتہ عورت شوہر کے انتقال کے بعدنوکری کر کے اپنی اور اپنے بچوں کی زندگی کی گاڑی آسانی سے کھینچ سکتی ہے۔
خواتین کا اسلامی تعلیمات سے غفلت کا نتیجہ ہے کہ وہ اللہ اور اس کے رسول کی شان میں گستاخی ،مختلف شرک و بدعات ،والدین اور دوسرے لوگوں کے حقوق سے ناواقفیت، شوہر کی عدم اطاعت ، اس سے غیر ضروری مطالبات کرکے ناک میں دم کرنا ،اولاد کے لیے جادو ٹونا،ایک دوسرے پر لعن طعن ، غیبت ،فیشن و عریانیت،بے حجابی اور فضول رسم و رواج کی مرتکب ہوتی ہیں۔ اس کے برعکس ایک تعلیم یافتہ عورت صحیح غلط، حق و ناحق اور جائز و ناجائز کی نہ صرف تمیز کرتی ہے بلکہ اپنی زندگی میں آنے والے تمام مسائل کو خوش اسلوبی سے حل کرتی ہے۔
مغرب میں تعلیمِ نسواں :آج مغرب جو عورت کی ’تعلیم، حقوق اور مساوات‘کا ہر طرف راگ الاپ رہا ہے لیکن کچھ صدیوں قبل یورپ کی یہ حالت تھی کہ یونانی عورت کو ایک کمتر درجہ کے مخلوق سمجھتے تھے۔ اس میں ارسطو، جالینوس اورافلاطون بھی شامل ہیں۔ آخری الذکر کا تو یہ خیال تھاکہ:
’’عورت اور غلام دونوں ایک ہی درجے کی مخلوق ہیں‘‘۔
نطشے ،جدید دور کا یورپ کا مایہ ناز فلسفی کہتا ہے کہ:
’’ عورتیں دوستی کے قابل نہیں، وہ محض بلّیاں اور زیادہ سے زیادہ گائیں ہیں اور ان سے دل بہلانے کے لیے ان کو کوڑا مارنا ضروری ہے‘‘ ۔
عیسائیت میں ’تر تولیاں طبقہ‘ نے عورت کے متعلق کہا کہ:
’’عورت شیطان کے آنے کا دروازہ ،شجرِ ممنوعہ کی طرف لے جانے والی، خدا کے قانون کوتوڑنے والی اور مرد کو غارت کرنے والی ہے‘‘۔
کلیسا کے پادریوں نے 581ء میں ائمہ کلیسا کی مجلس ’کولون‘ میں اس بات پر زور دار بحث کی کہ عورت انسان ہے یا نہیں؟بڑی رد وقدح کے بعد اسے معمولی اکثریت کے ساتھ انسان تسلیم کیا گیا۔یہ لوگ عورت کو’ نجاست کی پوٹ، سانپ کی نسل، جہنم کا دروازہ اور شر و برائی کی جڑ ‘وغیرہ کا خطاب دیتے تھے۔
اس دور کے یورپ میں عورت کو کوئی ذاتی مرضی اور اختیار حاصل نہ تھا، جوا میں داؤ پر لگا دی جاتی تھی، شوہر مر جاتا تو وہ اس کے خاندان میں بطور وراثت منتقل کر دی جاتی، جانوروں کی طرح اس کی بھی خرید و فروخت کی جاتی تھی اور خاوند کو یہ حق حاصل تھا کہ وہ جب چاہے اپنی بیوی کے گلے میں رسی ڈال کر بازار میں بیچ آئے۔
مسلمان آٹھویں صدی میں یورپ پہنچے اور اسپین کو تہذیب وتمدن اور ترقی و خوشحالی سے آشنا کیا ۔یہیں سے مسلم ادیبوں، شاعروں،مغنیوں، اور فلسفیوں کے علاوہ سائنس دانوں انجینئروں کی ایک بڑی تعداد سامنے آئی جس نے اس غیر ترقی یافتہ علاقوں میں نہایت ہی ترقی یافتہ شہر بسائے ۔اس کے علاوہ مسلمانوں اور عیسائیوں کے درمیان صلیبی جنگیں(1095۔1291ء) ہوئیں تواس کا ایک فائدہ یہ ہوا کہ یورپ کے لاکھوں افراد نے شام ا ور فلسطین جا کر اسلامی تہذیب و تمدن کو اپنی آنکھوں سے دیکھا جس کی وجہ سے ان میں بھی تعلیمی بیداری آئی۔
اب یورپ میں علم و دانش کے ایک نئے دور کا آغاز ہوتا ہے ۔ اس دور میں عیسائی طلبہ تعلیم کے لیے اندلس کا سفر اس طرح کرتے تھے جس طرح آج مسلمان یورپ کا کرتے ہیں۔سب سے پہلے فریڈرک اول نے بولون (Bologne) میں یورپ کی پہلی یونیورسٹی قائم کی۔
مگرمغربی تعلیمِ نسواں کا مقصد صرف’مادی‘ ہے ۔یعنی کماؤ کھاؤ اور نفسانی خواہشات کی تکمیل کرو۔ اس کے لیے انہوں نے عورت کو استعمال کیا اوراس کو ’تعلیم اورحق‘ دلانے کے نام پرمختلف پر فریب نعروں’ ’جیسے چاہو جیؤ،زندگی میری ہے، آپ پر اٹکی نظر سب کی‘‘ کے ذریعے گھر سے باہر نکال کھڑا کیا ۔اب اس نے بھی مردوں کی طرح تعلیم حاصل کرنی شروع کی اور مخلوط ماحول میں تعلیم پانے کے بعد اسی ماحول میں اپنی زندگی کی گاڑی چلانے کے لیے ملازمت کرنے لگی کہ مرد صرف اپنے لیے کمائے اور عورت اپنے لیے ۔
رشتوں کی حیثیت کچے دھاگوں جیسی ہو گئی اورزندگی کا فلسفہ’’ بے خدا تعلیم، بے مقصد زندگی، سیکولر ماحول اور اختلاطِ مرد وزن، فحش فلمیں، مخرب اخلاق لٹریچر اور عریاں لباس ‘‘ تک محدود ہو کر رہ گیا۔اس تعلیم کا سب سے بڑا نقصان یہ ہوا کہ معاشرے سے ’خاندانی نظام ‘ کا خاتمہ ہو گیا۔
مغربی نظامِ تعلیم کا بنیادی نقص اور اس کے اثرات:
یہودیوں کا ایک واضح مقصد پورے عالم میں اپنا مکمل تسلط قائم کرنا ہے ۔وہ برابر دو صدیوں سے اس کام میں مصروف ہیں۔ انہوں نے بالترتیب دنیا کی سیاست، اقتصادیات ،تہذیب و تمدن اور معاشروں پر حملہ کیا اور تعلیم و تہذیب کے نام پر اپنی مغربی بے خدا تعلیم اور ملحدانہ افکار کو مسلم معاشروں میں رائج کرنے کی کوشش کی ۔
اقوامِ متحدہ نے 1948میں ایک دستور اور چارٹر تیار کیا ،جس میں جنسیت کی بنیاد پر عدمِ تفریق پر زور دیا گیا اور عورت کومرد کے برابر کے ’حقوق‘ دینے کی اپیل کی گئی(www.un.org/arabic/aboutun/charter) ۔
یہودیوں نے اقوامِ متحدہ کی سرپرستی میں اپنے مقصد کی تکمیل کے لیے ’عورت ‘ کو بطور ہتھیار استعمال کیا اورساتھ ہی مختلف ادارے قائم کئے جیسے ’’کونسل برائے خواتین ، اقوامِ متحدہ ترقی فنڈ برائے خواتین ، عالمی ریسرچ اینڈ ٹریننگ سینٹر برائے خواتین اور تنظیم اقوامِ متحدہ برائے علم و تربیت (یونیسکو)‘‘ وغیرہ ۔ ان اداروں نے خواتین کی ’ترقی‘ کے لئے مختلف جگہوں پر چند مشہور کانفرنسوں کاانعقاد کیا۔
ان تمام کانفرنسوں کا مقصد پوری دنیا میں خاص کر مسلم ممالک میں مخلوط تعلیم کا فروغ دینا ، نصابِ تعلیم میں مساوات کو ملحوظ رکھنا، جنسی تعلیم و تربیت دینااورخاندان کا مغربی مفہوم رائج کرنا ہے ،یعنی فرد ہی اصل ہے اور اس کے مفادات و خواہشات ہی معیار ہیں اس لیے دین ،قوم،خاندان، رسم و رواج سے چھٹکارا حاصل کرنا ضروری ہے تاکہ عورت اتنی ’آزاد اورباختیار‘ ہو جائے کہ والدین بھائی اور شوہر کی طرف سے کسی قسم کی کوئی ’رکاوٹ ‘نہ رہے اور وہ نکاح،طلاق اور ملازمت کے مسائل خود ہی حل کر لے۔اس کے علاوہ زندگی کے ہر میدان جیسے تعلیم، گھریلو کام کاج، بچوں کی دیکھ بھال اوروراثت وغیر ہ میں مطلقاً مساواتِ مردوزن ہو(حقوق الانسان فی الاسلام:محمد الزحیلی،ص:392 )۔
اس مقصد کی تکمیل کے لیے پالیسی طے کی گئی کی تمام اداروں اور این جی اوز کو باقاعدہ لاکھوں ڈالر کی مدد دی جائے اور مخالفت کرنے والے ممالک کو قدامت پسند اور وقیانوسی قرار دیا جائے اور ان پر معاشی اقتصادی پابندی لگا دی جائے،ذرائع ابلاغ کے ذریعہ ان کے خلاف پروپگنڈا کیا جائے تا کہ وہ بھی اس کے آگے ہتھیار ڈال دیں۔خود ہندوستان میں بھی لارڈ میکالے کے نظامِ تعلیم نے مسلمانوں کے اندر دین سے بیزاری اور الحاد کے بیج بونے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔
آغاز میں مسلم مفکرین و دانشوروں نے خواتین کو مغربی تعلیم کے زہریلے اثرات سے بچانے کی بہت کوشش کی۔ علامہ اقبالؒ نے بہت درد مندی سے قوم کو اس طرف متوجہ کیا :
جس علم کی تاثیر سے زن ہوتی ہے نازَن کہتے ہیں اسی علم کو اربابِ نظر موت
لیکن مسلمان اپنی سیاسی، ایمانی اور اخلاقی کمزوریوں کے باعث اہل مغرب کے سامنے پسپا ہوتے چلے گئے۔ اسی کا نتیجہ ہے کہ آج مسلمان لڑکیوں کی اکثریت دوراہے پر کھڑی ہے:
کچھ تو وہ ہیں جو تیز ی سے مغربی تہذیب کو قبول کرکے پردہ،برقع بلکہ دوپٹہ کی قید سے بھی آزاد ہوچکی ہیں اور بن سنور کر اس طرح عریاں انداز میں تعلیمی اداروں میں پڑھنے اور پڑھانے جاتی ہیں،گویا ابھی ابھی کوئی دلہن بیوٹی پارلر سے آرہی ہو۔ ساتھ ہی بے پردگی پھیلانے کے لیے باقاعدہ’ مبلّغہ‘ کا کام بھی کرتی ہیں اور حجاب کی پابندی کرنے والی خواتین کو لعنت وملامت کرتی رہتی ہیں۔نظروں میں بالی ووڈ کی فلمیں سمائی ہوئی ہیں۔ ان کے رسوم رواج بڑی تیزی سے اپنائے جارہے ہیں۔ کھانے پینے، چلنے پھرنے، ملنے ملانے کے طور طریقے وہی غیروں کے ہیں۔ کہیں ایک غیر مسلم اور ایک مسلمان طالبہ کھڑی ہوں تو دونوں کا لباس اور گفتگو کا انداز بالکل یکساں ہوگا۔ یہ پہچاننا مشکل ہے کہ ان میں سے کوئی مسلمان بھی ہے یا نہیں؟ اور کچھ وہ ہیں جو پردہ تو کرتی ہیں لیکن خود کو دبی دبی اور مجرم سمجھتی ہیں ۔کم ہی ایسی ہوتی ہیں جواسلامی شعار میں پر اعتماد ہوتی ہیں اور دوسروں کو بھی اس کی دعوت دیتی ہیں۔
سوال یہ ہے کہ ایسا کیوں نہ ہو جب قرآن و حدیث اوردینی تعلیم سے کوسوں دوری ہو۔ بچے بچیاں ٹی وی کی دھنوں پر سوئیں اورموبائل کے آغوش میں آنکھیں کھولیں تو پھر یہ نتیجہ نکلنا لازمی ہے۔
ہمارا لائحہ عمل : ایک طرف یہود و نصاریٰ پورے منصوبے کے ساتھ اقوامِ متحدہ کے مختلف اداروں اور این. جی. اوز کے ذریعے تعلیم، میڈیا، کانفرنسوں اور دوسرے ذرائع ابلاغ سے مسلم تہذیب و ثقافت اور خصوصاً خاندانی نظام کو ختم کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔دوسری طرف مسلمانوں کا حال یہ ہے کہ مجموعی طور پر تعلیم سے غافل ہیں۔رپورٹ کے مطابق 25%مسلم بچے اور بچیاں ایسے ہیں جو اسکول گئے ہی نہیں یا گئے بھی تو بیچ ہی سے چھوڑ دیا۔59%مسلم لڑکیاں آج بھی اسکول نہیں جاتی ہیں پندرہ ریاستوں میں مسلم خواتین کی شرحِ خواندگی 50%سے بھی کم ہے۔مدارس میں بھی 4%ہی بچے اور بچیاں تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔یہ صورتِ حال انتہائی افسوس ناک ہے ، اس سے نکلنے کے لیے ہمارے پاس دو طریقے ہیں:
رسمی تعلیم پر خصوصی توجہ : ہر مسلم والدین کی کوشش ہو کہ وہ اپنی لڑکیوں کو ہر حال میں تعلیم کے زیور سے آراستہ کریں خواہ وہ مدرسوں میں پڑھیں یا اسکول ،کالج اور یونیورسٹی یا اوپن یونیورسٹی سے تعلیم حاصل کریں،تاکہ وہ ملت کی ترقی میں اہم کردار ادا کر سکیں۔
لڑکیاں ایسے شعبوں میں آئیں جو ان کے لیے جسمانی اور دماغی لحاظ سے موزوں ہومثلاً درس و تدریس،طب، صحافت ، تصنیف و تالیف اورصنعت و حرفت وغیرہ۔اسلام نے ان سب کی اجازت دی ہے حتیٰ کہ ان میدانوں میں چند پابندیوں کے ساتھ ملازمت کی بھی اجازت دی۔یہ پابندیاں اس لیے کہ خاندانی نظام میں کوئی خلل و انتشار پیدانہ ہواور عورت عفت و عصمت کے ساتھ اپنی زندگی گزار سکے۔
ناخواندگی کا خاتمہ: بدقسمتی سے مسلم خواتین کی اکثریت ناخواندہ ہے۔اس کمی کو تعلیمِ بالغاں،محلّوں میں فارغاتِ مدارس کے ذریعے تعلیمی مہم،دینی و تربیتی اجتماعات اور جدید ٹکنالوجی کے استعمال سے دور کیا جا سکتا ہے۔ کم از کم خواتین کو اتنی تعلیم آجائے کہ وہ قرآن و حدیث سمجھ کر پڑھ سکیں اور روز مرہ کی زندگی میں پیش آنے والی باتوں کو لکھ پڑھ سکیں۔
آخری بات یہ کہ موجودہ مخلوط تعلیمی نظام کی خرابیوں اوراس کے اثرات سے محفوظ رکھنے کے لیے تمام مسلم والدین کی ذمے داری ہے کہ وہ گھر میں اپنے طور پر اولاد کو(خواہ وہ ان کومدارس میں پڑھائیں یا انگلش میڈیم اسکولوں میں) ابتدائی پانچ سال اسلامی نکتۂ نظر سے یکساں تعلیم دیں۔ان کے دل و دماغ میں عقیدۂ توحید، رسالت، آخرت اور قرآن و سنت کی اہمیت نقش کر دی جائے۔ حقوق اللہ ،حقوق العباد ،نیکی اور بدی میں فرق، سچائی، صفائی، وقت کی پابندی، محبت اور ایثار کا سبق دیا جائے کہ وہ اس کی بنا پرآگے زندگی صاف ستھری اور پاکیزہ اسلامی طریقے سے بسر کرسکیں۔
جب بچیاں پانچ سال سے زائد کی ہو جائیں تو ان کی تعلیم میں عربی زبان ضرور رکھی جائے تا کہ وہ قرآن و حدیث پڑھ اور سمجھ سکیں اور ان کے عقائد ،اخلاق اور حیا و کردار میں پختگی آئے کہ بعد میں وہ جب کالجوں اور یونیورسٹیوں میں قدم رکھیں تو بجائے خود متاثر ہونے کے دوسروں کو متاثر کر سکیں۔بدقسمتی سے ہمارے یہاں قرآن و حدیث پڑھنے پر تو زور دیا جاتا ہے لیکن سمجھنے پر نہیں۔
جب لڑکیاں گریجویشن لیول پر پہنچیں تو ان کو گھر میں ایسی تعلیم دی جائے جو بچوں کی پرورش، تربیت اور سیرت سازی میں معاون ثابت ہوسکے۔ لہٰذا ان کو وہ اْمور ضرور سکھاناچا ہیے جو ساری عمر گھر میں انجام دینے ہیں مثلاً:امورخانہ داری،ابتدائی طبی امداد یا فرسٹ ایڈ دینے کا طریقہ اوردفاعی ٹریننگ وغیرہ جس کی فساد میں بہت ضرورت پڑتی ہے۔****

تبصرے بند ہیں۔