حقوق نسواں اور آزادی نسواں کے نام پر دجالی فتنہ کا آغاز

احساس نایاب

حقوق نسواں کے نام پہ عورتیں جس قدر بےحیائی، بدکاری، فحاشی اور مکاری کو اپنارہی ہیں وہ کسی بھی باشعور انسان کے لئے لمحہ فکریہ ہے کیونکہ یہ بہت بڑی تباہی کی دستک ہے، اور جو صاحب ایمان ہیں وہ اس دستک کو بخوبی سمجھ رہے ہیں، ساتھ ہی مسلم معاشرہ کو اس تباہی سے آگاہ بھی کررہے ہیں، کیونکہ دنیا بھر میں جو زن، زمین، زر اور نام ونمود کا فتنہ پھیلا ہوا ہے وہ اس خوفناک تباہی کا سازوسامان ہے، یہاں پہ زن، زمین، زر سے مراد زنا، قتل و غارت گری اور لوٹ مار جیسے کبیرہ گناہ ہیں، جنکا عروج قیامت کی نشانیوں میں سے ہے کیونکہ اس قدر تیزی سے پھیلتے ہوئے فتنے آمد دجال کی طرف اشارہ کررہے ہیں اور دجالی فتنوں سے جڑی وہ تمام باتیں، نصیحیتیں یاد آرہی ہیں جو ہم اپنے بزرگوں سے سنا کرتے ہیں، کہ دجال کا خروج قیامت کے عنقریب عراق اور شام کے درمیانی راستے سے ہوگا، اُس کی آمد سے قبل ہی اُس کی آمد کی تمام نشانیاں ایک ایک کرکے ظاہر ہونے لگیں گی، وہ ایک آنکھ والا کانا ہوگا جس کے ماتھے پہ کافر لکھا ہوگا اور وہ دنیا میں آنے کے بعد خدائی دعویٰ کریگا، بارش برسائے گا، مُردوں کو زندہ کرے گا دنیا ہی میں اپنی جنت اور دوزخ بنائے گا اور اُس کے فتنے میں آنے والی سب سے پہلے عورتیں ہوں گی۔

یہ بات احادیث مبارکہ کی روشنی میں  ثابت ہے کہ دجال کے خروج و عروج میں عورتوں کا کردار نہایت اہم ہے، ہمارے پیارے آقا سرورِ کونین ﷺ نے فرمایا "دجال کی طرف سب سے زیادہ عورتیں ہی جائیں گی،  یہاں تک کہ آدمی اپنے گھر میں اپنی ماں، چچی، بہن، بیوی، بیٹی کو اس ڈر سے باندھ دے گا کہ کہیں وہ دجال کی طرف نہ چلی جائیں، جبکہ دجال کے لشکر میں بھی عورتوں کو نمایاں حیثیت حاصل ہوگی، یہاں تک کہ دجال کی اسپیشل سکیورٹی(خاص حفاظتی دستہ) میں بھی ایک عورت ہی ہوگی جسکا لقب لئیبہ ہوگا۔ ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں "دجال جہاں پر بھی جانے کا ارادہ کرے گا تو ایک لئیبہ نامی عورت اُس سے قبل وہاں پر جا کر لوگوں سے کہے گی کہ دجال تمہاری طرف آرہا ہے، لہذا اس سے ڈرو اور اس کی مخالفت کے نتائج سے خبردار رہو۔( کنزالعمال, ج14,ص602,فتن ابن حماء ص 151 )

صدیوں پہلے عورتوں سے متعلق جن نشانیوں کا ذکر کیا گیا تھا وہ ایک حد تک ظاہر ہوچکی ہیں، مغربی ممالک سے لیکر مسلم ممالک میں بھی اس کے اثرات نظر آرہے ہیں جہاں پہ عورتیں میرا جسم میری مرضی کہتے ہوئے سڑکوں پہ احتجاج کررہی ہیں، مسلمانوں کی مقدس سرزمین کہلانے والے عرب ممالک میں عورتوں کی آزادی کے لئے جو نئے قوانین نافذ کئے جارہے ہیں وہ بےحد افسوسناک ہیں اور مسلم اکثریت کا دم بھرنے والا ہمارا پڑوسی اسلامی ملک پاکستان کی عدالت عظمی نے آج گستاخ رسول آسیہ مسیح کو توہین رسالت کے مقدمہ سے بری کردیا، جبکہ پاکستانی آئین کی دفعہ 295c کے مطابق گستاخ رسول کو سزائے موت دی جاتی ہے، مگر افسوس اس ملعونہ کی خاطر 3 انسانوں کی جانیں جاچکی ہیں اس کے باوجود اس ملعونہ کو رہا کر دیا گیا۔

دراصل یہ معاملہ جون 2009 میں پاکستان کے شیخوپورا کے گاؤں ایٹیاں والی کی ایک عیسائی خاتون نے مسلمان خواتین کے ساتھ مباحثہ کرتے ہوئے رسول اللہ ﷺ کی شان میں نازیبا زبان استعمال کی، گستاخی کی ارتکاب کے بعد اس عورت کے گھر پہ علاقائی لوگوں نے ہنگامہ کیا، ہنگامہ کے دوران پولس نے اس کے خاندان کو قتل ہونے سے بچالیا، لیکن علاقائی لوگ اس کیس کو شیخوپورا کی ڈسٹرک کورٹ میں لے گئے جہاں گواہوں کے بیانات کی روشنی میں اُس ملعونہ کو موت کی سزا سنائی گئی، لیکن اس عورت کے شوہر اسحاق مسیح نے اس فیصلے کو لاہور ہائی کورٹ میں چیلنج کیا، وہاں پہ بھی ڈسٹرک کورٹ کے فیصلے کو برقرار رکھتے ہوئے گستاخ عورت کو جیل کے ڈیتھ سیل میں ڈال دیا گیا تو پنجاب کے اس وقت کے گورنر سلمان تاثیر نے گستاخ عورت کا ساتھ دیتے ہوئے اپنے رسوخ کا استعمال کر جیل میں اُس سے ملاقاتیں کی اور اُسکی دفاع میں پریس کانفرنس کی اور کہا کہ ہم ایسے کالے قانون کو نہیں مانتے جس سے کسی اقلیتی فرد کی جان کو خطرہ ہو، میڈیا میں اس معاملے کو لیکر بحث و مباحثہ شروع ہو گیا اور چار جنوری 2011 کو اسلام آباد کے کوہسار مارکیٹ میں سلمان تاثیر کے 26 سالہ ڈیوٹی گارڈ ملک ممتاز قادری نے سلمان تاثیر کو قتل کردیا، دوسری جانب وفاقی وزیر برائے اقلیتی امور شہباز بھٹی کی یہ کوشش تھی کہ دفعہ 295c کو تبدیل کیا جائے یا ختم کردیا جائے، وہ وزیر بھی گستاخی رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی الزامات کی زد میں آگیا جسکی وجہ سے اس وزیر کو بھی2 مارچ 2008 کو اسکے گھر کے سامنے ہی قتل کردیا گیا، پھر 16 اکتوبر 2014 کو ایک بار پھر اس گستاخ ملعونہ خاتون کی اپیل کو مسترد کردیا گیا۔ 20 نومبر 2014 کو صدر پاکستان کو پھر سے معافی کی اپیل کی گئی اور اس گستاخ کے شوہر اسحاق مسیح نے سپریم کورٹ کا دروازہ کھٹکھٹایا اور 22 جولائی 2015 میں سپریم کورٹ پاکستان نے اس عورت کی سزا معطل کردی جب تک اپیلوں کا فیصلہ نہیں آجاتا، 26 مارچ 2016 میں دوبارہ ہائی کورٹ میں اپیل کی سماعت مقرر ہوئی، 13 اکتوبر 2016 کو تین رکنی بینچ تشکیل کی گئ اور اُس صبح اُس بینچ کے جج جسٹس اقبال حمید نے کیس کی سماعت سننے سے انکار کردیا اور صدر پاکستان ممنون حسین کو اپنا استعفیٰ پیش کردیا اور ابھی موجودہ چیف جسٹس ثاقب نثار نے 26 اپریل 2017 کو اس گستاخ کی اپیل کو منسوخ کردیا، یہاں پہ غورطلب بات یہ ہے کہ اس اسلامی ملک میں ایک گستاخ ملعونہ عورت کی وجہ سے تین مسلمانوں کی جان گئی، عوام میں انتشار پیدا ہوا، باوجود اس کے آج 31 اکتوبر 2018 کو  اس مجرمہ  گستاخ رسول ﷺ کو آزاد کردیاگیا، جبکہ اسکے برعکس 31 اکتوبر 1969 کو عاشق رسول ﷺ علم الدین غازی کو ناموس رسالت کی حفاظت کی وجہ سے پھانسی دی گئی، اسکو ہم مسلمانوں کی منافقت کہیں یا بدنصیبی ؟

ایک طرف بین الاقوامی این جی اوز، تمام اعلی پادری،  پوپس، روم کیتھولک کی ساری کمیونٹی ایک حقیر سی کاشتکاری کرنے والی مزدور گستاخ ملعونہ عورت کو بچانے کے لئے ایڑی چوٹی کا زور لگارہے ہیں، اسے اپنے ملک میں سکیورٹی، پناہ دینے کے لئے تیار ہیں اور دوسری طرف پاکستانی حکومت ایک عورت کے آگے پوری طرح سے مفلوج نظر آرہی ہے افسوس صد افسوس۔

اسی طرح دنیا کے ہر کونے میں کوئی نہ کوئی گستاخی کر کے آزاد گھوم رہا ہے اور اُن گستاخوں میں مردوں کے ساتھ خواتین بھی شامل ہیں، کیا کسی نے کبھی یہ سوچا ہے کہ ان کے حوصلے اتنے بلند کیوں ہورہے ہیں اور انکی پشت پناہی کون کررہا ہے، اگر ان سبھی کے تار ایک دوسرے سے جوڑ کر دیکھنے کی کوشش کریں گے تو کہیں نہ کہیں ان سب کے پیچھے کسی بُری طاقت کے استقبال کی تیاریاں نظر آئیں گی جس کے لئے مسلم ممالک کے ساتھ ہمارے پیارے وطن ہندوستان کی آب و ہوا میں بھی اسلام کے خلاف زہر گھولا جارہا ہے اور ہمارے معاشرے میں گندگی پھیلائی جارہی ہے تاکہ مسلمان بھی اس گندگی کا حصہ بن جائیں، نفسی بےقابو ہوکر ایمان کا سودا کرنے پہ مجبور ہوجائیں اور اس مقصد کو کامیاب کرنے کے لئے مغربی تہذیب کو جبرا تھوپنے کی کوشش کی جارہی ہے، جس کے لئے حال ہی میں عدالت عظمی کے "377 اور 497” جیسے بےہودہ اور شرمناک فیصلوں پہ مردوں کے ساتھ ساتھ چند عورتوں نے بھی حامی بھرتے ہوئے حقوق نسواں کے نام پہ  ناجائز عمل کو جائز قرار دیکر جو بےحیائی کا ثبوت پیش کیا ہے وہ صنف نازک کے پاکیزہ وجود پہ بدنما داغ لگانے کے برابر ہے، ساتھ ہی جو خودمختاری کی آڑ میں مردوں کے شانہ بشانہ کھڑے ہونے کی حماقت کی وجہ سے کئی عورتوں نے جو "می ٹو”  کی مہم چھیڑ کر سستی شہرت حاصل کرنے کے لئے مظلومیت کا رونا رو رہی ہیں وہ تو حددرجہ بے شرمی کی انتہا ہے، خود ہی اپنی عزت کو اچھال کر سربازار اپنی ذات کو کوڑیوں کے دام نیلام کر می ٹو سے شی تھو کہلائی جارہی ہیں اور یہ کوئی ان پڑھ گنوار نہیں بلکہ پڑھی لکھی جاہل ہیں، جو اپنے مقصد کو پورا کرنے کی خاطر کسی بھی حد تک جانے کے لئے تیار ہوجاتی ہی۔

لیکن یہاں پہ دکھ اس بات کا ہے کہ غیر مسلم عورتوں کے ساتھ ساتھ ہماری چند دکھاوے کی پردہ نشین بہنیں بھی اچھی خاصی تعداد میں نظر آرہی ہیں , طلاق ثلاثہ کے معاملے میں پولس چوکی اور عدالتوں میں بےآبرو ہوتی ہوئی تو کہیں چند پیسوں و وقتی مفاد کی لالچ میں شریعت کا مذاق بناتے ہوئے اپنے ہی علماء و اکابرین کا تماشہ بنانے کے لئے سیاستدانوں کے ہاتھوں کی کٹھ پتلیاں بنی ہوئی ہیں۔

مثلاً بی جے پی کے ہاتھوں بکنے والی سائرہ بانو، عطیہ صابری، گلشن پروین، آفرین جہاں اور مہیلا آندولن کی اراکین اور ان کا دیکھا دیکھی اور چند لالچی،  شہرت کی بھوکی عورتوں کے حوصلے بلند ہوگئے، جو آئے دن جاہلانہ حرکتیں کرتی نظر آنے لگیں، جب نماز پڑھاتی عورت کا ویڈیو وائرل ہورہا تھا جس میں عورت کی امامت کا جھوٹا و بےبنیادی دعویٰ کیا جارہا تھا لیکن حالات یہیں پہ نہیں رکے بلکہ ان سبھی کے علاوہ آج بھی کئی بیوقوف عورتیں اپنے پنکھ پھڑ پھڑارہی ہیں، جن میں کئی گودی میڈیا کے آگے بےتکے بیانات دیتی نظر آتی ہیں تو کوئی عدالت عظمی میں حقوق نسواں کے نام پر شوہر کی جائیداد ہڑپنے کی  کوشش کررہی ہیں، تو کوئی مساجد میں عورتوں کو نمازیں ادا کرنے کی مانگ کررہی ہیں اور کچھ فاطمہ ریحانہ جیسی عورتیں غیر مذہبی معاملات، رسومات یعنی حال ہی میں پیش آیا شبری مالا مندر کا معاملہ جو کہ ہم مسلمانوں کے لئے غیرضروری ہے، اُن میں بھی اپنی ٹانگ اڑاتے ہوئے مداخلت کررہی ہیں، یہ سوچے سمجھے بنا کہ انکی اسطرح کی حرکتوں کی وجہ سے ملک میں انتشار پھیل سکتا ہے، فسادات ہوسکتے ہیں، جسکا انجام انتہائی خوفناک ہوسکتا ہے، ویسے بھی یہ سب کچھ دشمنان اسلام کی منصوبہ بندی کا اہم حصہ ہے کہ وہ مسلمانوں کے خلاف اپنی سازش کو انجام دینے کے لئے عورتوں کو مہرہ بناکر عوام کو غیرضروری مدعوں میں الجھائیں، جس کی زد میں آکر ملک کی یکجہتی آپسی اتحاد ختم ہوجائے اور وہ سبھی کو آپس میں لڑوا کر دوبارہ اقتدار میں آجائیں،  جسکے لئے وہ ہر مذہب کی ایسی فطرۃً لالچی اور احمق قسم کی عورتوں کو دولت، شہرت، مکمل آزادی اور طاقت کے حسین خواب دکھاکرانہیں اسلام کے خلاف ورغلا کر ان کی آڑ میں اپنا الو سیدھا کررہے ہیں اور اسطرح کی چالبازیاں کوئی نئی بات نہیں بلکہ صدیوں سے عورتوں کو مہرہ بناکر اسی طرح سے استعمال کیا گیا ہے تاکہ وہ فتنہ بن کر شر پھیلاتی رہیں، اور یہی فتین عورتیں دشمنان اسلام کے ہاتھوں اپنے ملک اور اپنی قوموں کے زوال کی وجہ بنتی ہیں۔

ساتھ ہی دوسروں کو بھی گمراہ کرنے کے لئے یہ کافی ہیں (اللہ ان کے فتنے و شر سے ہر مسلمان مرد و عورت کو محفوظ رکھیں آمیں) اسلئے مسلم خواتین کو ان فتنوں اور فتین انسانوں کے خطرناک ارادوں سے باخبر رہ کر اپنی عصمت اور ایمان کی حفاظت کرنی ہوگی تاکہ گمراہی کی تاریکیوں میں بھٹک کر اپنی دنیا و آخرت برباد ہونے سے بچ جائے، کیونکہ حالات حاضرہ کے مدنظر دجالی فتنوں کا آغاز ہوچکا ہے جس کا جیتا جاگتا ثبوت فتنوں میں ملوث یہی عورتیں ہیں جن میں نام نہاد مسلم و غیر مسلم  دونوں برابر کی شریک ہیں، مردوں سے برابری کی ضد، مال ودولت کی ہوس اور نام ونمود کی چاہت نے انہیں اس قدر اندھا بنایا ہے کہ یہ اپنا ایمان دھرم سب کچھ بیچ کر یہود و نثارہ کے نقش و قدم پہ چلتی دکھائ دے رہی ہیں، مغربی تہذیب میں لپٹ کر بےحیائی کی وہ تمام حدیں پار کررہی ہیں جسکا ذکر یا تصور کرنا بھی اخلاقی اعتبار سے غلط اور گناہ مانا جاتا ہے، شاید ہماری یہ نام نہاد مسلم بہنیں قیامت اور دجالی حقیقت سے واقف نہیں ہیں، تبھی یہ بیوقوف حقوق نسواں کی راگ آلاپتے ہوئے اُلٹے سیدھے کام کرنے سے باز نہیں آرہی، سکیولرزم اور لبرل سوچ کے چلتے خود کی دنیا و آخرت تو بگاڑ ہی رہی ہیں ساتھ ہی دیگر بھولی بھالی خواتین کو بھی بہکا کر اس دلدل میں ڈھکیل رہی ہیں، آجکا ہمارا مضمون انہیں نام نہاد مسلم و غیر مسلم عورتوں کے لئے ہے، جو آئے دن گودی میڈیا کی زینت بنکر اسلام اور شریعت کے خلاف اشتہال انگیز بیانات دیتی ہیں، ان کی حرکتیں دیکھنے کے بعد دجالی لشکر کا تصور ہورہا ہے اور یہ ساری لئیبہ کا عکس لگ رہی ہیں، شاید ایسی ہی عورتیں دجال کی پیروی کریں گی، اُسکی مرید بن کر اسکے حفاظتی دستے کی کمان سنبھالیں گی کیونکہ موجودہ حالات بار بار یہی سوچنے اور کہنے پہ مجبور کررہے ہیں کہ ” حقوق نسواں کہ نام پہ کہیں دجالی فتنہ کا آغاز تو نہیں۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ؟

تبصرے بند ہیں۔