خواتین کا استحصال اور اسلامی قانون کی افادیت

عبیدالکبیر

آج کی دنیا میں انسانی دنیا جوں جوں ترقی کی منزلیں طے کرتی جارہی ہے اسی کے ساتھ ساتھ انسانی سماج میں گھناونے جرائم کی شرح بھی روز افزوں ہے۔ ویسے تو اس ہائی ٹیک زمانے میں جرائم کی نت نئی شکلیں وجود میں آچکی  ہیں مگر خصوصیت کے ساتھ قتل اور ریپ کے واقعات ان دنوں بھیانک حد تک بڑھتے نظر آتے ہیں۔  ابھی ابھی بلند شہر میں کچھ لوگوں نے بیک وقت ماں اور بیٹی کے ساتھ جس بہیمانہ حرکت کا ارتکاب کیا اس سے انسانیت ایک بار پھر شرمسار ہو گئی۔ ہمارے ملک کے طول وعرض میں خواتین کو آئے دن جنسی تشدد کا سامنا ہوتا ہی رہتا ہے۔ ہمارے ملک کے چھوٹے بڑے شہروں میں مختلف طبقات سے تعلق رکھنے والی ماں بہنوں کی عزتیں  گویا ہر آن داؤ پر لگی رہتی ہے۔ سرکاری اعداد وشمار کے مطابق سن  2009 کے بعد سے ملک میں خواتین پر تشدد کے واقعات میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ مشہور انگریزی روزنامہ دی انڈین ایکسپریس کے بقول ریپ کی شرح سب سے زیادہ سن  2015 میں ریکارڈ کی گئی۔  ایک جائزے کے مطابق 2009 سن  سے ملک میں عصمت دری کے واقعات کی شرح کچھ یو ں ہے سن 2012 میں 706 واقعات 2013 میں 1636، 2014 میں 2085،اور 2015 میں 2095 معاملات سامنے آئے۔ اس کے علاوہ مذکورہ اخبار نے مورخہ  3 جون 2016 کی  رپورٹ کے حوالے سے  یہ انکشاف کیا کہ  ملک میں یومیہ 93 خواتین اس بد ترین جرم کا شکار ہوتی ہیں۔ واقعہ یہ ہے کہ آج کی متمدن دنیا میں جو جرائم وبا کی صورت اختیار کر گئے ہیں ان ہی میں سے ایک بھیانک جرم خواتین کا جنسی استحصال بھی ہے۔ یہ مسئلہ صرف بھارت جیسے ترقی پذیر ملک کے ساتھ مخصوص نہیں ہے بلکہ اس کی شرح  آج دنیا کی بیشتر ترقی یافتہ اور متمدن  ممالک میں باعث تشویش ہے۔  ابھی کچھ ہی روز قبل ایسے ہی ایک واقعہ پر ملک کی ایک مشہور تنظیم کے لیڈر نے ان جرائم کی روک تھام کے لئے شرعی قانون کی ضرورت پر زور دیا تھا۔ مذکورہ تنظیم اگرچہ اسلام اور مسلمانوں کے حوالے سے اپنے منفی احساسات کی وجہ سے مشہور ہے تاہم غالباً  ریپ کی سنگینی کے پیش نظر اس نے بھی اسلامی موقف کی تائید کی۔ خواتین کے خلاف بڑھتے جرائم کی روک تھام میں ہمارا موجودہ قانونی نظام کتنا موثر ہے اس کا اندازہ درج بالا اعداد وشمار سے لگایا جا سکتا ہے۔   اس سلسلہ میں ایک قابل لحاظ بات یہ بھی ہے کہ نیشنل کرائم  ریکارڈس بیورو کے بقول ریپ کے جن واقعات کا ریکارڈ پیش کیا گیا ہے وہ اس تخمینہ سے کہیں کم ہے جو میڈیا میں پیش کیاجاتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ آخر کب تک انسانی آبادی اس حساس مسئلے کو نظر انداز کرتی رہے گی۔ اس قسم کے حادثات آئے دن  بڑھتے ہی جارہے ہیں اور ہمارا  نظم ونسق  ان واقعات سے شکست کھاتا جا رہا ہے۔ اس المناک صورت حال پر فوری توجہ کرنے کی شدید ضرورت ہے۔  آج ہم ہر میدان میں خواتین کی حصہ داری کا دعوٰی کرتے ہیں ،ہمارے ملک میں خواتین کی خود مختاری کو انتخابات کا ترجیحی ایشو بھی بنایا جاتا ہے مگر ہمیں اس بات کا بھی جائزہ لینا چاہئے کہ آیا ہم خواتین کے لئے اپنے گرد وپیش کو محفوظ اور سازگار بنانے میں کامیاب ہوئے ہیں یا نہیں۔ ہمارے عام مقامات ،شاہ راہیں اور دیگر جگہوں پر ان جرائم کے نسداد کی کیسی تدبیریں عمل میں آچکی ہیں۔ کیا یہ بھی واقعہ نہیں ہے کہ کچھ معاملات میں خود قانون کے رکھوالے ملوث پائے گئے ہیں ؟ہمیں ان حالات کا بہت گہرائی  اور باریک بینی سے مطالعہ کرنے کی ضرورت ہے ورنہ اگر خدا نہ خواستہ یہی صورت حال رہی تو دنیا کی کوئی طاقت ہمیں ہلاک ہونے سے نہیں بچا سکتی۔  تاریخ کا عبرت کدہ یہی شہادت پیش کرتا ہے کہ جس معاشرے میں مرد وزن  کے تعلق میں انارکی کو کسی طور بھی راہ ملی ہے وہ معاشرہ آخر کار زوال کا شکار ہوا  ہے۔ در اصل انسانی وجود میں بدی کی جو فطری قابلیت موجود ہے جب  تک اسے  تعلیم وترغیب یا بوقت ضرورت ترہیب وتعذیر  سے کنٹرول نہیں کیا جائے گا تو انسان کی یہی صفت بد سماج کے لئے مسائل پیدا کر ے گی۔  انسان فطری طور پر مدنی الطبع ہے اسے اگر دنیا جہان کی تمام آسائشیں بہم پہنچا دی جائیں تب بھی وہ تنہا نہیں جی سکتا۔  اسے ایک خاندان سماج اور ریاست کی بہر حال ضرورت ہو گی جس کے جلو میں وہ اپنی زندگی کے امکانات کو بروئے کار لا سکے۔ انسان کی اسی فطری ضرورت نے دنیا میں ریاست کو وجود بخشا اور ریاست کے  قیام کا بنیادی مقصد ہی یہی ہے کہ اس میں انسانوں  کو بحیثیت فرد اور جماعت  اپنے حقوق وفرائض کی ضمانت مل سکے۔ اب سوال یہ ہے کہ فرد اور جماعت میں حقوق اور اختیارات کی حدیں کیا ہوں گی اور ان حدوں کو تجاوز کرنے کی صورت میں انسان کو کس قسم کی تعذیرات سے سابقہ پیش آنا چاہئے۔ یہ ایک اصولی چیز ہے جس کا حل تلاش کرنا انسان کے بس کی بات نہیں ہے۔  تاریخ کے طویل نشیب وفراز میں  انسان  اپنی تمام تر قابلیت (جو فی الواقع بہت محدود ہے)کا استعمال کرکے بھی اس اصولی مسئلہ کو سلجھانے میں ہنوز ناکام ہے۔ کیوں کہ انسانی آبادی کو  اس کی مختلف تمنائیں اور انسان کی مشترک ضرورتیں  ہمیشہ افراط وتفریط کا شکار رکھتی ہیں۔ ہم جس دنیا میں پیدا کئے کئے ہیں اس میں ہماری بہت سی ضروریات ایک دوسرے سے ہمہ وقت متصادم ہوتی رہتی ہیں اب اگر انسان خود  اس نزاع کا فیصلہ کرنے بیٹھ جائے  تو یقیناً اس کے  پیش نظر صرف اپنے مفادات کا تحفظ ہو گا جو دیگر ابنائے نوع  کے لئے مضر ثابت ہوگا۔ اس لئے  کہ انسان کی طبیعت میں جو تلون حرص اور سیماب وشی کی خصوصیات موجود ہیں وہ اس کی نظروں سے نقطہ عدل کو اوجھل کر دیں گی۔ انسان کی سماجی زندگی کا یہی وہ نقطہ ہے جہاں سے ظلم وجبر کا آغاز ہو تا ہے اور بسا اوقات یہی چیز معمولی تلخ  کلامی سے بڑھ کر  باہمی نزاع حتی کہ کشت وخون کا بازار تک  گرم کر دیتی ہے۔ تاریخ انسانی کا گہرا مطالعہ اور انسانی نفسیات کا تجزیہ اس حقیقت کو بخوبی واضح کرتا ہے جسے سمجھنے کے لئے بس ضرورت چشم بینا کی ہے۔ آج دنیا میں تعلیم وترقی کے زعم کے باوجود یہ حقیقت کتنی الم ناک اور عبرت آموز ہے کہ انسان ہی اس دنیا میں نوع انسانی کا شکاری بن چکا ہے۔  وہ انسان جو اپنے عین وجود میں کم از کم ایک عورت کے بے شمار احسانات کا زیر بار ہے اس کی سرشت میں ایک بہیمانہ جذبہ کی پرورش آخر کیسے ہو جاتی ہے۔ ماں کی بے پایاں شفقت اور بہن کے پیار نے جس وجود کو دنیا میں جینے کے قابل بنایا اس کے دست برد سے اگر کسی کی ماں بہن تک کی آبرو پامال ہو نے لگے  تو انسانیت کو ہوش کے ناخن لینا چاہئے۔ یہ گھناونا جرم کوئی معمولی واقعہ نہیں ہے   جسے محض ایک حادثہ کہہ کر ٹال دیا جائے۔ آخر ہماری تعلیم وتربیت اور جزا وسزا کا نظام انسان کو انسان بنانے میں اتنا ناکام کیوں ثابت ہو رہا ہے۔ وہ کیا اسباب وعوامل ہیں جو انسان کے  جنسی جذبات کو اتنی بری طرح متاثر کر رہے ہیں۔ کیا خواتین کو با اختیار بنانے کا خواب اسی طرح شرمندہ تعبیر ہو پائے گا۔ یہ سچ ہے کہ جس طرح انسان کی دیگر فطری ضروریات ہیں اسی طرح انسان کی جنسی ضرورت بھی ایک فطری تقاضہ ہے اور دنیا کے ہر سماج میں اس کے حل کی مختلف صورتیں موجود ہیں۔  اس سلسلہ میں سب سے زیادہ کشادہ ظرفی اسلام میں پائی جاتی ہے جہاں ایک مرد کو چار شادیوں کی اجازت دی گئی ہے۔ ساتھ ہی اسلام نے خواتین اور  مرد دونوں کو ایک دوسرے پر ظلم وتعدی سے باز رکھنے کے لئے معاشرت کو صحیح اور معتدل اصولوں پر ڈھالا ہے۔ اسلام کے فلسفہ حیات اور اس ہدایات کے سلسلہ میں یہ بات ذہن نشیں رہنی چاہئے کہ  اسلام کسی انسانی دماغ کی تصنیف نہیں ہے جس میں ہر قسم کا رطب ویابس خلط ملط کر دیا گیا ہو اور انسان کو اس میں من مانی کی اجازت دی جا سکے۔  ایک آدمی کو دائرہ اسلام میں داخل ہونے کے بعد ترک وختیار کا لا محدود حق نہیں دیا جاسکتا۔ در اصل اسلام نام ہی ہے اپنے ترک واختیار اور عزم وارادہ کی سپردگی کا۔ چنانچہ جب کوئی شخص توحید ورسالت کا اقرار کر لے تو اس اقرار کی بنا پر وہ اللہ تعالی کے احکامات  کا براہ راست پابند اور مخاطب ہو جاتا ہے۔ خلاصہ یہ ہے کہ اسلام بندگئی رب سے عبارت ہے جس کے ساتھ بندگئی نفس کی آمیزش ممکن ہی نہیں۔ خواتین کی عزت وآبرو اور ان کی تقدیس کے حوالے سے اسلام کی تعلیمات بہت وسیع اور مفصل ہیں۔  اسلام نے اس مسئلے کی بیخ کنی کے لئے  صرف کوڑے اور سنگ ساری کا حکم نہیں دیا ہے  بلکہ اس  نے روز مرہ کی زندگی میں خفیہ اور علانیہ ہر اس طرز کو ممنوع قرار دیا ہے جو اس قسم کے شرمناک واردات کا باعث بنے۔ اس باب میں اسلام کا قانوں یک رخا نہیں ہے بلکہ اس میں فطرت انسانی کی کمزوریوں کی نشاندہی کرکے اس کے لئے حدود متعین کر دئے گئے ہیں۔ اسلام کا یہ قانون بجا طور پر سخت ہے مگر اس کا منشا صرف اس کے ایک پہلو سے حاصل نہیں کیا جاسکتا ۔ اس کے لئے ضروری ہے کہ اسلام کے نظام معاشرت میں غور وفکر کرکے اس کے اساسی مقصد کو سامنے رکھا جائے ورنہ اس کے بغیر صرف اپنی مرضی کے مطابق  اس کا استعمال مفید مطلب نہ ہوگا۔

تبصرے بند ہیں۔