ماں کی لازوال محبت، ایک دن کی محتاج کیوں؟

محمد ہاشم قادری مصباحی

 اللہ رب العزت کی تخلیق میں انسان کو بہت اہمیت حاصل ہے۔ یقینا ہم نے انسان کو بہترین ساخت میں پیدا فرمایا۔ (قرآنی مفہوم) اور اس میں عورت کی پیدائش کا ذکر پہلے فرمایا۔ (القرآن، سورہ شوریٰ، آیت ۴۹، ۵۰) ترجمہ: اللہ ہی کے لئے ہے آسمانوں اور زمین کی سلطنت پیدا کرتا ہے جو چاہے جسے چاہے بیٹیاں عطا فرمائے اور جسے چاہے بیٹے دے یا دونوں ملادے، بیٹے اور بیٹیاں اور جسے چاہے بانجھ کردے۔ بے شک وہ علم و قدرت والا ہے۔ (کنز الایمان) اللہ نے پیدائش کے ذکر میں بیٹی کا ذکر پہلے فرمایا۔ اس سے معلوم ہو اکہ بیٹی جو آگے عورت کا روپ دھارن کرتی ہے اور پھر ماں اللہ کے نزدیک بھی اہمیت کی حامل ہے۔

 ماں کا روپ اللہ تبارک اللہ کی طرف سے وہ خوبصورت عطیہ ہے جس میں اللہ نے اپنی رحمت، فضل و کرم، برکت، راحت اور عظمت کی آمیزش شامل فرماکرعرش سے فرش پر اتارا اور اس کی عظمتوں کو چار چاند لگا دیا، قدموں تلے جنت دے کر ماں کو مقدس اور اعلیٰ مرتبہ پر فائز کر دیا۔ ممتا کے جذبے سے سرشار اور وفا کا پیکر اور پر خلوص دعاؤں کے اس روپ کی خوبیوں کو بیان کرنا سمندر کو کوزے میں بند کرنے کے مترادف ہے۔ ماں اللہ رب العزت کا ایسا عطیہ ہے جس کا کوئی نعم البدل نہیں جو اللہ تعالیٰ کے بعد اپنی اولاد کے دل کا حال بہت جلد جان لیتی ہے۔ اولاد کے دل میں کیا چل رہا ہے ماں سے زیادہ بہتر کوئی نہیں جانتا۔ اللہ نے قرآن کریم میں بہت سی جگہوں پر والدین کاذکر اپنے ذکر کے ساتھ فرمایاہے:

 وَاِذْ اَخَذْنَا مِیْثَاقَ بَنِی اِسْرَائِیْلَ لَا تَعْبُدُوْنَ اِلَّا اللّٰہَ وَبِاالْوَالِدَیْنِ اِحْسَاناً۔ (القرآن سورہ البقرہ، آیت ۸۲)

ترجمہ: اور یاد کرو جب لیا تھا ہم نے پختہ وعدہ بنی اسرائیل سے (اس بات کا ) نہ عبادت کرنا بجز اللہ کے اور ماں باپ سے اچھا سلوک کرنا۔

 دوسری جگہ ارشاد باری ہے:

 وَعْبُدُو اللّٰہَ وَلَا تُشْرِکُوْ بِہٖ شَیْئاً وَّ بِالْوَالِدَیْنِ اِحْسَاناً (القرآن، سورہ نساء، آیت ۳۶)

ترجمہ: اور اللہ کی بندگی کرو اور اس کا شریک کسی کونہ ٹھہراؤ اور ماں باپ سے بھلائی کرو۔

 والدین کی عظمت کا ثبوت اس سے بڑا اور کیا ہو سکتا ہے کہ رب نے اپنے اسمِ جلالت کے ذکر کے ساتھ والدین کی خدمت کا حکم دیاہے۔ ماں کی عظمت کا بھی اعلان فرمایا:

وَوَ صَّیْنَا الْاِنْسَانَ بِوَالِدَیْہِ اِحْسَاناً ط حَمَلَتْہُ اُمُّہٗ کُرْھًا وَّوَضَعَتْہُ کُرْھًا ط وَحَمْلَہٗ وَفِصٰلُہٗ ثَلٰثُوْنَ شَھْرًا۔ (القرآن، سورہ احکاف، آیت ۱۶)

 ترجمہ: اور ہم نے آدمی کو حکم کیا کہ اپنے ماں باپ سے بھلائی کرے۔ اس کی ماں نے اسے پیٹ میں رکھا تکلیف سے اور جنا(پیداکیا) اس کو تکلیف سے اور اسے اٹھائے پھرنا اور اس کا دودھ چھڑانا تیس مہینہ میں۔ (کنز الایمان)۔

ماں باپ اگرچہ کافر ہوں مگر ان کی خدمت اولاد پر لازم ہے کیونکہ والدین کا حکم مطلق ہے۔ رب تعالیٰ نے فرمایا۔ اور یہ بھی معلوم ہوا حق الخدمت ماں کا زیادہ ہے کیونکہ ماں کی تکلیف کا بیان ہے اور یہ کہ ماں نے بچہ کو خون پلاکر (خون سے ہی دودھ بنتا ہے) پالا اور باپ نے محنت کرکے کمائی کی اور پرورش کی۔ ماں اگر بچہ کی پرورش نہ بھی کرسکے جب بھی حق ِ مادری اس کا بچے پرلازم ہے۔ (جیسے بیماری یا کوئی تکلیف پر)کیونکہ یہاں پیٹ میں نو ماہ رکھنے اور جننے (پیداکرنے) کی تکلیف کووجہ بتایا گیا نیز ماں اگر خاوند سے اجرت لے کر بھی بچے کوپالے جب بھی ماں کا حق اولاد پر قائم رہے گا جیسے موسیٰ علیہ السلام کی والدہ نے فرعون سے اجرت لے کر پالا اور پرورش فرمائی۔ (تفسیر نورالعرفان، صفحہ ۸۰۳)

ماں کا حق کوئی ادا نہیں کر سکتا:

ماں باپ کا یہ ادب ہے کہ ان کی خدمت جان و مال دونوں طرح سے کرے۔ ایسا نہ ہو کہ خدمت کرے اور ان کو پائی پائی کے لئے ترسائے اور ایسا بھی نہ ہو روپئے پیسے کی بوچھار کرے اور بات کرنے، خدمت کرنے کا روادار نہ ہو۔ ان کی خدمت کے لئے نوافل کو ترک کر سکتا ہے۔ فرائض و واجبات نہیں۔ ایک بار ایک صحابی ِ رسول حضور نبی کریم  ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا : یا رسول اللہ  ﷺ میں نے اپنی ماں کو اپنے کاندھوں پر بٹھا کر حج کروایا ہے، کیا میں نے ماں کا حق اداکر دیا ؟ آپ  ﷺ  نے فرمایا: نہیں، تو نے ابھی اپنی ماں کی ایک رات کے دودھ کا حق بھی ادا نہیں کیا ہے۔

ماں کا حق باپ کے حق سے زیادہ ہے:

ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں میں نے رسول اللہ  ﷺ سے عرض کیا: عورت پر سب سے بڑا حق کس کا ہے؟ فرمایا: شوہر کا۔ میں نے عرض کیا: اور مر د پر سب سے بڑا حق کس کا ہے؟ فرمایا: اس کی ماں کا(بسند حسن حاکم نے اسے روایت کیا ہے۔ جلد ۵۶، صفحہ ۲۰۸، الحدیث ۷۳۲۴) حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : ایک شخص نے حضور  ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوکر عرض کیا :یا رسول اللہ  ﷺ سب سے زیادہ کون اس کا مستحق ہے کہ میں اس کے ساتھ نیک رفاقت (خیر خواہی) کروں ؟ فرمایا: تیری ماں۔ عرض کیا پھر؟فرمایا :تیری ماں۔ عرض کیا پھر؟ فرمایا: تیری ماں۔ عرض کیا پھر؟ فرمایا: تیرا باپ۔ (امام بخاری اور مسلم نے اپنی اپنی صحیح میں اسے روایت کیا ہے۔ جلد ۴، صفحہ ۹۳، الحدیث۵۹۷۱) چند احادیث اور ملاحظہ فرمائیں، پڑھ کر عمل کریں۔ اللہ کے رسول  ﷺنے فرمایا:(۱)میں آدمی کو وصیت کرتا ہوں اس کی ماں کے حق میں (۲) میں وصیت کرتا ہوں اس کی ماں کے حق میں (۳) میں وصیت کرتا ہوں اس کی ماں کے حق میں (۴) میں وصیت کرتا ہوں اس کی ماں کے حق میں (امام احمد اور ابن ماجہ اور حاکم، بیہقی شریف نے۔ سنن میں ابو سلالہ سے اسے روایت کیا ہے۔ جلد۵، صفحہ ۲۰۸، الحدیث ۷۳۲۵)ایک صحابی نے نبی کریم  ﷺ سے پوچھا، کیا میں بھی جہاد میں شریک ہوجاؤں ؟ نبی کریم  ﷺ نے دریافت فرمایا کہ تمہارے ماں باپ موجود ہیں۔ انہوں نے کہا کہ جی ہاں موجود ہیں۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ پھر انہیں میں جہاد کرو۔ یعنی ان کی خدمت کرو۔ (صحیح بخاری، حدیث ۵۹۷۲)ابو سفیان رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ اللہ نے تم پر ماں کی نافرمانی حرام کردی ہے اور (والدین کے حقوق )نہ دینا اور ناحق ان سے مطالبات کرنا بھی حرام قرار دیا ہے۔ لڑکیوں کو زندہ دفن کرنا(بھی حرام قراردیا ہے) اور قیل و قال (فضول باتیں ) کثرت ِسوال اور مال کی بربادی کو بھی نا پسند کیا ہے۔ (بخاری باب والدین کی نافرمانی بہت ہی بڑے گناہ میں سے ہے۔ الحدیث ۵۹۷۵)

ماں کی تکلیف کا بیان قرآن مجید میں:

علما ء فرماتے ہیں کہ حقِ خدمت ماں کا زیادہ ہے اور حقِ اطاعت حکم بجا لانا باپ کا زیادہ ہے۔ اسی لئے آقا ﷺ نے فرمایا کہ جنت تمہاری ماؤں کے قدموں کے نیچے ہے۔ اور رب نے فرمایا: (القرآن سورہ لقمان، آیت ۱۳) ترجمہ: اور ہم نے آدمی کو اس کے ماں باپ کے بارے میں فرمایا۔ اس کی ماں نے اسے پیٹ میں رکھا کمزوری جھیلتی ہوئی اور اس کا دودھ چھوٹنا دو برس میں ہے۔ یہ ہے کہ حق ماں میرا اور اپنے ماں باپ کا، آخر مجھ ہی تک آنا ہے۔ (کنزالایمان)اور دردِ زہ ولادت کی تکلیف کا ذکر فرمایا۔ اسی سے معلوم ہواکہ ماں کا حق باپ سے زیادہ ہے کہ باپ نے مال سے بچے کو پالا اور ماں نے خون سے۔ علما ء فرماتے ہیں، حقِ خدمت ماں کازیادہ ہے اور حقِ اطاعت حکم بجا لانا باپ کا زیادہ ہے۔ اسی لئے حضور  ﷺ نے فرمایا کہ جنت تمہاری ماؤں کے قدموں کے نیچے ہے۔ اور فرمایا تو اور تیرا مال باپ کا ہے۔ اللہ نے اپنے ساتھ ماں باپ کا ذکر فرمایا کیونکہ وہ ہمارارب ہے اور ماں باپ ہمارے مربی۔ حضرت سفیان ثوری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ نماز پڑھ کر رب کا شکر ادا کرو اور نماز کے بعد ماں باپ کے لئے دعا مانگو۔ (تفسیر نور العرفان، صفحہ ۵۳۔ ۴۵۲)

مدرس ڈے (Mother’s Day) منانا فیشن یا ماں کی انمول محبت کا مذاق؟:

ماں کی ممتا کوایک دن میں سمیٹنا ماں کی محبت کی توہین ہے۔ ماں کی لازوال انمول محبت کو ایک مسلمان کی حیثیت سے ہم کیسے ماؤں کی محبت، خلوص اور شفقت کو بھول کر سال میں صرف ایک دن اس کے نام کردیں کون سا کمال ہے۔ پوری زندگی، پوری زندگی کا ہر سال، سال کا پورا مہینہ، مہینہ کاہر دن اور دن کا ہر ہر لمحہ ماں کے نام ہونا چاہئے۔ مدرس ڈے تو اغیار کی روایت ہے جہاں نہ رشتوں کا تقدس ہے اور نہ ہی کوئی اہمیت ہے۔ جہاں اولاد صاحبِ حیثیت ہونے کے باوجود اپنے ماں باپ کو بے وقعت سمجھنے لگتے ہیں اور ماں کی قربانیوں اور پر خلوص محبت کو ٹھوکر مار کر ’’اولڈ ہاؤس‘‘میں رکھ دیتی ہے اور سال میں ایک دن اپنی ماں اور باپ کے نام کرکے اپنے فرض سے منھ پھیر لیتے ہیں۔ لیکن بحیثیت مسلمان ہماری یہ روایت نہیں ہے۔ اللہ و رسول کی طرف سے ماں کی محبت و شفقت کے مجسم روپ کوعزت و تکریم دینے کی تلقین کی گئی ہے۔ اور ماں کی محبتوں اور خلوص کی پاسداری کرنے کا حکم دیا گیا ہے اور سب سے بڑھ کر ہمیں ماں باپ کے آگے اف تک کرنے سے منع کیا گیاہے۔ ایک مسلمان کی حیثیت سے ہمارے لئے اپنی ماں سے پیار کے اظہار کے لئے کوئی ایک دن مخصوص کرنا غلط ہے بلکہ ہر دن اور لمحہ اپنی ماں کی خدمت اور خیال رکھنے کے لئے ہونا چاہئے کیونکہ ماں سے پیار کے لئے کوئی ایک مخصوص دن کسی جذبے کا محتاج نہیں ہے بلکہ ہر دن ہر آن ماں کے لئے ہونا چاہئے۔ اسی میں دنیا و آخرت میں ہماری کامیابی ہے۔

والدین کے لئے ہماری ذمہ داریاں:

قرآنی آیات و احادیث طیبہ سے معلوم ہوا کہ والدین میں ماں کا مقام و مرتبہ افضل و اعلیٰ ہے مگر یہ فضیلت کن چیزوں میں ہے۔ اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خاں علیہ الرحمتہ نے اپنی کتاب ’’ الحقوق لطرح العقوق‘‘ اور فتاویٰ رضویہ میں بڑے نفیس انداز میں وضاحت فرمائی ہے۔ لکھتے ہیں : اس زیارت کے یہ معنی نہیں کہ خدمت میں، دینے میں باپ پر ماں کو ترجیح دے۔ مثلاً سو روپئے ہیں اور کوئی خاص وجہ مانع تفضیل(فوقیت، فضیلت) مادرنہیں تو باپ کو ۲۵؍روپئے دے اورماں کو ۷۵؍روپئے دے۔ اور اسی طرح اگر ماں باپ دونوں نے ایک ساتھ پانی مانگا ہے تو پہلے ماں کو پلائے پھر باپ کو۔ یا پھر دونوں سفر سے آئے ہیں پہلے ماں کے پاؤں دبائے پھر باپ کے۔

خبر دار خبر دار:

اگر والدین میں تنازع ہو، جھگڑا ہو تو ماں کا ساتھ دے کر باپ کو تکلیف نہ دے یا اس کی بے ادبی کرے معاذ اللہ! آنکھ ملاکر بات نہ کرے۔ یہ سب باتیں حرام ہیں۔ معصیت (گناہ) ہیں۔ نہ ماں کی اطاعت ہے نہ باپ کی تو اسے ماں باپ میں کسی کا ایسا ساتھ دینا ہرگز ہرگز جائز نہیں، وہ دونوں یعنی ماں باپ اس کی جنت و نار ہیں۔ خوش کیا تو جنت ناراض کیا کسی ایک کو تو جہنم کا مستحق ہوگا۔ معصیت خالق میں کسی کی اطاعت جائز نہیں۔ مثلاً اگر ماں چاہتی ہے کہ یہ باپ کو آزار(تکلیف) پہنچائے اور اولاد نہیں مانتی توماں ناراض ہوجائے گی ہونے دے۔ ایسا ہی باپ چاہتاہے تو ہر گز ہرگزنہ مانے۔ ایسی ناراضگیاں کچھ قابلِ لحاظ نہیں کہ یہ ان کی زیادتی ہے کہ اس سے اللہ تعالیٰ کی نافرمانی ہوگی۔ علمائے کرام نے یوں تقسیم فرمائی ہے کہ خدمت میں ماں کو ترجیح دے جس کی مثالیں قرآن و احادیث میں ہیں اور ہم اوپر لکھ آئے ہیں اور تعظیم باپ کی زائد کرے کہ وہ اس کی ماں کا بھی حاکم و آقا ہے۔ (الحقوق لطرح العقوق، صفحہ ۳۶)، فتاویٰ عالمگیری میں ہے، جب آدمی کے لئے والدین میں سے ہر ایک کی رعایت مشکل ہوجائے مثلاً ایک کی اطاعت سے دوسرے کو تکلیف پہنچتی ہے تو تعظیم و احترام میں باپ مقدم ہے اور خدمت میں والدہ مقدم ہوگی۔ حتیٰ کہ اگر گھر میں دونوں اس کے پاس آئے ہیں تو باپ کی تعظیم کے لئے کھڑا ہوجائے اور دونوں نے پانی مانگا اور کسی نے اس کے ہاتھ سے پانی نہیں پکڑا تو پہلے والدہ کو پانی پیش کرے۔

اسی طرح ’’قنیہ‘‘ میں ہے رَبِّ ا رْحَمْھُمَا کَمَا رَبَّیَانِیْ صَغِیْرًا۔ اور ہمیں اپنے ماں باپ کا فرماں بردار بنا اور ان کے لئے ہمیشہ دعا کرے۔ زندہ ہوں تو آسان زندگی کے لئے انتقال ہوگیا ہو تو مغفرت کی دعا کرے اور درجات کی بلندی کی دعا کرے۔ ماں جیسی عظیم نعمت کی ہمیشہ قدر کرنی چاہئے۔   اللہ سے دعا ہے کہ والدین کی قدر و عزت اور خدمت کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین، ثم آمین!

تبصرے بند ہیں۔