عالمی یوم انسداد بدعنوانی اور ملک کی بدعنوانیاں

ڈاکٹر سیّد احمد قادری

9دسمبر؍ کی تاریخ دنیا کے ان تمام ممالک کے لئے بے حد اہمیت کی حامل ہے، جہاں کرپشن عام ہے اور جس کے باعث ان ممالک کی ترقی، خوشحالی اور معیشت پر منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں ۔ کرپشن کی وجہ کر ایسے ممالک کی تعلیم، صحت، عدلیہ،جمہوریت، اور عوامی خوشحالی بہت شدت سے اثر انداز ہوتی ہے۔ان مسائل کے پیش نظر ہی اقوام متحدہ نے 31اکتوبر 2003ء کو ایک قرارداد کے ذریعہ ہر سال 9 دسمبر کی تاریخ کو انسداد بدعنوانی کا عالمی دن منانے فیصلہ کیا تھا۔ جس کا مقصد بدعنوانی کے خلاف مہم چلا کر اس کے مضر اثرات کو لوگوں کے علم میں لا کر اس کے خاتمے کے لئے رائے عامہّ تیار کرنے کو ضروری قرار دیا گیا تھا۔ اس سلسلے میں اس بات کے خدشہ کا بھی اظہار کیا گیا تھاکہ بدعنوانی کا خاتمہ صرف قوانین بنانے سے نہیں ہوگا، بلکہ معاشرے کے اندر کرپشن سے ہونے والے نقصانات سے منظم اور منصوبہ بند مہم کے ذریعہ ہی ہر فرد کو اس کی ذمہّ داری کا احساس کرانے اشد ضرورت ہے۔اس لئے کہ کرپشن ایک ایسا گھن ہے، جو بڑھتے بڑھتے نہ صرف سماج اور قوم کو بلکہ پورے ملک کو اندر ہی اندر کھوکھلا کر دیتا ہے۔ نظر اٹھا کر دیکھئے، جن ممالک میں بھی معاشی کرپشن کی زیادتی ہوئی، اس نے پورے ملک کو کھوکھلا، کمزور اور بے وقعت کردیا ہے۔

اس صورت حال کو جاننے کے لئے، بس ہر سال مختلف اداروں کے ذریعہ جاری ہونے والے سروے ہی پر ایک نظر ڈال لیں ، تو اندازہ ہو جائے گا کہ کرپشن سے شائد ہی کوئی ملک بچا ہے۔ اس سلسلے میں ہم ایک طائرانہ نظر World Democracy Audit کی رپورٹ پرڈالیں ، تو 2016 اور 2017 کی ا س رپورٹ میں 154 ممالک کا نام ہے۔ان دو برسوں میں بہت زیادہ نمایاں فرق نطر نہیں آتا ہے۔ ان میں چند اہم ممالک کے نام جان کر حیرت بھی ہوتی ہے، مثلاََ دنمارک،نیوزی لیند، سویڈن، نوروے،کناڈا،جرمنی،یو کے، آسٹریلیا،یو ایس، جاپان،فرانس،متحدہ عرب امارات،وغیرہ سے لے کر سومالیاتک کا اس فہرست میں نام ہے۔ اس سروے کے مطابق ہمارے ملک انڈیا، کا رینک جہاں 2016 میں 62 تھا، وہیں 2017 میں 52 پر پہنچ گیا۔ اب ایسی حالت میں عالمی سطح کے کرپشن کا جائزہ لینے کی بجائے، اپنے ہی ملک کے معاشی کرپشن کا جائزہ لینا مناسب ہوگا۔ کرپشن کے معاملے میں 2016 اور2017 میں ہمارا ملک کہاں کھڑا ہے، یہ ہم دیکھ چکے۔ اب ایک نظر Transperancy international corruption perception index پر بھی ڈالتے ہیں ، تو ہم دیکھتے ہیں کہ 2013ء میں انڈیا جہاں کرپشن کے معاملے میں 175 ممالک کے درمیان 94ویں پوزیشن پر تھا، وہیں 2015 ء میں ہمارے ملک کا کرپشن ترقی پا کر 85 ویں پائدان پر آ گیا۔ اسی ادارہ کا ایک دوسراسروے بھی ہمارے ملک کے لئے افسوسناک ہے کہ بھارت میں 2005ء میں 62 فی صد سے زائد لوگ ملازمت حاصل کرنے یا حکومت وقت سے مراعات حاصل کرنے کے لئے رشوت دیتے ہیں ۔ لیکن 2008ء میں یہ گھٹ کر 40 فی صد پر آ گیا۔

ہم اس تلخ حقیقت سے انکار نہیں کر سکتے ہیں کہ ملک کی موجودہ صورت حال اس امر کو تقویت بخشتا ہے کہ سیاست اور کرپشن کا چولی دامن کا ساتھ ہے۔ انگریزی کے مشہور تاریخ داں لارڈ ایکٹن (1834-1902) نے موجودہ حالات کی پیشن گوئی کرتے ہوئے کبھی لکھا تھا کہ اقتدار، کرپٹ کرتی ہے اور بے کراں اقتدار لا محدود طور پر بد عنوان کرتی ہے۔ لارڈ ایکٹن کا یہ جملہ ایک زمانے میں کافی مشہور ہوا تھا۔ عصری تناظر میں اس کی معنویت اس لئے بڑھ جاتی ہے کہ جہاں جہاں اقتدار حاصل کرنے کے لئے جوڑ توڑ کو راہ دی جاتی ہے، وہاں وہاں کرپشن کی زیادتی ہوتی جاتی ہے۔ اپنے ملک میں آزادی کے بعد جو سب سے پہلا کرپشن کا معاملہ سامنے آیا تھا، وہ 1948 ء میں فوجی جیپ اسکینڈل تھا۔ جس میں اس وقت کے ہندوستانی ہائی کمشنر برائے برطانیہ وی کے کرشنا مینن کا نام سامنے آیا تھا۔ جن پر یہ الزام عائد کیا گیا تھا کہ انھوں نے پروٹوکول کو نظر انداز کرتے ہوئے 80 لاکھ روپئے کے 200 فوجی جیپ کے لئے غیر ملکی فرم سے معاہدہ کیا تھا۔ اس اسکینڈل کی جانچ کے لئے انتھ سوئنم آئینگر کمیٹی بنائی گئی تھی۔ جس میں پوری جانچ کے بعد کرشنا مینن کو بے قصور پایا گیا تھا۔ اس لئے اس رپورٹ کے آ نے کے بعد وزیر داخلہ وقت گووند ولبھ نے اس کیس کی فائل کو بند کر دیا تھا۔ بعد میں یہی کرشنا مینن، پندت نہرو کی حکومت میں وزیر دفاع بھی بنائے گئے۔ آزادئ ہند کے بعد، اس پہلے بد عنوانی کے معاملے کے بعد 1951 ء میں سائکل اسکیم سامنے آیا۔ 1956 ء میں بد عنوانی کا ایک اور معاملہ منظر عام پر آیا تھا۔ جو بنارس ہندو یونیورسٹی غبن کے نام سے جانا جاتا ہے۔

بد عنوانی کے اس بڑے معاملہ کے بعد تو ملک کے اندر کرپشن کو جیسے رفتار مل گئی ہو اور مالی منعفت کے لئے سیاست دانوں میں جیسے مقابلہ شروع ہو گیا۔ جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ کرپشن کے حمام میں بیشتر سیاسی جماعتوں کے رہنما ننگے ہوتے چلے گئے۔ چونکہ کانگریس ملک کی بڑی اور اقتدار میں کافی عرصہ تک رہنے والی پارٹی تھی۔ اس لئے اس پر کرپشن کے زیادہ الزامات عائد ہوئے۔ اس سلسلے میں سکھ رام، شنکر سنگھ واگھیلا، جگن ناتھ مشرا، سریش کلماڑی، شیلا دکشت، ویر بھدر سنگھ، اشوک گہلوٹ، چھگن بھجول، اور رشید مسعود وغیرہ جیسے کانگریسی رہنماؤں کے نام بدعنوانیوں کے معاملے میں کافی مشہور ہوئے۔ ان لوگوں میں سے بیشتر رہنماؤں نے اقتدار کا ناجائز فائدہ اٹھاتے ہوئے بدعنوانی کو عروج پر پہنچا دیا۔ جس کے اثرات بہر حال ملک کی دوسری برسراقتدارسیاسی جماعتوں پر بھی پڑے اور سماج وادی پارٹی، راشٹریہ جنتا دل، بہوجن سماج پارٹی، ڈی ایم کے، انّا ڈی ایم، تیلگو دیشم، ترنمول کانگریس وغیرہ کے رہنما ؤں نے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی کہ تم نے جو کام اتنے طویل عرصہ میں کیا، وہ ہم محدود وقت میں کرنے کے اہل ہیں ۔ اس ضمن میں جئے للتا ( اے ڈی ایم کے )، ٹی ایم سیلواگنپتی( اے آئی ڈی ایم کے)، اے راجا، دیا ندھی مارن، کروناندھی ( ڈی ایم کے )، ببن راؤ گھولپ، سریش جین (شیو سینا) وائی ایس جگموہن ریڈی((وائی ایس آر کانگریس پارٹی) ریوندر ریڈی( تیلگو دیشم)، لالو پرساد( راجد)، ملائم سنگھ یادو (سپا)، جارج فرنانڈیس، جگدیش شرما( جدیو)، شرد پوار( راشٹروادی کانگریس)، مایاوتی(بسپا)، اوم پرکاش چوٹالہ( انڈین لوک دل)، کنال گھوش، مدن مشرا،مکل رائے( ترنمول کانگریس)، رام چندر ہانسدا(بیجو جنتا دل)، شیبو سورین(جھا مو)اور مدھو کوڑا(آزاد) کے ساتھ ساتھ بھارتیہ جنتا پارٹی کے سریش ہلوانکر، بنگارو لکشمن، یودی رپّا،سشما سوراج،وسندھرا راجے سندھیا وغیرہ پر نہ صرف کرپشن کے الزامات لگے، بلکہ ان میں سے بیشتر لوگوں کو حکومت اور اقتدار سے برطرف کرتے ہوئے عدالتی فیصلے کے تحت جیل بھی بھیجا گیا۔

ڈاکٹر منموہن سنگھ کی یو پی اے حکومت یا اس سے قبل کی حکومت میں جتنے بھی بڑے گھوٹالے طشت از بام ہوئے۔ ان تمام معاملات میں کبھی بھی ہٹ دھرمی کا ثبوت نہیں دیا گیا، بلکہ حکومت پشیماں ہوئی اور حزب اختلاف کی تنقید کے جواب میں اپنی پارٹی اور حکومت کے شفاف امیج کو بچانے کے لئے ثبوت فراہم ہوتے ہی اپنے سینئیر سے سینیئر کابینہ وزیر تک کو نہ صرف برطرف کیا بلکہ ان کے خلاف سخت سے سخت تادیبی کاروائی کرنے میں تاخیر نہیں کی گئی۔اس سلسلے میں میرا خیال ہے کہ منموہن سنگھ کی حکومت کا یہی اعتراف جرم، ان کی حکومت کے زوال کا باعث بنا۔ بد عنوان وزرأ کی برطرفی، جیل کی سزا سے ملک کے عوام کے درمیان یہ تاثر قائم ہوا کہ یو پی اے حکومت میں بد عنوانیاں بہت زیادہ ہیں ۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ اپنی تما م بہتر کارکردگیوں کے باوجود یو پی اے حکومت اعتمادکھوتی چلی گئی، اور اس کے حصے میں کرپشن اور مہنگائی کی رسوائیاں وبدنامیاں جگہ بناتی چلی گئیں ۔ جس کا فائدہ حزب اختلاف نے اٹھاتے ہوئے، ملک کے عوام کے درمیان یہ تاثر دیا کہ ملک کو بدعنوانیوں کے دیمک سے بچانا ہے تو اس حکومت سے نجات حاصل کرو۔ ساتھ ہی ساتھ ایسے وعدے اور دعوے کئے گئے کہ کانگریس حکومت میں ہوئی کالی کمائی جو سوئیس بینک اورغیر ممالک کے دیگر بینکوں میں رکھی گئی ہے، اس کی بس چند ماہ میں واپسی ہوگی، مہنگائی پر روک لگے گی وغیرہ وغیرہ۔ انّا ہزارے،اروند کیجریوال اور کرن بیدی وغیرہ نے بھی ایسا ماحول بنانے میں بے شک اہم رول ادا کیا اور کرپشن کے خلاف نہ صرف نعرے دئے، بلکہ احتجاج بھی خوب کئے۔

’’نہ کھائینگے…نہ کھانے دینگے‘‘ جیسا نعرہ بھی لوگوں کو بڑا دلفریب لگا۔ جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ایسے نعروں اور وعدوں پر یقین کرتے ہوئے ہندوستان کے عوام نے اپنی بھرپور جمہوری طاقت کا مظاہرہ کرتے ہوئے حکومت بدل ڈالی، اس توقع پرکہ نئی حکومت، نئے جوش و خروش کے ساتھ ملک سے کرپشن کو دور کرے گی اور ایسا ہوتا ہے تو پھر ملک ایک نئے اور مثبت ماحول سے آشنا ہوگا اور ’’سب کا ساتھ …سب کا وکاس ‘‘ کا نعرہ شرمندۂ تعبیر ہوگا۔

لیکن افسوس کہ ملک کے عوام اس وقت حیرت زدہ رہ گئے، جب ایک سال کے اندر ہی مرکزی حکومت کے ساتھ ساتھ مدھیہ پردیش، راجستھان، گجرات، چھتیس گڑھ اورمہاراشٹر کی حکومتوں نے کرپشن کے سارے ریکارڈ توڑ دئے۔ للت مودی گیٹ گھوٹالہ، جس میں مرکزی وزیر خارجہ سشما سوراج اور راجستھان کی وزیر اعلیٰ وسندھرا راجے سندھیا پر کرپشن کے بڑے الزامات لگے۔ گجرات مچھلی پروری میں چار سؤ کروڑ روپئے کے گھوٹالہ کا وہاں کے وزیر پرشوتم سولنکی پر الزام عائد کیا گیا ہے۔ مہاراشٹر کی وزیر پنکجا منڈے کا گھوٹالہ، دوسؤ چھہ کروڑ کا چکی اور ایک دوسراگھوٹالہ، ہزاروں کروڑ کا رمن گھوٹالہ، پانچ سؤ کروڑ کا چیپس گھوٹالہ، تاوڑے کا کروڑوں کا گھوٹالہ یعنی گھوٹالہ ہی گھوٹالہ۔ اتنے سارے گھوٹالوں میں گجرات کے ہیرہ تاجر لال جی بھائی کا گھوٹالہ۔ جنھوں نے نریندر مودی کا متنازعہ دس لاکھ کا سوٹ نیلام میں چار کروڑ اکتیس لاکھ میں سب سے بڑی بولی لگا کر حاصل کیا۔ اس محبت کا صلہ انھیں یہ ملا کہ گجرات کے سورت مہانگر نگم پالیکا کے ذریعہ اکوائر کی گئی ان کی 54 کروڑ کی اسپورٹس کلب کی زمین واپس کر دی گئی۔ گجرات میں CAG نے پنچائیتی راج نگر پالیکا اور نگر نگم سے متعلق اپنی آڈٹ رپورٹ میں گجرات کی سابق وزیر اعلیٰ آنندی بین پٹیل پر مرکز کے 800 کروڑ روپئے کا حساب کتاب نہیں رکھنے کی شکایت کی تھی، اسی گجرات میں اجے شاہ نے تو ایسا ریکارڈ بنایاہے، جو عالمی ریکارڈبن گیا ہے، اور مدھیہ پردیش کے ہزاروں کروڑ کے ویاپم گھاٹالہ اور اس گھوٹالہ پر پردہ ڈالنے کے لئے 43 اموات نے تو پورے ملک کے ساتھ ساتھ بیرون ملک کو بھی سکتے میں ڈال دیا ہے۔ ملک کے اندر عوامی سطح پر اور پارلیامنٹ میں عوامی نمائندوں کے ذریعہ ان بدعنوانیوں کے خلاف جو احتجاج اور شور و ہنگامے ہوئے، وہ تو ہوئے ہی۔ امریکہ کے’’ دی نیو یارک ٹائمز ‘‘نے اس ویاپم گھوٹالہ کے سلسلے میں بہت ساری باتوں کے ساتھ ساتھ یہ بھی لکھا ہے کہ ’’ بھارت میں کرپشن کس قدر یہاں کی سیاست میں گھل مل گیا ہے، ویاپم گھوٹالہ اس کی ایک گھناؤنی مثال ہے۔ یہ سارے گھوٹالے بھارت کے ان رائے دہندگان کو بہت مایوس کرتا ہے، جنھوں نے نریندر مودی اور ان کی بھارتیہ جنتا پارٹی کو اس توقع کے ساتھ اقتدار سونپی تھی کہ مودی دیش کوکرپشن سے پاک کر دینگے۔ ‘‘ لیکن ویاپم گھوٹالہ، للت گیٹ اسکینڈل، اجئے شاہ گھوٹالہ جس طرح ہوڑ لگاتے ہوئے سامنے آئے، یہ سارے گھوٹالے یا کرپشن ان ریاستوں میں ہوئے ہیں ، جہاں بھارتیہ جنتا پارٹی اقتدار میں ہے اور مودی ان سبھی معاملوں میں خاموشی اختیار کئے ہوئے ہیں ۔یہ سب ایک غیر ملکی اخبار کا ایسا تبصرہ ہے، جس سے ہمارے ملک کا امیج یقینی طور پر مسخ ہو اہے۔

ابھی حال ہی میں فوربس کا Transparancy Internationalکے سروے کے تحت جو رپورٹ منظر عام پر آئی ہے، وہ حد درجہ مایوس کن ہے۔ فوربس کے مطابق ایشیا میں انڈیا سب سے زیادہ کرپٹ ملکوں میں شمار کیا جاتا ہے۔ رپورٹ کے مطابق اسکول، اسپتال،پولیس اور دیگر سرکاری امور کے دفاتر میں کرپشن بہت زیادہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مارچ 2017 ء میں جاری سروے رپورٹ کے مطابق 168 کرپٹ ممالک میں بھارت 76ویں پوزیشن پر ہے۔ پناما لیکس، وکی لیکس، اور پیراڈائز پیپر کے معاملے بھی حکومت نے سرد خانے میں ڈال دئے ہیں ، اور انتہا تو یہ ہے کہ بی جے پی کی حکومت میں شامل شیو سینا نے تو باضابطہ بی جے پی کے لیڈروں کی تصویر اور تفصیل کے ساتھ 56 صفحات پر مشتمل ایک کتابچہ’’ گھوٹا لے باز بھاجپ ‘‘ کے نام سے ہی شائع کرا دیا ہے۔ شیو سینا نے تو کرپشن کے معاملے میں مودی اور شاہ تک کو نہیں بخشا ہے۔ ابھی ابھی نریندر مودی کے گجرات میں وزیر اعلیٰ کے رہتے ہوئے 2005ء میں گجرات اسٹیٹ پیٹرولیم کارپوریشن کا بیس ہزار کروڑ روپئے کے گھوٹالے کا الزام کا کافی چرچہ میں ہے کہ یہ گھوٹالہ ٹوجی اسپیکٹرم اور کوئلہ گھوٹالہ سے بھی بڑا گھوٹالہ ہے۔ اس سلسلے میں کانگریس کے لیڈر جئے رام رمیش نے سیدھے وزیر اعظم کو ہی مورد الزام قرار دیا ہے۔ راہل گاندھی اور اروند کیجریوال پہلے بھی مودی کو برلا اور سہارا کے معاملے میں ملوث کرتے ہوئے 65 کروڑ رشوت لینے کا الزام لگا چکے ہیں ۔ لیکن افسوس کہ ان الزامات کا اب تک کوئی ٹھوس جواب نہیں دیا گیا۔

اب ایسے حالت میں آج کی یہ 9 دسمبر کی تاریخ نہ صرف سماجی معیشت کے لئے بلکہ ملک کی خوشحالی اور ترقی کے لئے کافی اہم ہے کہ اگر حکومت، ملک کے اندر بہت تیزی سے پھیل رہی بدعنوانیوں کے انسداد پر مثبت رویہ اختیار کرتی ہے، تو بہت ممکن ہے کہ کرپشن کے سلسلے میں ہر سال جاری ہونے والی مختلف فہرستوں میں ہمارے ملک کا نام ڈھوندنے سے بھی نہ ملے اور ہم فخریہ اس بات کا اعلان کر سکیں کہ ہمارا ملک بدعنوانیوں سے پاک ہے۔ کاش ایسا ہو۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔