ملک شام اور مسلم حکمرانوں کی مجرمانہ خاموشی

مولانا سید آصف ملی ندوی

اسلام دشمن سربراہانِ ایران وشام نے جو ہمیشہ ہی سے اپنے صہیونی و صلیبی آقا ؤں کے اشاروں پر رقص کرکے اپنی کرسیٔ اقتدار کی حفاظت کا سامان کرتے رہے ہیں گذشتہ پانچ سالوں سے ملک شام کے نہتے اور بے یارومددگار مسلمانوں کے سروں پر جو خوں آشام جنگ مسلط کر رکھی ہے، اور جس بے دردی و بے رحمی کے ساتھ ان کی فوجیں پردہ نشین دوشیزاؤں، معصوم بچوں اور عمر رسیدہ بزرگوں تک کو ایٹمی و کیمیائی ہتھیاروں کا استعمال کرکے خس و خاشاک کی طرح صفحۂ ہستی سے مٹارہے ہیں، اس نے صلیبی و صہیونی تخریب کاروں کے خطے میں موجود اپنے نوزائیدہ و ناجائز ملک اسرائیل کو مضبوط ومستحکم کرنے اورتسخیر عالم کے اس کے خفیہ ایجنڈے کی تکمیل کا سامان کرنے کے مکروہ عزائم کو آشکار کردیا ہے، نیز ایرانی و صہیونی فکری و نظریاتی یگانگت اوران کے سیاسی اور ملکی و بین الأقوامی اتحاد کو بے نقاب کردیا ہے۔ جب سے ملک شام کی زمام اقتدار غاصب الاسد اور اس کے بعد اس کے بیٹے بشار الاسد کے ہاتھ آئی ہے، اس وقت سے اب تک لاکھوں نوجوانان اسلام، بوڑھے، دوشیزائیں اور بچے شہید کئے جا چکے ہیں اور بلا مبالغہ لاکھوں افراد پڑوسی ممالک ترکی اور مصر وغیرہ میں نقل مکانی کرچکے ہیں۔

گذشتہ چند دنوں سے شامی و روسی افواج نے سنی اکثریتی شہروں غوطہ اور ادلب کومسلسل و اندھا دھند انسانیت سوز بمباری کے ذریعے معصوموں اور بے قصوروں کے خونِ ناحق سے لالہ زار کردیا ہے۔ اُف کیا قیامت ہے !کہ چھوٹے چھوٹے معصوم بچوں کو لڑکپن کی شوخیاں اور عنفوان شباب کی شرارتیں دیکھنے اور محسوس کرنے سے قبل ہی موت کی گہری نیند سلادیا جارہا ہے، اعضاء انسانی ہیں کہ گاجر مولیوں کی طرح بکھرے پڑے ہیں، ظالموں اور درندوں کی طرف سے کی گئی بمباریوں کے نتیجے میں کتنے ہی گھر ہیں جو ملبوں کے ڈھیر میں تبدیل ہوچکے ہیں، اور نہ جانے کتنے مجبور و بے قصور لوگ ہیں جو ان ملبوں کے ڈھیر میں دب کرمرگ و زیست کی کشمکش میں مبتلا ہیں، ہائے کتنی ہی خانماں برباد پردہ نشینان ایسی ہیں جوامداد وہمدردی کے نام پر انسان نما درندوں اور حیوانوں کی جنسی خواہشات و ہوس کا شکار ہوئی جارہی  ہیں، لاکھوں افراد  ایسے ہیں جو ہنوز پڑوسی ممالک کی سرحدوں پراپنی جان ومال اور عزت وآبرو کی حفاظت کے لئے دربدر بھٹکتے پھر رہے ہیں۔

میں ان حالات میں یوروپ و امریکہ اور ان کے زرخرید آلۂ کار مسلم و اسلام دشمن میڈیا کا رونا نہیں رؤونگا کہ وہ لوگ جو نام نہاد امن پسند ہیں اور جو انسانیت پرستی، امن دوستی،جنس نوازی، مذہبی رواداری اور احترام مذاہب  کے بلند بانگ دعوے کرتے نہیں تھکتے ہیں، وہ اس وقت کیوں خاموش ہیں ؟  بلکہ مجھے مسلم ممالک اور بالخصوص حکومت سعودی عربیہ کی مجرمانہ خاموشی و سردمہری اور عشرت پسندو ضمیرفروش مسلم حکمرانوں کی بے غیرتی وبے حسی پر بے حد حیرت ہے کہ آخر یہ لوگ اس وقت کیوں کر خاموش ہیں !!  ۵۶ اسلامی ممالک میں سے ایک ترکی کے علاوہ کسی اسلامی ملک یا اس کے سربراہ کی طرف سے مدافعت و مقاومت کی بات تو بہت دور ہے، کوئی حرف شکایت بھی بلند نہ ہوا۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ شتر مرغوں کا ایک ٹولہ ہے جو صلیبی و صہیونی ممالک سے اقتصادی وسفارتی روابط و تعلقات کو استوار کرکے اور ان کے ہمنوا و حلیف بن کر شاید اپنے آپ کو محفوظ سمجھنے کی خام خیالی میں مبتلا ہے، جبکہ ان صہیونی طاقتوں کا ہمیشہ ہی سے یہ وطیرہ رہا ہے کہ وہ اپنے منصوبوں کی تکمیل کی راہ میں معاون ممالک و سربراہانِ ممالک کی حمایت و پشت پناہی کرنے میں اور منصوبوں کی تکمیل کی راہ میں حائل ممالک و افراد کو کیفر کردار تک پہنچانے میں کبھی بھی کوئی دقیقہ فروگذاشت نہیں کرتے ہیں، افغانستان اور طالبان کی مثال سامنے ہیں، روس اورسوویت یونین کو ختم کرنے اوراس کے بخیے ادھیڑنے کے لئے ان صلیبی و صہیونی استعماری قوتوں نے اس سادہ لوح و بہادرترین قوم کی بھرپور پشت پناہی کی، ہتھیار فراہم کئے، مالی امداد کی۔

دنیا جانتی ہے کہ اس غیور و بہادرترین قوم کی استقامت وپامردی نے سوویت یونین اور اس کی حلیف جماعتوں کو ناکوں چنے چبوادئیے، بالآخر دشمن کو شکست ہوئی، سوویت یونین پارہ پارہ ہوگیا۔ امداد وپشت پناہی کرنے والوں کے لئے جب پوری دنیا پر اپنی اجارہ داری و آمریت کا سکہ قائم کرنے کا راستہ صاف ہوگیا اوروہ اس میں کامیاب ہوگئے تو انہوں نے چند ہی دہائیوں بعد اسی افغانستان اور طالبان پر جھوٹے و غلط الزامات لگا کر اس کی اینٹ سے اینٹ بجادی، اسی طرح صدام حسین، اسامہ بن لادن، حسنی مبارک یہ سب وہ افراد ہیں جواپنے اپنے وقتوں میں ان استعماری قوتوں کے نور نظر رہ چکے ہیں، لیکن چشم فلک نے وہ منہوس ساعتیں بھی دیکھی ہے جب ان ہی صہیونی و صلیبی استعماری قوتوں نے اپنے ان ہی حلیفوں کو چشم زدن میں نشان عبرت بنادیا۔

میر کیا سادہ ہیں بیمار ہوئے جس کے سبب

اسی عطار کے لونڈے سے دوائی لیتے ہیں

ہائے کیا کیا جائے کہ سربراہان ممالک اسلامیہ کی یہ سرد مہری وبے حسی ختم ہونے کا نام ہی نہیں لیتی، ذاتی اغراض و مقاصد اور شخصی حکومتوں کی حفاظت وبقا کے لئے قوم وملت کو داؤ پر لگادینا ان کے لئے کس قدر آسان ہوگیا ہے، کونسی صدا لگائی جائے جو انہیں خواب خرگوش سے جگا سکے، مجھے پتہ ہے کہ میں ایک ذرۂ بے درہم ہوں، نہ میں کوئی صدا لگا سکتا ہوں اور نہ میری کسی بات کی بازگشت ان سربراہان مماک اسلامیہ کے ایوانوں یا خوابگاہوں تک پہنچ سکتی ہے۔ اس لئے میں نہ صرف ان حکمرانوں تک بلکہ تمام مسلمانان عالم تک  بیسوی صدی کی عبقری شخصیت، امام الہند حضرت مولانا ابوالکلام آزاد کی ایک تاریخی صدا پہنچانا چاہتا ہوں، شاید اس سے کچھ خوابیدہ ضمیر بیدار ہوجائیں، مولانا لکھتے ہیں :

 ’’ مسلمانوں !  یقین کرو کہ چاہے تم اسلام سے غافل ہوجاؤ، مگر عیسائیت کبھی اس سے غافل نہیں رہیگی، تم عیسائیوں کی ستم رانیاں بھول جاؤ، مگر وہ تمہاری بے التفاتیاں نہیں بھولینگے۔ تمہارے زخم اچھے ہوجائیں، مگر تمہارے لگائے ہرے چرکوں کو وہ ہمیشہ ہرا رکھینگے۔ ایران وطرابلس میں عیسائیوں کی خونریزی، غارت گری، عصمت دری تم بھول جاؤ، مگر عیسائی فلسطین، شام اور مقدونیہ کو نہیں بھولینگے۔ اور میں کہتا ہوں کہ چاہے اندلس و طرابلس کی منہدم مسجدوں کو تم بھول جاؤ، مگر عیسائی ہمیشہ جامع آیا صوفیا اور بیت المقدس کو یاد رکھینگے۔

 اس لئے ائے اخوان غفلت شعار!  یاد رکھو کہ جب تک زندہ ہو، تم چاہو یا نہ چاہو، مگر تمہیں ہمیشہ عیسائیت سے معرکہ آراء رہنا پڑیگا، میں یہ نہیں کہتا کہ تم عیسائیوں پر دست درازی کرو، میں یہ نہیں کہتا کہ تم خواہ نخواہ جنگ آرائی کرو، بلکہ میں کہتا ہوں کہ یہ کبھی نہ بھولو کہ تم توحید کے امانت دار ہو، قرآن کریم کے محافظ اور بیت ابراہیمی و روضۂ نبوی کے پاسبان ہو، اس لئے تمہیں ہر وقت ایک ناگزیر جنگ کے مقابلے کے لئے تیار رہنا ہے، جو جلد یا بدیر تمہاری اور تمہارے مقدس مذہب اور نیم باقی سیاسی ہستی کی پامالی کے لئے ضرور کی جائیگی، یعنی میں تم سے صرف یہ کہتا ہوں کہ ہمیشہ ’’ جنگ دفاعی‘‘ کے لئے تیار رہو، اور اس آیت کو ہر وقت پیش نظر رکھو کہ واعدوا لھم ما استطعتم من رباط الخیل) جس قدر تم سے ہوسکے(سپاہیانہ قوت سے اورتیار گھوڑوں کے باندھے رکھنے سے کافروں کے مقابلے کے لئے تیار رہو)۔ اس لئے ضرورت ہے کہ تمہارا نشۂ غفلت  اتر جائے، تمہارے تمام قویٰ بیدار ہوجائیں، تمہارے خون میں حرکت، تمہاری رگوں میں جنبش، اور اسلام کے دبے ہوئے شراروں میں پھر شعلہ باری پیدا ہوجائے‘‘۔ ( الہلال مؤرخہ ۸ جنوری ۱۹۱۳)۔

امام الہند مولانا ابوالکلام آزاد کی اس صدائے کوہ فگن کے ساتھ میں ان  سربراہان ممالک اسلامیہ کو علامہ شبلی نعمانی علیہ الرحمۃ کے وہ اشعار بھی سنانا چاہتا ہوں جس کو علامہ نے سقوط دولت عثمانیہ اور صلیبی سازشوں کے تناظر میں لکھا تھا :

زوالِ دولت عثمان  زوال ِشرع وملت ہے

عزیزو  فکر فرزند وعیال و خانماں کب تک

پرستاران خاک کعبہ  دنیا سے اگر اٹھے

تو پھر یہ احترام سجدہ گاہ قدسیاں کب تک

جو گونج اٹھے گا عالم  شورِ ناقوسِ کلیسا سے

تو پھر یہ نغمۂ توحید و گلبانگِ اذاں کب تک

کہیں اڑکر نہ  دامانِ حرم کو  بھی چھو آئے

غبارِ کفر کی یہ  بے محابا  شوخیاں کب تک

حرم کی سمت بھی صید افگنوں کی جب نگاہیں ہیں

توپھر سمجھو کہ مرغانِ حرم کے  آشیاں کب تک

جو  ہجرت کرکے بھی جائیں تو شبلی اب کہاں جائیں

کہ اب امن و اماں  شام  و  نجد و  قیرواں کب تک

عام مسلمان اور خصوصاً ہم ہندوستانی مسلمان بین الاقوامی حدود وثغور اور دیگر پروٹوکولزو قوانین کی حصار بندیوں میں جکڑے ہوئے ہونے کی بناء پر اپنے ان دینی و ایمانی بھائیوں کی نہ کچھ امداد کرسکتے ہیں اور نہ ہی کوئی عملی اقدام۔ لیکن ہم مسلمانوں کو یہ نہیں بھولنا چاہئے کہ ہمارے آقا  رسالت مآب  ﷺ  نے یہ بتا رکھا ہے کہ ایک مسلمان کا سب سے مضبوط اور طاقتور ہتھیار دعا ہے، چنانچہ قائد جمعیت علماء ہند حضرت مولانا محمود اسعد مدنی اور صدر جمعیت علماء مہاراشٹرا حضرت حافظ ندیم صدیقی نے مسلمانان بھارت  اور بالخصوص علماء کرام، ائمۂ مساجد اور جمعیت علماء کے ذمہ داروں سے دست بستہ یہ درخواست کی ہے کہ وہ اپنے ان دینی و ایمانی بھائیوں کے لئے خصوصی دعاؤں کا اہتمام کریں۔

تبصرے بند ہیں۔