یمن کی موجودہ صورتِ حال اور عالمی طاقتوں کی سرگرمیاں

عادل فراز

منصورہادی کو دوبارہ اقتدار میں واپس لانے کے لئے جو وحشیانہ جدوجہدسعودی عرب نےشروع کی تھی اس کے نقصانات براہ راست یمنی عوام کو پہونچے ہیں اور اب تک پہونچ رہے ہیں۔ ایک طویل المدت جنگ میں عالمی طاقتوں نے اپنی پوری طاقت جھونک دی تاکہ یمنی عوام پرسعودی حمایت یافتہ منصورہادی کو مسلط کردیاجائے مگر عوام کے صبرو استقلال و مقاومت اور انصاراللہ کی مزاحمت نے انکی تمام تر کوششوں کو ناکام بنادیا۔ گذشتہ دو سالوں میں جہاں عالمی منظر نامے میں برقی تبدیلیاں رونما ہوئیں وہیں یمن، شام،ترکی اور فلسطین کی سیاسی صورتحال میں بھی کئی اہم بدلائو آئے۔ ساتھ ہی سعودی عرب، اسرائیل، امریکہ اور انکے حلیف ممالک میں بھی سیاسی و ثقافتی انقلابات رونما ہوئے۔ امریکہ اس وقت داخلی سطح پر شدید اقتصادی بحران کا شکار ہے اور اسرائیل عالمی سیاست میں کھلی شکست کے بعد حالت نزع میں ہے۔ سعودی عرب اپنی بقاء اور زندگی کے لئے موجودہ عصری منظر نامے پر ایڑیاں رگڑتا ہوا دکھائی دیتاہے۔ ظاہر ہے استعماری طاقتیں اتنی جلدی اپنی شکست کا اعتراف نہیں کرسکتیں لیکن دنیا نے انکی شکست کو تسلیم کرلیاہے۔ موجودہ حالات کے تناظر میں آدھی سے زیادہ دنیا امریکہ اور اسرائیل کے خلاف کھڑی نظر آرہی ہے۔ بارہا اس کا اعلان ہوچکاہے مگر عالمی میڈیا جو ابھی تک استعمار کی مٹھی میں ہے، اس الگ تھلگ بڑی آبادی کوتسلیم کرنے سے انکار کررہاہے۔

اس وقت یمن کے شہر الحدیدہ میں جنگ بندی کی خلاف ورزی اور دہشت گردی جاری ہے مگر عالمی برادری اور امن عالم کے لئے کوشاں سماجی تنظیمیں خاموش تماشائی بنی ہوئی ہیں۔ کسی میں یہ جرأت نہیں ہے کہ وہ سعودی عرب کی جنایت کاری اور عالمی طاقتوں کے تباہ کن عزائم کے خلاف زبان کھول سکے۔ اسکے بعد بھی ہم دیکھتے ہیں کہ امن عالم کے سفیر کس ڈھٹائی اور بے غیرتی کے ساتھ عالمی میڈیا کے سامنے امن اور انصاف کی باتیں کرتے ہیں۔ شام اور یمن کی زبوں حالی، اقتصادی تباہی اور غذائی قلت پر کوئی قابل قدر بیان منظر عام پر نہیں آتاکیونکہ امن عالم کی تمام تر تنظیمیں عالمی طاقتوں کی غلام ہیں اور ان کے سرمایہ سے انہی کے منصوبوں کی تکمیل کے لئے سرگرم عمل ہیں۔ اس لئےانکی پیش کردہ رپورٹ اور اعدادوشمار کی بھی کوئی حقیقت نہیں ہوتی۔ اقوام متحدہ جیسی تنظیم نے یمن کی تباہی اور غذائی قلت پر مسلسل کئی رپورٹیں پیش کی ہیں مگر ان رپورٹوں پر کیا کاروائی ہوئی یہ اب تک معلوم نہیں ہوسکا۔ دنیا جانتی ہے کہ ان تمام تر جرائم کے پیچھے علاقائی عصبیت کارفرما ہے اور سعودی عرب ان جرائم کا ذمہ دار ہے مگراس کے خلاف کوئی عملی اقدام نہیں کیا گیا۔

سعودی عرب اپنی گھٹتی ہوئی طاقت،عالم اسلام میں دن بہ دن کم ہوتی ہوئی مقبولیت اور دہشت گردانہ جرائم میں اسکے کردار کے انکشاف پر بوکھلایاہواہے۔ علاقائی سطح پر وہ اپنے لئے سب سے بڑا خطرہ ایران کو سمجھتاہے۔ متعدد بار سعودی حکام یہ کہہ چکے ہیں کہ مشرق وسطیٰ میں ایران کے ہوتے ہوئے انکی برتری کو تسلیم نہیں کیا جاسکاہے اس لئے وہ ایران کی طاقت اور اسکی ترقی کو کمزور کرنے کے لئے مختلف حیلے اور حربے اختیار کرتے رہے ہیں۔ امریکہ جو سعودی عرب کا آقا اور اس کے حکام کا سرپرست بھی ہے، ایران کی بڑھتی ہوئی طاقت اور روزبہ روز ترقی سے خوف زدہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس نے عالمی برادری کی مرضی کے خلاف ایران پر اقتصادی پابندیاں عائد کررکھی ہیں، جنہیں ایران نے تسلیم کرنے سے انکار کردیاہے۔ مگر سعودی عرب اور اسکے حلیف ممالک ان پابندیوں کو عملی شکل دینے میں مصروف ہیں۔ امریکہ عالمی بازار میں ایران کے خام تیل کی فروخت پر پابندی نہیں لگا سکاہے جبکہ اس نے بارہا ایران سے تجارتی تعلقات رکھنے والے ممالک کو دھمکایا بھی ہے، لیکن اسکی دھمکیوں کا عالمی بازار پر خاطر خواہ اثر مرتب نہیں ہوا۔ امریکہ نے ایران کے تیل کے متبادل کے طورپر سعودی عرب کو عالمی منڈی میں اتارا ہے۔ سعودی عرب کے حکام نے ہندوستان سمیت مختلف ممالک کے دورے کرکے یہ یقین دہانی کرانے کی کوشش کی ہے کہ وہ ایران کے متبادل کے طورپر تیل کی بھرپائی کرنے کے لئے تیار ہے۔ عالمی تجزیہ نگار سعودی عرب اورامریکہ کے ان دعوئوں کی تردید کرتے رہے ہیں کیونکہ سعودی عرب اتنی صلاحیت نہیں رکھتاہے کہ وہ اس قدر تیل کی پیدوار کرسکے جس کی بنیاد پر وہ عالمی منڈی میں ایران کے تیل کی درآمد کو متاثر کرسکے۔ اسکے باوجود سعودی عرب نے آبنائے ہرمز میں ایرانی تیل کی پائپ لائنوں اور گذرگاہ کو متاثر کرنے کے لئے بحرالعرب اور یمن کے علاقے میں علاحدہ تیل پائپ لائن بچھاناشروع کردی ہے۔ اس پائپ لائن کے خلاف یمنی عوام نے پوری طاقت کے ساتھ مظاہرے کئے ہیں مگر عالمی میڈیا نے ان مظاہروں کو کوئی اہمیت نہیں دی اور نہ مظاہرین کے مطالبات کو دنیا کے سامنے رکھنے کی کوشش کی۔ اسکے باوجود مقامی ذرائع ابلاغ کا استعمال کرکے یمنی عوام نے اپنی آواز کو دنیا تک پہونچانے میں کامیابی حاصل کی اور یہ بارور کرادیاہے کہ سعودی عرب کی تیل پائپ لائن مشرق وسطیٰ میں یمن کو شکست دینے اور ایران کی طاقت کو کمزور کرنے کے لئےہے۔

سعودی عرب نے اپنی دشمنوں کے خاتمہ کے لئے کمرتوکس لی تھی مگر اس عزم کو پورا کرنے کے لئے اسےامریکہ اور اسرائیل جیسی طاقتوں کی سرپرستی اور پشت پناہی کی سخت ضرورت تھی۔ اس کے لئے سعودی عرب نے ان دونوں ممالک کے ساتھ خفیہ معاہدے کئے جن کے بعض نکات وقتا فوقتا ظاہر ہوتے رہے ہیں۔ ڈونالڈٹرمپ کے اقتدار میں آتے ہی استعمار نے جس طرح سعودی عرب اور اسکے حلیف ممالک کو اسلام اور مسلمانوں کے خلاف استعمال کیاہے اس کی مثال اس سے پہلے کم ہی ملتی ہے۔ جمال خاشقجی کے قتل میں محمد بن سلمان کے کردار کی پردہ پوشی کے لئے استعمار نے اپنی طاقت کا استعمال کرکے اور پھر محمد بن سلمان کے جرم سے پردہ ہٹاکر یہ ثابت کردیاہے کہ سعودی عرب اور اسکے حکام امریکہ کے اشاروں پر زندہ ہیں۔ ٹرمپ کی دھمکیوں کا جواب محمد بن سلمان نے اس لہجہ میں نہیں دیا جس لہجہ میں انہیں دھمکایا گیا تھا۔ کیونکہ سعودی عرب کے تمام تر جرائم کے ثبوت استعمار کے پاس موجود ہیں اور وہ انہیں کبھی بھی منظر عام پر لاکر سعودی عرب کو عراق کی طرح تباہ کرسکتاہے۔ چونکہ سعودی عرب کو تباہ کرنا ابھی امریکی مصلحت کے خلاف ہے اس لئے اس نے اپنے ترکش کے تمام تیر نشانے پر نہیں لگائے ہیں۔ ابھی خطّے میں ایران کی بڑھتی ہوئی طاقت اسکے لئے درد سر بنی ہوئی ہے اس لئے سعودی عرب کو رقیب کی صورت میں کھڑا رکھنا امریکہ کے لئے نہایت ضروری ہے۔ دوسرے یمن، شام اور فلسطین میں جرائم کے ادامہ کے لئے سعودی عرب اور اس کے حلیف ممالک کے علاوہ چارۂ کار نہیں ہے اس لئے سعودی عرب کی مخالفت کرنا مصلحت کے خلاف ہے۔

سعودی عرب کے خلاف جس نے بھی آواز احتجاج بلند کی اسے ختم کرنے کی منظم سازش رچی گئی۔ منصورہادی کو اقتدار میں واپس لانے کے لئے انصار اللہ اور یمنی عوام نے مخالفت کی تو انکی سرکوبی کے لئے پورے یمن کو تباہ و برباد کردیا گیا۔ شام نے امریکہ اور اسرائیل کے سامنے سرتسلیم خم نہیں کیا اور علاقائی سطح پر سعودی عرب کی برتری کو تسلیم کرنے سے انکار کیا تو اس پر جنگ کا عفریت مسلط کردیاگیا۔ اب عالم یہ ہے کہ شام میں شکست فاش کے بعد امریکہ نے فوجی انخلاء کا اعلان کردیاہے جبکہ سعودی عرب ابھی بھی اپنی آلۂ کار دہشت گرد تنظیموں کے ذریعہ شام میں وحشت اور دہشت کا ننگا ناچ کرنے میں پیش پیش ہے۔ داخلی سطح پر اسکی مکروہ پالیسیوں اور ظلم و بربریت کے خلاف آواز بلند کی جاتی ہے تو اسکی زندگی کی ڈور کاٹ دی جاتی ہے۔ آیت اللہ شیخ باقرالنمر کو اقلیتوں کے حقوق کی بازیابی اور ظلم کے خلاف مقاومت کا مجرم بتلاکر شہید کردیا گیا۔ جمال خاشقجی جو سعودی عرب نژا د صحافی تھا اور محمد بن سلمان سے بعض مسائل میں نظریاتی اختلاف رکھتا تھا، کی ترکی میں سعودی سفارتخانہ میں گھس کر تکا بوٹی کردی گئی۔ سعودی کی اس بربریت کے واضح ثبوت منظر عام پر آچکے ہیں مگر چونکہ وہ عالمی طاقتوں اور استعمار کا پٹھّو ہے اس لئے عالمی عدالت میں اس پر مقدمہ پر قائم نہیں ہوسکاہے۔ عالمی صحافتی برادری بھی اس ظلم کے خلاف گونگی بہری بنی رہی یہ بھی افسوس ناک ہے۔ غرض کہ جس نے بھی سعودی عرب کے خلاف آواز بلند کرنے کی کوشش کی اسے ختم کرنے کے لئے منظم سازش رچی گئی۔ اس کے جرائم مخفی نہیں ہیں بلکہ سورج کی طرح روشن ہیں لیکن عالمی طاقتوں کی سرپرستی نے اسکے جرائم کی پردہ پوشی کی ہوئی ہے۔

یمن اس وقت پوری طرح تباہ ہوچکاہے اور اسکی تباہی و بربادی کے پیچھے سعودی عرب اور اسکی سرپرست عالمی طاقتیں ہیں۔ ان طاقتوں نے ہمیشہ مسلمانوں کے خلاف مسلمانوں کا ہی استعمال کیاہے اور کررہی ہیں۔ سعودی حکام جو در اصل یہودی ہیں عالم اسلام کے خلاف منظم حکمت عملی کے تحت کام کررہے ہیں۔ عالم اسلام کو انکے اقدامات،جرائم اور منصوبوں کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔ سعودی عرب کو بھی یہ بارور کرلینا چاہئے کہ جس دن عالمی طاقتوں کو اسکی ضرورت نہیں رہے گی، اسے بھی عراق اور افغانستان کی طرح تباہ و بربادکردیا جائے گا۔

تبصرے بند ہیں۔