امریکا کی رخصتی پر افغان نے کیا کھویا کیا پایا؟

عبید الرحمان عبید اللہ قاسمی

چند دنوں قبل امریکا کی افغانستان سے ہزیمانہ رخصتی ہوٸی اوریہ رخصتی قابل ِدید بھی تھی اور باعث ِعبرت بھی۔ قابل دید اس لیۓ کہ اس کے کمانڈوز مصنوعی فاتحانہ انداز ہاتھ لہراتے ہوۓ، یہاں سے چھٹکاراپاکر” گھر واپسی کی دلی مسرت کا اظہارکرتے ہوئے، اورچند سکنٹوں میں دنیاکو تباہ کر دینےوالے  ہتھیاروں سےافغانی بچوں کو کھیتلتے اور بکتر بند گاڑیو ں میں جھولاجھولتے ہوئے دیکھر نم آنکھوں اور شرمندہ چہروں کے ساتھ رخصت ہوئے۔

 اور باعث ِعبرت اس لیے ہے کہ آج سے سترہ سال قبل جس انداز تکبرانہ  ادائے مغرورانہ  آلات قاتلانہ  عزم ِجارحانہ اورصفاتِ ہٹلرانہ کے ساتھ اپنے تمام حواریین کے ساتھ آدھمکاتھا۔ جسکے عزم و جزم کو دیکھ کروہ اسلامی عرب ممالک جو افغانستان میں ملا عمرؒ کی حکومت تسلیم کرتے تھے امریکا کے تیور دیکھ کر جھٹ سےسجدہ ٕ سہو کرلیا۔ اور مملکتِ خداداداسلامی ریاست پاکستان نےاسلامی بہانہ ڈھونڈ نکالا اور غزوہ ٕخندق کی تفسیر میں اپنا مقام ِ معاونت  اس مجبوری میں طۓ کیا کہ اگر اس وقت ان کا ساتھ نہ دیا گیا تواس کو اپنے وجود کاخطرہ لاحق ہے۔ جو در حقیقت پاکستان کی گلے کی ہڈی اوربربادی کا پیش خیمہ بن گیا۔ لیکن طالبان” خداۓ وحدہ لاشریک لہ“ پرکامل بھروسہ رکھتے ہوئے دو دو ہاتھ کرنے کو تیار ہوگۓ  بہت سے مورخین مفکرین عقل ودانش کے ٹھیکےداروں اورعالمی سیاست کےپنڈتوں نے طالبان کونیۓ خون کے نیۓ جذبات کا ساخسانہ بتاکران کا فیصلہ غلط قرار دیا تو بہت سے ماہرین اسلامیات کہلانے والوں نے”ولا تلقوا بأیدیکم إلی التھلکة“ کا  محورقرار دےکرسارے قتل وفساد کے ذمہ دار ہونے کا پیشگی فتوی جاری کردیا۔

حالات کی سنگینی کے تناظر میں ”صلح حدیبہ “کافارمولہ بھی پیش کیا۔  پھر اسامہ کےنام پر رچے ہوۓ ڈرامے کاعملی کھیل شروع ہواجس کا بھگتان طالبان کو اپنی حکومت سے ہاتھ دھوبیٹھنے جیلوں کی سلاخوں اور پہاڑوں میں زندگی بسر کرنے سے چکاناپڑا مگر وہ اپنے موقف سےمصالحت کرنے پر راضی نہ ہوۓ ان کو معلوم تھا ان کا دشمن اسامہ نہیں بلکہ اسلام ہے آج نہیں تو کل اسلام کو مٹانےکیلیۓ پھر آدھمے گا۔ اٗسوقت مصالحت کی زنجیروں کی جکڑسے ان کا مقابلہ اسلامی مطلوبہ مطالبے کےغیر موافق ہوگا۔
سترہ سال کے طویل دورانیہ میں طالبان اور اسلام پسندعوام شکست وریخت ذلت ومسکنت مظلو میت ومقہوریت کشت وخون کی بہتی ندیاں دیکھیں۔

مسکن، مدفن سے، آبادیاں، شمشان گھاٹ سے،  اجالےتاریکیوں سے، رحم وکرم جبر واستبداد سے بدل گیۓتھے۔ زندوں سے زیادہ ٗمردے، لباسِ تن سےزیادہ ننگے، لقمہ ٕ تر حلقوم سے زیادہ بھوکےدِکھتے۔ ۔ رِستے ہوۓ لہو کے قطرات، بہتی ہوٸی آنکھیں، خوف زدہ نگاہیں، گھبرائے ہوئے دل، لڑکھڑاتی چالیں،  کٹے بدن ٗلٹے تن کے دلدوز مناظر ہر سو نظرآتے تھے۔

انسانیت تڑپتی ہوٸی، حیوانیت دنداتی ہوٸی، آبرو بلکتی ہوٸی، زنا ٹھٹھتے مارتا ہوا، لاشیں سڑتی ہوٸی، درندے نوچتے ہوۓ، کتے لڑتے ہوئے، پرندے چھپٹتے ہوۓ، نیم مردہ بلکتے ہوئے نظر آتے تھے۔

  انسانی اعداد وشمارمیں اسّی فیصد یتیموں، نوّے پرسنٹ بیوہ گان، نوے فیصد سےزاٸدلاچاروں معذور وں، صدموں کا بوجھ اٹھانے والوں اور مایوسی کے ماروں کا تناسب تھا۔ لیکن حالات کے باوجود ان کا عزم جہاد جذبہ ٕ حرّیت جوان سے جوان تر ہوتا گیا۔ اوراسی حالات میں وہ اپنے ملک کو نحوست ذدہ سایوں اور ناپاک جسموں سے پاک  کرنےپر ڈٹے رہےاور ایک بار پھر” سوویت یونین“ کی طرح ان کوبھی مار بھگایا۔ اوریہ ِدکھا دیا کہ ہر جگہ” صلح حدیبہ کا فارمولہ “کام نہیں آتا نیزپوری دنیا کو یہ بھی بتادیا کہ ”اسلامی روحانیت“ کےسامنے ”دنیوی مادیت “ہمیشہ کی طرح یہاں بھی ناکام ہوٸی ہے۔

علامہ اقبال ؒنےسچ فرمایاتھا کہ :

اعجاز ہے کسی کا یا گردشِ زمانہ
 ٹوٹا ہے ایشییا ٕمیں سحرِفرنگیانہ

     لیکن سوویت یونین اور امریکا کے راہ  فرارمیں ” اتحاد کلی“ نہیں ” بلکہ منجملہ اتحاد “ہے  سوویت اپنی حکومت اور کمیونسٹ کلچر برپا کرنے کی غرض سے آیا تھا۔ اورحکومت اس کامقصد تھا جبکہ امریکا اس کی شکست وریخت کو مدنظر رکھتےہوۓ  براہ راست حکومت کے ارادے سے نہیں بلکہ ”سکندر اعظم “کی راہ اپناتے ہوۓ افغانی ڈھانچہ  میں اپنی روحانیت والی سربراہی حکومت  کا پابند کار تھا  جس میں کٸی فاٸدے مضمر تھے:

1۔ خانہ جنگی کا ماحول ہمیشہ برپا رہیگا۔

2۔ آپس میں کٹتے مرتے رہینگے۔

3۔ ان کی تہذیب انھیں کے ہاتھوں ناپید ہوجاۓگی۔

4۔ دولت وحکومت کی لالچ میں ہمارے در کے بھکاری بنے رہیں گے۔

 5۔  قیام کے زمانے میں تمام افغانیوں میں مغربی تہذیب سے قربت کی کوشیشیں، اسلامی تعلیم کے بدلے مغربی انداز کی تعلیم کی ترویج، ۔ تعلیم کے پس پردہ مخلوطانہ ماحول کا عمومی رواج، کھیل کود فنکشن اورفیشن کے نام سے بے حیاٸی اباحت پسندی کا فروغ، نفسانی جذبات کے ذریعہ سےاسلام کی حقیقت و روحانیت سے  دوری مقصود تھی۔

6۔  اور اس قبضہ کے ذریعہ عرب ممالک پاکستان اور ھندوستان وغیرہ کی اسلامی جد وجہد پر کڑی نگاہ اور ان پر قدغن لگانے کی بروقت یقینی کاررواٸی۔

قابل غور بات یہ ہے کہ جب امریکاکو یہی مقاصد مطلوب تھےتو دنیا کےسب سےزیادہ” غربت کدے“ پر قبضہ کرنے کی کیا ضرورت تھی ؟دنیوی مادیات سےمالامال عرب ممالک کاانتخاب کیوں کرنہیں کیا گیا ؟اس تعلق سے راقم الحروف کاخیال یہ ہے کہ ”تن پرور، من پرست“ امریکن اور یوروپین کے بےچین دلوں کاعلاج ان مغموم چہروں کے سکو ن  اور ان کےدلوں کی طمأنیت میں موجودتھا۔
مغربی ممالک اس سے بخوبی واقف تھےکہ اسلام کی سچی تصویرصرف  افغانیوں میں موجود ہےاوریہ بھی جانتے  تھےکہ فاقہ مست اور خیموں میں اقامت پذیر لوگ جنتے مطمٸن اور پر سکون ہیں اتناسکون واطمنان  دنیا کے کسی خطہ کے لوگوں میں نہیں ہے۔ اگر مغربی ممالک کی عوام انکاسکون دیکھ لے، تو فوراً اسلام قبول کرلےگی۔

ان کی طمانیت سے خاٸف ہوکر انہوں نے”اسامہ پلان“ بناکراسلامی ملک مٹانےپر عزم ہوگیے۔

علامہ اقبال نے کہا تھا :

افغانیوں کی غیرت دیں کا ہے یہ علاج 

 ملا کواس کے کوہ ودمن سے نکال دو 

آج جبکہ امریکاافغانستان چھوڑ ہوکر جارہاہے اپنی جانی مالی مادی اورٹیکنالوجی نقصانات کے ساتھ ساتھ اسلامی جذبات، ایمانی حوصلے، دینی تصلب، وحدہ لاشریک لہ کایقین، عبادات کی پابندی ، اسلامی معاشرہ، مذہبی تہذیب، حیا ٕکے رنگ کولوٹ کراور  سیکولر  ولبرل سیاست وکلچر کوسوغات میں دیکر یہاں سے رختِ سفر باندھا ہے۔

بالیقیں  افغانستان کاچھوڑنا اس کی پسپاٸی ہے اور مغربی تہذیب کو سوغات میں دینا اس کی کامیابی ہے۔   اب تک افغانیوں نے مظلومیت کے نتیجہ میں طالبان کے  دوش بدوش ہو کرساتھ دیا لیکن آنے والے وقت میں آرام وسہولیت پسند نٸی تہذیب کے دلدادہ  افغان اوراسلام پسند کے ما بین خانہ جنگی قتل وفساد کے خطرات لاحق ہیں   یہی امریکا کا  مقصودہے۔ اگر ایساہوتاہے تو یہ افغانستان کا سب سےتاریخ دور ہوگا۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔