بیرونی مداخلت کے سبب قطر تنازع کے مزید طول پکڑنے کا اندیشہ!

امام الدین علیگ

قطر کا بائیکاٹ کرنے والے چار عرب ممالک سعودی عرب، بحرین، مصر اور متحدہ عرب امارات نے اپنے ایک مشترکہ بیان میں دوحہ کی جانب سے اپنے مطالبات مسترد کیے جانے پر اس پر عائد پابندیوں کو جاری رکھنے کے ساتھ ساتھ مزید سیاسی ، اقتصادی اور قانونی اقدامات کرنے کا اعلان کیا ہے۔یہ اقدامات کس نوعیت کے ہوں گے اس کی تفصیل نہیں بتائی گئی۔تاہم اس کی طرف کچھ اشارہ سعودی حکام پہلے ہی کر چکے ہیں جس میں قطر کے خلاف سیاسی اور اقتصادی بائیکاٹ کے دائرے کو مزید وسیع کرتے ہوئے اس کے لیے دیگر ممالک کو بھی تیار کرنے اور قطر مخالف ایک بڑا بلاک کھڑا کرنے کی بات کہی جا چکی ہے۔اس کے علاوہ دیگر اقدامات بھی ہوسکتے ہیں ۔ لیکن دیکھنا یہ ہوگا کہ دوسری جانب جب ترکی اور ایران قطر کے ساتھ مضبوطی سے کھڑے ہیں اور خود برطانیہ، جرمنی اور امریکہ جیسے مغربی ممالک کے بھی قطر سے وسیع سیاسی، اقتصادی اور عسکری مفادات وابستہ ہیں تو کیا ان حالات میں خلیجی ریاستوں کی جانب سے عالمی سطح پر قطر مخالف ملکوں کا محاذ بنانے کی کوشش کامیاب ہوسکتی ہے؟ فی الحال اس کا کوئی امکان نظر نہیں آتا اور اگر آگے چل کر زمینی سطح پر ایسی کوئی کوشش کی بھی گئی تو عین ممکن ہے کہ ترکی اور روس کا مضبوط اتحادی ایران ان کوششوں کو ناکام بنا دےگا۔

خلیجی ممالک کی جانب سے قطر پر پابندیوں کے دائرے کو مزید وسیع کرنے کے اعلان سے یہ بات واضح ہو گئی ہے کہ فی الحال ان کا اس تنازع کو حل کرنے کا کوئی ارادہ نہیں ہےگرچہ دوسری جانب قطر کے وزیرِ خارجہ شیخ محمد بن عبدالرحمٰن الثانی نے مثبت بیان دیتے ہوئے کہا ہے کہ ہمارے انکار کا جواب محاصرہ اور دھمکیاں نہیں ہیں بلکہ اس کا حل مذاکرات اور پابندیوں کی وجوہات بتانا ہے۔ واضح رہے کہ قطر شروع سے ہی ان خلیجی ممالک کی پابندیوں کو توہین کے مترداف قرار دیتے ہوئے ان کے مطالبات کو ناقابل عمل اور ناقابل تسلیم قرار دیتا رہا ہے۔

دوسری جانب اس تنازع میں شروع سے لے کر اب تک امریکہ کا کردار کسی سے ڈھکا چھپا نہیں ہے۔ اس بات سے سبھی واقف ہیں کہ ان خلیجی ممالک کی جانب سے قطر کے بائیکاٹ کا اعلان ہی امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے سعودی دورے کے فوراً بعد سامنے آیا تھا۔ خود امریکی صدر نے بھی اس دورے سے واشنگٹن واپسی کے بعد ببانگ دہل تسلیم کیا تھا کہ ان کے اس دورے کا بنیادی مقصد مبینہ دہشت گردوں کی مالی معاونت کو بند کرانا تھا اور قطر کے بائیکاٹ کے تناظر میں انھوں نے سعودی عرب کے تعاون کی تعریف بھی کی تھی۔اس کے علاوہ اس معاملے میں خلیجی حکام میں سے جو شخص سب سے زیادہ متحرک اور فعال بتایا جا رہا ہے اور مغربی ذرائع ابلاغ بھی عرب سیاست میں جس کے فعال کردار کو علی الاعلان تسلیم کر رہے ہیں وہ ہیں سعودی عرب کے شہزادہ محمد بن سلمان بن عبدالعزیز جو کہ 5جون کو اس تنازع کے شروع ہونے سے قبل تک سعودی عرب کے نائب ولی عہد تھے اور پھر 21جون کو ولی عہدی کے تمام اصولوں کو بالائے طاق رکھتے ہوئے انھیں سعودی عرب کا ولی عہد یعنی اگلے بادشاہ کے عہدے پر فائز کردیا گیا۔

بہر حال یہ سب کچھ یکایک نہیں ہوا بلکہ اس کا قیاس پہلے سے ہی لگایا جا رہا تھا۔محمد بن سلمان کو ولی عہد بنائے جانے کے اعلان سے کئی دن پہلے ہی ’گلوبل ليكس‘ کے نام سے ہیکروں کے ایک گروپ نے امریکہ میں متعین عرب امارات کے سفیر یوسف القتیبہ کے متعدد صفحات پر مشتمل ای میلس لیک کرکے ایک سے بڑھ کر ایک حیرت انگیز انکشافات کیے تھے جن میں محمد بن سلمان کو سعودی عرب کا ولی عہد بنائے جانےکے ساتھ ساتھ قطر ، حماس اور الاخوان المسلمون پر پابندیاں عائد کرنے کے انکشافات بھی شامل تھے۔ ’’گلوبل لیکس‘‘ نے ان ای میلس کو ہیک کرنے کے بعد انھیں انٹر سپٹ ، ہفنگٹن پوسٹ اور ڈیلی بیسٹ کو ارسال کردیا  تھا۔ ان ای میلس کو پڑھنے سے یہ بات بھی سامنے آتی ہے کہ سعودی عرب اور عرب امارات اسرائیل کے حامی Foundation for Defense of Democracies (FDD) نام کے ایک تھنک ٹینک کے توسط سے صہیونی ریاست اسرائیل سے پس پردہ منظم روابط قائم کیے ہوئے ہیں اور ماضی میں بھی یہ خلیجی ریاستیں مشترکہ کاز کے لیے اسرائیل کے ساتھ مل کر کام کرتی رہی ہیں ۔

واضح رہے کہ اس تھنک ٹینک کے بانی شیلڈن ایڈلسن نام کے ایک اسرائیل نواز یہودی ہیں جو اسرائیلی وزیر اعظم بنجامن نیتن یاہو کے قریبی اتحادی مانے جاتےہیں ۔ جہاں تک لیک کی گئی ان ای میل کے معتبرہونے کا سوال ہے تو اس میں کوئی شک کی گنجائش اس لیے نہیں ہے کہ خود عرب امارات نے بھی یوسف القتیبہ کے ای میل اکاؤنٹ کے ہیک کیے جانے کی تصدیق کی تھی۔ انھیں میں سے ایک ای میل میں اماراتی سفیر یوسف القتیبہ کو اس امریکی اسرائیلی تھنک ٹینک کے کاؤنسلر ’جان ہنا ‘سے محمد بن سلمان کو سعودی عرب کا کراؤن پرنس یعنی ولی عہد بنانے کی خواہش کا شدت سے اظہار بھی کرتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے۔ انھیں ای میل میں اس بات کا بھی انکشاف ہوا تھا  کہ تھنک ٹینک کے کاؤنسلر جان ہنّا کی سعودی عرب کے موجودہ ولی عہد محمد بن سلمان اور عرب امارات کے ولی عہد شیخ محمد بن زائد سے بھی میٹنگ طے پائی تھی جس کے ایجنڈے میں اصل ٹارگیٹ قطر، الجزیرہ چینل ، حماس اور اخوان ہی تھے۔

اسی انکشاف سے یہ بات بھی سامنے آئی کہ گزشتہ سال ترکی میں ہوئی بغاوت بھی گہری سازش کی مرہون منت تھی ۔ اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ بغاوت میں تعاون کرنے پر جان ہنـا نے اپنے ایک میل میں "یوسف القتیبہ کا شکریہ بھی ادا کیا ہے  ….واضح رہے کہ جان ہنا نے ہی ترکی میں بغاوت سے پہلے ہی اپنے ایک مضمون میں بغاوت کی پیش گوئی کر دی تھی جس سے اس ساز باز کے امکان کو مزید تقویت مل رہی ہے۔ بہر حال ان انکشافات سے یہ بات ثابت ہوجاتی ہے کہ عرب انتشار اور مشرق وسطیٰ کے بحران کے پس پردہ صہیونی اور امریکی طاقتوں کی سازشیں کارفرما ہیں ۔

فی الحال قطر تنازع کے طول پکڑنے کے معاملے میں بھی امریکی کردار پر شک و شبہ ظاہر کیا جا رہا ہے۔ ذرائع ابلاغ کے مطابق خلیجی ریاستوں کی جانب سے ان مطالبات کا جواب دینے کے لیے متعین کی گئی ڈیڈلائن ختم ہونے کے بعد امریکی صدر نے خلیجی ممالک سے ٹلیفون پر بات چیت کی تھی اور اس بات چیت کے فوراً بعد ہی خلیجی ممالک کے سربراہان کی جانب سے قطر پر پابندیوں کا دائرہ مزید وسیع اور سخت کرنے والے بیانات کا سلسلہ شروع ہوگیا۔بہر حال اس پورے تنازع میں امریکہ اور اسرائیل کا ہاتھ ہونے سے انکار نہیں کیا جا سکتاہے۔ اور کوئی عام فہم انسان بھی خلیجی ممالک کے مطالبات پر ایک نظر ڈالنے سے یہ بات سمجھ سکتا ہے کہ آخر فلسطینیوں کے بقا کی جنگ لڑ نے والی حماس اور مصر کی اخوان المسلمون جیسی تنظیموں کے خلاف مورچہ کھولنے سے کسے فائدہ ہوگا؟ یہ سب کچھ اتنا واضح ہونے کے باوجود امت مسلمہ کا بحیثیت مجموعی یہ حال ہے کہ وہ واضح طور پر دو گروپوں میں بٹی ہوئی نظر آرہی ہےاور یہ سب اس لیے ہے کہ شاہی اور ملکی مفادات کی جنگ مسلک اور فرقے کی آڑ میں لڑی جا رہی ہے ۔ جس نے عام مسلمانوں کو اس خطرناک حد تک متاثر کیا ہے کہ وہ اپنے اپنے فرقوں کے مراکز کی حمایت اور مد مقابل کی مخالفت میں قرآن و سنت کے عدل و انصاف کے واضح تقاضوں کو بھی یکسر نظر انداز کردیتے ہیں ۔

آج حالت یہ ہے کہ مسلمانوں کا ایک گروہ سعودی عرب کی اندھی حمایت پر آمادہ ہے تو دوسرا گروہ ہر حالت میں ایران کے دفاع پر بضد ہے۔ کچھ لوگ قطر جیسے چھوٹے ممالک پر سعودی عرب کی زیادتی پر آنکھ بند کر لیتے ہیں تو کچھ لوگ ایران کی توسیع پسندانہ پالیسی پر خاموشی اختیار کرلیتے ہیں ۔کچھ لوگ سعودی کے ذریعہ مصر میں تختہ پلٹ کرکے قائم کی گئی السیسی کی غاصبانہ حکومت کی ڈھٹائی سے حمایت کرنے پر متفق ہیں تو کچھ لوگ یمن میں بغاوت کرکے حوثیوں کے ذریعہ اقتدار چھیننے پر خوش ہیں ۔جہاں مسلمانوں کا ایک گروہ شام میں ایران کی بمباری اور دیگر خطوں میں اس کی مداخلت کی حمایت کرنے پر پورے زور و شور سے متحرک ہے ، تو وہیں دوسرا گروہ یمن میں سعودی عرب کی بمباری اور دیگر ممالک میں اس کی دخل اندازی کی حمایت کرنے پر ڈٹا ہوا ہے!کچھ لوگ سعودی عرب کے امریکہ سے کھلے عام تو اسرائیل سے پس پردہ برتے جا رہے تعلقات کو نظر انداز کردیتے  ہیں تو وہیں کچھ لوگ ایران کا بشار الاسد کو ہر حال میں حمایت کرنے اور روس سے اتحاد کرنے کو جی جان سے سپورٹ کرتے ہیں اور پس پردہ امریکہ و اسرائیل سے اس کے تعلقات کو نظرانداز کرتے ہیں ۔ اور ان دونوں ہی فریقوں میں یہ بات مشترک ہے کہ یہ اپنے اپنے حامی ممالک کے نام پر کھیلے جانے والے فرقہ واريت کے جان لیوا کھیل کے بھی کٹر حامی ہیں ۔ یہی وجہ ہے یہ دونوں گروہ ایک دوسرے کی اندھی مخالفت پر بھی آمادہ ہیں ۔ایسا لگتا ہے کہ مسلمانوں کا یہ طبقہ فرقہ پرستی میں اندھا ہو کر عدل و انصاف کے راستے سے ہٹتا اور عدل کے تقاضوں کو فراموش کرتا جا رہا ہے۔ جبکہ قرآن واضح طور پر حکم دیتا ہےکہ ’’اور تم کو کسی قوم کی دشمنی اس بات پر آمادہ نہ کرے کہ تم انصاف سے پھر جاؤ، تم (ہر حال میں ) عدل کرو، یہ تقوی سے زیادہ قریب ہے کہ تم عدل کرو، اللہ سے ڈر کر کام کرتے رہو ، جو کچھ تم کرتے ہو اللہ اس سے پوری طرح باخبر ہے ۔‘‘(سورۃ المائدہ 5:8)ایک دوسرے مقام پر قرآن فرماتا ہے کہ ’’بے شک اللہ انصاف اور نیکی کرنے اور احسان کرنے کا حکم دیتا ہے۔‘‘(سورہ النحل 16:90) ایک اور مقام پر اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ ’’”اور جب لوگوں کے باہمی جھگڑوں کا فیصلہ کرنے لگو تو انصاف سے فیصلہ کرو” ۔‘‘(سورۃ النساء)

یہ تو رہا اسلام میں عدل و انصاف کا تقاضہ ،لیکن اس کے برعکس ہم ہندوستانی مسلمانوں کا حال یہ ہے کہ جب ایک ملکی چینل این ڈی ٹی وی پرایک دن کی پابندی کا اعلان ہوتا ہے تو ہم سراپا احتجاج بن جاتے ہیں لیکن وہیں دوسری جانب الجزیرہ پر آئے بحران پر ہمیں سانپ سونگھ جاتا ہے! جب کہ جس طرح ملکی سطح پر NDTV کسی حد تک ناانصافی اور ظلم کے خلاف آواز اٹھاتا ہے، بین الاقوامی سطح پر الجزیرہ چینل اس سے کہیں زیادہ مظلوم اور بے بس لوگوں کی آواز بن کر سامنے آتا ہے۔ ایک ایسے وقت میں جب انٹرنیشنل میڈیا مسلمانوں اور دبے کچلے طبقوں کی آواز کو نظر انداز کرنے یا دبانے کا کام کر رہا ہے تو ایسے میں الجزیرہ دنیا کے ہر خطے کے مظلوموں کی آواز پوری تندہی سے اٹھانے کی کوشش کرتا ہے۔ اس کی تازہ مثال ابھی حال ہی میں ہندوستان میں NotInMyName  کے بینر تلے ہوئے احتجاج سمیت دیگر احتجاجات کو بھی کور کرنے میں الجزیرہ پیش پیش رہا ہے۔ ایسے میں الجزیرہ پر آئے بحران پر ملک کے سیکولر اور مسلم طبقوں کی خاموشی کو آخر کیا سمجھا جائے ؟ لہٰذا ضرورت ہے کہ ہم تمام ملکی و بین الاقوامی اور باہمی معاملات میں جب بھی کوئی موقف اختیار کریں یا رائے قائم کریں تو قرآن و سنت میں بیان کردہ عدل و انصاف کے معیار کو سامنے رکھیں اور دیکھیں کہ ہم کہاں کھڑے ہیں ۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔