خاشقجی کاقتل کہیں آل سعود کا سورج غروب نہ کردے 

محمد نافع عارفی

اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے

"من يقتل مؤمناً متعمداً فجزاءه جهنم خالداً فيها وغضب الله عليه ولعنه وأعد لهم عذابا عظيماً”(النساء :93)

جوشخص کسی مسلمان کو قصداً قتل کر ڈالے؛ تواس کی سزا جہنم ہے کہ اس میں ہمیشہ ہمیشہ رہتا اس پر اللہ تعالیٰ غضبناک ہوں گے اور اس کو اپنی رحمت سے دور کر ینگے اور اس کے لئے بڑی سزا کا سامان کرین گے (بیان القرآن 391/1، ط:دیوبند، حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانوی)

اللہ اور اس کے رسول صل اللہ علیہ و آلہ و سلم کی نظرمیں کسی ایک آدمی کا ناحق قتل پوری انسانیت کے قتل کے برابر ہے، اور کسی ایک فرد کی زندگی بچانا پوری انسانیت کو زندگی بخشنے کے مرادف ہے، اللہ تعالیٰ کا ارشاد  ہے "

مِنْ أَجْلِ ذَٰلِكَ كَتَبْنَا عَلَىٰ بَنِي إِسْرَائِيلَ أَنَّهُ مَن قَتَلَ نَفْسًا بِغَيْرِ نَفْسٍ أَوْ فَسَادٍ فِي الْأَرْضِ فَكَأَنَّمَا قَتَلَ النَّاسَ جَمِيعًا وَمَنْ أَحْيَاهَا فَكَأَنَّمَا أَحْيَا النَّاسَ جَمِيعًا ۚ وَلَقَدْ جَاءَتْهُمْ رُسُلُنَا بِالْبَيِّنَاتِ ثُمَّ إِنَّ كَثِيرًا مِّنْهُم بَعْدَ ذَٰلِكَ فِي الْأَرْضِ لَمُسْرِفُونَ (المائده :32)

اسلام امن عالم کا ضامن ہے وہ اس لئیے آیا کہ زمین پر برپا فساد کو ختم کرے اور اللہ کی زمین پر امن و شانتی، پیار و محبت، خلوص والفت اور اخوت و بھائی چارے کی ایسی فضا قائم ہو کہ انسان تو انسان جنگلی جانور اور نباتات وجمادات کو بھی آزادی اور امن وسلامتی کی ضمانت حاصل ہو، یہی وجہ ہے کہ اسلام نے ہرے بھرے درختوں کے بلا ضرورت کاٹنے کو بھی ناپسند کیا ہے؛ چہ جائے کہ انسانی گردنیں کاٹی جائیں، اسلام کی نظر میں کفروشرک کے بعد سب بدترین گناہ اور بڑا گناہ کسی کا ناحق خون بہانا ہے، اور اگر وہ خون کسی مسلمان کا ہو تو اس سے بدترین اور گھٹیا عمل دنیا میں کوئی ہو ہی نہیں سکتا ہے، اللہ تعالیٰ کی نظر پوری دنیا کا تباہ وبرباد ہوجانا ایک مسلمان کے قتل مقابلہ بہت ہی معمولی بات ہے، اور اگر کسی ایک مسلمان کے قتل پوری دنیا شریک ہوجائے تو اللہ تعالیٰ تمام مجرموں کو جہنم میں جھونک دینگے، حضرت براء ابن عازب فرماتے ہیں کہ نبی کریم صل اللہ علیہ و سلم نے فرمایا :”لزوال الدنيا و مافيها أهون عند الله تعالى من قتل مؤمن ولو أن أهل سماواته  وأهل ارضه اشتركوا في دم مؤمن لأدخلهم الله تعالى النار” (بيهقى بحوالہ روح المعانی 170/4)

اسی مضمون کی روایت امام ترمذی نے حضرت ابو سعید خدری اور حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہما سے نقل کی ہے (دیکھنے ترمذی :1398)حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صل اللہ علیہ و سلم سے فرماتے ہوئے سنا کہ” ہوسکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ تمام گناہوں کی مغفرت فرمادے سوائے اس شخص کے جو حالت کفر میں مرا ہو یا وہ شخص جس نے کسی مسلمان کا جان بوجھ کر قتل کیا ہو، (مستدرک 351/4،کتاب الحدود) أمام حاکم نے حضرت ابودرداء رضی اللہ عنہ سے اسی طرح کی روایت نقل کی ہے اور ان دونوں ہی روایتوں کو شیخین کی شرط کے مطابق قرار دیا ہے، الفاظ کے تھوڑے اختلاف کے ساتھ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ ہی سے امام نسائ نے بھی اس روایت کی تخریج کی ہے ( النسائ، باب تحريم الدم رقم :3984) أمام ابن شیبہ حضرت حسن سے مرسلا نقل کرتے ہیں کہ نبی کریم صل اللہ علیہ و سلم نے فرمایا "میں نے جتنی دفعہ مومن کے قاتل کے قبول توبہ کے سلسلے اپنے رب سے درخواست کی کسی اور معاملہ میں نہیں کی لیکن اللہ تعالیٰ نے میری درخواست قبول نہیں فرمائی” مانازلت ربى في شئ مانازلته فى قاتل المؤمن فلم يجبنى "(مصنف ابن أبي شيبه :رقم :28306 كتاب الديات) علا سیوطی نے الدر ألمنثور میں اسی روایت کی تخریج عبد بن حمید کے حوالے سے کی ہے، (دیکھنے الدر المنثور 197/2) فرمان خداوندی اور ان روایتوں کی بنیاد پر حضرات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں سیدنا زید بن ثابت، حضرت عبداللہ بن عمر، حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہم اور تابعین میں حضرت قتادہ، ضحاک، اور حسن بصری وغیرہ فرماتے ہیں کہ کسی مسلمان کے قاتل کی توبہ قبول نہیں ہوگی-(روح المعانی 170/4ط:دیوبند)

أمام المفسرين سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ وہ شخص کیسے ہدایت پا سکتا ہے اور اسے توبہ کی توفیق کیوں کر ہوسکتی ہے جبکہ اس کا ہاتھ ایک مسلمان کے خون سے رنگین ہو چکا ہے، پھر قسم کھا کر فرفاتے ہیں کہ میں نے تمھارے نبی کریم صل اللہ علیہ و سلم سے فرماتے ہوئے سنا ہے کہ "تمھاری ماں تمھیں بوجھل کرے، مومن قاتل قیامت اس حال میں آئے گا کہ مقتول اس کا داہنہ یا بایاں ہاتھ پکڑے ہوگا اور اس مقتول کے جبڑے سے خون کے قطرے ٹپک رہے ہوں گے اور وہ عرش الٰہی کے سامنے کھڑا ہو کر عرض کرے گا خداوندا اس سے پوچھیے کہ اس نے کس جرم کی پاداش مجھے قتل کیا، پھر حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ قسم کھا کر کہتے ہیں کہ یہ آیت "من یقتل مؤمناً متعمداً فجزاءه جهنم إلخ” نازل اور منسوخ نہیں ہوئ یہاں تک کہ نبی کریم صل اللہ علیہ و سلم کی وفات ہوگئ – (عمدة القارئ 431/18، تفسیر ابن كثير) لیکن خود حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کا دوسرا قول اور جمہور کا مسلک یہی ہے کہ قاتل کی توبہ قبول ہوگی، اور اللہ پاک کے اختیار میں کہ وہ اپنی وعیدوں کے باوجود کسی کو معاف فرمادے، لیکن اتنی بات تو طےہے کہ قتل ایک انتہائی ناپسندیدہ بدترین اور ظالمانہ عمل اور اللہ اور ا سپلیمنٹ مہم مچ کے رسول صل اللہ علیہ و سلم نے اس پر  سخت ترین سزا سنائی ہے،

دنیا میں اسلام نے قتل کی سزا قتل رکھی ہے اور قصاص کو زندگی سے تعبیر کیا ہے،”ولكم في القصاص حياة” لیکن سخت ترین وعیدوں اور ربانی دھمکیوں کے باوجود آج ہم مسلمان ہی مسلمان کے خون کےپیاسے بنے بیٹھے ہیں-

دنیا میں موت کا سب سے بڑا سودا گر امریکہ اور اس کی ناجائز صیہونی اولاد اسرائیل ہے، دنیا میں اور خاص کر اسلامی دنیا موت کا ننگا ناچ اور خون مسلم سے ہولی اسی کے بنائے ہوئے ہتھیار سے کھیلا جا رہا ہے،ماتم اس پر نہیں کہ یہودومشرکین ہماری جان کے دشمن بنے ہیں یہ تو ازل سے ہی ہمارے دشمن ہیں اور رینگے، اللہ ہی نے واضح طور پر بتلا اور سمجھ دیا تھا یہ دونوں ہی تمھارے بدترین دشمن ہیں، یہ تمھیں گزند پہونچا نے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دینگے، یہ تمھارے گھاتھ میں ہیں اور تمھاری تباہی و بربادی کی ہرممکن کوشش اپنا مذہبی فریضہ سمجھتے ہیں چنانچہ ارشاد ہوا "

   لَتَجِدَنَّ أَشَدَّ النَّاسِ عَدَاوَةً لِّلَّذِينَ آمَنُوا الْيَهُودَ وَالَّذِينَ أَشْرَكُوا ۖ وَلَتَجِدَنَّ أَقْرَبَهُم مَّوَدَّةً لِّلَّذِينَ آمَنُوا الَّذِينَ قَالُوا إِنَّا نَصَارَىٰ ۚ ذَٰلِكَ بِأَنَّ مِنْهُمْ قِسِّيسِينَ وَرُهْبَانًا وَأَنَّهُمْ لَا يَسْتَكْبِرُونَ (المائدة :82)

ماتم اس پر دہشت گردی اور قیام امن کے نام پر خود مسلم حکومتیں مسلمانوں ہی کے پیسے سے خریدے ہو ئے ہتھیاروں سے مسلمانوں ہی قتل عام کرہی، نہ ان کے دل میں خوف اور نہ شرم و حیا کا کوئی زرہ باقی ہے، اسی دہشتگردی کی ایک کڑی جمال خاشقجی کا قتل ہے

جمال خاشقجی عرب دنیا کے بیباک اور نڈر صحافی تھے، سعودی تھے، لیکن سعودی کے احمق اور بےلگام شہزادہ بن سلمان کے پالیسیوں کاکے ناقدتھے، وہ اپنے اختیاری جلاوطنی کے ایام امریکہ میں گزار رہے تھے، اور واشنگٹن پوسٹ کے لئے کالم نگار ی کر تے تھے، وہ ۱۹۵۹ء میں مدینہ منورہ کی سرزمین میں پیدا ہوئے، اس کے آبا واجداد ترکی کے رہنے والے تھے،اور ۵۰۰ سو سال قبل انہوں نے حرم مدنی کو اپنا وطن بنایا تھا، اس کے خاندان کے افراد کے حصہ میں سعودی وزارت بھی آئ، اور مسجد نبوی صل اللہ علیہ و سلم کے مؤذن ہونے کا شرف بھی حاصل ہوا،  ، جمال خاشقجی  ترکی خاتون خدیجہ چنگیز سے شادی کا ارادہ کا ارادہ رکھتے تھے، تاکہ اس شادی کی بنیاد پر انہیں ترکی کی شہریت مل جائے،کیونکہ محمد سلمان کی حکومت وسیاست پر ان کی تنقیدوں کی وجہ سے سعودی عرب میں ان کا  عزت کے ساتھ رہنا ممکن نہیں تھا، سعودی عرب کسی بھی آزاد فطرت شخص کا رہنا دشوار ہے جس کو فطرت کی نعمت حریت کا احساس ہو، ہاں جن دماغ ودل نے غلامی کی زلت قبول کرلی ہے أن کے لیے سعودی میں قیام کسی نعمت الٰہی سے کم نہیں ہے، سر کس کے شیر کو صرف چند بوٹیوں کی فکر ہوتی ہے جو اسے وقتاً فوقتاً فراہم کرادی جاتی ہے؛ وہ اسی میں مگن زلت کی زندگی پر قناعت کر لیتا ہے، لیکن شاہین فطرت خاشقجی کے لیے یہ ممکن نہیں تھا، اسی لئے انہوں نے جلا وطنی اختیار کر لی تھی اور اب وہ ترکی میں مستقل قیام کا ارادہ رکھتے تھے، چنانچہ اپنی شادی کے سلسلہ میں بعض دستاویز پر سعودی کونسلیٹ کی مہر تصدیق حاصل کرنے کیلئے کونسلیٹ کے اندر داخل ہوئے اورپھر کبھی اس عمارت سے باہر نہیں نکل سکے، زمین کھاگئی یا آسمان نگل گیا، شک کی تمام سوئیاں محمد بن سلمان کی طرف اشارہ کررہی ہیں۔ وہ ۲؍ اکتوبر کی تاریخ تھی، استنبول میں سعودی کونسل خانے کو یہ اطلاع تھی کہ جمال خاشقجی آنے والے والے ہیں، اور کونسل خانہ کے ذریعہ سعودی ارباب حکومت تک ان کی آمد کی خبر پہونچ چکی تھی، ریاض سے سیکوریٹی پولیس کے15 قاتل 2 طیاروں میں بیٹھ کر استنبول پہونچے اور کونسل خانہ کے اندراس وقت داخل ہوئے جب جمال خاشقجی اندر پہونچ چکا تھے، ترکی حکومت کی سیکوریٹی کی طرف سے عمارت سے باہر سی سی کیمرے لگے ہوئے تھے، کیمرے نے جمال خاشقجی کا اندر جانا ریکارڈ کرلیا، اندر کی جانب سعودی کونسل خانہ کی طرف سے جو سی سی کیمرے لگے تھے، وہ صرف اسی دن بند کردیئے گئے تھے تاکہ خاشقجي کے قتل کو کیمرے کی آنکھ سے چھپا یا جا سکے۔ جمال خاشقجی کی منیگتر عمارت کے باہر انتظار کرتی رہی، اور 11؍ گھنٹے گذر گئے اور جمال خاشقجی باہر نہیں آئے تو منگیتر کو شک گذرا،اس نے پولیس کو خبر کی، تو اندر کے ملازموں نے کہا کہ خاشقجی آئے ضرور تھے، مگر 20؍ منٹ کے بعد وہ واپس چلے گئے تھے۔ ہرگھنٹے اور دن سعودی حکومت کے بیانات بدلتے گئے، اس قدر تیز رفتاری کے ساتھ بیانات کے بدلنے کا شاید یہ عالمی ریکارڈ ہو، پہلے کہا گیا آئے تھے چلے گئے، ایک عقل و نظر کے اندھے مفتی نے بیان دیا کہ چونکہ اسلام میں تصویر کشی حرام ہے اس لیے قونصل خانہ کے کیمرے بند تھے،” اس معصومیت پہ کون نہ مر جائے اے خدا” بن سلمان کے مجرم، سفاک اور قاتل شہزادہ گلفام کے دفاع میں ریالی قلم کاروں اور درباری ملاؤں کی پوری فوج میدان میں کود پڑی، انتہائی افسوسناک بات ہے کہ امام حرم ڈاکٹر عبدالرحمن سدیس نے ___جواپنی خوش الحانی، دلوں کو فتح کرنے والی آواز  اور نرالے انداز تلاوت کی وجہ سے لاکھوں مسلم دلوں کے حکمراں بن گئے تھے ___بھی اپنی دینی حمیت و غیرت ایمانی تقاضہ کو بالائے طاق رکھ کر بےشرموں کی طرح ظالم شہزادہ کی بر أت اعلان ممبر کعبہ سے کردیا، اتنا ہی نہیں انہوں نے اپنے عیاش شہزادہ کو سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کا ہم پلہ قرار دیا اور اس کے کے لیے وہی نبوی الفاظ استعمال کیے جو نبی کریم صل اللہ علیہ و سلم نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی تعریف میں ارشاد فرمایا تھا، یہ ہیں کے امام حرم جن کی أمات اور ان کی اقتدا میں نماز کے بار ے میں اقبال کی زبان میں کہا جا سکتا ہے "ایسی نماز سے گزر ایسے امام سے گزر” ایک دوسرے شاہی مولوی شیخ مغامسی نے تو اس قتل مرتدین کے خلاف عہد صدیقی کے جہاد سے تشبیہ دیتے قاتلوں کے اس ٹولے کو حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ اور ان کے رفقاء کے برابر قرار دیا اور بن سلمان کو حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کا ہم پلہ قرار دیا” چوں کفر از کعبہ برخیزد، کجا ماند مسلمانی ” لیکن اللہ تعالیٰ نے آل سعود کی رسوائی مقدر کر رکھی تھی اور بالآخر لیت ولعل کے بعد سعودی حکومت نے خاشقجی کے قتل اعتراف کر ہی لیا اور دنیا کے سامنے سدیس کا جھوٹ بھی آشکار ہو گیا، اور اب تو سعودی سفارت کار کے گھر سے شہید جمال خاشقجی کے لاش کے ٹکڑے بھی برآمد کرلیے گئے ہیں ” جوچپ رہے گی زبان خنجر لہو پکارے گا آستین کا "

اب پوری دنیا کی نگاہ اسلامی قوانین پر عمل پیرا ہونے کی دعویدار سعودی حکومت پر ٹکی ہے کہ کیا مجرموں کی اس ٹولی کو اور خود ابن سلمان کو قصاصا قتل کیا جائے گا یا پھر کسی اور کو بلی کا بکرا بناکر شہزادہ کو دہشت گردی کی کھلی چھوٹ دے دی جائے گی، خواہ کچھ بھی ہو آل سعود کو نوشتۂ دیوار پڑھ لینا چاہیے کہ ان کے چل چلاؤ کا وقت قریب آچکا ہے –

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔