دھمکیوں کو خاطر میں نہ لانا معنی خیز عمل ہے!

عمیر کوٹی ندوی

فلسطین نے ایک بار پھر ثابت کردیا ہے کہ وہ خودپرامریکہ کی طرف  سےاسرائیل کے سامنے سرنگوں ہونے کے لئے ڈالے جانے والے دباؤ کو خاطر میں لانے کے لئے تیار نہیں ہے۔ اس نے امریکی دھمکیوں کا اسی لب ولہجہ میں جواب  دیتے ہوئے عارضی طور پر امریکہ سے  اپنےرابطے  کوختم کرنے کا اعلان ہی نہیں کیا بلکہ عملا ایسا کربھی دیا ہے۔ اسی اثنا میں اس نے اس سمت مزیدایک قدم بڑھا دیا ہے جو  امریکہ ہی کیا اس وقت بین الاقوامی سطح پر اسلام اور مسلمانوں کو اپنے لئے خطرہ تصور کرنے والی کسی بھی طاقت کو پسند نہیں ہے۔ وہ ہے  ملت اسلامیہ کا باہمی اتحاد واتفاق جو کسی کو بھی پھوٹی آنکھ نہیں بھارہا ہے۔ فلسطین نے اس کی سمت بڑھے ہوئے اپنے قدم کو نتیجہ خیز بنانے کے لئےمزید ایک قدم اوربڑھا دیا ہے۔ فلسطین کے اس بڑھے ہوئے قدم سے باخبر ہونا دنیا کے طول عرض میں پھیلی ہوئی ملت اسلامیہ کے لئےنہ صرف ضروری ہے بلکہ مصائب وآلام سے دوچار اور انتشار وافتراق سے پریشان حالوں کے لئے ایک راہ ہے۔ گزشتہ دنوں 12 ؍اکتوبر کو مصر کی زیرنگرانی ‘حماس’ اور’ تحریک فتح’ کے درمیان طے پانے والےمصالحتی معاہدے کے بعد اب تمام جماعتوں نے 2018ء کے آخر تک عام انتخابات کے انعقاد پر اتفاق بھی کرلیا ہے۔21؍22؍ نومبر کو قاہرہ میں مصری انٹیلی جنس حکام کی زیر نگرانی ہونے والی دو روزہ کل جماعتی کانفرنس میں حتمی مذاکرات کے بعد جاری کردہ مشترکہ بیان میں کہا گیا ہے کہ تمام فلسطینی تنظیموں نےطےشدہ شیڈول کے اندر فلسطینی قومی حکومت کی تشکیل اور تمام ذمہ داریوں کو قومی حکومت کے سپرد کرنے اور حکومت کو فلسطین کے بنیادی آئین اور قانون کے تحت چلانے  پر اتفاق کیا ہے۔

فلسطین کی کل جماعتی کانفرنس کے مشترکہ بیان میں فلسطین نیشنل کونسل کو فعال بنانے کی بات کہی گئی ہے۔ اس میں قضیۂ فلسطین کے حل کے لئے تمام فورمز پر کوششیں تیز کرنے، صہیونی ریاست کی طرف سے درپیش خطرات کا تدراک کرنے، فلسطین میں یہودی آباد کاری کو روکنے، بیت المقدس کو یہودیوں کے قبضہ کرنے کی کوشش سے بچانے، قتل، مسماری، کریک ڈاؤن، ناکہ بندی اور فلسطینی قوم کے خلاف جاری صہیونی ریاست کے تمام حربوں کا بھرپور مقابلہ کرنے، فلسطین کے قومی اصولوں اور دیرینہ مطالبات کی روشنی میں جدو جہد کرنے، فلسطینیوں میں مصالحت اور مفاہمت کو مزید گہرائی تک لے جانےکے عزم کا اظہار کیا گیا ہے۔ اسی طرح حماس اور فتح کے درمیان طے پانے والے معاہدے کی تائید کی گئی ہے اور اسے فلسطینی دھڑوں میں پائے جانے والے اختلافات  کودور کرنے کے لئے تاریخی پیش رفت قرار دیا  گیاہے۔ اسی کے ساتھ تمام فلسطینی گروپوں کی طرف سے قومی مصالحتی معاہدے کی تمام شقوں اور نکات پر ان کی روح کے مطابق عمل درآمد کرانے، مقرر کردہ ٹائم فریم کے مطابق معاہدے کو پایہ تکمیل تک پہنچانے، فلسطین کے محاصرہ زدہ علاقے غزہ کی پٹی کے عوام کو ہرممکن ریلیف فراہم کرنے، ان کی تعلیم، صحت، خوراک، پانی، بجلی اور دیگر بنیادی ضروریات کو جلد از جلد پورا کرنے، تعمیر نو کے عمل میں تیزی لانے اور گزرگاہوں پر آمدورفت کو معمول پر لانےکی راہ میں حائل رکاوٹوں کو دور کرنے پر زور دیا گیا ہے۔

ظاہر سی بات ہے کہ” قضیۂ فلسطین کے حل کے لئے تمام فورمز پر کوششیں تیز کرنے اورصہیونی ریاست کی طرف سے درپیش خطرات کا تدراک کرنے” کی بات اس طاقت کو کیوں کر گوارہ ہوسکتی ہے جو اسرائیل کے زمانۂ قیام سے ہی اس کی بقا کی کوششیں کررہا ہے۔ اس کے مظالم کی علی الاعلان حمایت کرتا ہے اورنہیں چاہتا کہ اس کے زیر سرپرستی جاری اس ظلم کے خلاف کوئی انگلی اٹھائے اور ظالم کا احتساب ہو۔اس کی دھمکیوں اور اظہار برہمی کی یہی وجہ ہے۔دیدہ دلیری دیکھئے کہ اس نے اس کا برملا اظہار بھی کردیا ہے۔گزشتہ ہفتہ امریکی وزیرخارجہ ریکس ٹیلرسن نے ‘پی ایل او’ کے دفتر کی تجدید سے انکار کردیا تھا۔ امریکہ نے اس کی وجہ یہ بیان کی ہےکہ” واشنگٹن میں فلسطینی نمائندہ دفتر کی بندش رام اللہ اتھارٹی کے اسرائیل کے خلاف یک طرفہ اقدامات کا نتیجہ ہے جو اس نے عالمی فوج داری عدالت میں اسرائیل کے خلاف شروع کئے ہیں "۔ خیال رہے کہ سنہ 2015ء میں امریکی کانگریس نےاپنی سفارشات میں کہا تھا کہ” فلسطینیوں کے لیے اسرائیلی شہریوں کے خلاف تحقیقات کے لئے عالمی فوج داری عدالت سے رجوع کرنے کا کوئی جواز نہیں ہے”۔ واشنگٹن میں ‘پی ایل او’کے نمائندہ دفتر کوامریکا میں مقیم فلسطینیوں کا نمائندہ مرکزتصور کیا جاتا ہے۔ ہرچھ ماہ کے بعد اس دفتر کواپنی سرگرمیوں کو جاری رکھنے کے لئے امریکہ سے تجدید حاصل کرنی ہوتی ہے۔ گزشتہ ہفتہ چھ ماہ کی یہ مدت ختم ہوگئی ہے جس کے بعد سے تنظیم آزادی فلسطین کا دفتر بند ہے۔

امریکہ کا فلسطینی دفتر کی تجدید سے انکار اور اس انکار کو اسرائیلی مظالم کے خلاف عالمی فوج داری عدالت میں  رجوع سے جوڑ دینا انتہائی ظالمانہ قدم ہے اور اس کی طرف سے اٹھایا جارہا ہے جو ایک عرصہ سے خود کو پوری دنیا میں قیام امن کے واحد علم بردار کے طور پر پیش کرتا ہے۔ اسے امن وقیام امن کی کسی اور کی تعریف بھی پسند نہیں ہے۔ اسے امن اور قیام امن کی وہی تعریف پسند اور لائق صد احترام ہے جو اس کی خود ساختہ ہے۔ اس کی رو سے اسرائیل مظلوم  ہےاور فلسطینی عوام ظالم ہیں۔  اسرائیل ہر اس ظالمانہ قدم  کواٹھانے کا حق رکھتا ہے جن کا ذکر فلسطین کی کل جماعتی کانفرنس کے مشترکہ بیان میں کیا گیا ہے۔ اس بین الاقوامی طاقت کے نزدیک اسرائیل کے یہ تمام اقدام عدل وانصاف کے عین مطابق اور قیام امن کا اہم ترین حصہ ہیں۔ ظالم وہ ہیں جو ان اقدام کو ناپسند کرتے ہیں، ان کے خلاف آواز بلند کرتے ہیں اور انہیں ظلم گردانتے ہیں۔ ان مظالم سے خود کو بچانے اور ظالم کو ظلم سے باز رکھنے اور اس پر لگام لگانے کے لئے عالمی فوج داری عدالت  سےرجوع کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ جب یہ قدم ظلم گردان لیا گیا تو پھر اس کی سزا تو ملنی ہی تھی۔ فلسطینی دفتر کی تجدید سے انکار سزا ہی ہے۔ لیکن فلسطینی عوام نے امریکی دھمکیوں کو خاطر میں نہ لاکر اسے آئینہ دکھانے کی کوشش کی ہے۔

تبصرے بند ہیں۔