رزان النجار کی شہادت: مسلم حکمرانوں کے منہ پر طمانچہ

شہاب مرزا

رزان النجار یہ وہ نام ہے جس کی شہادت نے عالم اسلام کو سکتے میں ڈال دیا ہے۔ فلسطین کے علاقہ غزہ میں زخمیوں کی مرہم پٹی کرتے ہوئے اسرائیلی فوج کی گولیوں کا نشانہ بن کر وطن عزیز کی حرمت پر قربان ہونے والی فلسطینی جواں سال نرس رزان النجار ان مسلم حکمرانوں اور اسلامی فوج کا دعویٰ کرنے والوں کے منہ پرطمانچہ ہے جو فلسطین کے مسلمانوں کے حق میں کھڑے نہیں ہوسکے اور یہ اسرائیلی فوج کی بوکھلاہٹ بیان کرتی ہے کہ غزہ کی سرحد پر یونسی نامی مقام پر زخمیوں کی مرہم پٹی کرنے والی ایک نوجوان فلسطینی دوشیزہ کو سوچے سمجھے منصوبہ کے تحت نشانہ بناکر گولیاں ماری گئی جس کے نتیجے میں وہ شہید ہوگئی۔ ۲۱سالہ رزان النجار کوئی دہشت گرد یا عسکریت پسند احتجاجی نہیں تھی بلکہ فسلطینیوں کی طبی امداد اور تیمارداری کے لئے کام کرنے والی نرس تھی۔ رزان النجار جمعہ کی شب اسرائیلی سرحد کے قریب صیہونی فوج کی فائرنگ میں زخمی فلسطینیوں کی مدد کے لئے دوڑرہی تھی اور ایک زخمی کو ابتدائی طبی امداد دے رہی تھی اس وقت انہیں براہ راست فائرنگ کا نشانہ بنایاگیا رزان کو زخمی ہوئے بعد جائے وقوع سے اٹھاکر محفوظ مقام منتقل کیا گیا لیکن جب تک زیادہ خون بہہ جانے کی وجہ سے وہ شہید ہوگئی۔ رزان فلسطین میں امدان رسانی کے ادارے کی ایک سرگرم رکن تھی او رکئی سالوں سے بے لوث اپنی خدمات انجام دے رہی تھی۔ وہ اسرائیلی حکومت کے خلاف ہونے والے مظاہروں میں زخمیوں کا ہر وقت علاج کرتی تھی اور انہیں ہر ممکن مدد پہنچانے کی کوشش کرتی تھی۔

رزان کے شہید ہونے کی خبر نے غزہ مں ی ماتم کا ماحول کردیا۔ ان کی نماز جنازہ میں شرکت کے لئے غزہ بھر سے عوام کا سمندر امڈ آیا اس بافخر شہید کا جنازہ اسرائیلی فوج کی ریاسی دہشت گردی کے خلاف عوامی مظاہرے میں تبدیل ہوگیا شرکاء نے دہشت گردوں کے خلاف نعرے بازی کی اور رزان کے ناحق قتل کا بدلہ لینے کا مطالبہ کیا۔۱۱ستمبر۱۹۹۶ کو غزہ کے یونس علاقے میں اشرف النجار کے گھر پیدا ہوئی رزان النجار نے ابتدائی تعلیم یونس میں ہی حاصل کی۔ رزان النجار نے ہائی اسکول میں نمایاں کامیابی نہ ملنے کی وجہ سے آگے تعلیم حاصل نہیں کی۔ رزان النجار کے والد اشرف النجار کی یونس میں موٹرسائیکل کے پارٹس کی دکان تھی جو ۲۰۱۴ میں اسرائلی فوج کی جانب سے کی گئی ہوائی حملے کا شکار ہوگئی تھی رزان نے یونس اسپتال سے دو سالہ نرسنگ کورس مکمل کیا اور فلسطین میڈیکل ریلیف سوسائٹی میں شامل ہوئی تھی۔ جو ایک ذاتی ہیلتھ آرگنائزیشن ہے۔ رزان اس تنظیم کی سرگرم رکن تھی او ربلا معاوضہ اپنی جان کی پرواہ کئے بناء اپنی خدمات انجام دے رہی تھی۔ رزان نے اپنی زندگی کو فلسطینیوں کے لئے وقف کردی اور شہید ہوگئی۔

ادھر شہید رزان النجار کی محاذ جنگ پر زخمیوں کو طبی امداد فراہم کرنے والی سرگرمیوں کی تصاویر سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی جسے بہت زیادہ شیئر کیا گیا ان تصاویر میں شہیدہ کی ماں کو نڈھال دیکھا جاسکتا ہے جو اپنی بیٹی کے خون آلود کپڑوں کو سینے سے لگائے ماتم کررہی ہے۔ ماں کی آہ وبکا کی رقت آمیز مناظر کو سوشل میڈیا پر لاکھوں افراد نے شیئر کیا اقصی کی بیٹی اقصی کی بازیابی کے لئے کھڑی زخمیوں کی تیمارداری اور طبی امداد کررہی تھی اور ان بزدل اسرائیلیوں کو رزان کی خدمت اور بے باکی راس نہیں آئی اس لئے یہودیوں نے بزدلانہ اور ظالمانہ حرکت کرتے ہوئے رزان کو شہید کیا جس وقت رذان کو شہادت نصیب ہوئی وہ روزے کی حالت میں تھی۔ پھر بھی بے غیرت مسلم حکمرانوں کی بے حسی ختم نہیں ہوئی۔

روزفلسطینی شہیدوں کی شہادت بھی ان بے غیرت حکمرانوں کے ضمیر کو جنجھوڑ رہا ہے لیکن وہ بھی کیا کرسکتے ہیں ضمیر جو مرچکا ہے۔ کاش! اب کوئی سلطان صلاح الدین ایوبی آئے اور اقصیٰ کو آزاد کرائے کیونکہ اب ان حکمرانوں سے کچھ نہیں ہوگا۔رمضان المبارک کے مقدس مہینہ میں چھوٹے چھوٹے بچے بڑے بوڑھ جوان عورتیں سبھی ٹینکوں کے مقابل میں پتھر لئے کھڑے ہوئے ہیں او ریہودیوں سے سینہ تان کر لڑرہے ہیں رزان النجار کی شہادت نے عرب حکمرانوں کو واضح کرادیا کہ اقصی بیٹیوں کا لہو رائیگاں نہیں جائے گا۔ یا تو اقصی فتح کرکے دم لے گے ا پھر شہادت ہی ان کا مقدر ہے اسرائیلی بزدل فوج نے رزان پیٹھ پیچھے گولی مارکر اپنی بوکھلاہٹ کا ثبوت پیش کیا۔

موجودہ عرب حکمراں جب تک صیہونی اور صلیبی آقاؤں کی غلامی سے آزاد نہیں کرتے جب تک انہیں ذاتی اقتدار سے زیادہ امت مسلمہ اور دین اسلام کا مفادعزیز نہیں ہوگا۔ جب تک ان میں اسلامی حمیت نہیں جاگے گی۔ اور وہ اپنی بے لگام عیاشیوں کے خول سے باہر نہیں آئیں گے تب تک فلسطینی مسلمان اس طرح کٹتے رہیں گے اور معصوم بچے یونہی تڑپ تڑپ کر مرتے رہیں گے رزان النجار او رکئی فلسطینی بچے مسلم حکمرانوں کی غفلت کی وجہ سے شہید ہوئے کیا ان حکمرانوں کو وہ معصوم بچے کے الفاظ نہیں جھنجوڑتے جس نے مرنے سے پہلے کہا تھا’’تمہاری شکایت خدا سے جاکر کرونگا۔‘‘معصوم بچوں کی لاشیں اقوام متحدہ مسلم ممالک کے مسلم حکمرانوں اور انسانی حقوق کی تنظیمیوں کے لئے کوئی معنی نہیں رکھتی۔ کہاں ہیں اسلامی میڈیا کے بڑے بڑے اسلامی چینل ؟ کہاں ہیں وہ اسلامی ایٹامک پاور؟

کیا یہ معصوم بچے انسان نہیں ہے جو اپنے وطن عزیز کی بازآبادکاری کے لئے لڑرہے ہیں۔ اسلامی ممالک کی بھی کوئی فوج ہے جو اسلامی ممالک کی حفاظت کے لئے بنائی گئی تھی شائد وہ بھی کب جاگیں گے معلوم نہیں۔ اس وقت عام مسلمانوں کو جس چیزپر سب سے زیادہ توجہ دینے کی ضرورت ہے وہ اعمال کی اصلاح اور رجوع الی اللہ کا اہتمام ہے اس میں انسانوں کے اعمال بدکا بڑا دخل ہوتا ہے وہ مسلمان کس قدر بے حس ہیں جن کی خوشیوں اور فضول خرچی پر مشتمل تقریبات میں ذرہ برابر فرق نہیں آتا فلسطین میں بچے بلک بلک کر مررہے ہیں ۔ اور ہماری غفلت کا یہ عالم ہے کہ ہم اپنی عیش وعشرت میں مگن ہے۔ حالات کی سنگینی ہمیں اپنے اعمال کی اصلاح پر آمادہ کرنا ہوگا۔

تبصرے بند ہیں۔