روہنگیا مسلمان ماضی اور حال کے تناظر میں

 عبد الرحمن عالمگیر کلکتوی

روہنگیائی مسلمان جنہیں کبھی آتش نمرود میں جلایا جاتا ہے، تو کبھی پانی میں ڈبو کر مار دیا جاتا ہے، کبھی زندہ انسانوں کی کھالیں ادھیڑ دی جاتی ہیں، تو کبھی ان کے جسموں کو جھلنی جھلنی  کر کے مرچ اور مسالے کا چھڑکاؤ کیا جا تا ہے، خواتین کی عصمت دری تو روز کا معمول ہے، پرندوں جیسے معصوم بچوں کی آنکھیں نکال دی جاتی ہیں، انہیں تڑپا تڑپا کر لطف حاصل کیا جاتا ہے اور جسے چاہا چیر پھاڑ کر رکھ دیا جاتا ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ یہ کون لوگ ہیں جن کے ساتھ انسانیت سوز مظالم ڈھائے جا رہے ہیں ؟ دراصل یہ لوگ برما ( میانمار ) کے مسلم باشندے ہیں۔

برما کی جغرافیائی پوزیشن

اس ملک کا رقبہ ڈھائی لاکھ (261,2277) مربع میل ہے  یہاں کی دار الحکومت "نیپیداو” ہے اس ملک کی سرحد جنوب میں بنگلہ دیش، شمال میں چین، لاؤس، مشرق میں تھائی لینڈ شمال مغرب میں بھوٹان اور مغرب میں ہندوستان کے ساتھ واقع ہے، میانمار سات صوبہ نما ریاستوں یا شہروں میں بٹا ہوا ہے جن میں میانمار کا پرانا دار الحکومت رنگون سمیت نیپیداو، شان، چن، کیاہ (Kayah )، مون اور رخائن کی ریاستیں شامل ہیں، رخائن اسٹیٹ کے اکثر باشندے مسلمان ہیں یہاں کے رہنے والوں کو "روہنجیا”(Rohingya ) کہتے ہیں لیکن "روہنگیا” عوام کے زبان زد ہے، میانمار میں مختلف دیگر اقوام کے ساتھ مسلمانوں کو ملا کر کل نو اقوام آباد ہیں، مگر برما کے آئین میں صرف آٹھ اقوام کا ذکر ہے، ویکی پیڈیا کے اعتبار سے برما کی مکمل آبادی 54 ملین ہے ان میں %4.3 یعنی 8 لاکھ مسلمانوں کی شمولیت ہے۔

برما میں مسلمانوں کی حکومت

برما میں چین جانے والے عرب تاجروں نے اسلام متعارف کروایا تھا، 1430 سے 1784 تک یہاں مسلمانوں کی حکومت تھی۔ اورنگ زیب عالمگیر کے زمانے میں شاہ شجاع بنگال کا نگراں تھا، شاہ شجاع نے اپنے بھائی کے خلاف بغاوت کی جو نا کام ہوئی، بغاوت کی ناکامی کے بعد وہ چٹاگانگ کے راستے سے برما کے علاقے اراکان میں روپوش ہو گیا، اسی لئے چٹاگانگ سے اراکان جانے والی ایک سڑک کو آج بھی "شجاع روڈ” کہا جاتا ہے، بعد ازاں اورنگ زیب عالمگیر نے اپنی فوج بھیج کر چٹاگانگ پر قبضہ کر لیا۔ 1857 میں ایسٹ انڈیا کمپنی کے خلاف بغاوت کی ناکامی کے بعد آخری مغل بادشاہ "بہادر شاہ ظفر ” کو رنگون میں نظر بند کیا گیا یہاں تک کہ وہ وفات پا گئے ان کی قبر آج بھی وہاں موجود ہے۔

برما میں برطانوی حکومت

برطانوی سامراج نے برما کو برٹش انڈیا کا حصہ بنا دیا اور بڑی تعداد میں ہندوستانیوں کو برما میں لاکر بسایا جنہیں برٹش انڈین British Indian کہا جاتا تھا اور ان لوگوں سے زراعت کا کام لیا جاتا رہا، 1937 میں برما کو برٹش انڈیا سے علیحدہ کر دیا گیا۔
دوسری جنگ عظیم میں جاپان نے برما پر قبضہ کر لیا تو مقامی بدھسٹوں نے جاپان کا ساتھ دیا، برطانوی فوج نے اراکان کے مسلمانوں کو اسلحہ فراہم کیا اور انہوں نے جاپانی فوج کے خلاف مزاحمت شروع کردی، برطانوی حکومت نے اراکان کے مسلمانوں سے وعدہ کیا تھا کہ ان کے علاقے کو ایک آزاد ریاست کے طور پر قبول کر لیا جائے گا لیکن درحقیقت ان مسلمانوں کو جاپانی فوج کا راستہ روکنے کے لیے استعمال کیا جا رہا تھا۔  میانمار کی جنگ آزادی میں برما کے بدھسٹوں کے ساتھ مل کر مسلم عوام نے بھی شرکت کی یہاں تک یہاں تک کہ 4 جنوری 1948 کو برما فرنگیوں کے چنگل سے آزاد ہو گیا۔

روہنگیا مسلمانوں پر ظلم ماضی کے تناظر میں

روہنگیائی مسلمانوں پر ظلم و جور کوئی نئی چیز نہیں ہے بلکہ یہ ایک رواج ہے جو بیسویں صدیوں سے چلتی آرہی ہے چنانچہ 1926 میں وہاں فوجی حکومت قائم ہوئی اور وہاں بارہ سو سال سے آباد مسلمانوں کو باغی قوم قرار دے کر قتل عام کا سلسلہ شروع کیا گیا۔ یہ 1926 سے 1928 تک جاری رہا، اس قتل عام میں تقریبا ایک لاکھ مسلمان شہید ہوئے، اس کے بعد 1950 میں بڑے پیمانے پر قتل و غارت گری ہوئی، اس میں ہزاروں مسلمان لقمہء اجل بن گئے، پھر 1977 میں برما کی غیر مسلم فوجی حکومت نے مسلمانوں کے خلاف خونی آپریشن کیا، جس کے نتیجے میں انہوں نے ایک سے دو لاکھ باشندوں کو اپنے ہی سر زمین سے بے دخل کر دیا، 1982 میں روہنگیا مسلمانوں کے ساتھ ظلم و زیادتی کا ایک نیا دور شروع ہوا۔ برما کی حکومت نے ان کی شہریت منسوخ کر دی، سرکاری نوکریوں سے بے دخل کر دیا، تعلیمی اداروں کے دروازے ان پر بند کر دیے گئے، ان پر مسجدوں میں با جماعت نماز ادا کرنے، حج اور قربانی کی ادائیگی پر پابندی لگا دی گئیں، مکانات کی مرمت اور ان کے آمد و رفت پر پابندی عائد کردی گئیں، مسلمانوں کی بستیوں کو تاراج کر کے ان کو کیمپ نما چھوپریوں میں پہنچا دیا گیا ان کی بستیوں میں بدھسٹوں کو آباد کیا گیا، مسلمانوں کے جائداد چھین کر بدھ بھکشو میں تقسیم کر دیا گیا، مسلمانوں پر شادی بیاہ کے سلسلے میں شرمناک قدغنیں لگائی گئیں، مسلمانوں پر افزائش نسل پر پابندی عائد کی گئی، مسلمانوں کے قبرستان کو ان کے آباء و اجداد کے آثار مٹانے کے غرض سے تھانوں اور کچہریوں میں تبدیل کر دیا گیا، تاریخی آثار زائل کرنے کے ارادے سے اراکان کا نام رخائن اور اکیاب کا نام سیٹوے سے تبدیل کر دیا گیا، یہی نہیں بلکہ ان لوگوں پر پھل اور انڈے تک کھانے کی پابندی ہے کہیں یہ صحتمند ہو کر حکومت کے لیے خطرہ نہ بن جائیں۔ 1991 میں مذہبی فسادات پھر پھوٹ پڑے، اس موقعے پر ساڑھے تین لاکھ مسلمان پناہ کے طلب میں اپنے وطن کو الوعدہ کہ کر ہجرت کر گئے۔

2010 کے اواخر میں فوجی ڈکٹیٹر نے شدید بیرونی دباو سے مجبور ہو کر ملک میں انتخاب کروایا۔ ان انتخابات میں آنگ سانگ سوکی نامی ایک خاتون اپوزیشن لیڈر کامیاب ہوئی، اس کی کامیابی اور مسلمانوں کے اسمبلی میں چودہ نششتیں حاصل کرنے سے محسوس ہوا کہ حکومت کا رویہ نرم ہو گیا ہے لیکن یہ ایک چال تھی، کچھ عرصہ کے لیے مسلمان ایک صوبہ سے دوسرے صوبہ گئے تو انہیں کوئی رکاوٹ پیش نہ آئی، برما کی تبلیغی جماعت بھی متحرک ہو گئی، کچھ خاندان جن کے آباء و اجداد مسلمان  تھے مگر ظالمانہ تشدد کی وجہ مرتد ہو گئے تھے، ایسے کسی خاندان سے دو عورتیں دوبارہ مسلمان ہو گئیں،  بدھ جو مسلمان کے خون کے پیاسے تھے، اور موقعہ کے تلاش میں تھے چنانچہ انہوں نے ان عورتوں کو قتل کر دیا نیز افواہ پھیلادی کہ مسلمانوں نے ان عورتوں کو قتل کر دیا ہے اور یوں مسلم کش فسادات کا آغاز کر دیا۔

اراکان کے ایک مشہور شہر تنگوک کی ایک جامع مسجد میں تبلیغی اجتماع تھا، دوسرے شہر سے اجتماع میں شرکت کے لیے 37 مسلمان آرہے تھے، ان بدھسٹوں نے ان لوگوں کو بے دردی سے قتل کر دیا اور فساد طول پکڑ گیا، یہاں تک کہ 22 ہزار کے قریب مسلمان شہید کر دیے گئے۔ 2012 میں اراکانی بدھسٹوں نے روہنگیا کی مسلم اقلیت پر ایک بہتان لگایا کہ تین مسلمان نوجوانوں نے مل کر 26 سالہ ایک بدھسٹت عورت کی عصمت دری کی اور پھر اسے قتل کر دیا ہے یہ الزام سراسر جھوٹ پر مبنی تھا۔ یہ سارا کام بدھسٹوں نے کیا پھر ان لوگوں نے اس عورت کے لاش کو ایک مسلمان گاوں میں پھینک دیا اس کے بعد وہاں کی حکومتی انتظامیہ نے مسلمانوں پر الزام لگاتے ہوئے تین بے گناہ برمی مسلمانوں کو گرفتار کر لیا، ایک مسلمان پر سخت تشدد کرتے ہوئے مار مار کر موت کے گھاٹ اتار دیا باقی دو مسلمانوں کو عدلیہ نے موت کی سزا سنادی۔

یہ فرضی کہانی اس لیے گھڑی تاکہ مسلمانوں کے خلاف اشتعال دلا کر ان کی نسل کشی کی حقیقی مہم شروع کی جا سکے، لیکن اس وقت ان کا منظم فارمولا گمان کے مطابق کارگر نہ ہو سکا، اپنے مقصد کی تکمیل میں پھر انہوں نے 3 جون 2012 کو حج سے واپس آنے والے 11 لوگوں کے قافلہ پر دھاوا بول دیا، ان میں سے پانچ لقمۂ اجل بن گئے باقی چھ لوگ تشدد کے پنجے سے بچ نکلے پھر ان لوگوں نے وہاں سے راہ فرار اختیار کرنے میں عافیت سمجھی اور کر گزرے، بدھسٹوں نے مسافرین کے بس کو نذر آتش کر کے تباہ و برباد کر دیا، مجرموں نے اپنی کامیابی کا جشن سڑک پر پڑی حاجیوں کے مردہ لاشوں پر تھوکتے اور شراب انڈیلتے ہوئے بنایا،
8 جون 2012 کی شام کو دو سو سے زائد لوگوں کو زخمی کر دیا، 60 سے زائد عورتیں عصمت دری کی شکار ہوئیں، 9 جون 2012 کو فوجی اہلکاروں نے 100 روہنگیوں کو شہید اور 500 لوگوں کو زخمی کر دیا۔ 2013 میں فساد صرف ایک سنار سے مباحثے کی بنیاد پر وقوع پذیر ہوئی۔

اکتوبر 2016 میں میانمار کی ایک جہادی تنظیم ” حرکت الیقین ” نے حکومت کے ان مظالم سے تنگ آکر تشدد کا جواب تشدد سے دیتے ہوئے سرحد پر واقع فوجی چوکی پر حملہ کر دیا جس کے زد میں میانمار کے 9 فوجی ہلاک ہوگئے، اس کے رد عمل میں فوجی اہلکار  ظالمانہ روش پر چل پڑے جس کے لپیٹ میں معصوم روہنگیائی مسلمان بھی آگئے، تقریبا 25 ہزار روہنگیا بنگلہ دیش فرار ہونے پر مجبور ہو گئے، یہ حملہ کئی دنوں تک جاری رہا۔

2017 کے اوائل میں میانمار نے 70 فوجیوں کے ہلاک ہونے کا دعوی کیا جس کے بعد 25 اگست 2017 سے سرکاری فوج نے تمام روہنگیائی مسلمان کو اپنی کاروائی کا نشانہ بنانا شروع کر دیا، جس کے نتیجے میں مسلمانوں کی  50 فیصد آبادی برما کے نقشے سے مٹا دی گئی، 2100 قصبے جلا دیے گئے، 4862 گھروں کو منہدم کر دیا گیا، 1500 عورتوں کی عصمت ریزی کر کے فوجیوں میں تقسیم کر دیا گیا، 1000 افراد کو موت کے گھاٹ اتار دیا گیا، 700 سے زائد مرد و خواتین کے جسموں سے گولیاں نکالی گئیں، سینکڑوں کی ٹانگیں بارودی سرنگوں سے اڑ چکی تھی، 100 سے زائد خواتین ہجرت کے دوران کھیتوں اور دلدلوں میں بچوں کو جنم دیا، بین الاقوامی تنظیم برائے مہاجریں ( آئی او ایم ) کے آٹھ ڈاکٹروں کی ایک ٹیم  نے بتایا کہ انہوں نے سینکڑوں خواتین  کا اعلاج کیا جن کے جسموں پر جنسی حملوں کے خوفناک گھاو تھے تشدد کی حالت یہ تھی کہ بعض عورتوں کے نازک اعضاء پر بندوق داخل کرنے کی انسانیت سوز کوشش کی گئی، ایک ایک خاتون کے ساتھ کم از کم سات برمی فوجیوں نے زیادتی کی ہے ان لوگوں کی حالتاتنی نازک تھی کہ انہیں جان بچانے والی طبی امداد فراہم کرنی پڑی، اور یہ ظلم و ستم کا سلسلہ اب تک جاری ہے۔

افسوس تو اس بات کا ہے کہ سدھارتھ گوتم بدھ نے ہمیشہ عالمگیر انسانی محبت کا درس دیا اور حشرات الارض اور دیگر تمام جانداروں کے حقوق لیے آواز بلند کی تھی، مگر آج اسی گوتم بدھ کے یہ نام نہاد پیروکار برمی مسلمانوں پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑ رہے ہیں۔

اس المیے کی دل خراش مناظر اور اس سے ضمیر پر پڑنے والے بوجھ سے مضطرب ہو کر اب غفلت شعار عالمی برادری اس قتل عام پر نوٹس لینے پر مجبور ہو گئی ہے لیکن یہ نوٹس الفاظ تک ہی محدود ہے، اس پر عمل ہوتا دکھائی نہیں دیتا، مسلم ممالک کے حکمراں، سادہ لوح عوام اور کچھ مصلحت کوش علماء مسلسل تماشائی بنے ہوئے ہیں، مسلمانوں کے حقوق کی علمبردار تنظیم "او آئی سی” بھی کوئی کردار ادا نہیں کر رہی ہے، آج مسلمانوں کے عبرت کدہ بننے کی اصل وجہ عالم اسلام کے وہ باہمی اختلافات ہیں جن کے سلجھنے تک ہماری داستاں بھی نہ ہوگی داستانوں میں۔

جلتے گھروں کو دیکھنے والو! پھوس کا چھپر آپ کا ہے 
آگ کے پیچھے تیز ہوا ہے آگے مقدر آپ کا ہے ہے
اس کے قتل پہ میں بھی خوش تھا اب میرا نمبر آیا 
میرے قتل پر آپ بھی خوش ہیں اگلا نمبر آپ کا ہے

اقوام عالم کی بے حسی

سوال یہ کہ 57 ممالک کی اجتماعی فوج، مسلم ممالک کی رفاہی اور خیراتی تنظیموں کو برما کے یہ مسلمان کیوں نظر نہیں آتے، برہنہ لاشوں کی چیخیں انہیں کیوں نہیں سنائی دیتی، یہ بے بس و مجبور و لا چار ظلم و ستم کی چکی میں مسسل پس رہے ہیں، وہاں کے مسلمان لا وارث کٹ مر رہے ہیں، ان کی آہ و بکا ان ان جہادی تنظیموں کو سنائی کیوں نہیں دیتی ؟ جو اپنے طاقت کو ثابت کرنےکیلے درندہ بن جاتے ہیں یا ان کے کان سننے سے عاری ہو گے ہیں ؟ کیا انکی آنکھیں قوت بصارت کھو چکی ہیں ؟ کیا امت کے جسد واحد ہونے کے دعوےافسانے ہو چوکے ہیں ؟

  اخوت اس کو کہتے ہیں چبھےکانٹا جو کابل میں
تو دہلی کا پیروں جواں بے تاب  ہو جائے

(مولاناظفرعلی خان)

و اللہ!! اگر اس نوعیت کی ظلم و بربریت کا ادنی سا بھی حصہ کرسچن، یہودیوں یا کسی اور غیر مسلم کے ساتھ ہو تا تو احتجاج و مظاہرے کے ساتھ اس ملک کا وجود گولہ و بارود میں دفن کر دیا جاتا اس کی تازہ ترین مثال لندن ویسٹ منسٹر میں 22 مارچ 2017 کو ایک مسلح شخص کی فائرنگ سے صرف پانچ افراد ہلاک اور پچاس زخمی ہو گئے تھے جس کے رد عمل کا یہ عالم تھا کہ پوری دنیا ماتم کدہ بن گئ تھی، ایفل ٹاور بجھا دیا گیا تل ابیب میں اندھیرا کر دیا گیا دبئی کے فلک بوس عمارتوں پر مہلوکین کے نام  جلی حروف میں شائع کئے گئے تھے اور ماتمی انداز میں سنا ئے گیے، ہندوستان سمیت دنیا کے تمام ممالک کے دانشوروں کی انسانیت کے تئیں فکر مندی کا یہ عالم تھا کہ گویا ان پر فکر اور کڑھن کی عالمی چادر تن گئ ہو یہ تو کسی کے فوت پر ماتم تھا جو بالکل درست ہے لیکن کہیں کہیں تو صرف شکوک وشبہات میں مذہبی منافرت کو آڑ کر بنا کر پورے پورے بستی کو ملبے میں بدل دیا گیا مثلا عراق کو کھنڈر میں تبدیل کر دیا گیا "کیونکہ وہ وسیع پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیار بنا رہا تھا” اسی بہانے سے ہزاروں مسلمانوں کو بےدردی سے ہلاک کردیاگیا لاکھوں کی زندگی تباہ ہو کر رہ گئی اس کے بعد یہ اعتراف کیاجاتا جاتاہے کہ خفیہ اداروں کے پاس صحیح معلومات نہیں تھے اس طرح مصر اور لیبیا کو دھشت گردی کے پشت پناہی کے الزام میں برباد کر دیا گیا لیکن روہنگیا مسلمانوں کے لیے نہ امن فوج کی نیند میں کوئی خلل پڑتا ہے نہ نیٹو کو اس کی کوئی فکر ہے افسوس اس دوغلی پالیسی پر جس نے دنیا کو بد صورت بنا دیا ہے۔ مجھے سمجھ میں نہیں آتا کہ ان روہنگیاؤں کا کیا جرم ہے کہ کوئی ان کی "المدد المد” کی گہار کو کوئی نہیں سنتا، ان سے کیا خطا ہو گئیی ہے کہ ان کو جینے کا حق نہیں دیا جارہا ہے ہاں یاد آیا کہ یہ مسلمان ہیں ان کے مقدر میں اقوام عالم کا دوہرا معیار لکھا ہوا ہے مگر عرب ممالک تو اپنے ہیں ان کو تو ان ظالموں کے خلاف کارروائی کرنی چاہیے تھی۔

برما کی حکومت کی چیمپئن نوبل انعام یافتہ سیاست داں "آنگ  سانگ سوکی” سے اب تک امید باندھی گئی تھی کہ یہ جمہوریت پر یقین رکھنے والی اور جمہوریت کے لیے جدو جہد کرنے والی انصاف پسند لیڈر ہیں ان کی پارٹی "این ایل ڈی” برسر اقتدار آنے کے بعد مسلمانوں کی اشک شوئی کرے گی اور مسلمانوں کے محرومیوں کا ازالہ کرے گی لیکن تحفظ تو کیا ! الٹا زخموں پر نمک پاشی کا کام کیا معمولی اقتدار کی ہوس کی خاطر روہنگیا مسلمانوں کی نسل کشی سے اپنی آنکھیں بند کر رکھی ہے۔

بحر حال بنگلہ دیش کی شیخ حسینہ واجد نے روہنگیا مسلمانوں کے بارے میں ہمیشہ سخت پالیسی اپنائی رکھی اور کسی بھی صورت میں ان کو قبول نہیں کیا لیکن اس بار انٹرنیشنل دباو کے زیر اثر کاکس بازار کی ساحلی پٹی پر ان تارکین کے لیے کیمپس قائم کیے گئے ہیں، جہاں مہاجرین برما کی زندگیاں اپنے ملک میں ملٹری کنٹرول میں قائم کیمپس کے مقابلے میں قدر محفوظ ہیں، ایک حالیہ سروے کے مطابق چار لاکھ بائیس ہزار تارکین وطن بنگلہ دیش میں مقیم ہیں امریکہ نے 32 ملین ڈالر کی علامتی امداد کا اعلان کر کے میا نمار کے سنگین بحران کو قبول کیا ہے یہ الگ بات ہے کہ یہ رقم اتنی کم ہے کہ سمندر  میں قطرے کے برابر کہی جا سکتی ہے تاہم Something is better than nothing” "کچھ نہیں ” کے مقابلے میں یہ” کچھ” گوارا ہے جس کا بہر حال خیر مقدم ہے، ترکی ہی وہ واحد ملک ہے جس نے روہنگیاؤں کو گلے لگایا ہے اور امداد کی پیشکش کی ہے  لیکن اس تاریخی ظلم کے سدباب کا کوئی راستہ نہیں اپنایا ہے ترکی کے بعد عرب پارلیمینٹ اور عرب یونین نے بھی میانمار حکومت کی اس ریاستی دہشت گردی کی سخت مذمت  کی ہے مگر افسوس کہ کچھ ممالک دہکتے آگ میں تیل ڈالنے کا کام کر رہے، اسرائیل اسلحہ فراہم کر رہا ہے چین 2006 میں امریکہ کے توسط سےاقوام متحدہ میں میا نمار کے خلاف پیش کردہ تجاویز کی مخالفت کر رہا ہے اور وطن عزیز ہندوستان کا دل بھی مردہ ہو گیا ہے

ملک ہندوستان میں پناہ گزین

ہمارا ملک مہاجرین برما کو واپس آگ کی بھٹی میں بھیجنے کے ہر حربے استعمال کر رہا ہے دلیل دی جا رہی کہ یہ لوگ ملک کی سلامتی کے لیے خطرہ ہیں ان کا دہشت گرد تنظیموں سے رابطہ ہے، کرن رجیجو کے مطابق  روہنگیوں کو سمندر میں پھینک دینا چاہیے راجناتھ سنگھ کا فرمان ہے کہ انسانی حقوق کا حوالہ دے کر غیر قانونی طریقے سے رہنے والوں کو پناہ گزین بتانے کی غلطی نہیں کرنی چاہیئے اسی کے پیش نظر جنرل آر پی سنگھ نے برمی مسلمانوں کے لیے سرحد کو مکمل طور پر سیل کر دیا گیا ہے لیکن یہ بات سمجھ سے بالاتر ہے کہ 2008 سے 40 ہزار روہنگیا  مسلمان اچانک ملک کی سلامتی کے لیے خطرہ کیسے بن گئیں، واضح رہے کہ ہندوستان میں صرف روہنگیا پناہ گزینوں کے طور پر نہیں رہتے بلکہ اقوام متحدہ کے اندازے کے مطابق چین کے ایک لاکھ دس ہزار، سری لنکا کے 64 ہزار 208 پناہ گزین بھی ہندستان میں رہائش اختیار کیے ہوئے ہیں برما کے ظالموں کی سردار آنگ سانگ سوکی کو بھی ہندوستان نے پناہ دیا تھا اس کی تعلیم دہلی یونیورسٹی کے تحت  لیڈی شری رام کالج میں ہوئی ہے طارق فتح اور تسلیمہ نسرین کو شر انگیزی کرنے کے لیے ہندوستان کی زمین پر کھلی چھوٹ دے دی گئی تھی تبت میں 1959 کی ناکام بغاوت کے بعد ہندوستان نے تقریبا ڈیڑھ لاکھ بودھوں کو پناہ دی صرف یہی نہیں ان کے لیے رہائش کی زمین اور کاروبار کے مواقع فراہم کئے گئے، دھرم شالہ میں دلائی لامہ کو جلا وطن حکومت چلانے کی اجازت دی گئی جو کہ ابھی بھی قائم ہے، حکومت نے تبتیوں کے لیے اسکولوں میں مفت تعلیم، اسکالر شپ اور میڈیکل وسول انجینئرنگ میں چند سیٹیں بھی مختص کر رکھی ہیں اسی طرح پاکستان اور بنگلہ دیش سے آنے والے چکما ہندوؤں کو پناہ دیا گیا تھا حتی کہ سری لنکن تامل پناہ گزینوں کو بھی بھارت نے پناہ دے رکھی ہے ان میں "ایل ٹی ٹی ای ” جیسی دہشت پسند تنظموں کے حمایتی بھی شامل ہیں اور انہیں پر سابق وزیر اعظم راجیو گاندھی کو ہلاک کرنے کا الزام بھی ثابت ہوا ہے لیکن ان لوگوں کے لیے راہیں کشادہ ہے ان پر دھشت گردی کی تختی نہیں لٹکائی گئ جہاں تک روہنگیا مسلمانوں کی بات ہے ان میں نہ حوصلہ ہے نہ ہمت اور نہ ان کے پاس اتنے وسائل ہیں کہ وہ حکومت کے خلاف اٹھ سکیں وہ بیچارے اپنی بھوک تو مٹا نہیں سکتے ہندوستان کی سلامتی کو کیسے مٹا پائیں گے۔ وہ لاچار سر تو اٹھا نہیں سکتے ہتھیار کیا اٹھائیں گے یہ محض پروپیگنڈہ ہے، جسے زرخرید رکھیل میڈیا نے مشتہر کیا ہے موجودہ حالات میں ہندوستان میں مقیم روہنگیا پناہ گزینوں کو ملک بدر کرنے کا فیصلہ نہ صرف غیر انسانی ہے بلکہ اس سے نسلی اور مذہبی نفرت کا بھی پتہ چلتا ہے۔

گذارش

اقوام عالم کی عموما اور برما کے تمام پڑوسی ممالک کی خصوصا اخلاقی و قانونی ذمہ داری ہے کہ وہ برما کے مہاجرین کو پناہ گزین کے طور پر قبول کرے انہیں عزت کے ساتھ رہنےسہنے کی آزادی دی جائے تعلیم اور کاروبار کے مواقع فراہم کیے جائے علاج و معالجہ کی بھر پور سہولتیں دی جائیں۔

اقوام متحدہ کی 11دسمبر 1946 کی قرار(1)96 کے مطابق نسل کشی چاہے یہ زمانہ امن میں ہو یا جنگ میں بین الاقوامی قانون کے مطابق جرم ہے اقوام متحدہ کنونشن پر دستخط کرنے والے تمام اس بات کے پابند ہیں کہ وہ نسل کشی کے شکار لوگوں کو بچائیں اوران کی مدد کریں نیز یہ مجرمانہ فعل کرنے والوں کو روکیں۔ عالم اسلام بلکہ پورے عالم کے انسان دوست ممالک سے مطالبہ ہے کہ وہ برما کی حکومت پر سفارتی اور اخلاقی دباؤ ڈالے تاکہ وہ انسانیت کش حرکتوں سے باز آئے عالمی عدالت International Court of Justice روہنگیا مسلمانوں کو ان کی شہریت سے محروم کرنے والے انسانیت سوز اور ظالمانہ قانون کو ختم کرے اور ان کی شہریت اور حقوق کو بحال کرے اس لیے یقینا عالم اسلام کے رہنماؤں کو متحد و منظم ہو کر سر جوڑ کر بیٹھنا ہوگا اور "رابطہ عالم اسلامی”، "مؤتمر عالم اسلامی” اور "او آئی سی” تنظیمیں جن حسین مقاصد کے لیے بنائی گئیں تھیں اسےبیدار کرنا ہوگا تاکہ امت مسلمہ کے درپیش مسائل و چیلنجز کا سامنا کر سکیں، مسلمانوں کے حقوق و مفادات اور تحفظ و بقا کے لیے معرکہ الآراء اور تاریخ ساز اقدامات اٹھائیں جا سکیں یہ کام نا ممکن نہیں پس ذرا محنت اور اخلاص کی ضرورت ہے۔

ایک ہوں مسلم حرم کی پاسبانی کے لیے 
نیل کے ساحل سے لیکر تا بخاکر کا شغر 

خاتمہ

اللہ رب العالمین سے دعا ہے کہ دنیا میں جہاں کہیں بھی مسلمان چھوٹی بڑی تعداد میں موجود ہوں ان کے درمیان محبت والفت اور مضبوط اتحاد پیدا فرما، تاکہ باطل طاقتوں کو پوری قوت کے ساتھ جواب دے سکیں ہر تمام اقوام عالم کو برما و دیگر جگہوں پر ہو رہے ظلم پر فوری مثبت ٹھوس کاروائی کیا جائے اور متاثرین کو تمام وسائل فراہم کئے جائیں اور انکے نقصانات کی بھر پائ  کیے جائے تاکہ ان مظلوموں کی زندگی معمول پر آسکے -آمین

تبصرے بند ہیں۔