موجودہ دنیا کی خوں آشام تہذیب کا تاریخی پس منظر (1|3)

ڈاکٹر محمد ضیاء اللہ ندوی 
دنیا کی موجودہ تہذیب پر مغربیت کی گہری چھاپ ہے۔ لیکن اس تہذیب نے اس مرحلہ تک پہونچنے میں کئی صدیوں کا سفر طے کیا ہے۔ مذہب کی بنیاد پر لڑی جانے والی جنگوں کے ادوار سے لے کر علمی تفوق تک پہونچنے میں کئی پر پیچ راستوں سے گزری ہے۔ مغرب کی نشأ ۃ ثانیہ کے دور کو مؤرخین نے چودھویں صدی سے لے کر سترہویں صدی تک کو قرار دیا ہے۔ اتفاق سے اسی دور کو دور جدیدیت بھی کہا جاتا ہے۔ اس تاریخی دور میں مغرب نے روح سے عاری کلیسا کی بالا دستی کو ختم کیا ‘ اہل مذہب کی فرسودہ تشریحات کو رد کیا اور خالص منطقی دلائل پر ایک نئی تہذیب کو قائم کرنے میں کامیاب ہوا۔ یہ ایک نئے دور کا آغاز تھا جس میں بظاہر خدا کے لئے خدا کے کائنا ت میں کوئی جگہ نہیں رکھی گئی تھی۔ یہ علی الاعلان مذہب کے خلاف بغاوت کا دور کہلاتا ہے۔ مذہب کے خلاف بغاوت کی یہ تحریک مضبوط سے مضبوط تر تو ضرور ہوتی گئی لیکن دلوں میں مذہب کی چنگاری مغرب کے بتکدوں میں لگاتار سلگتی رہی۔ اگر بعض دیگر مؤرخین کی بات مانی جائے تو یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ دراصل مغرب کی نشأۃ ثانیہ کا دور چودھویں سے سترہویں صدی کا دور نہیں ہے بلکہ صلیبی جنگوں کے دوران مسلم ممالک اور مسلم تہذیب سے ارتباط کے بعد کا دور زیادہ مناسب معلوم ہوتا ہے۔ کیوں کہ یہی وہ دور ہے جس میں مسلمانوں کے درمیان رائج علوم وفنون سے ان کو متعارف ہونے کا موقع ملا۔ اگر اس تاریخی پہلو کو دھیان میں رکھا جائے تو پھر مغرب کے نشأۃ ثانیہ کا دور گیارہویں اور بارہویں صدی میں ہی شروع ہو جاتا ہے۔  یہی وجہ ہے کہ اکثر اہل علم یہ مانتے ہیں کہ مغرب کا معاشرہ اپنی ترقی کے لئے اسلام کے احسان سے ہمیشہ زیربار رہے گا۔ واضح رہے کہ صلیبی جنگوں کی شروعات کلیسا کے رہبروں نے گیارہویں صدی کے اواخر میں کی تھی۔  ان جنگوں میں عیسائی مذہب کے پیروکاروں کو صرف میدان جنگ میں ہی شکست نہیں ملی بلکہ اسلامی تہذیب نے علمی میدان میں بھی ان کو اپنا اسیر بنایا۔  آخر کار وہ دور آیا جب انیسویں اور بیسویں صدی تک کرہ ارضی کا کوئی حصہ مغربی تہذیب کے اثر سے اچھوتا نہ رہ سکا۔

 فکر وفلسفہ کی دنیا میں مغرب نے فلاسفہ وحکماء کی بڑی تعداد پیش کی جن میں فرانسس بیکن‘ اسپینوزا‘ والٹائر‘ ایمینویل کانٹ ‘ شاپنائر‘ ہربرٹ اسپینسر‘ ہیگل اور نتشے جیسے لوگ کافی مشہور ہوئے۔  ان حکماء مغرب نے ارسطو اور سقراط کے قدیم فلسفوں کے احیاء کے ساتھ ساتھ مسلم حکماء کے علمی خدمات کو مزید آگے بڑھانے میں بھی وسعت قلبی سے کام لیا۔ مغرب کے ان فلاسفہ میں فرانس کے عہد تنویر کا خالق فلسفی وولٹائر کو خاص مقام حاصل ہے۔ اٹھارویں صدی کے انقلاب فرانس میں اس کی تعلیم کو بڑا دخل ہے۔ انقلاب سے قبل کا فرانس در اصل تین طبقوں میں بٹا ہوا تھا۔ ایک طبقہ اہل مذہب کا تھا ‘ دوسرا طبقہ شرفاء کا اور تیسرا طبقہ فرانس کے عوام کا تھا۔ حکمرانی کی کلید لوئس شانژہ کے ہاتھ میں تھی۔ اول دو طبقے ( شرفاء او را ہل مذہب) صرف طبقہ ثالث سے ان کی محنت کی کمائی وصولتے تھے او ر داد عیش دیتے تھے۔  اور اٹھارویں صدی کے نصف ثانی میں جب عوام پر ٹیکس کا بار ناقابل برداشت ہو گیا تو لوئس شانژہ کے مالی امور کا کنٹرولر جنرل کالون کی گزارش کے باوجود اولین دو طبقوں نے ٹیکس کی ادائیگی کی ذمہ داری اپنے سر لینے سے انکار کر دیا اور اس طرح 1787 کے شرفاء کی اسمبلی سنگین اقتصادی مسئلے کو حل کرنے میں بری طرح ناکام ہو گئی۔  یہ اس بات کا اشارہ تھا کہ تباہی کا طوفان عنقریب ہی آنے والا ہے۔  فلاسفہ کی تعلیم کی وجہ سے عوامی طبقہ کسی حد تک اپنے حقوق کے تئیں بیدار ہو چکا تھا اور مزید ذلت سہنے کے لئے آمادہ نہیں تھا۔ نتیجتاً 1789 میں جب انقلاب کا طوفان اٹھا تو پھر وہ پوری ایک دہائی تک تھم نہ سکا۔ لوئس شانژہ کے خلاف بغاوت کی لہر اتنی تیز ہو گئی کہ جنوری 1793 عیسوی میں اس کو موت کے گھاٹ اتار دیا گیا۔ گویا مغربی تہذیب میں خوں ریزی کا یہ پہلا باب تھا جو اہل مغرب اپنے ہاتھوں سے رقم کر رہے تھے۔  1793 سے 1794 کے دوران پورے فرانس میں قتل غارت گری کا تماشہ ہر جگہ جاری رہاز اور 15 ہزار سے زیادہ لوگوں کو بے دردی سے قتل کر دیا گیا۔  خوں ریزی کا یہ سلسلہ میکسملن روبس پیری کی قیادت میں چل رہا تھا جو لوئس کے بعد 1793 کے دستور کے تحت زمام قیادت حاصل کرنے میں کامیاب ہوا تھا۔ لوئس کے دفاع میں اگرچہ پڑوسی ممالک آسٹریااور پروشیا نے فرانس پر فوج کشی کر دی تھی لیکن میکسمیلن کے زیرقیادت فوج نے باہری افواج کو بھی فرانس سے بے دخل کردیا۔ البتہ تشدد او رہلاکت کا جو بازار روبس پیری نے سجایا تھا آخر کار وہ اس کا شکار وہ خود بھی ہو گیا۔ جولائی 1794 میں اس کو ہلاک کردیا گیا۔ اس کے بعد کا دور بھی ظلم وتشدد کے لئے ہی مشہور رہا تاآں کہ 1799 میں نیپولین نے فرسٹ کاؤنسل کے طور پر فرانس کی قیادت اپنے ہا تھ میں لی اور 15 سالوں تک فرانس فوجی حکومت کے زیر اثر رہا۔
انقلاب فرانس کی تفصیل قدرے طوالت سے پیش کرنے کی غرض یہ ہے کہ یہ اندازہ ہو جائے کہ مغربی تہذیب کا آغاز ہی سماجی تناؤ اور خوں ریزی کے ذریعہ ہو اہے۔  فلاسفہ کا خدا بیزار نظریہ پہلے ہی انسانوں کا رشتہ خالق کائنات سے کاٹ چکا تھا اور اب مادہ اور معدہ کے علاوہ کسی بھی چیز کی بالادستی قابل قبول نہیں رہ گئی تھی۔ روح کا علاج کا مہیا کرنے کا دم بھرنے والا کلیسا صحیح مسیحی تعلیم کے ڈگر سے صدیاں ہوئیں کہ بھٹک چکا تھا۔ ایسے ماحول کا لازمی نتیجہ یہ نکلا کہ فرانس اپنی طاقت کے ذریعہ دنیا کی دیگر قوموں کو اپنا غلام بنانے کے لئے نکل پڑا۔ اور اس کا پہلا شکار اسلامی ملک مصر ہوا۔ کیوں کہ مسلم ممالک ہی مغرب کی نظر میں اولین حریف کی صف میں تھے۔  فرانس کی جارحیت کا پہلا شکار 1799 میں مصر ہوا۔ لیکن زیادہ دنوں تک اپنی استعماریت کو قائم نہ رکھ پایا۔ مغرب کی خوں آشام تہذیب کا بھیانک چہرہ زیادہ واضح طریقے سے تب سامنے آیا جب فرانس نے شمالی افریقہ کے مسلم ممالک کا رخ کیا اور تیونس اور جزائر میں خون کی ہولی کھیلا۔ جزائر کی حقوق انساں کمیٹی کی ایک حالیہ رپورٹ کے مطابق فرانسیسی سامراج نے 1830 سے 1962 نے دوران نوے لاکھ جزائر کے باشندوں کو موت کے گھاٹ صرف اس لئے اتار دیا کہ وہ فرانسیسی ظلم وجبر اور احتلال کے خلاف اپنی آواز بلند کرتے تھے۔شہداء جزائر کی یہ تعداد خود فرانسیسی مؤرخین اور حکومت فرانس کی آرکائیوز میں موجود دستاویزات کی بنیاد پر طے کی گئی ہے۔ فرانس کے مؤرخین میں جاک گورکی کا نام بطور خاص قابل ذکر ہے جنھوں نے شہداء جزائر کی تعداد ایک کروڑ بتائی ہے۔ جب کہ جزائر کے مؤرخ محمد حسن زغیدی نے نوے لاکھ سے زائد طے کی ہے۔ واضح رہے کہ فرانسیسی سرکاری تعداد 15 لاکھ ہے۔ جزائر نے 1954 سے 1962 نے دوران پورے سات برسوں تک استعمار فرانس کے خلاف اپنی تمام تر قربانیاں پیش کیں اور بالآخر 1962 میں یہ منحوس سایہ ختم ہوا۔ مغربی تہذیب کی ساخت میں خوں ریزی اور حقوق انسانی کی پامالی کو جو مقام حاصل ہے اس کی یہ دوسری مثال ہے۔
مغربی تہذیب کی اس خوں پسند طبیعت کا تعلق صرف فرانس کے ساتھ خاص نہیں ہے۔  مغرب کا یہ عنصر جہاں جہاں پہونچا قتل وغارت گری کے ہوش ربا شوق کے ساتھ ہی پہونچا۔ یہی وجہ ہے کہ برطانوی سامراج کا چہرہ بھی اتنا ہی خونخوار نظر آتا ہے جتنا کہ فرانس کا۔
فریب ‘ چالبازی کے علاوہ بے جا قوت کے استعمال سے دنیا کی مہذب قوموں کو اکثر اپنی زیر نگیں کرنے کا نسخہ بھی سب سے پہلے مغربی تہذیب کے عیاروں نے ہی تیار کیا تھا۔ مغلیہ عہد میں بطور تاجر ہندوستان میں داخل ہو کر وہاں کے طول وعرض میں جو تباہی برطانوی سامراج نے مچائی ہے اور وہاں کے باشندوں کو نہ صرف یہ کہ تہہ تیغ کیا ہے بلکہ بنیادی انسانی حقوق سے بھی ان کو محروم کیا ہے۔ اس کی تاریخ اتنی طویل ہے کہ دنیا بھر کی لائبریریاں اس سے بھری پڑی ہیں۔  1857 کی جنگ آزادی کے واقعات سے تاریخ کا ہر طالب علم واقف ہے۔ علماء اور مجاہدین آزادی کی گردن کشی برطانوی سامراج کا ہندوستان میں سب سے پسندیدہ عمل تھا۔ درد و کرب اور ظلم وبربریت کی ہولناک تصویر آج بھی جب آنکھوں کے سامنے پھرتی ہے تو کلیجہ منھ کو آجاتا ہے۔ برصغیر ہند میں آج کل قتل وغارت گری کی جو تہذیب نظر آتی ہے اس کا اگر تاریخی تجزیہ کیا جائے تو اس کا تاروپود اسی مغربی تہذیب کے علم بردار برطانوی سامراج سے جا ملتا ہے۔ ہند وپاک ہو یا افغانستان ‘ برما ہو یا سری لنکا ہر جگہ برطانوی سامراج کی خونی پنجوں کی چھاپ صاف نظر آتی ہے۔ ہندوستان کے بٹوارے سے لے کر فرقہ واریت کے زہر سے لے کر تمام نسخے ان مغربی مفکرین کے ذریعہ ہی تیار کئے گئے جن پر برطانوی سامراج کی بنیاد قائم تھی اور جنوبی ایشیا کی قومیں آج بھی شب وروز اس کی قیمت چکا رہی ہیں۔ (جاری)

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔