مہاجرین کا عالمی دن اور مہاجرین کا المیہ

ڈاکٹر سیّد احمد قادری

     دنیا  کے بہت سارے ممالک میں بڑھتے جنگی حالات،دہشت گردی، کشیدگی، سیاسی بحران، نسلی امتیاز نیز قدتی آفات کے باعث روز بروز بڑھتی مہاجروں اور پناہ گزینوں کی تعدا د کو دیکھتے ہوئے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کی ایک قرارداد کے تحت یہ فیصلہ لیا گیا تھا کہ 2001 ء سے ہر سال کے 20 ؍ جون کو مہاجرین کے عالمی دن کے طور پر منایا جائے گا۔ جس کے پیش نظر اس دن دنیا بھر میں ان لاکھوں، کروڑوں پناہ گزینوں کی بے پناہی کی جانب توجہ مبذول دلانا ہے، جو اپنا ملک بحالت مجبوری چھوڑنے اور در در بھٹکنے  پر مجبور ہوئے۔ یہی وجہ ہے کہ اقوام متحدہ کا ادارہ یونائٹیڈ نیشن ہائی کمشنر فار ر یفیوجی اور مختلف انسانی حقوق کی تنظیمیں اس دن دنیا کے سو سے زیادہ ممالک میں مہاجرین کا عالمی دن کا انعقاد کرتے ہیں۔ اس ضمن میں اقوام متحدہ کے کمشنر برائے مہاجرین فلیپو گرلینڈی نے اپنی تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا کہ جنگ اور ظلم و ستم کی وجہ سے ہر ایک منٹ میں 24 افراد گھر سے بے گھر ہو رہے رہیں۔ ایک رپورٹ کے مطابق اس وقت دنیا بھر میں 4 کروڑ 37 لاکھ لوگ تارکین وطن کی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں، جبکہ مذید  2 کروڑ 75  لاکھ  لوگ اپنے ہی ممالک میں بے سر و سامانی کی زندگی گزار رہے ہیں۔ اقوام متحدہ  کے ادارہ برائے مہاجرین نے گزشتہ 20 جون کو ایک رپورٹ جاری کرتے ہوئے اپنی سالانہ رپورٹ میں بتایا تھا کہ  دنیا کے دو کروڑ دس لاکھ پناہ گزینوں کا تعلق تین ممالک شام، افغانستان اور صومالیہ سے ہے۔ ہمارے ملک بھارت  کی یاست آسام میں بھی اس ملک کے باشندوں کو جس طرح مہاجر بنانے کی کوششیں ہو رہی ہیں، وہ بھی جبر و ظلم کی انتہا کو ثابت کرتا ہے۔ اس ریاست کے ایک مسلم فوجی کو ان کی تمام خدمات کے اعتراف کے بجائے انھیں غیر ملکی بتایا گیا اور انھیں پریشان کیا گیا۔ اس نے حکومت ہند کی منظم اور منسوبہ بند سازش کو ظاہر کر دیا ہے۔ اسرائیلی جارحیت کے باعث فلسطینی مسلمان بھی بڑی تعداد میں بے پناہی کے شکار ہیں۔ ان اعداد و شمار سے پناہ گزینوں کی دشواریوں اور ان کی بے بسی اور بے پناہی کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔

  ہر شخص کوخواہ وہ کسی بھی ملک کا باشندہ ہو، اسے اپنے  وطن سے فطری طور پرمحبت، وابستگی، والہانہ لگاؤ اور جذباتی رشتہ ہوتا ہے۔ وطن کی اہمیت اور اس سے انسیت کا اندازہ وطن سے دور جانے یا ہو جانے کے بعد ہوتا ہے۔ اپنی خوشی سے کوئی بھی فرد اپنا وطن نہیں چھوڑتا۔ کچھ تو مجبوریاں ہوتی ہونگی، یوں ہی کوئی،اپنے وطن سے بے وفا نہیں ہوتا۔ ایسے نا گزیر اورگفتہ بہ حالات بن جاتے ہیں کہ لوگ آنکھوں میں آنسو اور دل پر پتھر رکھ کر ہجرت کرنے  پرخود کو مجبور پاتا ہے۔  میں نے اپنی آنکھوں سے امریکہ میں بسے 70-75 سال سے تجاوز کئے جانے والے بزرگوں کو اپنے ملک ہندوستان کی یاد میں روتے، بلکتے دیکھا ہے۔ جن لوگوں نے تقسیم ہند کے وقت بڑے پیمانہ پر اپنے ملک کے اندر قتل و غارت گری دیکھی، اپنی نظروں کے سامنے اپنے بچوں کو ذبح ہوتے اور اپنی ماں، بہنوں کی رسوائیاں دیکھیں، ایسے  بدترین حالات میں ان لوگوں کے سامنے  ہجرت مشرقی پاکستان (موجودہ بنگلہ دیش)کے علاوہ کوئی چارہ نہیں تھا۔ لیکن وہاں پہنچے کے بعدیہاں کی آب  وہوا میں ابھی پوری طرح رچ بچ بھی نہیں سکے تھے کہ1971  کے سقوط بنگلہ دیش نے ایک بار پھر انھیں در بدری پر مجبور کر دیا اور لوگ بڑی مشکلوں سے اپنی جان و مال اور عزّت وآبرو بچا کرمغربی پاکستان(کراچی) اس توقع کے ساتھ پہنچے کہ وہ اپنے اس اسلامی ملک میں مسلم ہم وطنوں کے ساتھ بہتر زندگی گزارینگے۔ لیکن الم ناک پہلو یہ تھا کہ انھیں یہاں بڑی مشکلوں سے شہریت تو مل گئی، لیکن یہ ہمیشہ مہاجر کے مہاجر ہی رہے۔ کئی نسل جوان ہو گئی، لیکن ان کی پہچان ہمیشہ پاکستانی کے بجائے مہاجر ہی کی رہی۔ ایسے ہی کچھ مہاجروں کے بچے  بڑے ہو کراپنے بہتر مسقبل کے لئے اپنے والدین کے ساتھ دنیا کے مختلف ممالک مثلاََ امریکہ، کناڈا، لندن، جرمنی اور آسٹریلیا وغیرہ میں پناہ لینے پر مجبور ہوئے۔ بظاہر ان کی زندگی عیش و آرام سے گزر رہی ہے، لیکن ان پرانے لوگوں کو روحانی سکون اب تک نصیب نہیں ہو سکا۔ امریکہ میں بسے ایسے کئی لوگ چند دنوں کے لئے سہی اپنے آبائی وطن کی مٹّی کو آنکھوں سے لگانا چاہتے ہیں، جس جگہ ان کا بچپن گزرا، پلے بڑھے، کھیلتے کودتے سِن بلوغت کو پہنچے، ان جگہوں کو عمر کی آخری دہلیز پر کھڑے لوگ، ایک بار صرف ایک بار دیکھنے کے لئے بے چین اور بے قرار ہیں۔ لیکن ان کا المیہ یہ ہے کہ امریکہ کی شہریت حاصل کرتے وقت ان لوگوں نے چونکہ پاکستان کا پاسپورٹ سرینڈر کیا تھا۔ اس لئے ایسے لوگوں کو ہندوستانی ایمبیسی ہندوستان کا ویزا نہیں دیتی ہے۔ اس لئے ایسے لوگ اپنے آبائی وطن کو دیکھنے، اپنے رشتہ داروں سے ملنے اور اپنے آباو اجداد کی قبروں پر فاتحہ پڑھنے کے ارمان دل میں لئے درد  وکرب میں جی رہے ہیں۔ ان باتوں کا ذکر جب کبھی نکلتا ہے تو آنسوؤں کے ساتھ یہ لوگ  ہجرت در ہجرت  کے کرب کو بیان کرتے ہی۔ایسے بعض لوگوں کو تو امریکہ میں، میں نے زار و قطار روتے ہوئے دیکھا ہے۔ اس سلسلے میں بس یہی کہا جا سکتا ہے کہ لمحوں نے خطا کی تھی، صدیوں نے سزا پائی۔

       اس وقت سب سے بد تر حالت تقسیم ہند کے بعد مشرقی پاکستان (موجودہ بنگلہ دیش)جانے والے، بہار اور اتر پردیش کے ان اردو بولنے والوں کی ہے، جنھوں نے یہاں ہونے والی خانہ جنگی کے وقت پاکستان کی ہمنوائی کی تھی، انھیں سقوط بنگلہ دیش کے وقت سے یہ سزا دی گئی ہے کہ ان کی شہریت چھین لی گئی، گھر بار، ملازمت، تعلیم، پاسپورٹ، سماج میں عزت و احترام سے بے دخل کر دیا گیا۔ ایسے لوگوں کی مجموئی تعداد دو لاکھ سے بھی زیادہ ہے اور یہ لوگ بنگلہ دیش کے مختلف دیہی علاقوں میں لگا ئے گئے ایک سو سے بھی زائد کیمپوں میں جانوروں سے بھی بد تر زندگی اس امید پر گزار رہے ہیں کہ جلد ہی ان کا  اپناملک پاکستان انھیں اپنی پناہ میں لے کر انھیں  نہ صرف اپنا معزز شہری تسلیم کرے گا بلکہ ساری سہولیات دے گا۔ لیکن حکومت پاکستان اپنے پریشان حال اور جانوروں کی طرح زندگی بسر کرنے والے ان شہریوں کو آئے دن ہونے والے ان کی ہمنوائی میں زبردست احتجاج اور مطالبات کے باوجود قبول کرنے کو تیار نہیں ہے۔ ایسے لوگوں کی زندگی ان لوگوں کے رحم و کرم پر ہے، جو کسی نہ کسی طرح سقوط بنگلہ دیش کے بعد یہاں سے نکل جانے میں کامیاب ہوئے اور پاکستان میں ٹھوکریں کھانے کے بعد امریکہ، کناڈا، لندن، جرمنی وغیرہ میں سکونت اختیار کر چکے ہیں اور معاشی طور پر خود کفیل ہیں۔ یہ لوگ اور ان کے قائم کردہ فلاحی ادارے ہر سال لاکھوں، کروڑوں ڈالروں سے ان کی مدد کر ان کے جینے کا سہارا بنے ہوئے ہیں۔ حکومت بنگلہ دیش ایسے لوگوں کو کسی بھی طرح کے تعاون کرنے پر رضا مند نہیں ہے۔ شکاگو میں مقیم جناب احتشام ارشد نظامی اس سلسلے کی ایک شاندار کڑی ہیں۔

      ان سے بھی بد تر حالت تو اس وقت میانمار(قدیم نام برما) کے  روہینگیائی مسلمانوں کی ہے، جنھوں نے کبھی اس ملک برماپر ساڑھے تین صدی تک حکومت کی تھی اور ان کا سکّہ جس کے ایک جانب  لاالٰہَ اِلّااللہ کندہ ہوتا، وہ چلتا تھا۔ لیکن جب  1784 میں برطانیہ نے مسلمانوں کے تسلط والے اس ملک پر اپنا قبضہ جمالیا تو یہاں کے مسلمانوں کو کمزور اور بے وقعت کرنے کے لئے یہاں بھی Divide and Rule  کی پالیسی اپناتے ہوئے یہاں کے بدھسٹوں کے اندر مسلمانوں کے خلاف نفرت کا بیج بودیا گیا۔ جس سے  یہاں ظلم و بربریت کی کھیتی پوری لہلہا اٹھی۔ 1947  کے آتے آتے ان روہیگائی مسلمانوں کی زندگی تنگ کر دی گئی۔ 1949  میں چودہ فوجی آپریشن ہوئے، جس میں بیس ہزار سے زائد مسلمانوں کو بڑی بے دردی سے ہلاک کر دیا گیا اور یہ سلسلہ دراز ہوتا گیا۔ لاکھوں کی تعداد میں روہنگیائی مسلمان اپنی زندگی اور عزّت و آبرو بچانے کے لئے ہجرت پر مجبور ہوئے۔ ایسے ہجرت کرنے والوں میں تقریباََ تین لاکھ لوگ بنگلہ دیش میں، دو لاکھ کی تعداد میں پاکستان میں اور چوبیس ہزار کے آس پاس ملیشیأمیں پناہ لئے ہوئے ہیں۔ واضح رہے کہ بنگلہ دیش میں ایسے پناہ گزینوں کے کیمپوں  میں ہونے والے خرچ کی ذمّہ داری UNHCR  اور دیگر این جی اوز نے لے رکھی ہے۔ ان کے علاوہ کئی لاکھ لوگ جو کسی وجہ کر ہجرت نہیں کر سکے وہ اپنے ہی ملک میں مہاجر بن کر  مختلف کیمپوں میں تمام تر بنیادی سہولیات کے بغیر زندگی گزار رہے ہیں۔ ان کے ساتھ جو ظالمانہ رویۂ اختیارکیا گیا ہے، ان پر اس وقت پوری دنیا کے برقی، پرنٹ اور سوشل میڈیا پر روہینگیائی مسلمانوں پر امن کے پیامبر مہاتما بدھ کے پیروں کاروں کے ذریعہ ظلم و بربریت اورجبر و استبداد کی خبریں چھائی ہوئی ہیں۔ لاکھوں کی تعداد میں روہنگیا مسلمانوں کے ساتھ جو انسانیت سوز اور وحشیانہ سلوک ہو رہا ہے، جس کے باعث وہ اپناملک چھوڑنے پر مجبور ہیں۔  المیہ یہ ہے کہ دوسری جنگ عظیم کے دوران مہاجرین کی جو تعداد تھی، اس وقت یہ تعداد بھی تجاوز کر چکی ہے اور عالمی مسئلہ بن چکا ہے لیکن افسوس کہ اس بہت اہم مسئلہ کے تدارک کے لئے  بہت سنجیدگی سے غور فکر  کی کوئی کوشش نظر نہیں آ رہی ہے، جس سے اس مسئلہ کے بڑھتے جانے کا اندیشہ ہے۔ جو  غیر انسانی  اور انسانی حقوق کی پامالی ہے۔

٭٭٭

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔