ٹرمپ اور مودی بادشاہوں اور شیخوں کے محبوب نظر کیوں ہیں؟

عبدالعزیز

امریکی صدر کے دورہ سعودی عرب سے قبل ایک سعودی عالم دین نے امریکی صدر ٹرمپ کو’’ اللہ کا خادم‘‘ قرار دیا ہے۔ تفصیلات کے مطابق سعودی عالم دین نے امریکی ٹرمپ کو اللہ کا خادم قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ مسلمانوں کے مفادات میں بہتر کام کریں گے ۔سعد بن غنیم نے جمعہ کے روز ایک ٹویٹ میں کہا ہے امید ہے کہ اللہ پاک ڈونلڈ ٹرمپ پر اپنے پروں کا سایہ کرتے ہوئے انہیں صحیح سمت میں کام کرنے کی توفیق عطا فرمائے گا ، سعد بن غنیم نے سماجی رابطے کے ویٹ سائٹ پر لکھا ہے کہ ’’ یا اللہ! ٹرمپ تیرے خادموں میں سے ایک خادم ہے تو اس کی قسمت اور اس کی ذات کا مالک ہے اور اس کی رہنمائی فرما تاکہ مسلمانوں کے بہترین مفادات کے لئے کام کرسکے ۔ واضح رہے کہ سعودی عالم دین کے بیان نے سوشل میڈیا پر بحث کا موضوع بنا ہوا ہے ۔ مذکورہ بیان کی شدید مذمت کی جارہی ہے۔

  ٹرمپ سے پہلے مودی کی پذیرائی جس طرح سعودی عرب اور عرب امارات میں ہوئی وہ میڈیا اور اخبارات کے صفحات میں پورے طور پر آچکی ہے اب صدر امریکہ ڈونلڈ ٹرمپ کی سعودی عرب میں پذیرائی کی داستان میڈیا میں ہورہی ہے اور اتنی ہی شدت کے ساتھ مخالفت اور مذمت بھی ہورہی ہے جو لوگ عقیدہ کے بنیاد پر ایک دوسرے کی مخالفت اور مذمت کررہے ہیں ان کا راستہ جدا ہے ۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ سرمایہ داری ، استعماریت اور بادشاہت اور آمریت میں چولی دامن کا ساتھ ہے ۔سرمایہ داری کو بادشاہت پسند ہے اور بادشاہت کو سرمایہ داری محبوب ہے استعماریت کو آمریت عزیز ہے و آمریت کو استعماریت پسند ہے۔

 بہت سارے لوگ ڈونلڈ ٹرمپ کے سعودی عرب کے بیانات کو بڑی اہمیت دے رہے ہیں اور امن کا پیش خیمہ قرار دے رہے ہیں اسی طرح جو لوگ مودی کے دورہ سعودی عرب کے موقع پر بیانات کو اہمیت دے رہے تھے ان سے ذرا پوچھئے کہ کیا مودی کو یہودیت پسندی اور اسلام اور مسلم دشمنی کی پالیسی سعودی عرب جانے سے بدل گئی ؟۔ کچھ دنوں کے بعد ہی یہی سوال ٹرمپ کے دورہ سعودی عرب کے سلسلے میں کیا جائے گا ۔ امریکی مسلمانوں سے ذراسعودی عرب کے دورہ کے بعد کسی کو ٹرمپ کی یہودیت پسندی اور مسلم اور اسلام دشمنی معلوم کرنی ہے تو آج بھی فون یا برقی خطوط سے معلوم کرنا آسان ہے۔ ٹرمپ کے دورہ سعودی عرب پر مشہور عالم دین اور تبصرہ نگار مولانا عبدالمعید ندوی کا تبصرہ ملاحظہ فرمائیں :

ذرائع ابلاغ کے مطابق امریکی صدر اس وقت غیر ملکی دورے پر ہیں ، صدر موصوف نے اپنے پہلے غیر ملکی دورے کیلئے سعودی عرب کا انتخاب کیا جو کہ مذہب اسلام کا مرکز اور منبع ہے۔ سعودی عرب کے بعد وہ دوسرے ابراہیمی مذاہب کے مراکز فلسطین اور ویٹیکن سٹی کا بھی ارادہ رکھتے ہیں ۔ صدر موصوف کا یہ دورہ ایک ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جبکہ پورا عالم دہشت گردی کی تباہ کاریوں سے سسک رہا ہے ، ایک طرف اہلیان شام کے خون سے ہولی کھیلی جارہی ہے تو دوسری طرف مصریوں کے خون کی ندیاں بہائی جارہی ہیں ، کشمیر اگر غیر محفوظ ہے تو فلسطین بھی حفاظت کی وادیوں سے کوسوں دور ہے ۔ ایسے حالات میں صدر موصوف کے دورے کا مقصد جان کر کسی بھی محب انسانیت کی خوشی کا ٹھکانا نہیں رہ جاتا کہ اس دورے کا مقصد انسداد دہشت گردی قرار دیا گیا ہے ، اور سب سے پہلے سعودی عرب کا انتخاب بھی اسی لئے کیا گیا ہے کہ اسلامو فوبیا کو دہشت گردی کے دوسرے نام کے طور پر دیکھا جارہا ہے اور اس سلسلے میں سعودی وزیر خارجہ کا وہ بیان بھی کسی خوشخبری سے کم نہیں جو کہ دورہ سے صرف ایک روز قبل سامنے آیا جس میں وزیر موصوف نے کہا کہ اسلام مغرب کا دشمن نہیں اور مغرب اسلام کا دشمن نہیں اور ٹرمپ کا یہ بیان کہ سعودی سے گہری دوستی کی جائے گی ۔ یہ ساری باتیں اس بات کی غماز تھیں کہ شاید حالات کروٹ لینے والے ہیں ، بربادیوں کے دہانے پر پہنچ چکے ہمارے نوجوانوں کا مستقبل شاید اب سنور جائے ، دہائیوں سے پریشان حال انسانیت شاید سکون کی سانس لے۔ ’’لیکن افسوس صد افسوس ! اس خبر نے ساری امیدوں پر پانی پھیر دیا جس میں ٹرمپ اپنے مصری ہم منصب عبدالفتاح السیسی کی ثنا خوانی کررہے ہیں ، ایک ایسے سفاک کی تعریف جس نے 2013ء سے مسلسل مصر میں کشت و خون کا بازار گرم کررکھا ہے۔ سمجھ میں نہیں آتا ہمارے ارباب حل و عقد کو کیا ہوگیا ہے۔ ایک طرف تو انسداد دہشت گردی کی پلاننگ کی جارہی ہے ، دوسری طرف سفاکیت کی پشت پناہی کی جارہی ہے۔ ایسی دوغلی پالیسیاں ماضی میں بھی خوب ہوئیں اور ہنوز جاری ہیں لیکن سب بے نتیجہ ، خدا خیر کرے۔ ‘‘

 ٹرمپ اور مودی دونوں مصر میں انسانیت اور جمہوریت کے قاتل عبدالفتاح السیسی کے مداح خواں ہیں جو لوگ بھول گئے ہیں کہ مصرمیں امن پسند اخوانیوں کے ساتھ کیا کچھ کیا ہوا ان کو یاد دلانا چاہتا ہوں ۔ مصر کی سرزمین پر معرکہ حق و باطل آج بھی جاری ہے مرسی کی اسلام پسند اور عوام کی منتخب حکومت کا فرعونیت کے علمبردار وں نے تختہ الٹ دیا تھا۔ غاصب حکمرانوں نے خواتین ، بچوں سمیت ہزاروں پُرامن مظاہرین کا قتل عام کرکے فرعونیت کی بدترین مثال قائم کی ہے۔

دنیا کا ہر قانون پُرامن مظاہروں کا حق دیتا ہے ۔ مظاہرین نے کسی موقع پر بھی تشدد یا اشتعال انگیزی کا راستہ اختیار نہیں کیا ۔ وہ اپنے ہاتھوں میں قرآن پاک اٹھائے سڑکوں پر تلاوت کرتے ہوئے نظر آئے لیکن جنرل سیسی نے فرعونیت کا راستہ اختیار کرتے ہوئے مصر کی سڑکوں کو خون سے رنگین کردیا۔ جس کے نتیجے میں پانچ ہزار سے زائد مرد ، خواتین اور بچے شہید ہوگئے جبکہ ہزاروں افراد زخمی اور ہزاروں افراد کو گرفتار کرکے جیلوں میں بدترین تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔

مسلم ممالک کے غیر ت سے عاری حکمرانوں کو یہ توفیق نہیں ہوئی کہ وہ اس فوجی بغاوت کی مذمت اور پُرامن شہریوں کی شہادت پر احتجاج کرتے اس کے برعکس عرب ھکمرانوں نے خوشی کے شادیانے بجائے ۔ متحدہ عرب امارات کے صدر شیخ خلیفہ بن زاید النہیان نے مصر کے غیر آئینی اورغاصب صدر عدلی منصور کے نام اپنے پیغام میں مصر کی صورت حال پر اطمینان کا اظہار کیا۔ سعودی عرب کے شاہ عبداللہ نے مصر کے غاصب صدر کے نام مبارکباد کا پیغام بھیجا کویت کے امیر شیخ صباح الاحمد الصباغ نے مصر کے غیر منتخب صدر کا نام اپنے خط میں مصر کی فوج کی تعریف کی اور کہا کہ انہوں نے مصر کے استحکام کے سلسلے میں مثبت اور تاریخی کردار ادا کیا۔ قطر کے نئے امیر شیخ تمیم بن حماد الثانی نے ایک پیغام میں مصر کے کٹھ پتلی صدر کو مبارکباد پیش کی ۔ عراق نے کہا کہ وہ اس موقع پر مصر کے ساتھ ہیں اس نازک موقع پر ایرانی انقلابی قیادت کو کھل کر مذمت کرنے کی توفیق نہ ہوئی بلکہ گول مول سے بیان میں کسی کا نام لئے بغیر مصر کے عوام کے لئے نیک جذبات کا اعلان کیا۔

 فلسطین کے سیکولر صدر محمود عباس نے اپنے بیان میں مصر کی فوج کی تعریف کی کہ اس نے مصر کو نامعلوم مستقبل کی طرف جانے سے روک لیا۔ عالم اسلام میں صرف ترکی اور تیونس کی حکومتوں نے جرأت کا مظاہرہ کرتے ہوئے فوج کے عمل کی مذمت کی اور مرسی حکومت کو بحال کرنے کا مطالبہ کیا۔ اس حوالے سے مغربی دنیا کا رد عمل مسلم ممالک سے زیادہ شرمناک اور قابل مذمت ہے جو اپنے آپ کو جمہوریت اور انسانی حقوق کے چمپیئن کہتے ہیں ایسے گونگے اور بہرے بن گئے جیسے ان کے منہ میں زبان نہیں ہے ۔ امریکہ اور یورپ نے مصری فوج کی بغاوت کو بغاوت نہ کہا اور نہ اسے غیر آئینی اور غیر جمہوری قرار دیا اور نہ انسانی حقوق کی خلاف ورزی قرار دیا ۔ وہ مغرب جو ایک جانور کی ہلاکت پر آسمان سر پر اٹھا لیتا ہے اس نے پانچ ہزار پُر امن افراد کی شہادت پر مذمت کا ایک لفظ بھی استعما ل کرنا ضروری نہ سمجھا۔

  اقوام متحدہ کے سربراہ بانکی مون نے مصر میں فوجی بغاوت کو بغاوت کہنے کی جرأت نہ کی ۔ اس سلسلے میں ذرائع ابلاغ کا کردار بھی حیرت انگیز ہے۔ مغربی دنیا کے اہم خبر رساں ادارے اے ایف پی (AFP) نے مصر میں فوجی بغاوت کے بعد ایک خبر جاری کی جس کی سرخی تھی ۔

Army chief sisi emerges as Egypt’s new strong man

 یعنی فوج کے سربراہ عبدالفتاح السیسی مصر کی نئی طاقتور شخصیت بن کر ابھرے ہیں لیکن مغربی دنیا کی اصلاح  مین طاقت ور شخصیت تو عوام کے ووٹوں سے منتخب ہونے والے رہنمائی کی ہوتی ہے۔ آئین کی پاسداری کرنے والے لیڈر کی ہوتی ہے ۔ عوام میں مقبول شخصیت کی ہوتی ہے۔ اس کے برعکس جنرل السیسی میں ایسی کوئی خوبی نہیں ہے ۔ ان کی مداخلت غیر آئینی اور غاصب ہے۔ مفکر اسلام سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ نے مغرب کی فتنہ انگیز یوں کے حوالے سے کیا خوب کہا ہے۔

  ’’ یورپ کے مدبرین سیاست کی امتیازی خصوصیت میں سے ایک یہ ہے کہ ایک طر ف تو یہ اندر ہی اندر فتنہ انگیزیاں کرتے رہتے ہیں اور دوسری طرف جب ان کی شرارتوں کا میگزین پھٹنے پر آتا ہے تو ان میں سے ہر ایک اصلاح اور امن پسند ی کا مدعی ، حق و انصاف کا حامی اور ظلم و زیادتی کا دشمن بن کر اٹھتا ہے اور دنیا کو یقین دلانا چاہتا ہے کہ میں تو صرف خیر و اصلاح چاہتا ہوں ، مگر میرا مد مقابل ظلم و ناانصافی پر تلا ہوا ہے ، لہٰذا آئو اور میری مدد کرو ۔ حقیقت میں تو یہ سب ایک تھیلی ے چٹے بٹے ہیں ہیں ۔ سب ظلم و فساد کے امام ہیں ۔ ان میں سے ہر ایک کا دامن مظلوموں کے خون سے رنگاہوا ہے ۔ہر ایک کا نامہ اعمال ان سب گناہوں سے سیاہ ہے جن کا الزام یہ ایک دوسرے پر لگاتے ہیں ۔ لیکن یہ ان کی پرانی عاد ت ہے کہ جب یہ اپنی مفسدانہ اغراض کے لئے لڑتے ہیں تواخلاق اور انسانیت اور جمہوریت اور کمزورقوموں کے حقوق کی حمایت کا سراسر جھوٹا دعویٰ لے کر دنیا کو دھوکا دینے کی کوشش کرتے ہیں تاکہ وہ بہت سے  بے وقوف انسان جو ان کی ناپاک خواہشات کے حصول میں مددگار بن جائیں اور بہت سے خوشامدی لوگ اُن کی ناپاک خواہشات کے حصول میں مددگار بن جائیں ، اور وہ بہت سے خوشامدی لوگ جو اپنی ذلیل اغراض کے لئے ان کا ساتھ دینے پر آمادہ ہیں ، اپنے آپ کو ایک مقصد کا حمایتی بن کر پیش کریں اور سرخ روبن جائیں ۔‘‘ (بحوالہ : تفہیمات : صفحہ 399) سید مودودیؒ عالم اسلام میں مسلم حکمرانوں اور عوام کے درمیان کشمکش کے بارے میں کہتے ہیں :

’’دنیا کی تمام آزاد مسلم حکومتیں اس وقت بالکل کھوکھلی ہورہی ہیں کیونکہ وہ اپنی اپنی قوموں کے ضمیر سے لڑ رہی ہیں ۔ ان کی قومیں اسلام کی طرف پلٹنا چاہتی ہیں اور یہ ان کو زبردستی مغربیت کی راہ پر گھسیٹ رہی ہیں ۔ نتیجہ یہ ہے کہ کہیں بھی مسلمان قوموں کے دل اپنی حکومتوں کے ساتھ نہیں ہیں ۔ حکومتیں اس وقت مضبوط ہوتی ہیں جب حکمرانوں کے ہاتھ اور قوموں کے دل پوری طرح متفق ہوکر تعمیر حیات کے لئے سعی کریں ۔ اس کے بجائے جہاں دل اور ہاتھ ایک دوسرے سے نزاع و کشمکش میں مشغول ہوں وہاں ساری قوتیں آپس ہی کی لڑائی میں کھپ ہوجاتی ہیں اور تعمیر و ترقی کی راہ میں کوئی پیش قدمی نہیں ہوتی ۔ اسی صورت حال کا ایک فطری نتیجہ یہ بھی ہے کہ مسلمان ملکوں میں پے درپے آمریتیں قائم ہورہی ہیں ۔ مغربیت زدہ طبقے کی وہ چھوٹی سی اقلیت جس کو مستعمرین کی خلافت حاصل ہوتی ہے، اس بات کو اچھی طرح جانتی ہے کہ اگر نظام حکومت عوام کے ووٹوں پر مبنی ہوتو اقتدار ان کے ہاتھ میں نہیں رہ سکتا بلکہ جلدی یا دیر سے وہ لازماً ان لوگوں کی طرف منتقل ہوجائے گا جو عوام کے جذبات اور اعتقادات کے مطابق حکومت کا نظام قائم کرتے جارہے ہیں ۔ اگرچہ فریب دینے کے لئے انہوں نے آمریت کا نام جمہوریت رکھ دیا ہے۔‘‘ (بحوالہ تفہیمات ، حصہ سوم)

اس وقت عالم کفر نے امریکہ کی سربراہی میں عالم اسلام پر ہر میدان میں یلغار کی ہوئی ہے۔ امت مسلمہ کے ہر حصے میں اس کی سازشیں عیاں ہیں ۔ تقریباً تمام ممالک اسلامیہ اس کا ہدف ہیں ۔ امریکی وار آن ٹیر رنئی صلیبی جنگ ہے جو عالم اسلام کے خلاف لڑ ی جارہی ہے ۔ المناک ’’ جوڈو کرسچین سیکولر ‘‘ متحدہ افواج کے کرائے کے سپاہی بن گئے ہیں جس کی وجہ سے ہر مسلم ملک میں اہل اسلام کے خلاف سازشیں جاری ہیں ۔ اسی سازش کا ظہور ترکی اور مصر میں ہوا ہے ۔ مصر میں اخوان المسلموں کی حکومت کا تختہ سامراج کی چاکر فوج نے الٹ دیا ہے اور ایک نئے فساد کی بنیاد رکھ دی ہے۔ امریکہ اور یورپ کی یہ پالیسی بہت قدیم ہے۔ اس کا اظہار مصر میں برطانیہ کے گورنر جنرل لارڈ کرو مرنے 1908میں اپنی کتاب ’’ ماڈرن ایجپٹ‘‘ (Modern Egypt) میں ان الفاظ میں کیا۔

 ’’ جونہی دانشوروں اور سیاستدانوں کی ایک نسل انگریزی تعلیم کے ذریعے انگریزی کلچر کے آئیڈیل کی حامل پیدا ہوجائے گی انگلینڈ اپنی تمام کالونیوں کی سیاسی آزادی دیدے کا لیکن کسی بھی صورت میں برطانوی حکومت ایک لمحے کیلئے بھی خود مختار اسلامی ریاست برداشت کرنے کیلئے تیار نہیں ۔‘‘   (Lord Cromer,In Modern Egypt 1908)

     مغرب اسلامی فکر کی حامل حکومت کو ایک لمحہ بھی برداشت نہیں کرسکتا۔ مغرب کی یہ جنگ ایک صلیبی جنگ ہے ہم جتنی جلد اس کو سمجھ لیں اتنا ہی ہمارے حق میں بہتر ہوگا ۔ حق و باطل میں یہ کشمکش ازل سے شروع ہے اور اب تک جاری رہے گی ۔ مصر میں اہل اسلام ایک نئی آزمائش سے دوچار ہوئے ہیں ۔‘‘

   جو لوگ ایران اور سعودی عرب کے خیموں میں بٹے ہوئے ہیں اور جو لوگ ان کے پیسوں سے قلم و زبان کا استعمال کرتے ہیں وہ نہ امن عالم کے علمبردار بن سکتے ہیں اور نہ ہی عالم اسلام کے بہی خواہ ہوسکتے ہیں کیونکہ یہ لوگ شیعہ و سنی ، ایران اور سعودی کے درمیان دیوار کو مضبوط سے مضبوط تر کررہے ہیں سعودی حکمراں ، یا بادشاہ ایران کو اپنا دشمن ہی نہیں تصور کرتے ہیں بلکہ ان کو کافر اور زندیق قرار دیتے ہیں یہی حال ایران کا ہے کہ وہ سعودی حکمرانوں کو کافر قرار دیتا ہے اور امریکہ اور اسرائیل کا  پٹھو کہتا ہے۔ جب امریکہ کے اشارے پر صدر صدام نے ایران پر حملہ کیا تھا جس کے نتیجہ میں آٹھ لاکھ انسان جان بحق ہوئے تھے اور ایران کے کئی شہر کھنڈر وں میں تبدیل ہوگئے تھے تو یہی سعودی عرب، عرب امارات اور کویت امریکہ کی ایما پر پیسے اور ہتھیار سے صدام کی مدد کررہے تھے ۔ صدام حسین کو امریکہ نے اپنی دوستی کا مزہ جلد چکھا دیا۔ آج سعودی عرب اور یمن میں برادرکشی کی جنگ برپا ہے ۔ ایران جو کبھی امریکہ کی دشمنی میں آگے آگے تھا وہ بھی امریکہ کے لئے اپنے حالات کو سدھارنے کیلئے امریکہ کیلئے نرم گوشہ رکھنے لگا ہے اور شام کے جابراور ظالم حکمراں کی روس کے ساتھ مدد کررہا ہے اس کی بھی غیر جانبدارانہ پالیسی پہلے جیسے نہیں رہی ۔ ایران میں شیعیت ابھرتی جارہی ہے جس کی وجہ سے مشرق و سطیٰ میں شیعہ وسنی کی جنگ میں ہر طرح کی خونریزی روا ہے جو انتہائی قابل مذمت ہے ۔

       مسلمانوں کو اچھی طرح سے سمجھنا چاہئے کہ کیا ان کے لئے سب سے بڑا خطرہ یہودیت اور صیہونیت ہے یا وہابیت اور شیعیت ہے؟ اگر مسلمان شیعہ و سنی، دیوبندی اور بریلوی ، وہابی اور غیر وہابی جیسے خیموں میں بٹ کر لڑتے رہیں گے تو دہشت گردی کے نام پر جو امریکہ نے صلیبی جنگ کا بگل بجا دیا ہے اسرائیل برطانیہ اور یورپ کے دیگر ممالک کے ساتھ اسلام اور مسلمانوں کو بدنام کرنے پر تلا ہوا ہے اس کو مسلم فرقوں کی لڑائی سے تقویت اور قو ت حاصل ہوگی ۔ تفرقہ بازیوں اور انتشار سے پوری دنیا میں مسلمانوں کی ہوا اکھڑ جائے گی ۔ اللہ تعالیٰ مسلمانوں کو یہ سمجھنے کی توفیق عطا فرمائے کہ یہودی اور نصاریٰ مسلمانوں کے دوست نہیں ہوسکتے اللہ نے قرآن پاک میں مسلمانوں کو خطاب کرتے ہوئے کہا  ہے کہ’’ جب تمہیں تکلیف ہوتی ہے تو یہود و نصاریٰ کو  خوشی اور مسرت ہوتی ہے اور جب تمہیں راحت ملتی تو انہیں بیحد تکلیف ہوتی ہے‘‘ اللہ یہ کیسے دن آگئے ہیں کہ یہودی نواز ٹرمپ کے لئے مسلم حکمراکا ایک طبقہ چشم براہ ہے اور ان پر اللہ کی رحمتوں کے لئے دعا کر رہاہے اور کہہ رہا ہے ’’ اے اللہ ٹرمپ کو اپنے پروں کے سایے میں لے لے‘‘ یعنی انہیں ظل سبحانی بنا د ے۔ یہ کیسے دن آگئے ہیں کہ ہم مسلمان اتحاد کو کفر اور انتشار کو اسلام سمجھنے لگے ہیں اور  ؎

دشمن کے سامنے بھی ہیں جدا جدا

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔