ٹرمپ کی شاطرانہ چال: مسلم ملکوں کو لڑاؤ اور حکومت کرو!

عبدالعزیز

 عرب ممالک خاص طور سے سعودی حکمراں جو بادشاہ ہوتے ہیں اور خادم حرمین شریفین کہلاتے ہیں ان کو سب سے زیادہ خوف اور ڈر اپنی بادشاہت کے جانے کا ہوتا ہے۔ اس کیلئے وہ سب کچھ کر گزرنے کیلئے تیار ہوتے ہیں ۔ آج سے دو ڈھائی سال پہلے جب مصر میں آمریت ختم ہوئی اور انتخاب کے نتیجہ میں پہلی بار صاف ستھری حکومت قائم ہوئی۔ اخوان المسلمون کی سیاسی ونگ کے سربراہ محمد مرسی ملک کے صدر ہوئے تو سارے عرب ممالک کو خطرہ لاحق ہوگیا۔ سعودی، بحرین، عرب امارات نے امریکہ اور اسرائیل کی مدد سے جنرل السیسی کو مصر میں فوجی بغاوت کرایا اور منتخب صدر محمد مرسی کو جیل کی کوٹھریوں میں بند کر دیا اور اخوان المسلمون کے 26 ہزار خاموش اور اپر امن احتجاجیوں کو بے دردی سے گولیوں سے بھون ڈالا جس میں بچے، بوڑھے  اور عورتیں بھی شامل تھیں ۔ سب کے سب نہتے تھے۔ اخوان المسلمون کے پچاس ہزار افراد کو پس زندان کر دیا۔ ان سب کے باوجود آج بھی مصر کی سڑکوں پر مہینہ دو مہینہ میں موت کے سائے میں نڈر اور جیالے اخوانی جمہوریت کی بحالی کیلئے مظاہرے کرتے ہیں ۔ اب یہی خادم امریکہ اور اسرائیل سعودی عربیہ، بحرین، یو اے ای اور مصر نے قطر سے اپنے تعلقات ختم کرکے اسے بے تعلق اور تنہا کرنے کی کوشش کی ہے۔

  قطر حکمراں شیخ تمیم بن حماد الستبانی کا قصور یہ ٹھہرا کہ انھوں نے ریاض سے ڈونالڈ ٹرمپ کے روانہ ہونے کے دو دنوں بعد ایک فوجی پریڈ کے موقع پر اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہاکہ سعودی عرب پنجۂ یہود میں پھنستا جارہا ہے۔ انھوں نے کہاکہ سعودی بادشاہت ٹرمپ پر ضرورت سے کہیں زیادہ انحصار کرنے لگی ہے جبکہ ٹرمپ اپنے ہی ملک میں سیاسی مشکلات کا سامنا کر رہے ہیں ۔ سعودی عرب میں آکر ٹرمپ کی شیعہ و سنی کشمکش بڑھانے اور ایران کو ٹارگٹ بنانے پر بھی نکتہ چینی کی اور سوجھاؤ دیا کہ ایران اسلام کی ایک قوت ہے، اس سے دشمنی مول لینے کے بجائے بات چیت کے ذریعہ تناؤ اور کشمکش ختم کرنا چاہئے۔ یہ بات آخر کیسے ٹرمپ اور ان کے خادمین کو برداشت ہوتی۔ قطر پر یہ الزام عائد کر دیا کہ وہ دہشت گردی کی حمایت کرتا ہے۔ اخوان المسلمون اور حزب اللہ اور حماس کی معاونت کرتا ہے۔ مذکورہ جماعتوں کا قصور یہ ہے کہ یہ تنظیمیں اسرائیلی جارحیت کی مزاحمت کرتی ہیں جہاں تک اخوان المسلمون کا معاملہ ہے، پر امن طریقہ کار اختیار کرتی ہے اور جمہوریت اور انتخابی سیاست کے ذریعہ تبدیلی لانے کی قائل ہے۔ ساٹھ ستر سال سے اسی پر امن راستہ پر گامزن ہے۔ مصر میں اخوانیوں کے ساتھ فرعونیت جیسا سلوک السیسی نے سعودی عربیہ کی خوشنودی اور اپنی حکومت کو بچانے کیلئے کر رکھا ہے۔ قطر میں اخوانیوں پر گولے، بارود نہیں برسائے جاتے بلکہ ان کو پناہ دی جاتی ہے۔ یہ بھی اسرائیل اور امریکہ کے دوستوں کو ایک آنکھ نہیں بھاتا۔

  سعودی عرب اور یو اے ای کے سابق ہندستانی سفیر تلمیذ احمد نے ’انڈین ایکسپریس‘ کے ایک مضمون میں لکھا ہے کہ ’’سعودی عرب نے قطر پر صرف ٹرمپ کے بہکانے پر ہی تعلقات نہیں توڑا ہے بلکہ امریکہ میں سب سے بڑے اسرائیلی حمایتی گروپ (Pro-Israili Group) کے دباؤ میں آکر کیا ہے۔ اس میں بڑا اور اہم رول ایف ڈی ڈی (Foundation for Defence of Democrates) نے ادا کیا ہے جو ایران کا سب سے بڑا مخالف ہے اور سنی عربوں کو ایران کا شدید مخالف بنا نا چاہتا ہے اور عربوں کو اسرائیل اور امریکہ جیسے ممالک کے تعلقات نہ صرف استوار کرنا چاہتا ہے بلکہ گہرے تعلقات کا خواہاں ہے تاکہ سنی اور شیعہ کی لڑائی سے عربوں کی طاقت پارہ پارہ ہوجائے‘‘ (انڈین ایکسپریس، 7جون 2017ء)۔

عربوں کی حالت عجیب و غریب ہوگئی ہے۔ وہ اسرائیل -امریکہ کی دوستی کو نہ صرف پسند کررہے ہیں بلکہ ان کیلئے اپنی زمینیں ، دولت اور تیل سب کچھ نچھاور کر رہے ہیں ۔ ابھی کروڑوں ڈالر سے سعودی عرب نے ٹرمپ سے ہتھیار خریدے ہیں ۔ وہ ہتھیار بھی امریکن فوجی مسلم ممالک کے عوام پر استعمال کریں گے اور امریکہ کو سعودی عرب کے ان دیناروں اور ریالوں سے امریکہ میں ہزاروں امریکیوں کیلئے کام کے ذرائع پیدا کئے جائیں گے۔ ہم نے ایک عجیب و غریب منظر اس وقت دیکھا جب سعودی عرب کے بادشاہ سلامت ہزاروں ڈالر کی قیمت کا سونے کا ایک ہار اپنے مہمان ٹرمپ کو پہنا رہے تھے اور ٹرمپ اور ان کی بیٹی کو کروڑوں ڈالر کی چیزیں تحفے میں پیش کر رہے تھے۔ امریکہ کا صدر بادشاہ بن کر اپنے غلاموں اور بھکاریوں سے سینہ تان کر نہایت آن بان کے ساتھ لے رہا تھا اور جو بادشاہ کہلاتے ہیں وہ اپنی ڈھیروں مال اپنے آقا ڈونالڈ ٹرمپ کیلئے لٹا رہے تھے۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا ہے کہ دینے والا ہاتھ ہمیشہ اوپر ہوتا ہے اور لینے والا ہاتھ نیچے مگر دیکھنے میں یہ آیا کہ دینے والا ہاتھ غلامی کی زنجیروں میں جکڑا ہے اور لینے والا ہاتھ آزاد ہے۔ آخر دنیا ایسے کیسے بدل گئی۔ دنیا کو چلانے والا ہی جانتا ہے۔ ایسے موقع پر غالبؔ کا یہ مصرعہ یاد آتا ہے  ع

   تماشۂ اہل کرم دیکھتے ہیں

تبصرے بند ہیں۔