وبائی امراض اور اسلامی تعلیمات

عبدالرشیدطلحہ نعمانیؔ

معتبر تحقیقات کے مطابق دنیا بھر میں ایک لاکھ سے زائد بیماریاں ایسی ہیں ؛جو بنی نوع انسانی کو کمزورکرنے اور رفتہ رفتہ انہیں موت کے منہ میں ڈھکیلنے کا کام کررہی ہیں، اسباب کے درجے میں بہت سی مرتبہ ماحولیاتی آلودگی اور فضا میں گردش کرنے والے جراثیم ؛جومختلف ذرائع سے انسانی جسم میں داخل ہو جاتے ہیں بیماری کی وجہ بنتے ہیں، کبھی انسان کا طرز زندگی بہت سی بیماریوں کو جنم دیتا ہے اور لا تعداد امراض بڑھتی ہوئی عمر میں انسان کو جکڑ لیتے ہیں۔

 اس وقت ملک گیر سطح پر چکن گنیا، ڈینگو،ملیریا،ٹائیفیڈاور اس قبیل کی متعدد خطرناک بیماریا ں وبائی شکل میں انسانی معاشرہ پر حملہ آور ہیں، ملک کے تقریبا سبھی صوبوں کوان مہلک ترین بیماریوں نے اپنے شکنجے میں لے رکھاہے۔

مذکورہ بالا امراض اس وقت اور بھی زیادہ شدید ہوکر وبائی شکل اختیار کرلیتے ہیں جب موسم باراں اپنا رنگ دکھا تا ہے۔ پچھلے دنوں اخبارات میں یہ خبر نمایاں رہی کہ رواں سال برسات کا موسم آنے کے ساتھ ہی دارالحکومت دہلی میں گزشتہ ایک ہفتے کے دوران ڈینگو کے معاملات بڑھ کر 185 تک پہنچ گئے ہیں، جبکہ چکن گنیا کے 45 نئے معاملے بھی سامنے آئے ہیں۔

یوں توبیماری اور شفاء اللہ کے قبضہء قدرت میں ہے، وہ جسے چاہتا ہے بیماری میں مبتلا کر دیتا ہے اور جسے چاہتا ہے صحت جیسی عظیم الشان نعمت سے سرفراز فرماتاہے، اللہ تعالی نے ہر بیماری کے ساتھ ساتھ اس کا علاج بھی نازل فرمایا ہے جیسے کہ ارشاد نبویﷺہے ’’ اللہ تعالی نے ہر بیماری کی دواء نازل کی ہے، یہ الگ بات ہے کہ کسی نے معلوم کر لی اور کسی نے نہ کی ‘‘(مستدرک حاکم)

اسلامی تاریخ کابہ غور مطالعہ کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ ہمارے دین میں انسانیت کی صحت کو ہمیشہ اہمیت دی گئی، تندرستی و توانائی کے اصول بتائے گئے اورکسی بھی بیماری کو لاعلاج گردان کر مایوس و درماندہ ہونے سے نہ صرف منع کیاگیا؛بل کہ حتی الوسع بیماری کے وقت ادویات استعمال کرنے اور ظاہری اسباب کو بروئے کار لانے کی بھی ترغیب دی گئی،نبی کریمﷺنے متعدد اشیاء کو بطور علاج استعما ل کرنے کا حکم فرمایا۔

 آپﷺنے اپنی حیات میں جہاں روحانی اور باطنی بیماریوں کے حل تجویز فرمائے وہیں جسمانی اور ظاہری امراض کے لیے بھی اس قدر آسان اور نفع بخش ہدایات دیں کہ دنیا چاہے جتنی بھی ترقی کر لے ؛لیکن ان سے سرمو انحراف نہیں کر سکتی۔

چنانچہ روزانہ کم ازکم پانچ مرتبہ وضو کرنا، جنسی عمل کے بعد لازماً غسل کرنا، بالوں او رناخنوں کی تراش خراش کرنا، منہ، ناک اور کان کی صفائی کرنا، صاف ستھرا لباس پہننا، کھانے سے پہلے اور بعدمیں ہاتھ دھونا، یہ سب وہ چیزیں ہیں جو ہزاروں سال سے ہمارے دین کا لازمی حصہ ہیں۔ سیدنا ابراہیم علیہ السلام کو بھی ان چیزوں کا حکم دیا گیا تھا۔ دور جدید کے ہائی جین کے اصول بھی انہیں باتوں کی تلقین کرتے ہیں۔ ظاہری شکل و شباہت کے علاوہ جسمانی صحت بھی شخصیت کا اہم ترین پہلو ہے، اگر انسان صحت مند نہ ہو تو وہ کسی کام کو بھی صحیح طور پر انجام نہیں دے سکتا، دین نے اپنی صحت کی حفاظت کو بڑی اہمیت دی ہے اور ایسی تمام چیزوں سے روکا ہے جو صحت کیلئے نقصان دہ ہوں۔

اس ضمن میں مسلمانوں کی سب سے بڑی خدمت نہ صرف طب کے میدان میں نئی نئی تحقیقات ہیں بلکہ انہوں نے بہت ساری نئی نئی ادویات بھی متعارف کرائیں، اور بہت سے لاعلاج امراض کا علاج دریافت کیا۔ یونانی کتابوں کے عربی ترجمے کیے، ہسپتال اور شفاخانے قائم کیے اور طب کو خیالی مفروضوں سے نکال کر ایک عملی سائنس کی شکل دی۔ گویا اسلام اور اگلے دور کے مسلمان صحت عامہ کے بارے میں غیرمعمولی حد تک سنجیدہ اور حساس رہے، ہمارا دین جدید دور کے علاج معالجے کی سہولتوں کے استعمال کا مخالف نہیں ہے بلکہ ان سے استفادہ کاامر کرتا ہے، علم وحکمت مومن کی گم شدہ میراث ہے، اس کو جہاں ملے اس سے استفادہ کی کوشش کرے۔

صحت اوراسلامی تعلیمات:

جانناچاہئے کہ انسانی صحت کا دارومدار محض جسمانی تندرستی وتوانائی اورظاہری نشونما پر نہیں ہے ؛ بلکہ اس کے علاوہ حفظانِ صحت کے اور بھی عوامل ہیں ؛جنہیں اطباء نے مفصل بیان کیاہے۔ چناں چہ متوازن غذا، مناسب نیند، آلودگی سے پاک فضاء، طہارت ونظافت پر مشتمل ایک طویل خاکہ ہے ؛جس کو اپنا کر ہم ایک صحت منداور خوش گوارزندگی گذارسکتے ہیں۔

(1)خوراک کے سلسلے میں :

حفظانِ صحت میں خوراک، ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہے، متوازن خوراک اور معتدل غذاسے انسان کی صحت برقرار رہتی ہے، وہ مناسب طور پر نشوونما پاتا ہے اور محنت کی قابلیت بھی پیدا ہوتی ہے۔ اس بارے میں قرآن نے صرف تین جملوں میں طب قدیم اور طب جدید کو سمیٹ لیا ہے، ارشادِ خداوندی ہے :’’کھاؤ، پیو اور اس میں حد سے آگے نہ بڑھو۔‘‘ (الاعراف:31)یہ تینوں وہ مسلمہ اصول ہیں جن میں کسی کا بھی اختلاف نہیں ؛کھانا پینا زندگی کی بنیادی ضرورت ہے، اس کے بغیر انسان زیادہ دیر تک زندہ نہیں رہ سکتا، اور نہ اپنے فرائض منصبی سے بہ طریقِ احسن عہدہ برآ ہوسکتا ہے، البتہ اس میں اعتدال سے کام لینا صحت کے لیے ضروری ہے۔ نہ کھانے، یا ضرورت سے کم کھانے سے جسمِ انسانی بیمار پڑ جاتا ہے، جبکہ ضرورت سے زیادہ کھانے سے معدہ پر اس کی طاقت سے زیادہ بوجھ پڑتا ہے اور معدہ کی خرابی تمام امراض کی جڑ ہے، حضور ﷺکا ارشاد ہے :’’معدہ بدن کے لیے تالاب ہے اور رگیں اسی کی طرف جسم کے مختلف حصوں سے وارد ہیں، جب معدہ صحیح حالت میں ہو تو رگیں بھی جسم کے تمام حصوں کو صحت (صحیح خون) مہیا کرتی ہیں اور جب معدہ بیمار پڑ جائے تو اس سے رگوں کے ذریعے تمام جسم بیمار پڑ جاتا ہے‘‘۔ (طبرانی۔ المعجم الاوسط)

 (2)صفائی اور نفاست پسندی کے بارے میں :

گھر اور ماحول کی صفائی اور مزاج کی نفاست پسندی کا بھی صحت میں بڑادخل ہے۔

اسلام نے انسانوں سے یہی مطالبہ کیا ہے کہ ان کی پوری زندگی پاک و صاف ہونی چاہیے۔ ارشادربانی ہے :ان اللہ یحب التوابین و یحب المتطھرین(البقرۃ:222)” اللہ تعالیٰ ان لوگوں کو پسند کرتا ہے، جو توبہ کا رویہ اختیار کریں اور خوب پاکیزہ رہیں “۔

ایک حدیث میں طہارت و نظافت پر نبیِ کریمﷺنے فرمایا:الطھور شطر الایمان (مسلم:223)

”پاکی نصف ایمان ہے “مزید اس جانب توجہ دلاتے ہوئے ارشاد فرمایا : ’’اللہ تعالیٰ پاک و صاف ہے اور پاکی و صفائی سے محبت رکھتا ہے، کریم اور سخی ہے، کرم اور سخاوت کو پسند فرماتا ہے، اس لیے اپنے گھر بار، صحن (اور گلی کوچوں )کو صاف ستھرا رکھو۔‘‘(البزاز فی مسندہ)

 (3)ورزش کے تعلق سے :

خوراک اُس وقت مفید ثابت ہوتی ہے جب وہ اچھی طرح ہضم ہو جائے، اورغذا ہضم کرنے کے لیے محنت اور ورزش کی ضرورت ہے، اگر کوئی شخص ایسا ہو جس کا مشغلہ پڑھنا پڑھانا، یا اور کوئی ایسا پیشہ ہو جس میں اسے ورزش کا موقع نہیں ملتا اور وہ اسلامی فرائض و واجبات بہ طریق احسن ادا کرتا ہے، تب تو اس کو ورزش کی اتنی ضرورت نہیں پڑتی، صبح سویرے اٹھنے، وضو، غسل کرنے، نماز پڑھنے، روزہ رکھنے، حج اور جہاد کے لیے جانے اور دیگر اسلامی احکام پر عمل پیرا ہونے سے اس کی یہ ضرورت خود بہ خود پوری ہوسکتی ہے۔

تاہم اسلام میں بعض مفید ورزشوں کا جواز بھی موجود ہے، جو دورِ جدید کے بے ہودہ مشاغل اور انگریزی طرز کے کھیل کود سے بہ درجہا بہتر ہے۔ یہ مشاغل کھیل کود اور ورزش کے ساتھ ساتھ ایک مفید فن اور ہنر بھی ہیں، مثال کے طور پر:شاہ سواری، شرط لگائے بغیر گھڑ دوڑ کا مقابلہ،تیر اندازی،نشانہ بازی،شکار کھیلناوغیرہ، ان ریاضتوں کی بہ دولت انسان کے تمام اعضا، خصوصاً آنکھ، کان، زبان، پٹھوں، گوشت پوست اور ہڈیوں وغیرہ کی ورزش ہوتی ہے۔

(4)نیند اور آرام کی اہمیت پر:

 نیند بھی حفظانِ صحت کے لیے ضروری ہے، ایک صحت مند انسان کے لیے دن رات میں آٹھ گھنٹے کی نیند ضروری ہوتی ہے، محنت اور دن بھر کام کاج کرنے سے جسمانی قوتیں تھک جاتی ہیں اور آرام کی طالب ہوتی ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے انسانی زندگی کو دن، رات میں تقسیم کر کے اس فطری ضرورت کو پورا کیا ہے، ارشاد خداوندی ہے :’’خدا ہی تو ہے جس نے تمہارے لیے رات بنائی کہ اس میں آرام کرو اور دن کو روشن بنایا (کہ اس میں کام کرو۔‘‘(المومن:61)

حضو ر ﷺ کا بتایا ہوا نیند کا طریقہ بالکل فطری ہے اور حفظانِ صحت کے لیے اس سے بہتر طریقہ اور کوئی نہیں ہوسکتاکہ جلد سویاجائے، باوضو سویاجائے، صبح جلد اٹھنے کی فکر کی جائے، دوپہرمیں قیلولہ کیاجائے وغیرہ۔

مذکورہ بالا ان ہدایات پر عمل پیراہوکربڑی حد تک وبائی امراض اورکئی ایک بیماریوں سے محفوظ رہاجاسکتا ہے۔

تبصرے بند ہیں۔