بذات خود: جذبات و احساسات کا راست بیانیہ 

وصیل خان

مالیگاؤں مہاراشٹر کا ایسا مردم خیز خطہ ہے جہاں صنعتی میدان کے ساتھ ہی حصول تعلیم پر بھی بھرپور توجہ مرکو ز کی گئی ہے اور اس شعبے میں بھی انمٹ نقوش موجودہیں اس کے علاوہ ادب میں بھی اپنا ایک انفرادی مقام برقرار رکھا ہے یہی سبب ہے کہ یہاں سے حضرت ادیب مالیگانوی اور مسلم مالیگانوی جیسے قدآور شعراءنے نہ صرف مالیگاؤں بلکہ قومی سطح پر بھی اپنی ایک مستحکم شناخت قائم کی ہے۔ صنعت، ادب اور فنون لطیفہ کی اس زرخیز سرزمین سے اٹھنے والے ان شعراء و ادبا میں جمیل انصاری کے نام کا خوشگوار اضافہ ان کی شعری تصنیف ’ بذات خود ‘ کے حوالے سے سامنے آیا ہے۔

 ہر انسان کی زندگی بہ یک وقت مختلف پہلوؤں سے ہم آہنگ ہوتی ہے لیکن ضروری نہیں کہ وہ سارے ہی  پہلو اجاگر ہو جائیں۔ میں جمیل انصاری کو ایک مدت دراز سے بحیثیت خوشنویس جانتا ہوں جب وہ بیسویں صدی کی آٹھویں دہائی میں روزنامہ اردو ٹائمز سے وابستہ تھےمیں بھی کچھ اسی کے آس پاس منسلک ہوا تھا اس وقت موصوف جمیل ابن مصطفیٰ کے نام سے متعارف تھے لیکن جلد ہی وہ مالیگاؤں لوٹ گئے اور ایک طویل عرصہ سے ان سے رابطہ منقطع رہا لیکن حال ہی میں موصول ان کی کتاب ’ بذات خود ‘ نے پھر سے رابطے کی سبیل پیداکی تو منکشف ہوا کہ شعر و سخن میں بھی انہیں اچھا خاصا درک حاصل کرلیا ہے انہوں نے زیادہ ترغزلیں چھوٹی بحروں میں کہی ہیں اور بڑی روانی اور شگفتگی کے ساتھ اپنی فکری وسعت کو اسطرح سمویا ہے کہ دریا بہ کوزہ والے محاورے کی معنویت اچھی طرح سمجھ میں آنے لگی ہے۔ جمیل کی شاعری میں عصری حسیت کے ساتھ ساتھ کلاسیکی رنگ بھی شامل ہے جن میں ایک خاص قسم کی کشش اور جاذبیت پیدا ہوگئی ہے۔ فن اور فکر کا یہی امتزاج ان کی شاعری کو ایک خاص درجہ فراہم کرتا ہے۔ ان کی غزلوں میں معنویت کھوتے جارہے رشتوں کے ٹوٹنے بکھرنے کاغم، قدریں کھوتی جارہی تہذیب ومعاشرت کے المناک نتائج کاشدید احساس نمایاں انداز میں دکھائی دیتا ہے لیکن اس سلیقے کے ساتھ کہ دامن تہذیب مجروح نہ ہونے پائے اس طرح انہوں نے اپنے تاثرات کو محدودنہ رکھتے ہوئے اسے کائناتی سطح پر پہنچا دیا ہےجس نے ان کے بیانیئے کو تازگی و توانائی سے بھر دیا ہے۔

یہ بھی ایک بدیہی حقیقت ہے کہ آج ہم اردو شاعری کے جس ماحول میں جی رہے ہیں وہ خصوصا ً غزل کیلئے تو نہایت المناک ہے اب تو جہاں اور جس طرف نظر اٹھایئے ایسے سخن بازوں کی بھر مار نظر آتی ہے جو چند ٹیڑھے میڑھے اشعار کی لایعنی ترتیب اور کمزور تک بندی کے حوالے سے خود کو سخنور سمجھے ہوئے ہیں جبکہ حقیقتا ً ان کا نہ تو شاعری سے علاقہ ہے نہ ہی زبان و ادب سے کچھ خاص تعلق۔ ادب کے ایسے پرآشوب ماحول میں جمیل انصاری جیسے شعراء کا وجود بہر حال غنیمت ہے کیونکہ بقول شہزاد بخت ’’آپ نے پیش رومشاہیر نیز دیگر شعراء کی مستعار زمینوں پر طبع آزمائی کے بجائے اپنی دنیا آپ پیدا کرنے کی جرأت مندانہ کوشش کی ہے اور طویل و مختصر بحروں میں اپنے کمال فن کا مظاہرہ کیا ہے جس سے ان کی قادرالکلامی اور علم عروض سے واقفیت کا درک ہوتا ہے۔ ‘‘

چند اشعار بطور تمثیل یہاں نذر قارئین کئے جارہے ہیں کیونکہ خوب و ناخوب کا فیصلہ انہیں ہی کرنا ہے۔

اس غنچہ ٔ حیات کی قسمت کہاں گئی

   پرکھوں سے جو ملی تھی وہ عزت کہاں گئی

مصیبت آن پہنچی تھی

 تعاقب میں ستارہ تھا

خواہش، جنون، عشق وفا اور دل لگی

   کس شوق و انہماک میں عمر رواں گئی

جو دشت بے اماں ٹھہرا

وہ اپنا مکاں ٹھہرا

کیسے آپس میں تقسیم ترکہ کریں کیسے آپس میں تقسیم ورثہ کریں

 جب جنازہ اٹھانے پسر آئیں گے یہ سوالات تو ابھر آئیں گے

کتراکے نکل جاتے ہیں احباب پرانے

 ہر چند کہ میں ان کا پرستار رہا ہوں

نام کتاب:  بذات خود( شعری مجموعہ ) ، شاعر جمیل انصاری، صفحات:  160قیمت :  200/- روپئے، ملنے کے پتے:  سویرا بکڈپو نزد جنتا لاج محمد علی روڈ، مالیگاؤں۔ نیوسویرا بکڈپو  محمد علی روڈ، نیا پورہ، مالیگاؤں 9028135322۔سٹی بکڈپو،  قصاب باڑہ مسجد مالیگاؤں، موبائل:  9272870756/ 8087140473

تبصرے بند ہیں۔