اپنے بچوں کی تعلیمی تباہی سے بے خبر مسلمان‎

ابن تاج خان

’’آپ کیا کرتےہیں‘‘  میرے پاس بیٹھے عربی اول کے طالب علم نے سوال کیا۔

 ’’میں b.u.m.s کر رہا ہوں‘‘میں نے مختصرا جواب دیا۔

’’میں سمجھا نہیں‘‘اس نے معصومیت سے کہا۔

’’ڈاکٹری کی پڑھائی‘‘میں نے اس کے سوال کا اطمینان بخش جواب دیدیا۔

گزشتہ روز عصر کی نماز کے لئے جب میں گاؤں کی بڑی مسجد میں گیا جسے علاقے کے دیوبندی عوام کی جامع مسجد کی حیثیت حاصل ہوچکی ہے اور جو ندوة العلماء کی شاخ جامعہ عمر فاروق پپرہیاں، کشی نگر کے احاطے میں واقع ہے تو کئی چیزیں ذہن میں گردش کرنے لگیں۔ مدرسہ کے احاطے کی پچھلی دیوار میرے گھر کے سامنے ہی ہے،لیکن راستہ چونکہ گھوم کر جانے کے لئے ہے اس لئے پیدل پانچ منٹ کا فاصلہ ہے، عصر سے پہلے بارش کی ہلکی پھوار جاری تھی اور تیز بارش کے امکانات دکھ رہے تھے، اس کے باوجود اپنی عادت کے مطابق خالی ہاتھ ہی پہونچا، عصر کی نماز کے دوران ہی تیز جھماجھم بارش شروع ہوگئی، مسجد کے صحن کے ابتدائی حصے میں لگے پلاسٹک شیڈ پر بارش کے گرنے کی آواز بہت نشاط انگیز تھی۔ نماز کے اختتام کے بعد بارش کی تیزی کے سبب میں مسجد میں ہی رک گیا، روایتی انداز کے درس کتاب کا ماحول ہمارے مدرسے میں بھی ہے لیکن میں سنتا نہیں بھاگ کھڑا ہوتا ہوں، آج چونکہ مجبوری تھی اس لئے رکنا پڑا ،تعلیم کے بعد طلباء کے نام کی حاضری بولی جانے لگی تو مجھے اپنا زمانہ بھی یاد آیا، میں نے بھی اسی مدرسے سے اپنے تعلیمی سفر کا آغاز کیا تھا، مدرسے کے زیر اہتمام درجہ پانچویں تک پرائمری کا انتظام ہے، جس سے فارغ ہونے کے بعد میرے والد محترم نے میری خواہش پر اخیر سال میں درجہ اعدادیہ میں داخلہ کرادیا تھا، اعدادیہ کا سال تو یوں ہی گزر گیا لیکن جب میں عربی اول میں داخل ہوا تو بنیادی طور پر کمزور ہونے کی وجہ سے اساتذہ کی سختی برداشت نہ کرسکا، کچھ تو گاؤں میں دوستوں کا ماحول الگ تھا اور کچھ فطری سستی، آخر میرا یہ سفر دو مہینے سے آگے نہ بڑھ سکا اور چار مہینے کے کود پھاند اور پکڑ دھکڑ کے بعد مجھے جامع العلوم کانپور بھیج دیا گیا۔

میں انہیں یادوں میں گم تھا، بارش کی موسیقی مسلسل تیز سے تیز تر ہوتی رہی، طلباء کی حاضری مکمل ہوچکی تھی، میں بارش کی رم جھم سے لطف اندوز ہورہا تھا تبھی ایک طالب علم نے مجھے اپنی طرف متوجہ کیا علیک سلیک کے بعد میری ٹوپی کے متعلق سوال کرنے لگا۔ میں نے اسے بتایا کہ یہ لکھنؤ میں ملی، لکھنؤ کے نام پر پوچھنے لگے کیا کرتے ھیں تو میں بتایا b.u.m.s کرتا ہوں، اس پر انہیں تشفی نہ ہوئی تو میں نے بتایا ڈاکٹری حکیمی والاـ۔ داڑھی اور عمر کے حساب سے مجھے لگا کہ خامسہ یا عالیہ اولی کے طالب علم ہونگے، اس کے باوجود اپنی فطری جستجو سے مجبور ان سے پوچھ لیا۔یہاں کس درجے میں ہیں؟ کہنے لگے عربی اول، میں نے پوچھا اس سے پہلے حفظ کیاہے؟ کہنے لگے ہاں دو سال پہلے مکمل ہوا ہے، میں نے مزید پوچھا حفظ کب شروع کیا؟  کہنے لگے ۲۰۱۲ میں۔ میں نے سوچا حفظ تو چار سال میں مکمل کرلیا یعنی ذہین طالب علم ہیں، میں نے لگے ہاتھوں عمر بھی پوچھ لی، بتایا کہ ۱۷ سال ہوچکے ہیں، میں سوچنے لگا ۱۷ سال +۹ سال یعنی کل ۲۶ سال میں فراغت ہوسکے گی تو بھلا یہ آگے کیا کرسکیں گے؟ میں نے پوچھا فارم میں عمر کیا لکھا ہے آپ نے؟ کہنے لگے ۱۴ سال،  میں نے مشورہ دیا، اچھی بات ہے، لیکن اگر ایک آدھ سال اور کم کرالیں تو اچھا رہے گا، آگے کی تعلیم کے سلسلے میں آسانی ہوگی۔اس دوران میں سوچنے لگا کہ مسلمانوں کے یہاں عمر کے مطابق تعلیم کی پلاننگ کیوں نہیں کی جاتی؟  اسکولوں کالجوں میں تو ایک حد تک اس کی پرواہ ہے، لیکن مدارس میں اس کی فکر بالکل بھی نہیں۔شروع شروع میں والدین بچوں کا وقت پرائمری اسکولوں میں ضائع کرواتے ہیں پھر ایک عمر گزرنے کے بعد اسے حفظ میں داخلہ دلاتے ہیں۔ حفظ مکمل ہوتے ہوتے ۱۵/۱۶ سال بیت چکے ہوتے ہیں، اب اگر وہ طالب علم ندوہ جیسے عظیم الشان ادارے (جہاں قدیم صالح و جدید نافع کا ڈھونگ مچایا گیاہے) میں داخلہ لیتاہے تو  ۹ سال مزید لگانے کے بعد سرکاری طور پر جاہل اور ان پڑھ ہی رہتا ہے،  اور یونیورسٹی کے (بعض شعبوں کو چھوڑ کر) سارے دروازے بند ہوچکے ہوتے ہیں، گنی چنی یونیورسٹیوں میں سے کئی یونیورسٹیوں میں تو عمر کی زیادتی کے سبب بی اے میں بھی داخلہ ممکن نہیں ہوپاتا۔

اس طالب علم سے مزید بات چیت کرنے پر معلوم ہوا کہ محترم پہلے درس نظامی کے درجہ فارسی میں ایک سال لگا چکے ہیں،میں نے سوال کیا، چھوڑنے کی وجہ کیا تھی؟ کہنے لگے لوگوں نے مشورہ دیا کہ ندوہ کی شاخ میں چلے جاؤ. کچھ انگریزی بھی آجائے گی، مجھے ان کی معصومیت پر تعجب بھی ہوا ،ھنسی بھی آئی اور افسوس بھی ہو۔  آج بھی لوگ ندوے کو قدیم ندوے کی طرح دیکھتے ہیںلیکن وہاں موجود مستقبل کے سوداگروں نے کیا سے کیا حال بنادیا ہے۔ میں نے اُن کو مشورہ دیا کہ اگر آپ فراغت کے بعد اعلی تعلیم کے خواب دیکھ رہے ہیں تو اس سال تو یہاں مکمل کرلیجئے لیکن اگلے سال کسی ایسے ادارے کا رخ کریے گا جہاں فراغت جلدی ہوجاتی ہو اور اس کی ڈگری کی اہمیت بھی ہو. جسیے جامعة الفلاح ۔ یہاں ۶ سال میں طلباء کو فارغ کردیا جاتا ہے، جس کو آگے فضیلت کرنی ہو وہ دو سال مزید لگاکر آٹھ سال میں فاضل ہوسکتا ہے یا پھر ایک سال دیوبند میں دورہ حدیث کرکے فضیلت کی ڈگری حاصل کرسکتا ہے۔ بات چیت کے بیچ بارش مسلسل تیز ہی رہی اور اس سے چھن چھن کی آوازیں بہت خوشگوار معلوم ہورہی تھیں ،مغرب کی نماز میں ابھی دیر تھی لہذا وہ سوچ میں ڈوبے اٹھ گئے ۔ اب میں پھر تنہا بیٹھا رہ گیا۔پھر باہر کے ماحول پر نظر پڑی۔چھوٹے چھوٹے مدرسے میں رہنے والے بچے ماں باپ سے دور مسجد میں اچھل کود مچا رہے تھے۔ کوئی کسی کا ہاتھ پکڑے گھسیٹ رہا تھا تو کوئی کسی کا پیر۔ اس کے ساتھ ہی کچھ بچے مدرسے کے آنگن میں اور کچھ بچے مسجد کے سنگ مرمری فرش پر لوٹ پوٹ ہوکر مسلسل بارش کا لطف لے رہے تھے۔ اس حسین منظر میں بھی میرے منفی ذہن نے اپنے مطلب کی چیز تلاش لی۔ سوچنے لگا اگر یہ بچے اپنے گھر پر اپنے والدین کے بیچ اتنی بے فکری سے مسلسل نہاتے رہتے تو کیا ان کو ان کی طبیعت کی فکر نہ ہوتی، کہ کہیں میرا بچہ بیمار نہ پڑ جائے، اسے بخار نہ ہوجائے؟ لیکن یہاں ان سب باتوں کا کہاں گزر ۔ یہ مدرسہ ہے،ایک یتیم خانہ ، یا یوں کہہ لیں اولڈ ایج ہوم کی طرح یہ بھی ایک چائلڈ ایج ہوم ہے  ۔ جیسے اولڈ ایج ہوم میں موت کے دن گنے جاتے ہیں بالکل اسی طرح یہاںبھی کوئی پرسان حال نہیں ہوتا۔ ایک مرتبہ مدرسے میں والدین چھوڑ گئے تو ان کو بس فراغت کے بعد ہی بچے کی فکر ہوتیہے،  یا پھر ممکن ہے  کہ میری سوچ سخت ہو۔

بیٹھے بیٹھے میں نے کچھ بوریت محسوس کی تو اٹھ کر ستون سے ٹیک لگالیا پھر آگے دیکھتا ہوں اساتذہ کے لئے جو قدیم رہائشی کمرے تھے، شاید ان میں اب بھی کچھ اساتذہ رہتے ہیں،  دیکھتا ہوںوہاں  بارش کی کثرت کی وجہ سے ایک بالشت پانی بھر گیا ہے  اور شاید اندر موجود استاد باہر آنے کی سوچ رہے ہیں تو چھوٹے چھوٹے طالب علم ان کی حالت پر اکٹھے ہوکر مسکرا رہے ہیں۔  میں سوچنے لگا اس قوم کا کیا ہوگا جہاں ایک معلم تمام تر دشواریوں کو جھیلتا ہوا کم تنخواہ پر راضی پیٹ پر پتھر باندھ کر قوم کی تعمیر میں لگاہے اور اس کی رہائش گاہ میں ایک بالشت پانی ہے  ۔ کیا ہمیں اتنی توفیق بھی نہیں کہ ان کے لئے نئی رہائش گاہ کا انتظام کرسکیں۔کہنے کو تو دو منزلہ دارالاقامہ اور عالی شان مسجد موجود ہے، لیکن شاید اس میں ان کے لئے جگہ نہیں۔اس کے علاوہ ایک اور سوچ نے سر ابھارا کہ آخر کیا وجہ ہے کہ اساتذہ اور قائدین کے تمام اخلاص کے باوجود ہمارا حال بد سے بدتر کی طرف بڑھ رہاہے۔ کہیں تو کچھ کمی ہے ، کہیں تو کچھ خلا ء ہے، جس کو ہماری ظاہر ی آنکھیں نہیں دیکھ پارہی ہیں۔  یا تو ہماری فکر میں کمی ہے یا پھر ہمارا نظام تعلیم مکمل نہیں ہے۔

دارالاقامہ، وضو خانہ اور واش روم الگ الگ ہیں۔ جب بارش کا زور کچھ کم ہوا تو دیکھتا ہوں کہ کچھ طلباء اساتذہ کے حکم پر یا خدمت کے جذبے سے بچوں اور اساتذہ کے لئے وضو خانے اور واشروم تک جانے کے لئے دو دو اینٹوں سے راستہ بنارہے ھیں۔ گاؤں کے لوگ خوشحال ہیں، علاقے میں مسجدوں کی کثرت ہورہی ہے، تقریبا ہر گھر کا ایک فرد  بیرون ممالک میں پیسے جوڑ رہا ہے  اور اپنے بچوں کی تعلیمی تباہی سے بے خبر ہے۔ میری عمر کے بچے نشے میں لت پت ہیں، بڑے بزرگ یوں تو جماعت کے واقعات سن کر دیندار بن جاتے ہیںلیکن مسجد کے امام کے ساتھ ان کی پٹھانیت اور ہم چوں دیگرے نیست عروج پر ہے۔ قوم بے حال ہے اور ہم بے فکر۔ یہ حال صرف میرے گاؤں یا مدرسے کا ہی نہیں بلکہ یہ کہانی ہر اس مدرسے کی ہے جو دیہات میں واقع ہے  اور جس کے پاس وسائل کی کمی ہے۔  مغرب کا وقت ہوا وضو کیا مسجد آیا دیکھتا ہوں کچھ طلباء مغرب کی اذان سے قبل دعاؤں میں مشغول ہیں، مجھے وہ دن یاد آگئے جب کبھی دوران طالب علمی مجھ پر بزرگی کا دورہ پڑا تھا اور وقت مغرب میں بھی مسجد میں ہوتا تھا۔  نماز کے بعد بارش جاری رہی تھوڑی دیر بیٹھا، دیکھتا ہوں کہ وہی پرانی یادیں پھر میرے سر پر سوارہے، عربی کے طلباء الگ الگ مجلسوں میں بیٹھے ہیں، اسی طرح حفظ کے طلباء اپنے اپنے استاد کی نگرانی میں سبق یاد کرنے کے لئے حلقہ بنا چکے ہیں اور بالکل درمیان میں مہتمم صاحب اپنے قدیم رعب وداب کے ساتھ جلوہ افروز ہیں۔ میں ستون سے ٹیک لگائے بیٹھا قرآنی آیتوں کا تکرار سنتا رہا۔ کتنا سحرانگیز تھا یہ منظر، بارش کی رم جھم اور قرآنی آیات کا ربط کسی بھی انسان کے دل کو تڑپا دینے کے لئے کافی تھے۔

تبصرے بند ہیں۔