جسے ہم بگاڑ سمجھتے ہیں وہ دراصل بڑی نعمت ہے!

کچھ ہٹ کر سوچنے اور کرنے سے ہی دنیا میں نئے نئے انکشافات ہوتے ہیں اور یہ انکشافات انسانوں کے لیے بڑی نعمت ہیں۔ روایتی انداز میں سوچنے اور زندگی گذارنے والوں سے اس بات کی امید کم ہی کی جاسکتی ہے کہ وہ دنیا کو کچھ نیا دیں گے۔ حاصل شدہ ایجادات کا استعمال ہی کرلیں تو غنیمت ہے۔ اب مسئلہ یہ ہے کہ ایجادات و انکشافات کو تو انسان بڑھ کر ہاتھوں ہاتھ لیتا ہے لیکن ہٹ کر سوچنے اور کرنے والوں کی قدر نہیں کرتا۔ قدر کرنا تو دور کی بات سماجی ڈھانچہ ایسا کرنے والوں کو کسی صورت برداشت کرنا نہیں چاہتا اور انہیں حاشیوں پر لا کرچھوڑ دیتا ہے۔

اسکولوں سے ایسے بچوں کو نکال دیا جاتا ہے یا انہیں بری نگاہ سے دیکھ کر ان کی حوصلہ شکنی ہوتی ہے اور وقت گذرتے وہ یا تو خود کو روایتی بنا لیتے ہیں یا اپنے آپ کو تعلیم کے لائق نہ سمجھ کر دھیرے دھیرے اسکول اور تعلیم سے دور ہونے لگتے ہیں اور ایک دن خیرآباد کہہ جاتے ہیں۔
اب تعلیم سے دوری ان کے مواقع کو محدود کردیتی ہے اور جہالت راستے میں دیوار بن کر کھڑی ہوجاتی ہے۔

دراصل کچھ ہٹ کر کرنے اور سوچنے کے لیے بہت ساری صفات درکار ہوتی ہیں؛ خطرہ مول لینے کی ہمت، خطروں کا سامنہ کرنے کی جرات، غیر متوقع نتائج کی صورت میں قوت برداشت، ناکامی کی صورت میں استقلال، تنقیدوں پر کان نہ دھرنے کی صلاحیت، کامیابی حاصل کرنے اور کچھ بڑا اور ہٹ کر کر گذرنے کا جنون، بھیڑ بن کر جینے سے بے اطمینانی، وغیرہ۔

اگر ہم اس بات پر غور کریں کہ کیا محرکات ہوتے ہیں جو تعلیم کے ابتدائی ایام میں بچوں کو اس بات پر اکساتے ہیں کہ وہ اسکول کی دیوار کود کر کھیلنے، گھومنے اور شرارتیں کرنے نکل جائیں۔ دراصل بچوں کو ابتدائی دنوں میں تعلیم بہت بور کرتی ہے، وہ ایک ہی لفظ کو بیٹھ کر دھرانا نہیں چاہتے، انہیں یہ کام فضول لگتا ہے، انہیں لگتا ہے کہ اس سے اچھا کام یہ ہے کہ ہم گھومیں ، پھریں، کھیلیں کو دیں اور آزاد رہیں۔
ایسا کم و بیش تمام ہی بچے سوچتے ہیں لیکن ان میں کچھ ہی ہوتے ہیں جو کر گزرتے ہیں اور ان بچوں کا ایسا کر گذرنا ان کے اندر چھپی بیش بہا صفات کا اعلان ہوتا ہے۔ ایسا نہیں کہ بچے کو اس راہ کی رکاوٹیں، خطرات اور برے نتائج کا اندازہ نہیں ہوتا، خوب ہوتا ہے لیکن اس کے باوجود وہ کر گزرتے ہیں۔ انہیں معلوم ہوتا ہے کہ دیوار اونچی ہے اور کودنا مشکل لیکن وہ راستے تلاش کر لیتے ہیں اور یہ ان کی تخلیقی صفت ہوتی ہے، انہیں معلوم ہوتا ہے کہ دیوار سے گر جانے پر چوٹ لگ سکتی ہے اور پکڑے جانے پر سزا مل سکتی ہے لیکن ان کی صفت جرات و ہمت انہیں ایسا کر گزرنے پر آمادہ کرتی ہے، انہیں معلوم ہوتا ہے کہ ہمیں اسکول میں برا بچہ سمجھا جانے لگے گا لیکن بے بنیاد تنقید ان کی راہ کی رکاوٹ نہیں بنتیں اور یہ ان کی کمال کی صفت بے نیازی ہوتی ہے، تعلیم انہیں ایک کار بے سود محسوس ہوتا ہے اور وہ اس کام میں اپنا قیمتی وقت برباد نہیں کرنے کا فیصلہ کرتے ہیں اور یہ ان کے اندر فیصلہ کرلینے کی صفت کا نتیجہ ہوتا ہے۔ ان جیسی نہ جانے کتنی صفات کا مجموعہ ایک بچے کو اسکول کی دیوار کودنے پر آمادہ کرتا ہے اور ہم ایک پل میں اسے بگڑا ہوا کہہ کر اس کی تمام صفات پر پردہ ڈال دیتے ہیں اور اسے ایک دیوار کی طرف ڈھکیلتے چلے جاتے ہیں حتی کہ اس کے پاس اپنی صلاحیتوں کے مظاہرہ کا کوئی موقع نہیں بچتا۔ جبکہ اگر ہم ایسے بچوں کی قدر کریں اور انہیں ان کے معیار کے مطابق ذرائع استعمال کرکے سمت دے دیں تو اسکول کی دیوار کودنے والے بچے اسکول کے سب سے قیمتی بچےہوسکتے ہیں۔

چلتی پھرتی سڑک پر ایک نوجوان اچانک اپنی موٹر سائیکل کا پہیہ ہوا میں اٹھا لیتا ہے۔ آس پاس سے گذرتے لوگ بغیر سوچے سمجھے اسے برا بھلا کہہ کر گذر جاتے ہیں اور یہ گمان کیا جاتا ہے کہ یہ کوئی بگڑا ہوا آوارہ لڑکا ہے جس کے پاس زندگی میں کوئی اور کام نہیں ہے۔ دراصل وہ نوجوان بے پناہ تعریفوں کا حق دار ہوتا ہے، ایک بہت کم یاب جنون ہوتا ہے جو اس نوجوان کے اندر موجود ہے، گہری مشق کے بعد اسے وہ فن حاصل ہوا اور مشق کے دوران اس نے نہ جانے کتنے خطرات مول لیے، کتنی محنت کی، کتنی لگن دکھائی، اور کتنی بار گر گر کر کھڑا ہوا، کتنی چوٹیں کھائیں، کتنی بار مایوسی کو دھتکار کر بھگایا۔ یہ سب کچھ اس نے اس لیے کیا کہ وہ کچھ ہٹ کر کرنا چاہتا تھا، وہ کچھ ایسا کرنا چاہتا تھا جو دوسرے نہ کرسکیں، وہ بھیڑ بن کر نہیں رہنا چاہتا تھا۔

اس طرح کے بچوں اور نوجوانوں کی قدر ہمیں بڑے انکشافات سے نواز سکتی ہے اگر ہم ان کی قدر کرنا سیکھ جائیں اور ان پر اپنے فیصلے تھوپ کر انہیں حاشیوں پر رکھنا چھوڑ دیں۔ اگر ہم خود ہٹ کر کچھ نہیں کرسکتے تو کم از کم کرنے والوں کے لیے رکاوٹ نہ بنیں۔

۔ صلاح الدین ایوب
۲۳ مئی

تبصرے بند ہیں۔