محبت کے جھانسے سے کیسے بچا اور بچایا جائے

ابوزنیرہ احمد

محبت ایک جذبہ اور احساس ہے جو مطلوب اور غیر مطلوب ہوسکتا ھے، ناکہ صرف وہ مطلوب اور غیر مطلوب ہو بلکہ اسکے اظہار کا طریقہ بھی  صحیح اور غلط ہوسکتا ہے۔ محبت مطلوبہ ضروری ھے بلکہ بعض صورتوں میں فرض ہوتی ھے جیسے اللہ سے، رسول اللہ ﷺ سے، اصحاب رسول ﷺ سے، اولیاء اللہ سے  والدین سے، اہل خانہ سے اور اس بڑھ کر بحثیت انسان دوسرے انسانوں سے۔
دوسری محبت غیرمطلوب ھے بلکہ بعض صورتوں میں مغضوب بھی ہے، جیسے آج کل اسکولوں، کالجوں اور آفسیس میں ہورہا ھے۔آج ہم اسی محبت غیرمطلوبہ پر بات کریں گے۔

محبت کی اس مذموم صورت کی وجہ سے آج جو آفت پوری دنیا میں برپا ہویئ ہے اسسے ہر کویئ واقف ھے نہ جانے کتنے گھر اس آفت کا شکار ہوے۔ نہ جانے کتنی خودکشیاں کی گئ، اور کتنے قتل صرف محبت کے نام پر ہوے۔کئ لڑکیاں اپنی تعلیم بھی اسی چکر میں چھوڑ بھیٹتی ہیں یا  چھوڑوا دی جاتی ہیں ۔بلکہ ہندوستان جیسے ملک میں جہاں مسلمان اقلیت میں ھیں وہاں جب کبھی کوئ مسلمان لڑکا کسی غیر مسلم لڑکی سے محبت کر بیٹھتا ھے تواس کی سزا پوری قوم کو دیجاتی ھے اور فسادات کا ایک سلسلہ شروع ہوجاتا ھے۔
محبت کی یہ شکل نوعمری میں شروع یوتی ھے۔ اکثر اسکولس یا کوچنگ کلاسس میں یہ سلسلہ شروع ہوتا ھے۔ اور محبت کے نام پر جنسی خواہشات پوری کی جاتی ھے۔ پہلے تو یہ مرض صرف کنواروں اور نوعمروں میں اپنا اثر رکھتا تھا لیکن افسوس سے یہ بات کہنی پڑھتی ہے کہ اب یہ مرض پوختہ عمر بلکہ شادی شدہ حضرات میں بھی پایا جانے لگا ھے؛ بلکہ اب تو شادی شدہ حضرات کی محفل میں یہ مضوع تو زبان زد ہوچاکا ھے۔

اگر ہم اس مرض کے اسباب پر غور کریں تو کئ ایک وجوہات ہمارے سامنے آتیں ہیں ۔ سب سے بڑی اور (۱) وجہ فلمیں ہیں ، فلمیں چاہیں ہالیوڈ کی ہو بالیوڈ کی پوری میوی محبت وعشق کے گرد گھمتی نظر آتی ھے۔ فلموں کے دلکش مناظر، دل موہ لینے والے نغمیں، ہیرو کا بیباک اور سوپرمین والا کردار، ہیروئین کی انتہا کو پہنچہی ہوئی خوبصورتی۔ایک ۱۵۔۱۶ سالہ لڑکے لڑکی کو اتنا متاثر کردیتی ہیں کہ لڑکے خود کو ہیرو سمجھنے لگتے ھیں اسی طرح لڑکیاں بھی خود کو ہیروئین سے کم تصور کرنے تیار نہیں ہوتی۔ظاہر سی بات ھے کہ ہر ہیرو بنا ہیروئین کے اور ہیروئین بنا ہیرو کے کیسی ہوسکتی ھے۔ اب یہ نوعمر نیم پوختہ ذہن کے لڑکے لڑکیاں اپنے ہیرو اور ہیروئین کی تلاش میں پریشان رہتے ہیں ۔اور جو کوئی بھی ان سے ذرا ہمدردی سے بات کرلیتاھے یا محبت کا اظہار کر بیٹھے یہ فوراً اس کے جال میں پھنس جاتے ہیں۔

(۲) احساس کمتری کا شکار بچے۔ جو بچے گھر میں توجہ سے محروم ہوتے ہیں ۔ایسے احساس کمتری میں مبتلہ بچے محبت کی تلاش میں کسی کے بھی ہاتھوں کا کھلونا بن جاتے ہیں ۔اور اپنی عزت اور بعض حالات میں جان دونوں گنوا بیٹھتے ہیں۔

(۳) حد سے زیادہ لاڈ پیار سے پلے بچے:۔ ایسے بچے چونکہ ہر وقت توجہ کا مرکز رہتے ہیں، انہیں لگتا ھے ایسا کیسا ہوسکتا ہے کہ مجھے کویئ لڑکا یا لڑکی پیار نہ کریں اور اپنی نفس کی انا کی تسکین کے لیے وہ اس کنوائیں میں گرجاتے ہیں۔

(۴)ماں باپ کا اپنے بچوں کے بارے میں تعریف کا غلط انداز:۔اکثر ماں باپ اپنے بچوں کی تعریف کرتے وقت لاشعوری طور پر ایسے جملے ادا کرجاتے ہیں جن کے اثرات کا احساس بھی ان لوگوں کو نہیں ہوپاتا۔جیسے بیٹے یا بیٹی کی خوبصورتی کی تعریف کرتے وقت انھیں فلمیں اداکاروں سے تشبیہ دینا۔اپنے بیٹت کو کہنا کے تم تو بلکل شاہ روخ خان دیکھتے ہو یا بیٹی کے لیے بھی اس طرح کے جملے کہنا۔ اب جب آپ اپنے بچوں میں ایسے کردار ڈھونڈوگے تو ہونا وہی ھے جس کا بعد میں شکوہ کرتے ہیں اور روتے ہیں۔

(۵) بچوں کے سامنے اپنے ماضی کے قصہ بیان کرنا:۔ کئی ماں باپ اپنے بچوں کے سامنے اپنے ماضی کے گناہوں کو بڑے فخر سے بیان کرتے ہیں اپنے عاشقی کے قصے یوں بیان کرتے ہیں جیسے کوئی نیکی ھو جس کا بیان کرنا ان پر فرض ہو۔

(۶) بری صحبت :۔ بری صحبت کی وجہ سے بھی کئی بچے بچیاں بگڑ جاتے ہیں ۔جب وہ دیکھتے ہیں کہ انکے دوستوں کی تو گرل فرینڈس ہیں اور انکی نہیں تو انہیں بھی یہ شوق ہوتا ھے اور رہی سہی کثر دوست پوری کردیتے ہیں ۔

(۷)رومانوی ناولوں کا مطالعہ:۔چاہے انگلش ناولس ہو یا اردو اکثریت ان ناولوں کی رومانوی ادب کو فروغ دیتی ہے۔ اور اردو ادب میں تو یہ ظلم ہوا کہ ہمارے دینی ناول بھی اسی کا حصہ ہوگئے نسیم حجازی ہو یا عنایت اللہ التماش سب کی ناولس میں تھوڑا بھت لیکن رومانس کا تڑکا ضرور لگایا گیا۔حتی کہ یوسف اور زلیخا کے قصے ہمارے یہاں ثواب کی نیت سے پڑھے گئے۔ایسے ناولس کی وجہ سے اچھے خاصے صالح ذہں کے لوگ بھی ان چکروں میں پڑ گئےٴ۔

(۸) سوشل میڈیا:۔ دور جدید میں اسسے جتنے شر برآمد ہوے ہیں اسکے خیر سے بہت زیادہ ھیں ۔ فیس بک ہو، واٹس اپ ہو یا کوئی اور سوشل نیٹورک انسان شروع نیک نیتی سے کرتا ھے لیکن آگے جاکر وہ انھیں چیزوں میں ملوس ہوجاتا ھے۔ جن کے خلاف وہ ایک زمانے تک بولتا اور لکھتا رہا ہو۔سوشل میڈیا نے تو ایسی محفوظ پناہ گاہ میسر کی ھے کہ اب یہ معاملات جلد کھولتے ہی نہیں ،اور اگر کھول بھی گئے، تو بڑی تاخیر سے جب سب کچھ لوٹ چکا ہوتا ھے۔

مندرجہ بالا وجوہات کے علاوہ بھی کئی باتیں ہوسکتی ھیں ۔ لیکن مذکورہ باتیں ہی اس فساد اور بیماری کی اصل جڑیں ہیں ۔
اللہ نے جس طرح ہر مرض کا علاج اور ہر فساد کا سدباب رکھا ھے، اسی طرح اس فساد کے سدباب کے لیے کئی ایک گائیڈ لائن بھی ہمیں بتائی ہیں۔

(۱) ٹی وی کا کم سے کم استعمال : اگر ہمیں اپنی نسلوں کو اس فتنہ سے بچانا ہے تو اپنے گھروں میں ٹی وی کے استعمال کو محدود کرنا ہوگا اور اگر ممکن ہوسکے تو ٹی وی کا مکمل بائیکاٹ کیا جائے۔ بعض لوگوں کو یہ کہتے سنا گیا ھے کہ ہم ٹی وی صرف نیوز کے لیے استعمال کرتے ہیں لیکن یہ بھی ایک فریب سے کم نہیں ۔ نیوز کو جاننے کے لیے آج بھی سب سے بہترین اور معتمد ذریعہ اخبارات ھیں ۔ اخبارات کا ایک فائدہ یہ بھی ھے کہ بچوں میں مطالعہ کا شوق بڑھتا ھے۔

(۲) فلموں اور رومانوی ڈراموں سے بچوں کو دور رکھا جاے اور ان کی قباحتوں کو بچوں کو بتایا جائے۔جب تک ہم ان فلموں اور ڈراموں کے بارے میں اپنے بچوں کو نہیں بتائیں گے وہ اس کے سحر میں مبتلاء رہیں گے۔ متبادل کے طور پر انکے لیے اچھی ڈوکیمینٹری فلمیں اور اسلامی ڈراموں کو پیش کیجایئے تاکہ انھیں صالح تفریح میسر آسکے۔

(۳) موبائل اور سوشل میڈیا: والدین اپنے بچوں کے موبائل، لیپ ٹاپ اور کمپیوٹر پر نظر رکھیں ۔ انھیں اسکے نقصانات آگاہ کریں ۔ انکی فرینڈ لسٹ پر نظر رکھیں ۔ بچوں کو تنھائی میں ان چیزوں کے استعمال سے روکے۔

(۴) بچوں کی صحیح تربیت: بچوں کو نا احساس کمتری میں مبتلاء کریں اور ناہی انھیں متکبر بنائیں ، بلکہ جہاں اسے محبت اور پیار کریں وہیں اس کی غلطیوں پر اسکی سرزنش بھی کی جایے اس توازن کو برقرار رکھنا بھت ضروری ھے۔ انکی تعریف کرتے وقت الفاظ کا محتاط استعمال کیا جایے۔ اسی طرح تنقید کرتے وقت بھی زبان پر مکمل قابو رکھا جائے۔

(۵) سیر اور تفریح : بچوں کو والدین خود سیر اور تفریح پر لے جایا کریں ۔سیر اور تفریح سے بچے خوش ہوتے ہیں اور ان کا ذہن خرافات کی جانب سے ہٹ جاتا ھے۔والدین کو بھی اپنے بچوں کے ساتھ وقت گزارنے کا موقع مل جاتا ھے جو اس مشینی دور میں غنیمت ہے۔سیر اور تفریح کے ذریعے ہم اپنے بچوں کو اللہ کی نشانیوں میں تدبر اور تفکر کی دعوت دیے سکتے ہیں اور انکے ذہن کو نیکی کے کاموں میں مصروف کراسکتے ہیں ۔جب انھیں اپنے والدین اور بھائی بہنوں کے ساتھ ہی پکنک کا ماحول میسرآئے گا تو ان کا پارٹیز اور آوٹینگ کی طرف ذہن نہیں جاپائیگا۔

(۶) مسجد سے نسبت: مسجد پورے روئے زمین پر سب سے محفوظ اور مامون جگہ ھے، جہاں سب سے بہتر طریقہ سے کسی کی تربیت جاسکتی ھے۔امریکہ اور یورپ میں کئی مساجد کے بارے میں یہ پڑھا کہ وہاں سنڈے کلاسس اور اسی طرح دوسرے دنوں میں بھی خصوصاً نوجوانوں کے لیے اسلامک گیڈرینگ منعقد کی جاتی ہے۔ ایسی محفلوں سے بچوں کو اچھے اور صالح دوست میسر آتے ہیں ۔افسوس کہ ہمارے یہاں ناکہ لڑکیوں کے لیے بلکہ لڑکوں کے لیے بھی اس قسم کا کوئی انتظام مسجدوں میں نظر نہیں آتا۔اگر ہمیں اپنی نسلوں کو کلبس اور سنیما گھروں سے بچانا ھے تو ہمیں اپنے بچوں کو مسجدون سے مانوس کرانا ہوگا۔

(۷) صالح لٹریچر:۔ رومانوی لٹریچر کے برخلاف ہمیں ایک صالح لٹریچر اپنے بچوں کو دینا ہوگا۔الحمد اللہ اب اردو میں ایسا لٹریچر کافی تعداد میں میسر ھے۔ وقت کی ضرورت ھے کہ انگریزی میں بھی ہم ایسا لٹریچر فراہم کریں ۔ایک اسے لٹریچر کی ضرورت ھے جس سے ایک صالح معاشرہ وجودمیں آئے۔ اوران میں سب سے اہم قرآن سے اپنے بچوں کا تعلق کاجوڑنا ھے۔ انھیں قرآنیں حلقوں میں لیکر جائیں ، قرآنی تفاسیر پڑھنے کی رغبت دلائیں ۔احادیث کے تراجم اپنے گھروں میں رکھے اور وقتاً فوقتاً انسے ریفرنس منگتے رہیں۔

(۸) مفتی اور دوست بننے کی کوشش نہ کریں :۔ اکثر والدین یا تو مفتی ہوتے ہیں یا پھر دوست۔مفتی والدین ہمیشہ بچوں کو فتوؤں کی زد میں رکھتے ہیں۔ مسلسل تنقیندی جملوں اور فتوؤں سے بچے بیزار ہوجاتے ہیں ۔ دوسری طرف کچھ ماں باپ اپنے بچوں کے دوست بننے کی کوشش کرتے ہیں اور یہ نظریہ بھی ہم نے مغرب سے مستعار لیا ہے۔اس نظریہ کا نتیجہ یہ ہوتا ھے کہ اولاد اپنے والدین کی عزت نہیں کرتے بلکہ بڑی سے بڑی بیہودگی بھی کرجاتے ہیں اور کہتے ہم تو دوستوں کی طرح رہتے ہیں ۔اسلام والدین کو مربی کی صورت دیکھنا چاہتا ھے۔ انبیاء کی ساری زندگی اس پر دلیل ہے۔ایک مربی جس طرح اپنے ماتحت کی تربیت اور رہنمائی کرتا ھے اسی طرح ماں باپ کا بھی فرض ھے کہ وہ اپنے بچوں کی تربیت کرے انذار اور تبشیر کے مابین انداز تربیت کو رکھے۔اسی لیے ہمارے یہاں یہ قول مشہور ھے کہ ماں کی گود بچے کا پہلا مدرسہ ھے۔ مدرس مربی ہی تو ھوتا ھے۔ ہر ماں کو اپنے بچے کے لیے مدرس و مربی ہونا چاہیے نہ کہ دوست یا ناقد۔

ان چند گزارشات کے ساتھ میں اپنی تحریر کو یہیں سمیٹتا ہوں ۔امید ہے اہل علم میری غلطیوں پر میری اصلاح فرمایئں گے۔

آخر میں دعا ھے کہ اللہ مجھے بھی بہتر والد بننے کی توفیق دے اور مجھے اور میری اولاد کو بھی صالح بنا (آمین)

1 تبصرہ
  1. آصف علی کہتے ہیں

    ‎لوگ کہتے ہیں کہ اسے مجھ سے محبت تھی لیکن وہ مجھے بھول گیا ہے .سراسر غلط کہتے ہیں,میں نہیں مانتا کہ ایک شخص آپ سے محبت بھی کرے اور آپ کو بھول بھی جائے ایسا نہیں ہو سکتا محبت کو بھی بهلا کوئی بھول سکتا ہے؟
    چلیں مان لیتے ہیں کہ وہی شخص جو آپ سے سارا دن ساری رات باتیں کیا کرتا تھا لیکن اب بات نہیں کرتا, وہی شخص جو آپ کو دیکھ کر جیتا تھا, وہی شخص آپ کو نظر انداز کر رہا ہے..مگر اس کے دل میں آپ کے لیے محبت ضرور ہو گی کبھی جو آپ کا نام سنے گا اس کے چہرے پر ایک رنگ سا ضرور آئے گا ,وہی تو رنگ ہوتا ہےمحبت کا _آپ کا نام سن کر اس کا دل ضرور دھڑکے گا آپ کو بس اپنا دکھ اپنا درد محسوس ہوتا ہے کبھی دوسروں کو اپنی جگہ رکھ کر دیکھیں یقین جانیے آپ اپنا دکھ بھول جائیں گے..جس شخص نے آپ سے محبت کی, کیا اسے دکھ نہیں ہوتا ہو گا آپ سے دور ہونے کا ؟کیا اسے آپ کی یاد نہیں آتی ہو گی؟ یقیناً آتی ہو گی..ارے صاحب محبت کبھی ختم نہیں ہوتی البتہ خاموش ضرور ہو جاتی ہے اور جتنی خاموش ہوتی جاتی ہے اتنی ہی گہری ہوتی جاتی ہے..!!!!!

تبصرے بند ہیں۔