ٹھٹھرتی رات میں کیوں سسک رہی ہے انسانیت؟

ذاکر حسین

جنوری شروع ہوتے دہلی سمیت پورا شمالی ہند زبردست ٹھنڈ، کہرااور دھند کی زد میں ہے۔ راجدھانی دہلی میں فٹ پاتھ پر اپنا آشیانا بناٍئے مزدور، رکشہ پُلر، ٹھیلے والوں کے علاوہ غربت کے سایے میں زندگی گذار رہے دیگرافراد شدید سرداور ٹھٹھرتی رات سے جنگ کرتے نظر آر ہے ہیں ۔فٹ پاتھ کی پتھریلی اور سخت زمینوں کو اپنا بستر بنائے غریب افراد کانپتے اورسرد ہوا سے مقابلہ کرتے ہوئے پوری رات گذار نے پر مجبور پر ہیں ۔غریبوں کی مسیحائی کا دعویٰٗ کرنے والے سیاست دانوں کے علاقوں میں غریب افراد فٹ پاتھ کی سخت اور سرد زمینوں پر ایک پتلا کمبل یا پھر ایک چادر لیکر نیند کی آغوش میں جانے کی کوشش کرتے ہیں ، لیکن ہوا کے سرد تھپیڑے اور سرد زمینیں ان کونیند کی آغوش میں منتقل ہونے کے بجائے ان کے اوپر مزید ظلم ڈھاتی ہیں ۔گزشتہ راتوں میں راقم ِ سطور کی تنظیم الفلاح فرنٹ کی ٹیم نے پرانی دہلی کے چاندنی چوک، فتح پوری، لال کنواں حوض قاضی، چائوڑی بازار، نئی سڑک، ٹائون حال اور دیگر کئی مقامات کا دورہ کر فٹ پاتھ کے آنچل میں اداس چہروں کے ساتھ سوئے مزدوروں سے تفصیلی گفتگو کی۔

اس موقع پر فتح پوری کے فٹ پاتھ پر اپنی خستہ حال چادر اور ایک پتلے کمبل میں دبکے غفار نامی شخص نے اپنے بارے میں حیرت انگیز انکشاف کرتے ہوئے فرنٹ کے کارکنان کو بتایا کہ انہوں نے اپنی زندگی کے35سال دہلی کے انہیں پتھریلے، سخت، گرمی میں گرم اور سردیوں میں سرد فٹ پاتھ کی پتھریلی زمینوں پر گذار دئے۔ وہ کہتے ہیں ’’ اب تو اس فٹ پاتھ کی عادت سی ہوگئی ہے اور یہی فٹ پاتھ میرا رفیق اور میری تکلیفوں کا معالج ہے‘ ‘۔موصوف کی عمر55،60کے درمیان ہے اور وہ اتر پردیش کے خورجہ علاقے کے رہنے والے ہیں اور دہلی میں رکشہ چلا کر اپنی زندگی کی گاڑی کھینچ رہے ہیں ۔ہماری دوسرے جس شخص سے ملاقات ہوئی، ان کا نام نیاز الدین تھا، اور بہت ہی بری حالت میں فٹ پاتھ پر کھڑے آنے جانے والوں کو ایک امید بھری نظر وں سے دیکھ رہے تھے۔ ہمارے پوچھنے پر انہوں نے بتایا کہ ان کے پاس سردی سے بچنے کیلئے کچھ بھی نہیں ہے۔

نیاز الدین پرانی دہلی کے بلیماران، فتح پوری اور کھاری بائولی کے اطراف میں ٹھیلہ چلاکرزندگی کی سخت اور خاردار راہوں پر گامزن ہیں ۔ چائوڑی بازار میٹرو اسٹیشن کے باہر سوئے ستر سالہ سیارام نے بتایا کہ وہ پرانی دہلی کے فٹ پاتھوں پر تقریباًچار سالوں سے رہ رہے ہیں اور کبھی کسی نے ان کاحال تک نہیں پوچھا۔پرانی دہلی کے فٹ پاتھ پر سردی سے نبرد آزماسبھی مزدروں نے ایک ہی بات کہی کہ حکومت کے ذریعے بنائے گئے رین بسیروں کا بہت برا حال ہے اور وہاں گندگی کی وجہ سے سونا مشکل ہے۔ حکومت غریبوں کیلئے بنائے گئے رین بسیرامیں بدنظمی کے خلاف کوئی ایکشن کیوں نہیں لے رہی ہے۔ یہ ایک بڑا سوال ہے۔ رین بسیروں کی بری حالت کی وجہ سے پرانی دہلی کے مختلف علاقوں میں مقیم زیادہ ترمزدور شدید سردی میں کھلی فضا میں سونے کیلئے مجبور ہیں ۔ایسا نہیں ہیکہ سردیوں میں اس طرح کے حالات صرف پرانی دہلی میں ہیں ، نہیں بالکل نہیں بلکہ ملک کے تمام بڑے شہروں کے فٹ پاتھ پر غریب افراد بھرے پڑے ہیں ۔

اگر ہم آج عالمی سطح پر نظر ڈالیں تو ہر جگہ غریب، امیر کے درمیان ایک ناانصافی اور نا برابری کی خلیج حائل ہے۔ اس معاملے میں ایسے ممالک سر فہرست ہیں جو جمہوری نظام کو تقویت پہنچانے اور مساوات پر عمل پیرا ہونے کا دعوی کرتے ہیں ۔ایسے ممالک کے بارے میں یہی کہا جا سکتا ہیکہ جمہوری نظام کے نفاذ کی بات کرنے والے افراد کہیں نہ کہیں جمہوری نظام کی آڑ میں سرمایادارنہ نظام کو تقویت پہنچا رہے ہیں ۔بیشک جمہوری نظام مساوات، انصاف، سب کے ساتھ یکساں سلوک اور تمام وسائل کی لوگوں کے درمیان منصفانہ تقسیم کی نظریے کی بات کرتاہے۔ لیکن افسوس آج جمہوریت کی جڑوں کو مضبوط کرنے کی بات کرنے والے غریبوں کا خون چو س کر سرمایاداروں کو قوت بخش رہے ہیں ۔اگر یہ سلسلہ ایسے ہی جاری رہا تو پوری دنیا میں امیر اور غریب کے درمیان جاری کش مکش ایک خطر ناک جنگ کی شکل اختیار کر سکتی ہے کیونکہ جہاں انصاف نہیں ہوتا وہاں بغاوت کا علم کب بلند ہو جائے کچھ کہا نہیں جا سکتاہے۔افسوس کی بات یہ ہیکہ مسلمان جن کو اس ناانصافی کے خلاف آواز  بلند کر کے اہلِ دنیا کومساوات کی پٹری پر لانے کی کوشش کرنی چاہئے تھی آج وہی مسلمان اس ناانصافی اور جمع خوروں کے ساتھی بنے ہوئے ہیں ۔

ملک کی موجودہ حالت دیکھکر اندازہ کیا جاسکتا ہیکہ ملک میں آج جمہوری نظام کس حد تک مضبوطی کی جانب گامزن ہے۔ آج ملک میں کروڑوں ایسے افراد ہیں جنہیں دو وقت کی روٹی میسر نہیں ہے اور ان کے پاس رہنے کیلئے گھر نہیں تو سردیوں سے بچنے کیلئے ایک آدھ کمبل کے علاوہ کچھ نہیں ہے تو وہیں دوسری جانب ملک کے سیاست داں ، فلم اداکاراورعام لوگ بھی جو امیرخود کو امیر دکھانے کی لاعلاج بیماری میں مبتلا ہیں وہ بھی اپنے اخراجات کے ذریعے غریبوں کی حق تلفی کے مر تکب ہو رہے ہیں ۔ اگر گزشتہ برسوں میں بین الوقوامی سطح پر شائع رپورٹ کی بات کریں تو سب کے ساتھ یکساں رویے کی بات کرنے والوں میں سر فہرست امریکہ غیر مساوی رویے کے معاملے میں سب سے آگے نظر آتا ہے۔ گزشتہ برس یعنی ۲۰۱۶میں آئی ایک رپورٹ کے مطابق دنیا کے نصف سے زیادہ دولت مند صرف امریکہ میں ہیں دولت مند ہی نہیں بلکہ دنیا کی نصف سے زیادہ دولت امریکی شہریوں کے پاس ہے۔ عجیب مضحکہ خیز صورتحال ہے۔

ایک طرف تو امریکہ اہل ِ دنیا کو مساوات کا پاٹھ پڑھاتا پھر رہا ہے تووہیں دوسری جانب خود غیر مساوی رویے کے ذریعے دنیا کے نصف سے زیادہ وسائل پر قبضہ کئے بیٹھاہے۔ یہ حقیقت ہیکہ جب تک دنیا کے وسائل کو برابر حصوں میں تقسیم پر عمل نہیں ہوگا تب تک دنیا میں تشدد، خون خرابہ جیسی صورتحال بنی رہے گی۔ بہرحال بات ہورہی تھی وطن عزیز کی، اگر ہم ملک کی موجودہ صورتحال پر نظر ڈالیں تو امریکہ جیسے حالات ہندوستان میں بھی ہیں ۔ ملک میں ایسے افراد کی تعداد کم نہیں ہے جو ملک کی تہائی دولت پر اپنا قبضہ جمائے بیٹھے ہیں ۔ ملک کی خستہ حالت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ آج ملک کے بڑے بڑے شہروں کے فٹ پاتھ پر ننگی پیٹھ، بھوکے پیٹ سونے والوں کی تعداد اتنی ہے جتنی ایک کم آبادی والے ملک کی آبادی۔

اب سوال یہ ہیکہ اگر ملک میں جگہ جگہ فٹ پاتھ پر انسانیت سسک رہی ہے تو اس کا ذمہ دار کون۔ ہم، آپ یا پھر کوئی اور ؟غور و فکر کیجئے اور جب تک اس آسان سے سوال کا جواب ملے۔ اپنے پاس کے فٹ پاتھ پر سرد رات اور فٹ پاتھ کی پتھریلی زمین سے نبرد آزما غریب کے جسم کو سردی سے راحت دلانے کیلئے اسے ایک کمبل کا ادنیٰ سا تحفہ پیش کرتے آیئے۔

تبصرے بند ہیں۔