بھارت بن رہاہے منھ کے کینسر کی راجدھانی 

مرزاعبدالقیوم ندوی

تمباکو، بیڑی، گٹکے کے استعمال سے 530نوجوان جاتے ہیں کینسر کے منھ میں ٹاٹا انسٹیٹیوٹ اور مرکزی وزارت صحت کے تحقیقات اور سنبدھ فاؤنڈیشن کے سروے میں آئے چونکانے والے اعداد و شمار۔

مہاراشٹر کے 26%.6فیصد لوگ تمباکو سے بنی مصنوعات کے ہیں عادی ۔ تمباکو، کھینی، گوٹکا، سیگریٹ، بیڑی جسم کے تمام ہی اعضاکو متاثر کرتے ہیں ۔ تمباکو کے استعمال سے ہونے والے امراض کے علاج پربھارت میں ہر سال خرچ ہوتاہے، ایک لاکھ ساڑھے چار ہزار کروڑ روپیے، (1,04,500) سرکارکو تمباکو سے حاصل ہونے والی آمدنی کے مقابلہ میں یہ خرچ نہایت ہی کم ہے۔

بھارت میں ہر سال 13.5لاکھ تمباکوسے لاحق بیماریوں سے مرتے ہیں ۔26.7کرو ڑبھارتی عوام تمباکوزدہ چیزوں کا استعمال کرتی ہیں ۔ 50%فیصد کینسر کے مریضوں میں سے منھ کے کینسر 90%فیصد لوگ ہیں ۔ روزانہ بھارت میں 5500بچے تمباکو، گٹکا، بیڑی، سگریٹ، کھینی کے عادی ہوتے ہیں ۔ کل کینسر کے مریضوں میں 50%مریض، یہ منھ کے کیسنر مریض ہوتے ہیں اور ان میں سے 90%فیصدی لوگ یہ تمباکو یا تمباکو سے بنی مصنوعات کی عادی ہونے کی وجہ سے حیرت انگیز انکشاف سامنے آیا ہے۔ افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ اتنے خطرناک بیماری کے تعلق سے عوام الناس میں صحیح بیداری نہیں ہوپارہی ہے اس طرح کی ہلاکر رکھ دینے والی حقیقت سامنے آرہی ہے۔

تمباکو سے بنی ہوئی مصنوعات کے عادی ہونے کی وجہ سے ہرسال 72000ہزارلوگ موت کے منھ میں چلے جاتے ہیں ۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ HIV249T.Bیا سڑک حادثوں میں جنتی اموات ہوتی ہیں اس سے کئی گنا زیادہ اموات تمباکو، بیڑی، سگریٹ، کھینی، زردہ، گوٹکے سے ہوتی ہیں ۔

مہاراشٹر کی کل آ بادی کا 26.6فیصدی حصہ، یعنی 2کروڑ 40لاکھ تمباکو یااس سے بننے والی مصنوعات کا استعمال کرتے ہیں ۔اس طرح کی رپورٹ سنبدھ فاؤنڈیشن نے ٹاٹا انسٹی ٹیوٹ شوسل سائنس اور مرکزی وزارت صحت کے تعاون سے 15سال سے زائد عمر والوں لوگوں کے سروے کے بعد سامنے آئی ہے۔

بری خبروں میں ایک صحت مند خبر یہ ہے کہ گزشتہ سالوں میں یعنی 2009-10میں اسی تنظیم کے سروے کے رو سے مہاراشٹر میں تمباکو استعمال کرنے والوں کی تعداد 31.4%تھی ۔اس میں اب پانچ فیصد کی کمی آئی ہے۔یہ تبدیلی اس وقت سے دیکھنے میں آرہی ہے جب سے تمباکو کی مصنوعات پر جلی حرفوں میں یہ لکھا آرہاہے کہ اس کے استعمال سے کینسر ہوتاہے۔ ایک اور خوش آئند بات یہ ہے کہ سیگریٹ پینے والوں میں سے 56.5فیصد اوربیڑی پینے والوں میں سے35.5فیصد ی لوگوں نے یہ بری عادت کو چھوڑنے کا من بنالیاہے او ر یہ تبدیلی واقع ہوئی ہے، اس چیتاونی کی وجہ سے جو تمباکو کی مصنوعات پرلکھی جارہی ہے۔ لیکن افسوس کے ساتھ کہنا پڑتاہے کہ یہ تبدیلی گٹکا او ر کھینی کھانے والوں میں دیکھنے کو نہیں مل رہی ہے ۔ اسی طرح 15-17سال سے زائد عمروالوں میں کھینی اور گٹکے کے استعمال بڑھ گیا ہے ۔ 2009-10میں اس کی شرح 2.9تھی اب یہ بڑھ کر5.5فیصدتک چلے گئی ہے۔

زندگی اللہ کی ایک نعمت ہے جو بہت قیمتی ہے، اور جو چیز جتنی زیادہ قیمتی ہوتی ہے اس کی حفاظت بھی اتنی ہی زیادہ کی جاتی ہے۔ انسان کو خالق کائنات نے تمام مخلوقات میں سب سے بہترین بنایا ہے۔ اب یہ انسان کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے خالق ومالک کی دی ہوئی امانت کو کس طرح سنبھالتاہے۔

دنیا میں دہشت گردی، مختلف جنگوں ، آسمانی وسلطانی آفات و بلاؤں ، سڑک حادثوں میں جتنے لوگ مرتے ہیں یا مارے جاتے ہیں ، ان سے کئی گنازیادہ تمباکو اور اس سے بنی مصنوعات کے استعما ل سے لوگ مرتے ہیں ۔بھارت میں ہر سال 10لاکھ لوگ سگریٹ، بیڑی، تمباکو چھوڑ دیتے ہیں ، کیونکہ وہ ایسا کرنے کے لیے زندہ ہی نہیں رہتے ۔

دنیا میں سب سے زیادہ نوجوان اگر کسی ملک میں ہے تو وہ ہے بھارت، جہاں کی 64%آبادی نوجوانوں پر مشتمل ہے۔ آج ہمارا نوجوان نشہ آور ادویات کا زبردست شکار ہورہاہے۔ہمیں اپنے دشمنوں سے زیادہ خطرہ نہیں بلکہ ہمارے ملک میں جو زہر فروخت ہورہاہے اس سے زیادہ خطرہ ہے۔

مسلم معاشرہ میں بے روزگاری، تعلیم کی کمی، معاشرہ کی بدحالی، اتنی زیادہ بڑھی ہوئی ہے کہ اس کی اصلاح کی کوششیں جتنی بھی کی جارہی ہیں وہ کم ہی ثابت ہورہی ہے۔

نشہ کئی طرح کا ہوتاہے ۔ صر ف شراب، گانچہ، افیم، ڈرگس، سگریٹ، تمباکو، گٹکے کا ہی نہیں بلکہ مذہبی جنون کا بھی نشہ ہوتاہے۔آج نوجوانوں کومذہب کے نام پر گمراہ کیاجارہاہے ۔ ملک کی بہت ساری جماعتیں وتنظیمیں ، ادارے ایسے نوجوانوں کو پال رہی ہیں جو ان کے سیاسی و مذہبی مفادات میں معاون ثابت ہو ں اور وہ انہیں ہر طرح کی سہولتیں فراہم کرتی ہیں ۔

کیا کیاجاسکتاہے ۔جن کے اچھے اخلاق، چال چلن، عادات واطوارکے لڑکے لڑکیوں پر پڑتے ہیں وہیں افراد و اشخاص سب سے زیادہ تمباکواور اس سے بننے والی مصنوعات کا استعمال کرتے ہیں ۔دیکھنے میں آیاہے کہ ہر اسکول وکالج کوتمباکوسے پاک وصاف رکھنے کے لیے اداروں کے احاطہ میں جلی حرفوں میں بڑے بڑے و نمایاں اشتہارات، یانوشتہ دیوار تحریرکرناچاہاہئیے اس طرح کے سرکاری احکامات کے باوجود اساتذہ، پرنسپل، اسکول انتظامیہ اس کے تئیں اپنی ذمہ داری سے اپنے آپ کو الگ کرتے ہیں ۔ جبکہ تعلیمی اداروں سے سو میٹر کے دوری تک کسی بھی قسم کی تمباکو مصنوعات پر پابندی ہے۔ مگر پولیس و اسکول انتظامیہ کی ہٹ دھرمی اور کوتاہی کے سبب کھلے عام اسکول و کالج و یونیورسٹی کیمپس میں دھڑلے سے یہ ممنوع چیزیں فروخت ہورہی ہیں ۔

چھوٹے بچوں کے لیے بنائے گئے قانون کی دفعہ 77کے تحت چھوٹے بچوں کو تمباکو جیسی مصنوعات فروخت کرنا یا ان کی کسی بھی طرح کی شمولیت پر 7 سات سال کی سزا اور ایک لاکھ تک جرمانہ کی شفارش کی گئی ہے۔ اس کی قانون کی معلومات بہت سارے لوگوں کو نہیں معلوم ہے۔

بہرحال سب ہی جانتے ہیں کہ کوئی بھی عقل وفہم رکھنے والا انسان کبھی یہ نہیں کہہ سکتاہے کہ تمباکو انسانی صحت کے لیے فائدہ مند ہے ۔ بلکہ دنیاکاکوئی ملک ایسا نہیں ہے جو اس کی حمایت میں آئے اس کے باوجود آج دنیا میں تمباکو استعمال کم نہیں ہورہاہے ۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم خود اپنے آپ کو اس سے الگ رکھیں ، اپنے بچوں اور اہل خاندان کو اس تلقین کریں ، بس یہی ایک شکل ہے ۔اس خطرناک بیماری و عادت سے بچنے کی ورنہ قوانین تو بہت سارے موجود ہیں مگر کیاکریں قانون کے رکھوالے ہی آج اس کے دشمن بنے ہوئے ہیں۔

تبصرے بند ہیں۔