عالمی سطح پر امراض کے خاتمے کا عزم ناگزیر ہے

یو این این ریسرچ ڈیسک
ڈاکٹرز اور طبی ماہرین کا کہنا ہے کہ گذشتہ چند دہائیوں میں ایڈز، طبِ دق اور دیگر کئی امراض کے بارے میں امریکہ میں ہونے والے تحقیقی کام نے بہت مدد دی اور یہ سلسلہ مستقبل میں بھی جاری رہنا چاہیئے۔ واشنگٹن 151 گذشتہ دو دہائیوں میں امریکی حکومت اور امریکہ کی کاروباری شخصیات نے مل کر دنیا کی خطرناک بیماریوں ایڈز، تبِ دق، ملیریا اور دیگر مرائض کے بارے میں تحقیق اور اس کے مریضوں کو علاج کی سہولیات فراہم کرنے کے لیے کاوشیں تیز کر رکھی ہیں۔ ان کاوشیں کے بہت مثبت نتائج سامنے آئے ہیں۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ ان کاوشوں کی وجہ سے اب ایڈز سے بچاؤ بھی ممکن ہو گیا ہے۔
پچیس سال قبل، ایڈز ایک لا علاج مرض تصور کیا جاتا تھا۔ اس کا علاج ممکن نہ تھا اور اس کی تشخیص موت کے پیام کے برابر تھی۔ اس وقت دو امریکی ڈاکٹروں ایرک گْوسبی اور انتھونی فاؤچی نے اس مرض کے خلاف کام کرنے کا بیڑہ اٹھایا اور آج بھی اس مرض کو روکنے کے لیے کام کر رہے ہیں۔
ڈاکٹر فاؤچی امریکہ میں صحت سے متعلق قومی ادارے میں ایڈز کے شعبے کے سربراہ ہیں۔ اور کہتے ہیں، ’’آنے والے مستقبل میں ہم ایڈز سے پاک نسل دیکھتے ہیں۔ یہ ایک بہت بڑی کامیابی ہے جس کے لیے بہت سے وسائل استعمال کیے گئے، اور اس میں ایک بڑا کردار امریکہ کے نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف ہیلتھ میں ہونے والی تحقیقی کام نے ادا کیا ہے۔‘‘
ایمبیسیڈر ایرک گْوسبی امریکہ کے محکمہِ خارجہ میں گلوبل ہیلتھ ڈپلومیسی کے سربراہ ہیں۔ انہوں نے دنیا کے بہت سے ترقی پذیر ممالک میں ایڈز کے علاج کے لیے کلینکس قائم کرنے میں مدد دی ہے۔ ڈاکٹر گْوسبی کہتے ہیں کہ یہ ممالک اب صحتِ عامہ کی سہولیات مہیا کرنے کے لیے بہت سے اقدامات اٹھا رہے ہیں اور ہائی بلڈ پریشر جیسے دیگر عوارض کے علاج اورخاتمے کے لیے بھی کام کرنے پر غور کر رہے ہیں۔ ڈاکٹر ایرک گْوسبی کے الفاظ، ’’اگر ہم ایڈز کے ضمن میں کامیابی حاصل کر سکتے ہیں تو پھر دیگر بیماریوں کے لیے بھی یہ کوششیں کر سکتے ہیں۔ اور اس وقت ہم یہی کر رہے ہیں۔ ہم ایڈز سے متاثرہ افراد کو علاج کی سہولیات فراہم تو کر رہے ہیں اور اب وقت آگیا ہے کہ ہم علاج کی سہولیات ان افراد کو بھی دیں جو دیگر بیماریوں سے متاثر ہیں۔ ‘‘
بیماریوں کی روک تھام اور تدارک سے متعلق ادارہ عالمی سطح پر بیماریوں سے بچاؤ کے لیے اقدامات کر رہا ہے۔ ڈاکٹر تھامس فریڈن اس کے سربراہ ہیں اور کہتے ہیں، ’’ہمیں اس بات کو یقینی بنانا ہوگا کہ ہم خسرہ، گردن توڑ بخار اور دیگر بیماریوں کے خاتمے کے لیے اقدامات اٹھائیں۔ لیکن پہلے ہمیں دنیا کو آمادہ کرنا ہوگا کہ کینسر، ذیابیطس، دل کی بیماریوں اور فالج جیسی بیماریوں کے خلاف اکٹھے مل کر کام کریں جن کا علاج آج کے جدید زمانے میں جدید ٹیکنالوجی کی مدد سے ممکن ہو چکا ہے۔‘
لیکن ماہرین کہتے ہیں کہ بیماریاں اور امراض وقت کے ساتھ ساتھ بدلتے رہتے ہیں۔ کبھی نئی بیماریاں سامنے آتی ہیں تو کبھی پرانی بیماریوں کی نوعیت بدل جاتی ہے۔ ان تبدیلیوں کی وجہ سے دنیا بھر میں ہر قوم کو صحت سے متعلق خطرات کا سامنا رہتا ہے۔
ڈاکٹر فرانسس کولنز کہتے ہیں کہ اسی وجہ سے دنیا بھر میں صحت کے معاملات کی مد میں اکٹھے مل کر کام کرنا ضروری ہوتا جا رہا ہے۔ ان کے مطابق، ’’یہ سوچ کہ صحت سے متعلق مسائل صرف کسی ایک ملک کا مسئلہ ہے اور اس کا باقی دنیا سے کوئی لینا دینا نہیں، غلط سوچ ہے۔ ‘‘ ڈاکٹرز کا کہنا ہے کہ دنیا بھر میں لوگوں کی صحت کو بہتر کرنے کے لیے امریکہ کو شعبہِ طب میں تحقیقی کام جاری رکھنا ہوگا۔ اور دیگر ممالک کے ساتھ مل کر عالمی سطح پر صحت کی سہولیات کو بہتر بنانے کے لیے جدوجہد جاری رکھنا ہوگی۔

(یو این این)

تبصرے بند ہیں۔