ملت کی نمائندہ تنظیموں کے رہنماؤں کی خدمت میں کھلا خط

مھدی حسن عینی قاسمی

قائدین ملت اسلامیہ ہند!

 السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ

امید ھیکہ آپ حضرات بخیر و عافیت ہونگے!

    آپ کو یقیناً اس بات کی اطلاع ہوگی کہ ملت اسلامیہ ھند کا عظیم علمی قلعہ ملک کی مایہ ناز یونیورسٹی جامعہ ملّیہ اسلامیہ دہلی کا اقلیتی درجہ خطرے میں ہے.

کیونکہ دہلی ہائی کورٹ میں مرکزی حکومت کی طرف سے جامعہ ملّیہ اسلامیہ کے اقلیتی کردار کی مخالفت میں ایک حلف نامہ داخل کیا گیا ہے جو تاریخی حقائق کو جھٹلانے اور اقلیّتوں کے آئینی حقوق سلب کرنے کے مترادف ہے.

شیخ الہند مولانا محمود حسن دیوبندی،مولانا محمّد علی جوہر،حکیم اجمل خاں، ڈاکٹر مختار احمد انصاری،عبد المجید خواجہ جیسی عظیم مسلم شخصیات کی کوششوں سے قائم یہ ادارہ یقینی طور پر اقلیتوں کا ورثہ ہے۔

نیز جامعہ کا اقلیتی کردار  1963 میں اسے معنوی یونیورسٹی کا درجہ ملنے پر بھی برقرار رہا ہے  اور 1988میں اس کیلئے پارلیمانی ایکٹ بننے کے بعد بھی اس کی اقلیتی حیثیت غیر متاثر رہی۔

کسی نئی یونیورسٹی کو قائم کرنے اور برسوں سے موجود کسی قدیم ادارے کو یونیورسٹی کا درجہ دینے میں بہت فرق ہے۔

بعد والی صورت میں ادارے کا تاریخی کردار ہرگز نہیں بدلتا۔جامعہ کے اقلیتی کردار سے انکار تاریخ اورآئین کی نفی ہے۔

جامعہ کا اقلیتی درجہ قومی کمیشن برائے اقلیتی تعلیمی ادارہ جات (قانونی اہلیت والی اتھارٹی)سے منظورشدہ ہے۔

نیز آئین کی دفعہ30 کا اطلاق کا تعلق اس آئین کے نفاذ کے بعد قائم ہونے والے اداروں سے ہی نہیں بلکہ پہلے سے قائم اداروں پر بھی اسکا پورا پورا اطلاق ہوتا ہے اور اس کے بموجب جامعہ یقیناً ایک اقلیتی ادارہ ہی ہے۔

لیکن افسوس کی بات ھیکہ 13مارچ 2018ء کے دہلی ہائی کورٹ آرڈر کے مطابق جامعہ ملّیہ کی طرف سے کوئی بھی کونسل وکیل کورٹ میں پیش نہیں ہوا جو اس کے اقلیتی کردار کے معاملے کی تائید کرے نتیجتاََ اس کے برخلاف آرڈر پاس ہوگیا

جامعہ کے ذمہ داروں نے ایسی لاپروائی کیوں برتی؟کیا وہ خود جامعہ کے اقلیتی کردار کو ختم کرانا چاہتے ہیں؟

کیونکہ یہ مسلمہ حقیقت ہے کہ جامعہ کے وائس چانسلر ایک سال کی مدت کے اندر ہی رٹائر ہونے والے ہیں اور شائد وہ ایسے مواقع کا استعمال کرکے برسراقتدار حکمراں پارٹی کو خوش کرنا چاہتے ہیں تاکہ مسلم مسلم سماج کے مستقبل کو فروخت کرکے اپنے مستقبل کو محفوظ کرسکیں۔

اس لئے اب اس حساس اور نہایت اہم مسئلہ کو جامعہ کے ذمہ داروں پر  چھوڑ کر مطمئن نہیں رہا جاسکتا بلکہ ضروری ہے کہ مسلمانوں کی نمائندہ تنظیمیں اپنی اپنی سطح پر اس عظیم ورثہ کی حفاظت کے لئے کوششیں کریں ایک جوائنٹ ایکشن کمیٹی بناکر دستوری دفعات کی روشنی میں علی الفورمناسب اقدامات کریں۔

اور دہلی ہائی کورٹ و سپریم کورٹ میں نئے سرے سے پیٹیشن دائر کرکے مرکزی حکومت کے حلف نامہ کو چیلینج کریں نیز جاری کیس میں قابل وکلاء کی خدمات حاصل کریں تاکہ اپنے اسلاف کی عظیم قربانیوں کے نتیجہ میں قائم جامعہ ملّیہ اسلامیہ کو اس کا آئینی و دستوری حق مل سکے۔

آپ سبھی قائدین ملت سے دردمندانہ اپیل ھیکہ اس نازک مسئلہ پر جلد از جلد لائحہ عمل تیار کرکے اقدامی کارروائی کریں تاکہ نونہالان قوم کے ساتھ ساتھ اس ادارے کا مستقبل محفوظ ہوسکے۔

خدا آپ سب کا حامی و ناصر ہو

فجزاکم اللہ احسن الجزاء

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔