سمت سخن کی شاعری

ڈاکٹرعمیر منظر

شاعری نعمت خداوندی ہے۔ اسے مشق و ممارست سے سیکھاتو جاسکتا ہے۔ مگر جب تک اوپر والے کی چشم عنایت نہ ہو شاعری شاعری نہیں ہوسکتی۔ علم و دانش اور ادب و تہذیب سے آگہی و باخبری شاعری کوبلنداور  اعلی معیار تک پہنچانے کا سبب بنتی ہے۔ آپ کو بے شمار ایسے لوگ ملیں گے جن کی ادبی اور دانش ورانہ فہم و بصیرت سے ہمارا معاشرہ فائدہ اٹھاتا ہے مگر علم و دانش کی ان کی یہ برتری شاعری کے میدان میں باقی نہیں رہتی۔ اس لیے نرے علم و دانش کی یہاں کوئی حیثیت نہیں ہے۔ یہ ایسی نعمت ہے جسے کسب و کوشش سے نہیں حاصل کیا جاسکتا۔ یہ محض وہبی شے ہے۔ نعمت خداوندی سے بہر مند ہونے والوں میں ایک نام رضوان الہ آبادی کا بھی ہے۔ جناب رضوان الہ آبادی نے اگرچہ کسب معاش کے لیے تجارت کے پیشہ کو اختیار کیا ہے مگر ادب وشعر سے ان کو ایک والہانہ تعلق ہے، اس تعلق کا خوب صورت اظہار ان کی شعر گوئی ہے۔

رضوان الحق رضوان کا تعلق الہ آباد سے ہے۔ تاریخ میں الہ آباد کانام کئی حیثیتوں سے ممتاز ہے۔ علم و دانش کی بے شمار شخصیات کا تعلق اس سرزمین سے رہا ہے۔ برطانوی استعمار کے عہد میں اکبر الہ آبادی نے اپنی طنزیہ شاعری سے شعرو ادب کی دنیاکو ثروت مند کیا تھا۔ موجودہ عہد میں جناب شمس الرحمن فاروقی کی تنقیدی بصیرت کی وجہ سے الہ آباد ممتاز اہمیت کا حامل ہے۔ پوری دنیا ان کی ادبی و تنقیدی بصیرت سے فیض یاب ہورہی ہے۔

رضوان الہ آباد تہذیبی قدروں کے آدمی ہیں۔ انھوں نے جو کچھ اپنے بزرگوں سے حاصل کیا ہے، اسے ایک تہذیبی اور ثقافتی ورثے کے طور پرنہ صرف باقی رکھا بلکہ اپنی شعر گوئی کے وسیلے سے وہ اس کے شارح اور مبلغ بھی ہیں۔ رضوان الہ آبادی غزل گو ہیں، حمد ونعت اور مناقب بھی کہتے ہیں اور بڑے اہتمام سے کہتے ہیں۔ ان کے مطالعہ سے ان کے ذہنی اور فکری میلان کا اندازہ بھی ہوتا ہے۔ پہلا مجموعہ ’’سمت سخن‘‘ہوچکا ہے۔ اس کے مطالعہ سے ان کی شعری سمت بآسانی متعین کیا جاسکتاہے۔

یہ قطعی ضروری نہیں کہ کسی شاعر کے  اشعار سے اس کے عام میلان یا اس کی شخصی پسند و ناپسندکا اندازہ کیا جائے۔ یااس کی ترجیجات متعین کی جائیں۔ رضوان صاحب کا معاملہ بھی کچھ ایسا ہی ہے۔ ان کے کلام کے مطالعہ سے کئی طرح کا احساس ہوتا ہے۔ ایک طرف جہاں ان کے اشعار کے مطالعہ سے ان کے ادبی وتہذیبی وقار کا اندازہ ہوتا ہے وہیں دوسری طرف ان کی تعمیر پسند شخصیت کا خاکہ بھی ابھرتا ہے۔ ان اشعار کی تعداد بھی کم نہیں جن میں وہ غزل کے عام مضامین کو اپنے انداز میں کہتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ زبان و بیان یا لہجہ و روش کے کسی انوکھے یا نئے تجربے سے بے پروا شعری مضامین پران کی خاص توجہ ہے۔ چند اشعار دیکھیں۔

ورق ورق میں ملے گی مہک وفاؤں کی

نصاب زیست کی ایسی کتاب لائیں گے

۔

ہمیں خیال تمہارا تمہیں ہمارا ہو

کہ آدمی تو بنا ہی ہے آدمی کے لیے

۔

دلوں کے بیچ دیواریں نہیں ہیں

الگ بس آشیانہ ہوگیا ہے

یہ اور اس طرح کے بہت سے اشعار جن کا تعلق غزل کے عام مضامین سے بھی قائم ہوتا ہے اوراس خاص تہذیبی وقار سے بھی جو ان اشعار میں جلوہ گر ہے۔ زندگی کا حسن وفا سے ہے۔ اسی سے شخصیت میں وزن و قار بھی قائم ہوتا ہے۔ اسی لیے شاعر نے زندگی کے لیے ایک ایسے نصاب کی آرزو کی ہے جس کا ہر ورق وفا کی خوشبو سے معطر ہو۔ دوسرے شعر میں آدمیت کی اساس اور بنیاد کی طرف اشارہ ہے۔ ایک عالمی کنبے کے فروغ کی کوشش۔ اس کی صورت یہی ہے کہ سب ایک دوسرے کا خیال رکھیں۔ آدمی اسی لیے بنایا گیا ہے کہ ایک کو دوسرے کا خیال ہو اور ایک دوسرے کو ایک دوسرے سے سہولت و آسانی فراہم ہو۔ تیسرا شعر بہت بلیغ ہے۔ وہ یہ کہ زندگی گزارنے کے لیے الگ الگ آشیانے بنا لیے گئے ہیں مگر دل الگ نہیں ہیں۔ سب ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں۔

اردو غزل میں مضامین کا تنوع اوراس کی تکثیر کو خصوصی اہمیت حاصل ہے۔ رضوان صاحب نے بھی اس سے فائدہ اٹھایا ہے اور بہت سے اشعار ایسے کہے ہیں جن میں ان کا سماجی شعوراور ان کی عمل پسند طبیعت کو دیکھا جاسکتا ہے۔ وہ کہتے ہیں

رسائی ہو ہی جائے گی کسی دن

مگر سر معرکہ ہوگا لگن سے

لگن یا شوق ہماری شخصیت کا بہت اہم پہلو ہے۔ کسی بھی کام میں اگر لگن نہیں ہے یاشوق کا جذبہ نہیں ہے کہ تو آسان ہوتے بھی وہ کام مشکل ہوجاتا ہے۔ لگن کی وجہ سے ہی رسائی ممکن ہے۔ شعر میں اسی طرف  توجہ دلائی جارہی ہے۔ واضح رہے کہ یہ کوئی بڑا مضمون نہیں ہے لیکن ایسا لگتا ہے کہ اس کے ذریعے سے  انھوں نے ان لوگوں کوایک سماجی پیغام دینے کی کوشش کی ہے جو عمل کی بجائے شکوہ وشکایت پر یقین  رکھتے ہیں اور طرح طرح کے عذر تلاش کرتے رہتے ہیں۔ ان کا ایک شعر ہے۔

قناعت، سادگی، سنجیدگی، ایثار، خود داری

زمانے کو حدیث دیگراں معلوم ہوتی ہے

ہمارے زمانے کا بہت بڑا المیہ یہ ہے کہ ہم ایک لمحہ میں صدیوں کا سفر کرنا چاہتے ہیں۔ پلک جھپکتے قارون سے بڑے خزانے کا مالک بننا چاہتے ہیں۔ یہ خواہش صرف خواہش نہیں رہتی بلکہ اس کے لیے ہر طرح کی کوشش کو شعار بنا لیا جاتا ہے۔ کبھی کبھی تو یہ محسوس ہوتا ہے کہ ہوس کا جذبہ ہماری بنیادی شناخت بنتا جارہا ہے۔ ایسی ناگفتہ بہ صورت حال میں اگر کوئی ایثار اور قناعت کی تعلیم دے تو اسے ہم کسی اور ز مانے کا انسان سمجھنے لگتے ہیں۔ رضوان الہ آبادی نے اپنے اس شعر میں  اپنے عہد کے ایک بڑے سماجی مسئلہ کی طرف توجہ دلائی ہے۔ دراصل غزل میں اس طرح کے مضامین کی گنجائش بہت ہے اور اس سے فائدہ اٹھانا ہی ایک اچھے اور سچے فنکار کی فنکاری ہے۔

غزل کا نام لیتے ہی تصور میں حسن و عشق کی وہ روایتی دنیا رقص کرنے لگتی ہے جس سے دنیا ئے غزل معمورہے۔ شاید اس بیان کے بغیر غزل کے مکمل ہونے کا احساس ہی نہیں ہوتا۔ شعرا نے حسن و عشق سے معمور شاعری کو تصوف کی چاشنی سے نئے نئے مضامین عطا کیے ہیں۔ مشہور صوفی شاعر خواجہ عزیز الحسن مجذوب کا شعر ہے۔

ہر تمنا دل سے رخصت ہوگئی

اب تو آجا اب تو خلوت ہوگئی

یہ غزل اور اس کے بیان کا جادو ہے کہ یہ شعر شاعری میں تصوف اور غزل کے باہمی رشتے اور دونوں کے عشقیہ مضامین کی عمدہ مثال کے طور پر پیش بھی کیا جاتا ہے۔ اردو شعرو ادب کے عام تذکروں میں خواجہ عزیز الحسن مجذوب کا ذکر شائد و باید ہی ملے گا لیکن ان کا یہ شعر تمام قابل ذکر ناقدین کی زبان پر ہوتا ہے۔ بہت سے تعمیر پسند شاعروں نے اس نوع کے مضامین سے غزل کی دنیا آباد کرنے کی کوشش کی ہے۔ لیکن یہ ضروری نہیں کہ سب اپنے تجربے میں کام یاب بھی ہوں۔ رضوان کا شعر ہے۔ ان کا شعر ہے

تمہارا تصور تھا ہم راہ جب تک

کسی موڑ پر میں اکیلا نہیں تھا

یہی مضمون ایک دوسری طرح بھی انھوں نے بیان کیا ہے

اک حشر بپا رہتا ہے یادو ں کا مسلسل

ہم ہجر کے ماروں کو بھی تنہا نہیں کہتے

یہ شعر بھی اسی قبیل کا ہے۔

جفاؤں، وحشتوں، تنہائیوں سے

مرا اب دوستانہ ہوگیا ہے

غزل کا عاشق ستم پیشہ معشوق کے انداز معشوقانہ سے مختلف جفاؤں کا شکار رہتا ہے۔ یہاں ان جفاؤں پر کسی طرح کا شکوہ نہیں ہے بلکہ ان کی رفاقت کو قبول کرلیا گیا ہے۔ غالب کا مشہور شعر ہے

وا حسرتا کہ یار نے کھینچا ستم سے ہاتھ

ہم کو حریص لذت آزاد دیکھ کر

عاشق معشوق کے ستم کا حریص ہوگیا۔ جس کی وجہ سے معشوق نے ستم سے ہاتھ کھینچ لیا۔ اور یہ ستم سے ہاتھ کھینچنا ہی ایذا کا سبب بن گیا۔ جس پر افسوس کا اظہار کیاجارہا ہے۔ اس نوع کے بہت سے اشعار رضوان الہ آبادی کے یہاں ملتے ہیں۔

 رسم وعدہ نہ ختم ہوجائے

اس لیے اعتبار کرتے ہیں

۔

میری تو تکمیل حسرت ہوگئی

ان کے کوچے کی زیارت ہوگئی

۔

جب تری رہ گذر نہیں آتی

زندگی راہ پر نہیں آتی

۔

بجلیوں کی بے گھری پر کھا کے رحم

نذر اپنا آشیانہ کردیا

رضوان الہ آبادی نے اساتدہ سخن کی مشہور ز مینوں پر بھی شعر کہے ہیں اور غزل کے بعض مشہور مصرعوں کو بھی اپنی تخلیقی ہنر مندی سے آراستہ کیا ہے۔ انھوں نے بالعموم سادہ اور آسان زبان میں شعر کہنے کی کوشش کی ہے۔ اس سلسلے میں وہ اپنے اور ہم سب کے شعری و ادبی رہ نما ڈاکٹر تابش مہدی سے خاصے متاثر نظر آتے ہیں۔ منقول بالا اشعار سے ان کی تائید بھی ہوتی ہے۔ ’’سمت سخن‘‘اور اس کے خالق رضوان الہ آبادی کا ادبی دنیا میں خیر مقدم ہے۔

تبصرے بند ہیں۔