آغاشورش کاشمیری: ہم ہیں فقیرِ راہ مگر شہریارہیں !

نایاب حسن

آغا عبدالکریم شورش کاشمیری(14؍اگست1917ء-6؍نومبر1975ء)ایک مختلف الجہات اور بے پناہ تخلیقی صلاحیتوں کے حامل ادیب، خطیب، شاعر اور نثر نگار تھے، ہندوستان کی آزادی میں ان کا رول غیر معمولی رہا، انھوں نے بیسویں صدی کے چوٹی کے سیاسی رہنماؤں کے ساتھ جد وجہدِ آزادی میں عملی حصہ لیا، اس راہ میں انھیں قیدو بند کی صعوبتیں بھی جھیلنا پڑیں اورمعاشی مشکلات اور پریشانیاں بھی، مگر کبھی بھی ان کے پاے استقامت میں لغزش نہیں آئی، گھریلوحالات کی خستگی و شکستگی نے انھیں میٹرک سے آگے کے تعلیمی مراحل طے کرنے سے روک دیااور وہ تلاشِ معاش کی فکرمیں سرگرداں ہونے والے تھے کہ اسی دوران1935ء میں سیاسی مفادات کی برآری کے مقصد سے لاہورلنڈابازارکی مسجدشہید گنج شہیدکردی گئی، مسلمانوں میں شدید بے چینی پیدا ہوئی اور انھوں نے مسجد کی بازیابی کے لیے منظم جدوجہد کا فیصلہ کیا، شورش بھی اس تحریک میں پیش پیش رہے اور وہیں سے ان کی عملی سیاسی و خطابتی معرکہ آرائیوں کا دورشروع ہوا، اس کے بعدتو ان کی زندگی مکمل ہنگامہ آرائیوں کا مرقع بن گئی، مسجدکی بازیابی کی خاطر عوامی منظرنامے پر ابھرے تھے، پھر تحریک آزادی کے متعدد قومی رہنماؤں کے رابطے میں آئے اوراس کے بعد ہندوستان کوانگریزی جبرواستبداد سے نجات دلانے کے لیے ہر ممکن قربانیاں دیناان کی زندگی کا مقصد بن گیا، ان کا ذہن بنیادی طورپر انقلابی تھا اور وہ جذبات میں ڈھلے ہوئے انسان تھے، تعلیم زیادہ حاصل نہیں کرسکے تھے، مگر مطالعہ کے زور اور چہرہ شناسی کی صلاحیت نے ان کے سامنے غیر منقسم ہندوستان کی تصویر بالکل صاف کردی تھی، ابتداء اً مسجد شہید گنج کی بازیابی ہی ان کا مقصد تھا اور اس کے لیے انھوں نے متعددپلیٹ فارم سے مختلف رہنماؤں کے ساتھ مل کر کام کیا، مگر پھر بہت جلد انھیں احساس ہوا کہ مسلمانوں میں ایسے قائدین کی بھرمار ہے، جو سیاسی اغراض کے حصول کے لیے مذہب کی تجارت کرتے ہیں.

انھوں نے1939ء میں اپنا سیاسی زاویۂ فکر بدلا اور مجلسِ احرارسے وابستہ ہوگئے۔احرار کا بنیادی مقصدِ کار ہندوستانی مسلمانوں کے دین و ایمان اور ختمِ نبوت کے عقیدے کا تحفظ تھا، مگر وہ ملکی سیاسی احوال سے بھی بے خبر نہیں تھے، البتہ اس حوالے سے بھی ان کا طرزِ عمل اعتدال پسندانہ اور دوراندیشانہ تھا، ان کے ہراول دستے میں چودھری افضل حق، سیدعطاء اللہ شاہ بخاری اور مولاناحبیب الرحمن لدھیانوی وغیرہم تھے، احرار سے وابستگی کے بعد شورش کو کام کرنے کے دومیدان ملے، ایک تو ختم نبوت کے عقیدے کی اشاعت و تبلیغ اور اس کے تحفظ کے لیے جدوجہد کرنا اور دوسرے آزادیِ وطن کی خاطر اپنی ممکنہ کارکردگی پیش کرنا؛چنانچہ انھوں نے دونوں حوالوں سے اپنا کرداربخوبی طورپر نبھایا، مختلف وقفوں میں پنجاب سے لے کر بہار اور دہلی وممبئی تک کے دورے کیے، اس وقت موجود ملک کے بیشتر قومی رہنماؤں کے ہم نشین رہے، انھیں قریب سے دیکھا، پرکھا اور جانا، بہتوں سے متاثر ہوئے اور خوب متاثر ہوئے، جبکہ کئی ایک راہنماؤں کے ظاہر و باطن کا اختلاف بھی ان کے سامنے روشن ہوگیا۔سیاسی اعتبار سے شورش تقسیمِ ہند یا اس قسم کی آزادی کے حامی قطعی نہ تھے، جو14-15؍اگست1947ء کو برصغیر ہندوپاک(اورموجودہ بنگلہ دیش)کو حاصل ہوئی؛کیوں کہ وہ نہ تواحرار کے سیاسی نقطۂ نگاہ سے میل کھاتی تھی اور نہ ان نابغہ قومی راہنماؤں نے ایسا سوچا تھا، جن سے عملی، فکری اور سیاسی زندگی میں شورش نے استفادہ کیااور جن کی فکر و نظر کے وہ معتقد و معترف تھے، مگرقدرت کو جو منظورتھا، وہ ہونا تھا اور وہ ہوکر رہا۔

1946ء میں کل جماعتی انتخاب ہوا، جس میں دیگرپارٹیوں کے ساتھ مجلس احرارنے بھی حصہ لیا، بحیثیت امیرکے شاہ صاحب اس کے خلاف تھے، ان کے پیش ِنظرانتخابی سیاست میں حصہ لینے سے زیادہ اہم آزادی کی جدوجہد تھی؛لیکن احرارکی اکثریت کی رائے پر انھوں نے صادکیا۔اس دوران انتخابی مہم میں عوامی جلسوں کوخطاب کرنے کے لیے شورش نے پنجاب کے علاوہ یوپی اوربہار کے مختلف اضلاع اور علاقوں کا بھی دورہ کیا۔مارچ اپریل کے مہینوں میں دہلی میں قیام کیااور اس دوران مہاتماگاندھی، آصف علی، خان عبدالغفارخان، سردارولبھ بھائی پٹیل، راجندر پرشاد وغیرہ جیسے متعددلیڈروں سے ملاقات کی، انھیں قریب سے دیکھااوران سے گفتگوکی۔اس کے بعدشورش کو اندازہ ہواکہ اب ہندوستان کی آزادی اور تقسیم دونوں تقریباً طے ہیں اور اس کے سال ڈیڑھ سال بعدیہ اندازہ صحیح ثابت ہوا۔تقسیم سے سال بھرپہلے ہی اس کے بھیانک آثار نظرآنے لگے تھے اور ملک کے مختلف حصوں میں فرقہ وارانہ فسادات کا طوفان کھڑاہوگیاتھا، ماحول ایسازہرآلودہوچکاتھاکہ جولوگ تقسیم ہند کے خلاف رہے تھے، وہ بھی خواہی نخواہی اس کے لیے رضامندہوگئے اور بالآخرآزادی کی جدوجہد جوکم و بیش ڈیڑھ سو سال پہلے شروع ہوئی تھی اور اس کے لیے ملک کے ہندوومسلم دونوں طبقوں نے قربانیاں دی تھیں، اس کا اختتام نہایت ہی اندوہناک شکل میں ہوا، آزادی ملی، مگر ساتھ ہی لاکھوں بے قصوروں کی جانیں اورہزارہاعفیفہ خواتین کی عزت و آبروئیں تارتارہوئیں، دونوں طبقوں کانقصان ہوا؛لیکن مسلمانوں کا نقصان اس معنیٰ میں زیادہ تھاکہ جولوگ ہندوستان کے دوردرازکے علاقوں سے نومولودپاکستان کی طرف ہجرت کررہے تھے، ان کا سب کچھ لٹ پٹ چکاتھااور جولوگ اپنے وطن کی مٹی سے جڑے رہناچاہتے تھے اورانھوں نے ہجرت سے انکارکیاتھا، ان کا مستقبل اندیشوں میں گھراہواتھا۔تب سے اب تک کے سیاسی حالات ہمارے سامنے ہیں، سات دہائیاں بیت چکی ہیں ؛لیکن برصغیرکے مسلمان تقسیم کے اس کرب سے تاہنوزگزررہے ہیں ۔

 پاکستان کی تشکیل کے بعدشورش کاشمیری نے سیاسی ہنگامہ آرائیوں سے عملی طورپرکنارہ کشی اختیارکرلی اوراس کے بعد ہی ان کی علمی، تصنیفی و ادبی زندگی کا باقاعدہ آغازہوا۔متحدہ ہندوستان میں زیادہ ترماہ و سال انھوں نے قیدوبندمیں گزارے، قیدسے باہربھی ہوتے توسیاسی و انقلابی تحریکوں میں ہی سرگرم رہتے، البتہ اس عرصے میں انھوں نے جوعلمی اور ادبی ذوق پایاتھااس کے زیر اثران کا مطالعہ کا مشغلہ بھی برابرجاری رہا؛چنانچہ جیل کی سختیوں اور ایامِ قیدکی گھٹن آمیزفضاؤں میں بھی وہ کتابوں سے راہ ورسم کی کوئی نہ کوئی تدبیر نکال لیتے اور حقیقت یہ ہے کہ آزادی سے پہلے انھوں نے جوکچھ بھی پڑھا، تقریباً وہ سب قیدکے دنوں میں ہی پڑھا، چاہے مولاناآزادکے افکارہوں یااقبال کاکلام، سوشلزم پرلکھی گئی کتابیں ہوں یا کمیونزم کالٹریچر، سیدسلیمان ندوی کی تحریریں ہوں یا اردوکے استادشعراونثرنگاروں کی دیگرتصانیف؛ وہ سب ان کے مطالعے سے انہی دنوں گزریں ۔ بچپن میں جب پڑھنے کا شعورابھی مرحلۂ نمودونمومیں تھا، تب انھوں نے درسیات کے علاوہ مولاناظفرعلی خاں کے ’’زمیندار‘‘ کو پڑھنے کی عادت ڈالی؛کیوں کہ وہ پابندی سے ان کے گھرآتاتھا، شایداُسی وقت ان کے ذہن و دماغ میں ایک شورش سی برپاہوئی تھی، جس نے بعدمیں انھیں واقعتاً شورش بنادیا، ظفرعلی خاں کی صحافت اور ان کی انقلابی شاعری کا اثرنہ صرف ان کے ذہن و دماغ پر ہوا؛بلکہ ان کے قلم اور شاعرانہ زندگی پربھی ہوا۔

 پاکستان میں گووہ عملی سیاست سے کنارہ کش رہے، مگرانھوں نے اظہارِ حق اورحکومت و سیاست کی کج ادائیوں کو طشت ازبام کرنے اورسیاسی رہبروں کی فکری و عملی بے راہ رویوں پر تنقید کرنے میں کوئی باک نہیں محسوس کیا، خداے واحدوبرتروبزرگ پران کا زلزلہ افگن ایمان تھا؛اس لیے وہ دنیوی خداؤں سے بے محابااُلجھ جاتے تھے، خاص طورسے جنرل ایوب کی صدارت کے دور میں پاکستان میں آمریت اور ظلم و جورکی جو فضا قائم ہوئی تھی، ا س سے انھوں نے پوری جرأت کے ساتھ لوہا لیااوراپنی خود اعتمادی و بلندحوصلگی کے سامنے حکومت کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کردیا، اسی طرح 1973-74میں آئینِ ختم نبوت کی تشکیل اور قادیانیوں کو غیر مسلم اقلیت قراردلوانے میں بھی ان کی تقریر و تحریر کا غیر معمولی رول رہا۔جنوری1949ء میں انھوں نے ایک ہفت روزہ اخبار’’چٹان‘‘کے نام سے جاری کیا تھا، ان کے اس اخبارنے ماضی میں مولانا ابوالکلام آزادؒ کے ’’الہلال‘‘ و’’ البلاغ‘‘ اور مولانا ظفر علی خاں ؒ کے’’ زمیندار‘‘ کی یاد تازہ کردی، حق کا نعرہ بلند کرنے کی پاداش میں کئی بار ان کے اخبار پر پابندیاں لگائی گئیں، اس کا ڈیکلیریشن منسوخ کیا گیا، پریس پر حکومت کا قبضہ ہوا اور شورش پسِ دیوارِ زنداں ڈالے گئے، مگر پھر بھی تاحیات ان کی اپنی منفردبے باک و حق پرست روش میں کوئی تبدیلی نہیں آئی۔

    شورش کے ذریعے اردو ادب کو بھی غیر معمولی فروغ و ارتقا حاصل ہوا، وہ اس زبان کے ایک بے مثال خطیب تھے، انھیں ہندوستان کے عدیم النظیر خطیب سید عطاء اللہ شاہ بخاری سے براہِ راست استفادے کا موقع ملا تھا اوران کی مسلسل صحبتوں نے شورش کے اندر بھی خطابت کے وہ جوہر پیدا کردیے تھے، جن کی وجہ سے ان کا شمار  برصغیر کے شیوا بیاں خطیبوں میں ہونے لگا تھا، آزادی سے قبل ان کی فکری و عملی وابستگی مجلس احرارسے رہی اوروہ اس کے ’نفسِ ناطقہ‘کی حیثیت سے خدمات انجام دیتے رہے، جنگ آزادی کے دوران بھی ہندوستان بھر کا دورہ کرتے اور لوگوں کے دلوں میں اپنی گرمیِ گفتارسے شرارۂ آزادی بیدار کرتے اور پاکستان میں بھی جب بھی وہاں کی حکومت نے عوامی حقوق کو تلف کرنا یاان کے حقِ آزادی کو غصب کرنا چاہا، توشورش نے اپنی شعلہ نوائی سے اس کی بد نیتوں پر کاری ضرب لگائی۔

شورش کا نثری آہنگ بھی انتہائی اعلی و ارفع،  دل کش اورمسحورکن ہے،  مولانا ابو الکلام آزاد اوررشید احمد صدیقی کے اسلوبِ تحریر سے ایک خاص مناسبت نے شورش کی نثر کو شعلہ و شبنم کا آمیختہ بنادیا ہے؛ چنانچہ ان کی تحریریں جہاں قاری کے جذبات کو اُبالتی اور اس کے احساسات کو اُچھالتی ہیں،  وہیں ان کے اسلوب کی شوخی و رنگینی قاری کواز خود رفتگی کا شکار بنادیتی اوراس کے ذہن و دماغ مسحور ہو کر رہ جاتے ہیں ۔شورش چونکہ بہ یک وقت سحر بیاں خطیب،  عظیم شاعر اور باکمال انشا پر دازہیں ؛ اس لیے ان کی نثر میں ایک خطیب کی گھن گرج،  ایک شاعرکی بلند پر وازیِ تخیل اور ایک ماہر انشا پرداز کے تمام تر محاسن درجۂ کمال تک پائے جاتے ہیں،  وہ ایک عصر ی خطیب کی مانند مترادفات کو استعمال کر تے،  ایک شاعر کی حیثیت سے استعارات و تمثیلات کے رنگا رنگ گلوں کا انتخاب کر تے،  پھر دیدہ ور نثاّر کی طرح انہیں جملوں کی لڑیوں میں پروتے چلے جاتے ہیں،  یہی وجہ ہے کہ ان کا قاری صفحات کے صفحات ؛ بلکہ اوراق کے اوراق پڑھ ڈالنے کے باوجود کسی تھکان اوراضمحلال کی بجائے ایک خاص قسم کی نشاط اور سرور و تازگی محسوس کر تا اور اس کے ذہن و دماغ کے کینوس پر غالب کے ’’ صر یرِ خامہ ‘‘ اور’’ نوائے سروش ‘‘ کی بے شمار دل نواز و سحرطراز تصویریں رقص کرنے لگتی ہیں ۔ شور ش کی تحریروں کے ذریعے ان کا قاری جہاں ان کے دور کے واقعات وحقائق،  متعدد علمی، ادبی وسیاسی شخصیات کے حقیقی خدو خال او رمعاشرت وسیاست کے گوناگوں خفی وجلی گوشوں سے واقفیت حاصل کرتا ہے،  وہیں وہ ان کے حسین ودل کش چھوٹے چھوٹے جملوں،  تازہ بہ تازہ تعبیرات اور نوبہ نو استعارات وتشبیہات کے جل ترنگ میں بہتا چلا جاتا ہے ۔

 ان کی تصنیفات کی تعداد درجن بھرسے زائد ہے، جن میں ان کی خود نوشت سوانح’’بوے گل، نالۂ دل، دودِ چراغِ محفل‘‘، ’’پسِ دیوارِ زنداں ‘‘، تمغۂ خدمت‘‘، ’’موت سے واپسی‘‘اپنے آپ میں غیر معمولی خوبیوں کی حامل ہیں، شخصیات وسوانح کے موضوع پر’’چہرے‘‘، ’’عطاء اللہ شاہ بخاری:سوانح و افکار‘‘، ’’ابوالکلام آزاد:سوانح و افکار‘‘’’مولانا ظفر علی خاں ‘‘ وغیرہ قدر کی نگاہ سے دیکھی جاتی ہیں ۔ان کی وفات کے بعد کئی اربابِ تحقیق و تالیف نے ان کے نادرمضامین و نگارشات کومستقل کتابوں کی صورت میں مرتب کیاہے، جو خاصے کی چیز ہیں ۔

 ان کی شاعری میں بھی بلا کا جوش وولولہ پایا جاتا ہے، وہ شاعری میں مولانا ظفر علی خاں اوراختر شیرانی سے متاثر تھے، اسی طرح احسان دانش کی انھیں باقاعدہ شاگردی حاصل تھی، اس کے علاوہ حالات اور زمانے کو بہت قریب سے دیکھنے اور محسوس کرنے کی وجہ سے بھی ان کی شاعری میں حقائق بیانی کا عنصربدرجۂ اتم پیدا ہوگیا تھا، وہ چوں کہ میدانِ سیاست کے بھی شہہ سوار تھے؛اس لیے روایتی شاعری کے ساتھ ان کے یہاں سیاسی اتار چڑھاؤ کی منظر کشی بھی نمایاں طورپر پائی جاتی ہے، ان کی شاعری کے مختلف مجموعے مطبوع ہیں،  تقریباً دو ہزار صفحات پر مشتمل ضخیم کلیات بھی چھپ چکی ہے۔

1 تبصرہ
  1. محمد قاسم چیمہ کہتے ہیں

    ہت خوب، عمدہ تحریر، آغا صاحب پر ایک عرصے بعد اچھی تحریر پڑھنے کو ملی، جس میں مجلس احرار، شاہ جی، ہندوستان کی سیاست اور ایوب خان کے خلاف جدوجہد سمیت ختم نبوت کے موضوع بھی شامل ہے۔ اللہ کرے زور قلم اور زیادہ!

تبصرے بند ہیں۔