بزم صدف انٹر نیشنل کے زیر اہتمام نقش دائم اور روزنامہ تاثیر کا اجراء و شعری نشست

بزم صدف بین الا قوامی سے می نار، ایوارڈ تقریب اور عالمی مشاعرہ کے دوسرے دن حیدر آباد پیلیس میں پروفیسر جاوید زیدی کی ترتیب کردہ کتاب جو ان کے والد محترم کے کلام پر مشتمل ہے (نقش دائم) اور ہندوستان کے مختلف شہروں سے شائع ہونے والا معروف اردو اخبار روزنامہ تاثیر کا اجراء ہوا، واضح رہے کہ کم مدت کے باوجود بزم صدف کی ادبی و علمی کارگزاریاں عالمی طور پر توجہ حاصل کرنے میں کامیاب ہیں خاص طور پر سے مہجری ادب کی شناخت اور اردو کی نئی بستیوں میں مقیم افراد کی ادبی اور علمی سرگرمیوں سے اردو دنیا کو روشناش کرانے کے لئے بزم صدف کی سرگرمیاں متاثر کن ہیں، بزم صدف کے عالمی ایوارڈ اب تک جن لوگوں کو ملے ہیں انکی نمایاں خدمات کا ایک عالم معترف ہے اس اعتبار سے بزم صدف کے انعامات عالمی سطح پر تعظیم کی نگاہوں سے دیکھے جاتے ہیں۔

بزم صدف کے چئرمین جناب شہاب الدین احمد نے مہمانوں کا گرم جوشی سے استقبال کیا، ایوارڈ یافتگان کے علاوہ دیگر ممالک سے تشریف لائے ہوئے مہمان شعرائے کرام نے بھی اس پروگرام میں بطور خاص شرکت کی جنہیں پروگرام کے اختتام پر ائر پورٹ کا رخ کرنا تھا، نئی نسل کی حوصلہ افزائی اور نئی صلاحیتوں کو منظر عام پر لانے کی بزم صدف کی کاوش کے پیش نظرتنظیم کے پروگرام ڈائرکٹرجناب احمد اشفاق نے ابتدائی گفتگو کے بعد نظامت کی باگ ڈور سنبھالنے کے لئے دوبئی سے تشریف لائی ہوئی معروف شاعرہ محترمہ عائشہ شیخ عاشی کو اس شعر کے ساتھ آواز دی کہ

تم آگئے ہو تو اب چاندنی سی باتیں ہوں
زمیں پہ چاند کہاں روز روز اترتا ہے

محفل قہقہ زار ہوئی اور تالیوں میں عائشہ شیخ عاشی کا استقبال کیا گیا، انہوں نے پھر باری باری سے مہمانوں کو اسٹیج پر دعوت دی تقر یب کی صدارت بزم صدف انٹر نیشنل ایوارڈ یافتہ معروف شاعر و ادیب باصر سلطان کاظمی نے کی، مہمان خصوصی کی حیثیت سے ہندوستان سے تشریف لائے ہوئے مہمان شاعر پروفیسر ظفر امام جبکہ مہمان اعزازی کی حیثیت سے جناب عظیم عباس، پروفیسر سید جاوید زیدی، ڈاکٹر حسین احمد اور جناب حبیب النبی نے شرکت کی،بزم صدف کے سرپرست اعلی جناب صبیح بخاری اور چئر مین جناب شہاب الدین احمد کو بھی اسٹیج پر دعوت دی گئی اسکے بعد باری باری سے اسٹیج پر تشریف فرما تمام مہمانوں کی خدمت میں ہدیہ گل پیش کیا گیا۔

ناظمہ نے تلاوت کلام پاک سے تقریب کے آغاز کے لئے سید شکیل احمد کو آواز دی، تلاوت کلام اللہ کے بعد اسٹیج نقش دائم اور تاثیر کا رسم اجراء عمل میں آیا اس کے بعد معروف شاعر و ادیب احمد اشفاق کو نقش دائم کے تعلق سے مضمون پیش کرنے کی دعوت دی گئی۔

احمد اشفاق نے پروفیسر اکرام کے طویل مضمون سے چند اقتباسات پیش کئے جو مندرجہ ذیل ہیں:

حضرت مولانا کی ظہیر احمد زیدی کی شخصیت بڑی طرح دارہے، ان کا علمی تبحر، ان کا تقوی و طہارت، ان کا مذہب و مسلک ان کا ایثار، انکی قربانی ان کا صبر و شکر، انکی خدمت خلق اور سب سے بڑھ کر انکی وہ محبت و تعلق جو ان کو اپنے محبوب و مطلوب، فخر موجودات مولائے کل، ختم رسل ھضرت محمدصلی اللہ علیہ وسلم سے تھی، وہ زندگی بھر عظمت رسول کے گن گاتے رہے، انکی ساری زندگی مذہب کے دامن میں بسر ہوئی، انہوں نے نصف صدی سے زائد عرصہ تک علم و دانش، فکر وفن اور بصیرت وآگہی کی شمع جلائے رکھی، ہماری علمی، ادبی، تہذیبی اور مذہبی بساط پر انہوں نے گل کاریاں کی ہیں انکی چمک دمک اور دلکشی عرصہ تک باقی رہے گی۔

علم و فضل کے کارزار مین انکا پایہ تخت بلند تھا، شعر و ادب کی دنیا انکی اپنی دنیا تھی تصنیف و تالیف کے میدان کے شہسوار تھے، اردو کے ساتھ عربی و فارسی پر بھی حاکمانہ قدرت رکھتے تھے، نیز انگریزی اور ہندی سے واقف تھے اس لئے انکے طرز تحریر میں ایک خاص جاذبیت، دل کشی اور حسن پیدا ہو گیا تھا، عقلی، نقلی اور منطقی استدلال، جملوں کی مناسب نشست و برخاست، پیراگراف کی اصولی تشکیل اور مربوط و منظم انداز بیان کے ذریعے اپنے اسلوب میں علمی وقار کے ساتھ جمالیاتی اقدار اور ادبی حسن قائم رکھے تھے۔

ایوارڈ یافتہ مہمان شاعر راشد انور راشد میں اپنے مختصر مضمون میں کہا کہ نقش دائم باقیات کی شکل میں سید ظہیر احمد زیدی کا ایک خوبصورت انتخاب ہے جسے ان کے فرزند سید محمد جاوید زیدی نے بڑے سلیقے سے ترتیب دے کر شائع کیا ہے، سید ظہیر احمد زیدی اردو کے ساتھ ساتھ عربی اور فارسی زبانوں میں بھی ماہرانہ قدرت رکھتے تھے اور اس کا اظہار انہوں نے تینوں زبانوں میں عارفانہ اور ادبی کلام کی صورت میں کیا ہے، ان کے کلام کا مطالعہ کیا جائے تو زبان و بیان کے اعتبار سے وہ ایک کہنہ مشق شاعر معلوم ہوتے ہیں ان کے اردو کلام میں غزلوں اور نظموں کے ساتھ ساتھ نعتیہ کلام اور منقبت بھی شامل ہے جن کے مطالعے سے زبان و بیان پر انکی دسترس کا اندازہ ہوتا ہے، غزلوں اور نظموں میں ان کے پیر و مرشد اقبال رہے ہیں اقبال کی پیروی بہت شعراء نے کی ہے لیکن اقبال کا سحر شعراء پر اس طرح حاوی ہو جاتا ہے کہ انفرادی شناخت گم ہو جاتی ہے، اقبال کے علاوہ ان کے غزلیہ اشعار میں فانی اور اصغر کا رنگ بھیانکی بنیاد ی ترجیحات کا حصہ ہوتا تو ان کے اندر وہ صلاحیتیں تھیں کہ وہ اپنی شناخت قائم کر سکتے تھے۔ انکی غزلوں کے اشعار ملاحظہ ہوں:

عقل ہے خام کار ابھی شوق ہے ناتمام ابھی
ہونا ہے ضبط غم کے ساتھ مو ت سے ہم کلام ابھی
جذبہء جستجو بڑھا شوق بھی استوار کر
بے خودیء عشق میں کعبہ ہے کیا بت خانہ کیا

غزلوں کے ان متفرق اشعار سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ ظہیر احمد زیدی اقبال سے کس قدر متاثر تھے، نظموں میں بھی اقبال ہی ان کے ذہن پر حاوی دکھائی دیتے ہیں، مخصوص الفاظ کے استعمال اور مضمون کے انتخاب سے بھی میری باتوں کی تصدیق ہوتی ہے۔

مجموعی طور پر نقش دائم کا مطالعہ قاری پر مثبت اثرات نقش کرتا ہے۔ ظہیر احمد زیدی باقاعدہ شاعر نہیں تھے اور نہ ہی شاعری میں ان کا زیادہ وقت گزرتا تھا لیکن جتنی بھی شاعری ان کے قلم سے وجود میں آئی وہ انہیں پختہ شاعر ثابت کرنے کے لئے کافی ہے، دیکھنے کو ملتا ہے زیدی صاحب کل وقتی شاعر نہیں تھے، اپنے ادبی شناخت کے استحکام میں انہوں نے سنجیدگی سے توجہ نہیں دی،ورنہ دنیاےء شعر و ادب میں اپنی اہم شناخت رکھتے۔

تقریب کے پہلے حصے کے آخر میں نقش دائم کے مرتب پروفیسر جاوید زیدی نے اپنے والد علامہ سید ظہیر احمد زیدی کی حیات و خدمات پر بھر پور روشنی ڈالی اس کے بعد تقریب کے دوسرا حصہ مشاعرے کا جس میں شعرائے کرام نے منتخب کلام سنایا اور سامعین سے بھر پور داد و تحسین وصول کئے۔

محترمہ عائشہ شیخ عاشی کی موئثر نظامت میں دو گھنٹے تک شائقین ادب ہماری زبان کے چنندہ شعراء کے منتخب اشعار کو سنتے رہے اور بے پناہ داد سے نوازتے رہے، دوحہ قطر میں مقیم درجنوں شعرائے کرام بھی موجود تھے اور اپنے مہمان شعراء کے کلام سے محظوظ ہو رہے تھے۔ متعدد ادبی تنظیموں کے سربراہان بھی مشاعرہ میں موجود تھے۔

تقریب کا اختتام پر بزم صدف کے سرپرست اعلی جناب صبیح بخاری نے اپنے خطاب میں کارکنان بزم صدف کو دونوں دن کے کامیاب پروگرام کی کامیابی کی مبارک باد پیش کرتے ہوئے کہا کہ اردو کے کاز کے لئے نئی صلاحیتوں کو منظر عام پر لانا چاہئے اور اس زبان کا دائرہ کا وسیع سے وسیع تر کرنا چاہئے۔ درمیان گفتگو نہ صرف بزم صدف کی کارکردگی کی تعریف کی بلکہ قطر کی دیگر تنظیموں کے کارناموں کو بھی سراہا۔

آخر میں بزم صدف کے چئیرمین جناب شہاب الدین احمد نے ایک روز قبل ہوئے بین الاقوامی ایوارڈ تقریب کی کامیابی کے حوالے سے گفتگو کی اور ان تمام لوگوں کا شکریہ ادا کیا جنہوں نے کسی بھی طرح کی معاونت کی،مجلس مشاورت، اراکین کمیٹی، سرپرست کمیٹی اور میڈیا کے علاوہ تمام معاونین کا شکریہ ادا کیا اور آج کی تقریب کی کامیابی شرکائے محفل کی موجودگی کو قرار دیا، ساتھ ہی یہ بھی اعلان کیا کہ بزم صدف کے اشراک سے مہجری ادب کے تعلق سے روزنامہ تاثیر کا مڈل ایسٹ ایڈیشن عنقریب ہی شائع ہوگا جو پندرہ روزہ ہوگا اور اسکی ترتیب و پیش کش کی ذمہ داری احمد اشفاق کے سر ہوگی، شعراء و ادباء سے درخواست کی کہ اپنی تخلیقات براہ راست انہیں ارسال کئے جائیں۔

شعرائے کرام نے یوں تو منتخب اشعار ہی سنائے مگر نمونہ کے طور پر یہاں چند اشعار پیش کئے جاتے ہیں:

باصر سلطان کاظمی

جب بھی ملے ہم ان سے انہوں نے یہی کہا

بس آج آنے والے تھے ہم آپ کی طرف
دل لگا لیتے لیں اہل دل وطن کوئی بھی ہو
پھول کو کھلنے سے مطلب ہے چمن کوئی بھی ہو 

ظہور الاسلام جاوید

ہمارے دور میں اب نفسا نفسی کا یہ عالم ہے
جنازے روز اٹھتے ہیں مگر ماتم نہیں ہوتا
دست فنکار کی فنکاری کا عالم یہ ہو
نقش بے چین ہو پتھر پہ ابھرنے کے لئے

صفدر امام قادری

کئی یگوں کے فسانے تھے میری آنکھوں میں
یہ اور بات کہ خاموش و بے صدا میں تھا 
سڑک کے حادثے میں ہم بھی اک دن ڈھیر ہو جائیں
یہ غزلیں شعر اور دفتر میاں سب کچھ بھلاوا ہیں

راشد انور راشد

ایک قطرہ ہی سہی آنکھ میں پانی تو رہے
اے محبت ترے ہونے کی نشانی تو رہے
میں تو منجدھار میں ہوں، پتوار میں شامل ہی نہیں
جی حضوری مرے کردار میں شامل ہی نہیں

احیاء الاسلام (احیا بھوجپوری)

تبصرہ کیوں کر رہے ہو بارہا اجداد پر
فیصلہ ہوگا تمہارا آج کی بنیاد پر
سب حفاظت کر رہے ہیں مستقل دیوار کی
جب کہ حملہ ہو رہا ہے مستقل بنیاد پر

پروفیسر ظفر امام

ایک دروازہ ہے سو دیوار ہے
پار کر جاوء تو بیڑا پار ہے
کیا غضب اس آدمی میں آج کل
آدمیت ہی کرائے دار ہے

عائشہ شیخ عاشی

اس بار محبت تو مجھے خود سے ہوئی ہے
ایسے میں مجھے مجھ سے جدا کون کرے گا
عشق مسلسل ایک عبادت ہوتا ہے
سجدہ چھوڑ کے جانے والے کون ہو تم

زاہد الحق

سدا خاروں میں رہ کر جو چمن کو اوڑھ لیتے ہیں
خزاں میں کیسے وہ سر و سمن کو اوڑھ لیتے ہیں
گھروں میں رہنے والو ہم یہاں پر شام ہوتے ہی
جلا کر شمع یادوں کی وطن کو اوڑھ لیتے ہیں

شوکت علی ناز

کتنا سادہ ہے فسانہ مری تنہائی کا
اس میں کردار ہے تنہا مری تنہائی کا
آئینہ جب کبھی تنہائی کا دیکھا تو کھلا
میرے جیسا ہے سراپا تری تنہائی کا

منصور اعظمی

آج پھر اس نے کیا فون کہ گھر آجاؤ
آج پھر میں نے کھلونوں کی خریداری کی۔
کل تجھے یاد کرے گا یہ زمانہ منصور
دور حاضر میں بھلے ہی تجھے شہرت نہ ملے۔

ڈاکٹر وصی بستوی

بقدر ظرف خواہش کی سدا تکمیل ہوتی ہے
وجو پھولوں سا ممکن ہے فقط اک بوند شبنم سے
مرا ذوق طلب اتنی اجازت مجھکو دیتا ہے
چرا لوں میں بھی کچھ موتی کسی کی چشم پرنم سے

روئیس ممتاز

خود اپنی حمد ہے گویا جہاں شامل ہو اپنی ذات
وہ فن کیا فن ہے جس میں ہو بجز اللہ کوئی بات
الہی دل وہ دے جس میں بس اک تو ہی تو بس تو
ترا بندہ ہو یہ شاعر تری باندی ہو یہ اردو۔

راقم اعظمی

وہ بات تری آکے مرے دل پہ لگی ہے
جو بات ابھی تو نے اشاروں میں کہی ہے
حیرت میں ہے کیوں دیکھ کے شہرت مری دنیا
راقم کو ہر اک چیز تو اللہ نے دی ہے

تبصرے بند ہیں۔