عہدِ سرسیّد کی نثر کے نقوش اور سیّد حامد کی علمی وراثت ( پہلی قسط)

صفدر امام قادری

سیّد حامد تمام عُمر ایک منتظم کے طور پر اپنی کارکردگی انجام دیتے رہے ۔ ہندستانی معاشرے میں اُن کی بنیادی شناخت ایک بڑے انتظام کار کی تسلیم کی گئی۔ اُن کی تعلیم انگریزی زبان کی مرہونِ منّت رہی لیکن اُن کے کارناموں کا ایک خاص پہلو اُن کی اُردو نثر نگاری بھی ہے جس کے مشتملات پر کبھی ہم توجّہ کرتے ہیں اور کبھی اس سے سرسری گزر جاتے ہیں۔ اپنی زندگی کے آخری 30؍برسوں میں سیّد حامد کے اردومضامین اور خطبات کی جو ایک باضابطہ دُنیا آباد ہوئی، وہ ان کے تمام تنظیمی کاموں کے ساتھ ساتھ مساویانہ توجّہ کی مستحق ہے۔ یہ وہ زمانہ ہے، جب سیّد حامد نے قوم و مُلک کے سلسلے سے اپنی باتیں خصوصی توجّہ کے ساتھ نذرِ قرطاس کیں اور انھیں عوام تک پہنچانے کی ذمّہ داری اُٹھائی۔ اپنی عوامی اور انتظامی زندگی کے تجربے اور ہندستانی قوم کی ضرورتوں کو پیش نظر رکھ کر انھوںنے اپنے سلسلۂ مضامین کا آغاز کیا۔
بے شک علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی کی وائس چانسلر شپ نے ہندستانی مسلمانوں کی حقیقی صورتِ حال اور اُن کے صبر آزما مسائل کے بارے میں سنجیدگی سے غور و فکر کی طرف سیّد حامد کو اُکسایا ہوگا۔ ’’تہذیب الاخلاق‘‘ کی تجدیدِ اشاعت اور ضروری سوالوں پر اپنے خیالات کا سلسلہ ظاہر کرنے سے سیّد حامد کی باضابطہ مضمون نویسی کا سلسلہ دراز ہوا۔ سرسیّد اور ان کے رفقا کی یاد اور اُن کے اثرات سے جو یہ سلسلہ شروع ہوا، وہ اسلاف کے انھی آزمائے ہوئے راستوں کی طرف بڑھا جس کی بنیاد میں قطعیت ، منطقی ربط، سلاست، سائنسی فکر، تاریخ کا بار بار جائزہ لینا، قوم کو بڑے بڑے کاموں کے کرنے کے لیے آمادہ کرنا، راست انداز میں بغیر کسی آرایشی دھُن کے اپنے بول بولنا اور سب سے بڑھ کر مستقبل پر نظر رکھنا جیسے عناصر اساسی حیثیت رکھتے تھے۔
سیّد حامد کی تحریروں کے پس منظر میں فیضانِ سرسیّد کے نقوش اس طَور پر سب سے زیادہ روشن معلوم پڑتے ہیں کیوںکہ سو سوا سو برس کے عرصے کو منہا کرلیں تو اس بات سے انکار مشکل ہے کہ کم و بیش سیّد حامد کی مضمون نویسی کے مقاصد بھی فی الحقیقت وہی تھے جو کبھی سرسیّد اور اُن کے رفقا کے لیے ہوا کرتے تھے۔ سیّد حامد نے بھی تمام مسائل و معاملات میں تعلیم کو سرِفہرست رکھا اور تعلیم کے بڑے سروکار اور توسیع و اشاعت سے بے خبر نہیں ہوئے۔ کبھی کبھی وہ اس سلسلے میں تحریک کا رکے بہ طور بھی کوچہ کوچہ اور قریہ قریہ سرگرداں ہوئے لیکن وہاں بھی قلم اور زبان کے استعمال کو ہی بنیاد ی اہمیت عطا کی۔ عہدِ سرسیّد کی روایات کی خوش گوار تجدید اس طور پر بھی انھوںنے کی کہ قومی مسائل پر صرف مضامین نہ لکھے بلکہ تحریری خطبات کا بھی ایک باضابطہ سلسلہ قائم کیا جس سے اُن کی فکر اور خواب قوم تک بڑے سلیقے سے پہنچائے جاسکیں۔ انھی وجوہات سے سیّد حامد کی شخصیت اور کام کی توسیع ممکن ہوسکی اور وہ ایک قومی اثاثہ ثابت ہوئے۔ 1980کے بعد کے عرصے میں ہندستانی مسلمانوں کے درمیان سے بہ مشکل چند ایسی شخصیات سامنے آسکی ہوںگی جن کے مجموعی کارناموں کو سیّد حامد کے مساوی یا مقابل گردانا جاسکے۔
سرسیّد کی فیض رسانی سے سیّد حامد کے مضامین کی بنیادیں استوار ہوئیں۔ان کے موضوعات ،اندازِ فکر اور پیش کش کا اسلوب بھی خانوادئہ سرسید کے رکن رکین ہونے کی کہانی کہتے ہیں۔ ’تہذیب الاخلاق ‘کی تجدید ِاشاعت کے موقعے سے سید حامد نے اس رسالے کو صرف اصلاحی نہیں سمجھا بلکہ اسے ’توسیعی ‘قرار دیا۔ توسیعی کی وضاحت کرتے ہوئے ان کا کہنا ہے کہ افق وسیع کرنے والا۔اس طور پر سید حامد کے نئے مضامین کی فکری بنیادیں سمجھ میں آجاتی ہیں کیوں کہ وہ قوم کے ذہنی و فکر ی آفاق بڑھانے کا مقصد لے کر اپنی مضمون نویسی کا باضابطہ آغاز کر تے ہیں۔
سید حامد نے اس سلسلے سے اپنی تمہید میں ہی چند باتیں واضح طور پر لکھی ہیں جن سے ان کے علمی مزاج کے اصول و ضوابط طے ہوتے ہیں:
(الف)مقلّدین کے نامئہ اعمال میں اختراع اور ایجاد نہیں لکھی جاتی ؛ پیروی لکھی جاتی ہے اور اتباع‘‘[کربِ آگہی؛ص 6]
(ب) ’’یہ عہد تعاقب اور تکرار کا عہد ہے۔ ‘‘(ایضا؛ ص ۔7)
(ج)’’یہاں میں نے جو کچھ لکھا ہے ، اسے شدت سے محسوس کیا ہے،اس پر دیر تک غور کیا ہے۔‘‘(صفحہ۔8)
(د)’’کرب ِ آگہی گر بیان میں منہ ڈالنے کی ایک عبرت خیز کوشش ہے۔ ‘‘(ص۔10)
(ہ)’’میں اپنے ان پارہ ہائے دل کو، جو تہذیب الاخلاق میں شائع ہوتے رہے ہیں، اپنے مرحوم والدین کے نام منسوب کر رہاہوں۔‘‘(ص۔11)
ان تفصیلات سے یہ سمجھنا دشوار نہیں کہ سید حامد خود کو دبستانِ سرسید کا ایک فرزند سمجھتے ہیںاور اس عہد کے اہالیان ِ علم کا خود کو پیروی کرنے والا جانتے ہیں۔ یہ ایک لائق اولاد کا ہی صرف رویہ نہیں بلکہ حقیقت یہ ہے کہ اپنے بزرگوں کے نقش ِ قدم پر چلنا اور منتخب ِ روزگار افراد کے نشانات کو پانے کی کوشش کرنا کوئی معمولی کام نہیں ہے۔ سید حامدنے ہندستانی مسلمانوں اور اردو کے عظیم لکھنے والوں کی سب سے مستند اور مستحکم نسل کی پیروی اور اتّباع کا ہدف رکھ کر ایک عظیم تعلیمی ، فکری، تصنیفی اور قومی زندگی کا جو طَور اپنایا ، یہی ان کی کامیابی کا حقیقی ثبوت ہے۔
سید حامدنے اپنے مضامین کے بارے میںجن بنیادی باتوں کی طرف اشارہ کیا ، اسی سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ وہ عہدِ سرسید کے فرزندان کے راستوں پر چلنے کے لئے کوشاں ہیں۔ ’تہذیب الاخلاق‘ کے لہجے کو انھوں نے ’سنجیدہ، علمی اور دھیما‘قرار دیا ہے۔ یہ تین الفاظ عہدِ سرسید کے تمام کارپردازوں کے مخصوص اسالیب کی پہچان کے لئے استعمال میں لائے جا سکتے ہیں۔ سید حامد نے حقیقت میں انھی عنوانات سے خود کو محصور و متحرک کرنے کی کوشش کی۔انھوںنے اپنے مضامین کو اپنے گریبان میں منہ ڈالنے کی ایک عبرت خیز کوشش قرار دیا ہے۔یہ بھی تصنیف و تالیف کے باب میں وہ فارمولا ہے جسے سرسید اور ان کے رفقا عطا کر گئے۔ وہ شدت سے محسوس کرکے، کسی موضوع پر تادیر غور و فکر کرکے ہی کچھ لکھتے ہیں، یہ اصول بھی ثابت کرتا ہے کہ عہدِ سرسید کا پرتَو یہاں اُبھر رہا ہے۔ اپنے مضامین کے لئے ایسی ترکیب صرف ’جا نشینانِ سر سید‘ کو زیب دے سکتی ہے۔ سید حامدنے یہ اصطلاح اپنی تحریروں کے لئے استعمال کرکے ، شاید ہمیں یہ اشارہ بھی دینا چاہا ہے کہ مقلّدین کی اس جماعت میں ان پر بھی نظر کی جائے۔
شیکسپئر کے کردار کنگ لیئر کی زندگی پر غور و خوض کرتے ہوئے سید حامدنے سرسید کی عظیم زندگی اور ان کی تحریک پر چند الفاظ رقم کئے ہیں۔ سرسید کے ساتھ قوم کا رشتہ اور سلوک کے کتنے عبرت آمیز موڑ سید حامد نے اشاروں میں واضح کر دیے۔ وہ رومن ٹریجڈی کے بہانے ہندستانی قوم کی بے مہری اور اپنے حقیقی محسنوں سے غیر مشفقانہ سلوک کا تذکرہ کرتے ہوئے سر سید کی عظمت کا اعتراف کرتے ہیں۔سید حامد شاید یہاں بین السطور میں مسلمانوں کی اس سرد مہری کا بیان بھی کرنا چاہتے ہیں جو قوم اپنے قائدین کے ساتھ اکثر روا رکھتی ہے۔ شاید اپنے لئے بھی یہیں سے انھوں نے زندگی کے واضح نشا نات متعین کیے۔
سید حامدنے کم و بیش تیس برس سرگرمی کے ساتھ قومی کاموں میں حصہ لیا اور بہت سارے مسئلوں میں ہندستانی مسلمانوں میں وہ قائد کا درجہ رکھتے تھے۔انھو ںنے سرسید ہی کی طرح تعلیم کو مرکز میں رکھ کر اپنے دیگر مقاصد کو اس سے متّصل کرکے بڑھانے کی کوشش کی۔ بلا شک و شبہ ان کے مقاصد اور حصولیابی کے کچھ زاویے کج مج اور بے میل بھی رہے۔ دھُن کا پکا کبھی کبھی جمہوری تقاضوں سے بے پروائی کا خطرہ بھی مول لیتا ہے جس کے سبب وہ ایک نہ ایک دن خود کو غیر معنویت پر آنسو بہانے کے لئے مجبور پاتا ہے۔ سید حامدپر بھی اپنی صدا کے گنبدِ بے دَر کا قیدی ہونے کے الزامات عائد ہوئے۔ وہ منصب کے بغیر کبھی نظر نہ آئے۔ اندرا گاندھی کی وفات پر سید حامد نے جو مضمون لکھا ، اس میں ان کی کامیابی اور ناکامی دونوں کے اشارے موجود ہیں۔ ذیل کا اقتباس اس طور پر بھی پڑھنا چاہیے کہ سید حامد آخر کیوںکر اتنی گہرائی سے یہ بات سمجھتے ہیں ۔ملاحظہ کیجئے:
ـ’’مسز گاندھی کے شانے اتنے فراخ نہ تھے جتنے ان کے عظیم باپ کے اور نہ دل اتنا وسیع ، نہ دماغ اتنا با خبر لیکن انتظامی امور میں وہ ان سے زیادہ موثر تھیں۔ فیصلہ اور کام کی راہ میں وہ تکلّف ، مروّت اور مراعات کو حائل نہ ہونے دیتی تھیں، فیصلے کا نفاذ بے دریغ کراتیں، اور چالاکی اور سینہ زوری اور سازش کرنے والوں یا وزارتِ عظمیٰ کے خواب دیکھنے والوں کی سر کوبی انتہائی شائستہ چابک دستی کے ساتھ کرتیں۔زبان پر کوئی سخت لفظ نہ آتا ، ملنے کی نوبت بھی نہ آتی اور سرکش اور سازشی کو پتہ چل جاتا کہ وہ آسمان سے زمین پر پٹک دیا گیا ہے۔ باریابی کے دعویدار کو اچانک پتہ چلتا ہے کہ دروازہ اس پر بند کر دیا گیا ہے۔ سر ٹکرائے گا تو بھی نہ کھلے گا۔ جو معتوب یا مشتبہ ہوا، وہ خواہ کسی ریاست کا وزیرِ اعلیٰ ہی کیوں نہ ہو، ہفتوں انتظار کرے، تب بھی حاضری سے محروم رہے گا۔ اپنا سا منہ لے کر واپس چلا جائے گا۔‘‘[کربِ آگہی، صفحہ 231۔230)
سید حامدکے دیگر کاموں سے گریز کرتے ہوئے ان صفحات میں اُن کی نثر کے ان خاص پہلوئوں پر توجہ کی جاتی ہے جو اُن کے خاص ادبی اوصاف کے طور پر نمایاں ہوئے۔ بنیادی کوشش اس پہلو سے یہ بھی ہوگی کہ ان کی نثر کے عناصرِ ِ ترکیبی گرفت میں آجائیں ۔ اس کے بعد یہ نتیجہ اخذ کرنے کی کوششیں کی جائے کہ کیا انھیں عہدِ سرسید کا خوشہ چیں یا مقلّد یا وارث تسلیم کیا جا سکتا ہے یا نہیں؟نثر نویسی کے ان بہترین حربوںکا استعمال کیا سید حامد کو کس حد تک مہارت کے ساتھ آتا ہے جسے انیسویں صدی کے ہمارے عظیم نثر نگاروں نے سرسید کی رفاقت میں بڑے سلیقے سے آزمایا تھا۔
سر سید ، محمد حسین آزاد، نذیر احمد ، الطاف حسین حالی اور شبلی نعمانی کی نثر کے سید حامد کیسے رمز شناس ہیں، اس کا اندازہ کرنے کے لئے بہت سارے مضامین کے بجائے صرف ایک مضمون ’شے لطیف‘ کا مطالعہ کرنا چاہیے۔ مختصر سا مضمون ہے لیکن شخصیت سازی اور زندگی کی تعمیر و تشکیل کا کون سا پہلو ہے جسے انسانی زندگی میں شامل کرنا مقصود ہو لیکن وہ اس صفت کے بغیرممکن نہ ہو؟ یہ اصلاحی ، اخلاقی اور نفسیاتی ہر نقطۂ فکر کو کچھ اس انداز سے ایک وصف کی شکل میں پہچاننے کی کوشش ہے۔ اس مضمون سے یہ بھی سمجھ میں آتا ہے کہ اردو کی ا دبی، علمی اور تہذیبی روایت سے سید حامد کا کتنا گہرا رشتہ ہے۔ علی گڑھ تحریک کو اردو کی علمی نثر کا بنیاد گزار مانا جاتا ہے اور یہ سب سمجھتے ہیں کہ اُسی دور میں ہماری نثر نے اپنے پائوں پر چلنا اور آزادانہ طَور پر کھڑا ہونا سیکھا ۔ ’شے لطیف‘ جیسا مضمون عر فانِ ذات و کائنات کے ساتھ ساتھ آگہیِ دبستان ِ سرسید کے فیضان کا واقعتا گل سر سَبَدْ ہے۔
’شے لطیف‘عنوان اور اس کی معنوی جہات پر غور کریں تو ایسا محسوس ہوگا کہ ایک پیراگراف یا تین جملے میں گفتگو مکمل ہو جائے گی۔’بحث و تکرار‘، ’زبانِ گویا‘، ’خوشامد‘ جیسے مضامین کو یاد کیجیے۔ سید حامد ایک چھوٹی سی بات پر سلسلہ در سلسلہ گویا ہوتے ہیں اور علم و آگہی کے دفتر سیاہ ہوتے جاتے ہیں۔ بات سے بات نکلتی ہے اور تجربات ِ زندگی کا نچوڑ سامنے آجاتا ہے۔ یہ مضمون حقیقت میں اردو کی علمی نثر کا ایک ایسا مثالی نمونہ ہے جس میں سید حامد نے عہد ِ سر سید کی مضمون نویسی کا صرف لہو نہیں نچوڑا بلکہ اس کی پوری روح کشید کرنے میں بھی کامیابی پائی ہے۔ [معذرت کے ساتھ یہ عرض کر دیں کہ صوبہ بہار میں 12 ویں جماعت کے لئے اردو کی کتاب میں اپنے دوست معروف محقق اور شاعر ڈاکٹر ظفر کمالی کی صلاح سے آج سے کوئی ۹ برس پہلے ’شے لطیف ‘کو علمی مضمون کی مثال کے طور پر شامل ِ نصاب کرکے ہم نے اپنے طلبہ کو اردو کی عظیم علمی روایت سے آگاہ کرانے کا خاص موقع حاصل کیاتھا۔ سید حامدکے مضمون سے یہ فیضان آج بھی جاری ہے۔ ]
سید حامد نے اپنے مضامین کی بنیادی جہت قوم کی ضرورتوں کے مطابق متعین کی لیکن گفتگو کا انداز عالمانہ رکھا۔ وہ خانوادۂ سرسید کے ایک انوکھے فرزند مہدی افادی کے خاندان سے براہ راست متعلق تھے، اس لیے بھی شایدایک مخصوص شاعرانہ اور رومانی فضا قائم کرنے میں اردو نثر کے متعدد روایتی ذرائع کا وہ استعمال کرتے ہیں۔ علی گڑھ تحریک میں اردو نثر نے دونوں ذائقے حاصل کیے تھے۔ سر سید کی قطعیت اور دو جوڑ دو والی نثر اور دوسری طرف سادگی میں پُرکاری کا طَور۔ پہلے انداز کے نمائندہ حالیؔ ہیں اور اسی رنگ میں سب لکھنے والے بڑھتے رہے۔ پریم چند اور آج کے ننانوے فیصدی افراد اسی نپی تلی زبان کا استعمال کرتے ہیں لیکن اس کے قبل محمد حسین آزاد، شبلی نعمانی، مہدی افادی، آزاد انصاری، رشید احمد صدیقی، ابو الکلام آزاد، قرۃالعین حیدر، مشتاق احمد یوسفی اور زا ہدہ حنا جیسے نثر نگاروںکا اگر کوئی ایک قبیلہ قائم ہوتا ہے تو سید حامد اسی ذرا سی آرائش، ذرا سی رومانی اور ذرا سی مرصع رہنے والی نثر کے قافلے میں شامل کیے جا سکتے ہیں۔ سر سید کے عہد میں محمد حسین آزاد اور شبلی سے اس نثر کے دو سوتے پھوٹے تھے اور کسی نہ کسی شکل میں نثرِ سادہ کے مقابل یہ سلسلہ آج تک قائم ہے۔ سید حامد کو اسی حلقے میں رکھنا چاہیے۔
سید حامد نے اردو فارسی کا بہترین شعری ذوق پایا تھا۔ یوں تو انھوں نے باضابطہ شعر بھی کہے اور ان کا انتخاب بھی شائع کیا لیکن یہ حقیقت ہے کہ انھیں شاعر کی حیثیت سے قبولیت حاصل نہیں ہوئی۔ شعری ذوق کا انھوں نے اپنی نثر میں جتنا بلیغ استعمال کیا، اس سے ان کے مفاہیم اور اسلوبِ بیان دونوں میں چمک پیدا ہو جاتی ہے۔ کبھی شعر کے مصرعے، کبھی شاعرانہ تراکیب اور کبھی ترجمے یا صراحت کے ساتھ اردو فارسی اشعار۔ اس طرح سید حامد اپنی نثر نگاری میں روشنی اور قمقمے بھرتے ہیں۔ یہ سب کچھ اگر آرائش ِ بیان کے لیے ہوتا تو انھیں لکھنوء اسکول کا ایک بھٹکا ہوا مقلّد مان لیا جاتا اور ان کی نثر از کار رفتہ کے خانے میں ڈال دی جاتی لیکن ایسا نہیں ہوا-  (جاری)

تبصرے بند ہیں۔