مغلیہ دربار سے سائبر بستیوں تک اردو کا سفر

محمد احتشام الحسن مجاہد

ہ

ماری مادری زبان اردو جسے شیریں زبان کہا جاتا ہے لیکن اس میں لچک اور گذرتے حالات کے ساتھ خود کو بدلنے اور نئے رجحانات کے ساتھ خود کو ہم آہنگ کرنے کی شاندار صلاحیت بھی موجود ہے۔حالات سے ہم آہنگی کرنے کی یہ خاصیت نے اردو کو مناسب اور پرآشوب حالات میں بھی زندہ رکھا۔مغلیہ دورحکومت میں جہاں اردو کو درباری شان وشوکت نصیب ہوئی وہیں ہندوستان پر انگریزوں کے قبضہ کے بعد اس نے پرآشوب دوربھی دیکھا۔مغل بادشاہ اکبر اعظم کے زمانے میں اردو کو سکوں پر اپنی حکمرانی کرنے کا اعزازحاصل ہوا تو ایسٹ انڈیا کمپنی کے قیام اور انگریزوں کے تسلط کے بعد ہندوستان کے طول و عرض میں اردو کے لئے حالات مشکل ہونے لگے۔1857 میں جب ہندوستان کی آزادی کی جدوجہد شروع ہوئی تو اردو نے درباری عیش وعشرت کو خیرباد کہہ کر مجاہد آزادی کا لباس زیب تن کیا۔ تقریباً ایک صدی طویل ہندوستان کی آزادی کی جدوجہد کے دوران اردو نے ’’انقلاب زندہ باد‘‘ ‘سارے جہاں سے اچھا ہندوستاں ہمارا‘‘ جیسے نعرے اور نظموں کے ذریعہ ملک میں اپنے مقصد کے حصول کے لئے ماحول سازگار کیا۔آزادی کے وقت جب عوام میں ایک نئے جوش اور جذبہ کی ضرورت تھی تو مونالا الطاف حسین حالی کی ’’مقدمہ شعرو شاعری‘‘ کی صدا پر اردو نے اپنی کروٹ گل وبلبل سے دوسری جانب بدلتے ہوئے اپنے دامن میں معاشرے کے دیگر مسائل کو سمونا شروع کیا۔ آزادی کی جنگ جب آخری مراحل میں داخل ہوئی تو اردو نے بھی جدیدیت اور مابعد جدیت کی چادریںاوڑھنی شروع کی۔ہندوستان سے باہر کی دنیا میں جب دوسری عالمی جنگ کے بعد امریکہ اور برطانیہ جن کے درمیان دنیا کے سوپر پاور کی کرسی پر قبضہ کے لئے رسہ کشی بڑھنے لگی اور ان ممالک کے شعبہ دفاع کی جانب سے مواصلاتی نظام میں عقل کو حیران کردینے والی ایجادات ہونے لگی تو اردو کو ہندستان میں قومی مسائل سے نمٹنے کے ساتھ عالمی سطح پر خود کو کمپیوٹر اور انٹرنیٹ کی زبان کے طور پر منوانے کا چیلنج پریشان کرنے لگا۔1947 ہندوستان کی آزادی اور دوسری عالمی جنگ کے اختتام کے بعد جہاں ہمارے ملک اور عالمی سطح پر زندگی نہ صرف معمول کی طرف گامزن تھی بلکہ مواصلاتی دنیا میں نئی نئی ایجادات نے ترقی کے نئے ابواب کا آغاز کریا تھا۔1975 میں جب دنیا پرسنل کمپیوٹر سے واقف ہوئی تو اردو کو اپنی بقاء کے سب سے بڑے چیلنج کا سامنا ہوا لیکن اس نے ہمت نہیں ہاری بلکہ اس نے پھر ایک مرتبہ ثابت کردیاہے کہ گل وبلبل کے بعد اس نے جہاں خود کو معاشرتی زبان بنایا وہیں اب وہ کمپیوٹر اور انٹرنیٹ (سائبر ٹکنالوجی یا سائبر دنیا)کی زبان ہے۔
اردو آج سائبر دور میں اپنا نیا علاقہ آباد کرچکی ہے جو سائبر بستیاں کہلانے کا حقدار ہے۔سائبر بستیاں آباد کرنے میں جہاں اردو کو ایک جانب ہندوستان اور پاکستان کے کئی مخلص افراد کا بے لوث تعاون رہاتو دوسری جانب تجارتی اغراض سے کئی عالمی تنظمیوں نے اپنے مقاصد کے لئے ہماری مادری زبان کے قافلہ میں شامل ہوئے۔اردوآج اسمارٹ فون‘کمپیوٹر کے علاوہ اس طرح کے عصری مواصلاتی آلات سے انٹرنیٹ پر اپنے وجود کا لوہا منواچکی ہے۔اردو کی سائبر بستیوں کی سیر کا ارادہ کیاجائے تو آپ کو اندازہ ہوجائے گا کہ اسمارٹ فونس سے لیکر سوشل میڈیا تک اردو موجود ہے۔سوشل میڈیا نے جہاں دنیابھر کے عوام کو آپسی رابطے کا آسان ذریعہ فراہم کردیا ہے وہیں اردونے خود کو سوشل میڈیا کی زبان بنالی ہے۔
اردو سوشل میڈیا کی زبان: فیس بک آج ایک مقبول ترین سوشیل نیٹ ورکنگ سائیٹ ہے، جو 4 فروری 2004 ء کو متعارف کیا گیا اور مارک ذکربرگ اس کے بانیوں میں شمار کئے جاتے ہیں‘ جنہوں نے ہاورڈ یونیورسٹی میں اپنی تعلیم کے دوران اپنے کمرے کے ساتھی ایڈورڈو سیورین کے ساتھ اس ویب سائیٹ کو تیارکیا تھا جو ابتداء میں ہارورڈ یونیورسٹی کے طلبہ کیلئے فراہم کیا گیا تھا ۔عوام کی اکثریت اسی تفصیلات سے واقف ہے لیکن فیس بک کے منظر عام پر آنے سے قبل اس کے درپردہ بھی ایک کہانی موجود ہے کیونکہ فیس بک سے قبل 28 اکتوبر 2002 ء کو ’’فیس ماش‘‘ کے نام سے ایک ویب سائیٹ مارک ذکربرگ نے اپنی جماعت کے تین ساتھیوں اینڈریو میک کالم ، کرس ہاگس اور ڈسٹن موسکو وٹس کے ساتھ شروع کی تھی ۔ مارک ذکربرگ نے ’’فیس ماش‘‘ نامی ویب سائیٹ کیلئے سافٹ ویر تیار کیا ۔دیکھتے ہی دیکھتے یہ ویب سائیٹ یونیورسٹی کے طلبہ میں مقبول ہوتی چلی گئی لیکن 25 اکتوبر 2010 ء کو فیس ماش ڈاٹ کام 30,201 ڈالرس میں فروخت کردیا گیا جس کے بعد جنوری 2004 ء میں مارک ذکربرگ نے ’’دی فیس بک‘‘ نامی ویب سائیٹ کیلئے کوڈ تحریر کرنا شروع کیا ۔مارک نے 4 فروری 2004 ء کو فیس بک کا پہلا ورژن متعارف کیا جو "the Facebook.com” کہلایا۔ فیس بک کے بانیوں میں شامل ڈسٹنگ ماسکو وٹس جو کہ یونیورسٹی میں تعلیم کے دوران مارک کے کمرہ کے ساتھی تھے، انہوں نے فیس بک کو متعارف کرنے کی ابتدائی کوششوں کے حوالے سے کہا کہ جب مارک نے ویب سائیٹ مکمل کرلی تو اس کے متعلق اپنے چند دوستوں کو واقف کروایا جن میں سے ایک دوست نے کہا کہ اس ویب سائیٹ کو ’’کرک لینڈ ہاؤس‘‘ کی آن لائین میلنگ فہرست میں شامل کیا جانا چاہئے کیونکہ وہاں 300 افراد موجود ہیں۔ ڈسٹن نے مزید کہا کہ جب ہم نے اس مشورہ کو قبول کرتے ہوئے فیس بک کو کرک لینڈ ہاؤس کی آن لائین فہرست پر شامل کیا اور اس پر آنے والے آن لائین صارفین کی مصروفیات کا مشاہدہ کرنے لگے اور دیر رات گئے تھے ہم رجسٹریشن کی مصروفیات کا مشاہدہ کر رہے تھے اور دیکھتے ہی دیکھتے 24 گھنٹوں کے اندر 1200 تا 1500 افراد نے اس پر رجسٹریشن کیا۔فیس بک آج عوام میں انتہائی مقبول ترین سماجی رابطہ کا ویب سائیٹ ہے اور اس کے اعداد و شمار میں سرفہرست 10 ممالک بھی قابل ذکر ہیں جہاں اس کے سب سے زیادہ صارفین موجود ہیں۔ امریکہ وہ علاقہ ہے جہاں فیس بک استعمال کرنے والے صارفین کی تعداد 990.1 ملین ہے۔ اس فہرست میں ہندوستان 78 ملین صارفین کے ساتھ دوسرے مقام پر موجود ہے۔ برازیل ، انڈونیشیا ، میکسیکو ، برطانیہ ، ترکی ، فلپائن ، فرانس اور جرمنی بالترتیب تیسرے سے دسویں مقام پر موجود ہیں۔
مختلف ممالک میں عوام مختلف زبانوں کا استعمال کرتے ہیں، اسی وجہ سے فیس بک نے بھی ا پنی خدمات دنیا بھر کی زبانوں میں فراہم کرنے پر توجہ مرکوز کی اور مختلف ممالک سے آئی ٹی ماہرین کی خدمات حاصل کرتے ہوئے فیس بک نے انگلش کے علاوہ کئی زبانوں میں اپنی سہولیات فراہم کرنے کا ایک سلسلہ شروع کیا ہے جوکہ ہنوز جاری ہے۔ فیس بک کی فہرست میں اس وقت 107 زبانیں موجود ہیں اور صارفین ان زبانوںمیں فیس بک کی تمام ترسہولیات استعمال کرسکتے ہیں۔ مارک ذکربرگ نے جب مئی2008 ء میں ہندوستان کا دورہ کیا تھا تو یہاں کے آئی ٹی ماہرین سے ہندوستان کی علاقائی زبانوں میں فیس فک سہولیات کو فراہم کرنے پر کام شروع کیا ۔ فیس بک کی زبانوں کی فہرست میں ہندی کو 48 واں مقام حاصل ہے جبکہ زبانوں کی اس فہرست میں ہندوستان کی علاقائی زبانیں ہندی، پنجابی ، بنگالی ، تلگو ، ٹامل ، ملیالم اور اڑیا کے علاوہ اردو بھی شامل ہے ۔ سیدھے سے بائیں جانب لکھی جانے والی زبانوں میں اردو ، عربی ، پشتو ، پارسی اور عبرانی شامل ہیں۔
فیس بک پر اردو کی عمر صرف تین سال ہی ہے۔ڈسمبر 2013 میں دنیا بھر کے اردو داں افراد کو یہ خوش خبری ملی کہ انکے مقبول عام سماجی رابطے کے ویب سائیٹ فیس بک میں اردو کوشامل کردیا گیاہے۔فیس بک کی ٹرانسلیشن ٹیم نے ہزاروں الفاظ کا درست اردو ترجمہ کرتے ہوئے فیس بک کو اردو کے قالب میں ڈھالا اور اس طرح جہاں 2014 کے آغاز کے موقع پر دنیا بھر کے فیس بک صارفین نئے سال کی نیک تمناؤں کا اظہار کررہے تھے تو اردو والوں کے لئے فیس بک میں انکی اپنی مادری زبان نئے سال کا تحفہ ثابت ہوئی۔صارفین کے روزآنہ فیس بک پر ارسال کئے جانے والے پیغامات کے دیگر ممالک کے صارفین اور انکی مادری زبان میں انہیں سمجھنے کے لئے ترجمہ کی سہولت بھی فراہم کردی گئی ہے۔فیس بک کے پیغامات کا مختلف زبانوں میں ترجمہ فراہم کرنے کیلئے کمپنی نے ’’ملٹی لنگول کمپوزر‘‘ متعارف کیا ہے۔
ٹویٹر پر اردو :ٹویٹر ایک مقبول عام سوشیل نیٹ ورکنگ یا سوشیل بلاگ ہے جس کی بنیاد21 مارچ 2006 ء میں جیاک ڈارسے‘ ایون ولیمس ، بیز اسٹون اور نوہا گلاس نے ڈالی تھی ‘ جس کے بعد 15 جولائی 2006 ء کو اسے متحرک کیا گیا۔ 2012 ء تک اس کے صارفین کی تعداد 100 ملین سے زائد ہوچکی تھی اور 2013 ء میں 1.6 بلین یومیہ سرچ درخواستیں بھیجی جاتی تھیں جبکہ مارچ 2016 ء میں جب اس کی 10 ویں سالگرہ کی دھوم تھی تو اس وقت ٹویٹر پر ماہانہ فعل رہنے والے صارفین کی تعداد 310 ملین ریکارڈ کی گئی۔ سوشل نیٹ ورکنگ کا یہ مقبول عام ویب سائیٹ اپنے صارفین کو 140 حرفوں میں اپنا خیال یا بیان جاری کرنے کی سہولت فراہم کرتا ہے۔اس وقت ٹویٹر دنیا کی 48 زبانوں میں اپنی خدمات فراہم کر رہا ہے جس میں بین الاقوامی انگریزی کے علاوہ عربی ، جرمن ، فارسی ، فرانسیسی ، عبرانی ، ہندی ، بنگالی اور اردو قابل ذکر ہیں جبکہ ہندوستانی زبانوں کا تذکرہ کریں تو ٹویٹر مراٹھی‘ہندی‘بنگالی‘گجراتی‘تمل اور کناڈا میں دستیاب ہے۔ ٹویٹر نے مختلف زبانوں کے ذریعہ اس ویب سائیٹ کو استعمال کرنے والے صارفین کیلئے یہ سہولت فراہم کی ہے کہ جب ایک صارف اپنا یوزر نیم اور پاسورڈ فراہم کرتا ہوئے اس میں داخل ہوتا ہے تو اس کی جانب سے فراہم کی جانے والی سیٹنگ کی مناسبت سے اسے ٹویٹر کی خدمات اسی زبان میں دستیاب ہوتی ہے ۔ 2012 سے قبل ٹویٹر میں سیدھے سے بائیں جانب لکھی جانے والی زبانوںکا کوئی وجود نہیں تھا لیکن جنوری 2012 میں باضابطہ طور پر سیدھے سے بائیں جانب لکھی جانے والی زبانوں کو شامل کرنے کے لئے ترجمہ کا کام سنجیدگی سے شروع ہوا اور مارچ 2012 میں ٹویٹر نے اعلان کردیا کہ اس کی زبانوں کی فہرست میں مزید 4 زبانوں کو شامل کردیا گیا جن کا رسم الخط سیدھے سے بائیں جانب تحریر ہوتا ہے اور یہ زبانیں اردو‘عربی‘فارسی اور عبرانی ہیں۔
ویسے تو سوشل میڈیا میں فیس بک اور ٹویٹر کے علاوہ گوگل پلس ‘ویڈیو شیرنگ کی مقبول عام ویب سائیٹ ’’یو ٹیوب‘‘ اور اٹسٹاگرام بھی موجود ہے اور ان پر بھی اردو نے اپنے وجود کے جھنڈے گاڑھ دئے ہیں لیکن فیس بک پر جس آسانی اور طویل تحریوں کی سہولیات موجود ہے وہ سہولت ٹویٹر پر نہیں ہے یہ ہی وجہ ہے کہ اردوداں افراد کی ایک بڑی تعداد فیس بک کے استعمال کو ترجیح دیتی ہے کیونکہ فیس بک پر اردو والوں کے لئے اپنے ذوق کی تسکین کے لئے صفحہ سازی(فیس بک پیجس) کے علاوہ طویل تحریریں بھی پوسٹ کرنے کی سہولت موجود ہے۔
سائبر دنیا میں اردو نے نہ صرف اپنی نئی بستیاں آباد کرلیں ہیں بلکہ کمپیوٹر اور انٹرنیٹ کی اصطلاحات کو اپنے دامن میں ایسی جگہ دی کہ وہ اردو کے ہی الفاظ بن گئے جن کا اردو صحافت میں ایسا استعمال ہونے لگا ہے جس سے یہ گمان ہی نہیں ہوتا کے یہ الفاظ قدیم اردو کے لئے غیر مانوس تھے بلکہ سائبر اصطلاحات کے اردو میں استعمال اسے زندگی کا حصہ بنادیاہے۔اردو زبان و ادب میں سائبر اصطلاحات کے استعمالات نے اردو لغت میں داخلہ کی دستک دے دی ہے اور اب یہ ضرورت شدد سے محسوس ہونے لگی ہے کہ اردو لغت کو بھی ایپ ڈیٹ کرنے یا طلبہ کو وہ ہی لغت استعمال کرنے کا مشورہ دیا جانا چاہئے جن میں قدیم اردو کے ساتھ سائبر اردو بھی موجود ہو۔

تبصرے بند ہیں۔