مولانا ابوالکلام آزاد کی نظر میں سر سید اور علی گڑھ کی معنویت

ابراہیم افسر

 اُردو ادب کے طالب علموں یا دانش ورں سے اگر اُردو دُنیاکے بڑے مصلحین، مفکرین، تحریکی یا اصلاحی رہنماؤں اور اکابرین کی فہرست بنانے کے لیے کہا جائے تو بلا شبہ سر سید احمد خاں (1817۔1898)، سر محمد اقبال(1877۔1936)اور مولانا ابوالکلام آزاد(1888۔ 1958)کا ہی نام ان کے ذہنوں میں سرِ فہرست گردش کر ے گا۔ ان تینوں مصلحین، مفکرین اور اکابرین ِ ادب حضرات نے اپنے زورِ قلم سے نہ صرف اُردو ادب کو فروغ دیا بل کہ1857ء کی ناکام جنگِ آزادی کے بعد اپنے تفکرات، نظریات و خیالات سے غفلت میں ڈوبی اور سوئی ہوئی مسلم قوم کو بیدار کرنے کا ر نامہ بھی انجام دیا۔اس موقع پر یہ عرض کرنا بھی لازمی ہے کہ سر سید احمد خاں کے بعدہندوستان میں تعلیمی اور سیاسی محاذ پراگر کسی نے ان کی پیروی یا تقلیدکی تو ان میں سرِ فہرست نام مولانا ابوالکلام آزاد کا لیا جائے گا۔اگر میں یوں کہوں کہ مولانا ابوالکلام آزاد نے سر سید احمد خاں کے تعلیمی مشن کو فروغ دینے اور عملی جامہ پہنانے میں اپنی زندگی کو وقف کر دیا تھا تو مبالغہ نہ ہوگا۔علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی نے بھی اپنا ادبی اور اخلاقی فرض ادا ہوئے مولانا ابوالکلام آزاد کو سچی خراجِ عقیدت پیش کرتے ہوئے اپنی مرکزی لائبرریی کا نام ’’ مولاناآزاد لائبریری ‘‘رکھا۔اس لائبریری کا سنگِ بنیادپنڈت جواہر لعل نہرو کے ہاتھوں 12؍نومبر1956کوعمل میں آیاتھا۔اس لائبریری کا با قاعدہ افتتاح پنڈت نہرو نے ہی 6؍اکتوبر1960کو کیا۔ میرا مقصد یہاں مولانا ابوالکلام آزاد کے نظر یات اور تفکرات کے بارے میں کوئی تعریف و توصیف کرنے کا نہیں بل کہ مولانا آزاد کے نظر یات اور تفکرات میں سر سید احمد خاں اور مسلم یونی ورسٹی کی معنویت، اہمیت و افادیت کو20؍فروری 1949ء کو دیے گئے کانوویکشن سالانہ خطبے کی روشنی میں ، اجاگر اور واضح کرنا ہے۔یہ خطبہ ایک تاریخی دستاویز کی حیثیت رکھتا ہے۔دورِ حاضر میں علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی کے طلبا کے لیے ہی نہیں بل کہ ہندوستان کی تمام جامعات کے طلبا کے لیے اس خطبے کا مطالعہ نا گزیر ہے۔کیوں کہ ایک زمانے میں مسلم یونی ورسٹی کے طلبا نے مولانا آزاد کے ساتھ جو بد اخلاقیاں کی تھیں ، ان کو در کنار کرتے ہوئے اور ان دل آزار واقعات کاکوئی اثر نہ لیتے ہوئے مولانا آزاد نے طلبا کے سامنے روشن خیالی کا مسلم ثبوت پیش کرتے ہوئے عظیم الشان اور تاریخی خطبہ پیش کیا تھا۔

 یہاں یہ بات ذہن نشیں رہے کہ مولانا ابوالکلام آزاد سر سید احمد خاں کی و فات سے دس برس قبل اس دُنیا میں آئے۔جب انھوں نے شعور کی آنکھیں کھولیں تو سر سید احمد خاں اس دار ِفانی سے رخصت ہو چکے تھے۔لیکن ان کے لگائے ہوئے تعلیمی پودے(مدرستہ العلوم۔ایم اے او کالج، 24ی؍مئی1875)نے پورے ملک میں تعلیم کے میدان میں تناور درخت بن کر اپنی خاص پہچان بنا لی تھی۔اس کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ اس کالج میں اُس وقت کے امرا و نوابین کے صاحب زادوں کے علاوہ دور دراز سے تعلیمی شوق اور ذوق رکھنے والے طلبا بھی اس ادارے میں تعلیمی تشنگی کو دور کر نے آتے تھے۔یہاں پر ہر شعبۂ ذات کی پڑھائی کا معقول انتظام تھا۔بہتراور اعلا تعلیمی نظم و نسق کے بوطے اس ادارے کو 1920ء میں مسلم یونی ورسٹی کا درجہ دیا گیا۔جو اس ادارے کی مقبولیت میں ایک سنگِ میل ثابت ہوا۔آج یہ ادارہ ہندوستان کے علاوہ بیرونِ ملک میں بھی اپنی اعلا تعلیمات کی وجہ سے منفرد شناخت ومقام رکھتا ہے۔ابھی گذشتہ دِنوں اس یونی ورسٹی کو ہندوستان کی اول درجے کی یونی ورسٹی ہونے کا خطاب بھی ملا ہے۔مولانا آزاد نے مسلم یونی ورسٹی کے اپنے صدارتی خطبے میں افلاطون کے اس تاریخی واقعے کی جانب طلبا کی توجہ مبذول کرائی جس میں اس نے اپنی درس گاہ کے صدر دروازے پریہ کتبہ لکھ رکھا تھا کہ’’جو شخص جیا میٹری نہیں جانتا، اس کے لیے یہاں جگہ نہیں ہے‘‘۔لیکن مولانا آزاد نے طلبا سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ اس عظیم ادارے کا کتبہ یہ ہونا چاہیے کہ’’جو لوگ جیا میٹری جانتے ہیں ، اور جو نہیں جانتے، سب کے لیے یہاں جگہ موجود ہے‘‘۔یہ تھے مولانا ابوالکلام آزادکے آفاقی نظریات۔انھیں نظریات نے انھیں طلبا میں معروف و مقبول بنایا۔

  مولانا آزاد ابتدا میں سر سید احمد خاں کے سیاسی نظریات سے اتفاق نہیں رکھتے تھے۔(یہاں پر یہ بات قابل غور ہے کہ ایک زمانے میں سر سید احمد خاں کانگریس سے مسلمانوں کو دور رہنے کا مشورہ دیتے تھے۔ اس کی ایک وجہ یہ تھی کہ مسلم قوم نے غدر میں اپنا سب کچھ کھو دیا تھا۔ سر سید احمد خاں کی اس رائے کا پنڈت نہرو نے بعد میں خیر مقدم کیا تھا)خاص کرسر سید احمد خاں کے مسلمانوں کو کانگریس سے دور رہنے کے مشورے پر مولانا آزاد نے شدیدنکتہ چینی کی۔سر سید احمد خاں کے سیاسی نظریات پر مولانا آزادنے اپنے اخبار الہلال میں خوب لکھا۔اس بات کا خلاصہ انھوں نے تب کیا جب انھیں 20؍فروری1949کو بہ حیثیت مرکزی وزیر تعلیم سالانہ کانووکیشن علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی میں خطبہ دینے کے لیے مدعو کیاگیا تھا۔اس خطبے میں انھوں نے آزادی سے قبل اور آزادی کے بعدکے خاص طور پر مسلمانوں کے سیاسی شعور اور دورِ حاضرکے حالات کا بہ خوبی،  سنجیدگی ومتانت سے جائزہ لیا اور علی گڑھ سے اپنے روحانی رشتے کو یاد کیا۔اس خطبے میں انھوں نے یہ بھی بتایا کہ کیسے سر سید احمد خاں اور مسلم قوم ایک دوسرے کے لیے لازم و ملزوم ہو گئی تھیں ۔یہ خطبہ در اصل ماضی، حال اور مستقبل کی یادوں کا آئینہ تھا۔انھوں نے طلبا کو خطاب کرتے ہوئے کہا:

’’آپ کے وائس چانسلر صاحب نے جب یونی ورسٹی کی جانب سے از راہِ عنایت مجھے دعوت دی کہ اس سالانہ تقریب میں شریک ہوں اور مجلس سے خطاب کروں ، قدرتی طور میرے ذہن میں بعض گزرے ہوئے واقعات کی یاد تازہ ہو گئی ہے۔ مجھے بے اختیار یاد آ گیا کہ آج سے36؍برس پہلے میرا سابقہ علی گڑھ سے کن حالات میں ہوا تھا اور اس نے علی گڑھ کے اندر اور علی گڑھ سے باہر کیا اثرات و نتائج پیدا کیے تھے ؟

یہ وہ زمانہ تھا جب ہندوستان کے مسلمان بہ حیثیت جماعت کے ملک کی تمام سیاسی سرگرمیوں سے صرف الگ ہی نہیں تھے بل کہ سیاسی بیداری کے مطالبہ کے مخالف تھے۔ انڈین نیشنل کانگریس 27؍برس سے ملک میں قائم تھی اور اپنی زندگی کی تام ابتدائی منزلوں سے گزر چکی تھی، مگر خال خال افراد کے سوا مسلمانوں کا اس میں حصہ نہ تھا۔ آل انڈیا مسلم لیگ کے نام سے مسلمانوں کا ایک سیاسی نظام قائم ہو چکا تھا لیکن وہ بھی اس لیے قائم نہیں ہوا تھا کہ مسلمانوں میں سیاسی سر گرمی پیدا کر ے بل کہ اس لیے کہ سیاسی سرگرمیوں سے انھیں بعض رکھے۔اُس دور کے مسلمانوں کی سیاست محض ایک منفی سیاست تھی جو ہر مثبت اثر سے اپنے آپ کو بچانا چاہتی تھی، اور جس کے صحیح تعبیر سیاست کے عدم یا سیاست کے تعطل ہی سے کی جا سکتی ہے۔ یہی سیاسی تعطل تھا، جسے اُس وقت کی بول چال میں ’’مسلمانوں کی مسلمہ قومی پالیسی‘‘کے نام سے پکارا جاتا تھا۔

مسلمانوں کے اس سیاسی تعطل کے لیے اگر چہ مختلف اسباب جمع ہو گئے تھے لیکن اس کی سب سے بڑی ذمہ داری مرحوم سر سید احمد خاں کی سیاسی رہ نمائی پر تھی، جو اس تعلیمی ادارے کے بانیِ اوّل تھے۔انھوں نے 1886 میں مسلمانانِ ہند کو نہ صرف کانگریس سے علاحدہ رہنے کا مشورہ دیا، بل کہ سیاسی حقوق کے تمام مطالبوں کی مخالفت پر آمادہ کر دیا۔

’’1912میں جب میں نے الہلال جاری کیا اور مسلمانوں کو انڈین نیشنل کانگریس میں شریک ہونے اور ملک کی آزادی کی جد و جہد میں حصہ لینے کی دعوت دی، تو میرے لیے نا گزیر ہو گیا تھا کہ سر سید مرحوم کی اس سیاسی رہ نمائی پر بلا رُ و و رعایت نکتہ چینی کروں ، اور جو لوگ اُس رہنمائی کے علم بردار تھے، اُن سے تصادم میں آؤں ۔ اس صورتِ حال کا نتیجہ یہ نکلا کہ علی گڑھ کے حلقہ میں مجھے سر سید مرحوم اور ان کے پیرؤں کا مخالف تصور کیا گیا، اور خیال کیا گیا کہ میں نہ صرف یہاں کی سیاسی رہنمائی کا مخالف ہوں بل کہ سرے سے مخالف اس تعلیمی ادارہ کا ہوں ۔ میں نے یہاں ’’مخالف‘‘کا لفظ استعمال کیا ہے مگر واقعہ یہ ہے کہ جو لفظ میرے لیے یہاں زیادہ موجوع سمجھا گیا تھا، وہ ’’مخالف‘‘نہیں تھا’’دشمن‘‘تھا !‘(مولاناآزاد، سر سید اور علی گڑھ، ڈاکٹر ضیاء الدین انصاری، صفحہ300تا301، انجمن ترقی اردوہندنئی دہلی، 2002ء)

 مولاناابوالکلام آزاد کو بھلے ہی سر سید کے سیاسی نظریات سے اتفاق نہ تھا لیکن سر سید کے تعلیمی تفکرات سے انھیں والہانہ عقیدت اور محبت تھی۔ اس وجہ سے مولانا آزاد کو اس یونی ورسٹی کے طالب علموں میں ہندوستان کا روشن مستقبل نظر آتا تھا۔ہندوستان کی جنگ ِآزادی میں علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی کے کرادار کو انھوں نے بہ خوبی اپنی تحریروں اور تقریروں میں واضح کیا۔ساتھ ہی وہ سر سید کی تصنیفات و تخلیقات سے فیض یاب بھی ہوئے (مولانا آزاد کو ہمیشہ یہ کسک رہی کہ انھیں سر سید سے ملنے کا موقع نہ ملا)اور ان کی تخیلقات کا اثر ان کی ذاتی زند گی پر وا ہوا۔مذہبی معاملات میں مولانا آزاد سر سید سے بے حد متاثر تھے۔وہ سر سید کو اپنا مذہبی رہنما تسلیم کرتے تھے۔ اس بات کا اکثر انھوں نے اپنی تحریروں اور تقریروں میں خوب تذکرہ کیا ہے۔مولانا آزاد، سر سید کی نثر کے بھی دل دادہ تھے۔خاص کر تہذیب الاخلاق میں شائع ہونے والے مضامین نے ان کی نثری آب یاری میں مرکزی کردار ادا کیا۔لیکن بعد میں مولانا آزاد نے سر سید کے اسلوب سے جد ا اپنی نئی راہ نکالی اور ایک ایسے طرز تحریر سے اُردو دنیا کو رو برو کرایا جس کے موجدہونے کا سہرا ان کے سر بندھتا ہے۔

 مولانا آزاد اور سرسید کی زندگیوں کا مطالعہ کرنے سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ ان دونوں ہمدردانِ قوم میں تعلیمِ نسواں کے مسئلے پر اختلاف رہا ہے۔سر سید کی اس معاملے میں یہ رائے تھی اگر گھر کے مرد حضرات پڑھ لکھ جائیں گے تو گھر کی عورتیں خود بہ خود تعلیم یافتہ ہو جائیں گی۔لیکن مولانا آزاد کا موقف اس کے بر عکس تھا۔ وہ تعلیمِ نسواں کے زبردست حمایتی تھے۔ان کے نزدیک لڑکوں اور لڑکیوں کی تعلیم  میں امتیاز رکھنا ایک گناہِ عظیم تھا۔یہی وجہ ہے ملک کے پہلے وزیر تعلیم بننے کے بعد انھوں نے ہندوستان کی تعلیمی پالیسی بناتے وقت اس موقف کو مد نظر رکھا اور تعلیم سب کے لیے پر خاص توجہ دی۔

  مولانا آزاد، سر سید کے بنائے ہوئے کالج سے بے پناہ محبت کرتے تھے۔ایک وقت ایسا بھی آیا جب بعض سیاسی وجوہات کی بنا پرلوگوں نے ان پر یہ الزام لگایا کہ مولاناآزادعلی گڑھ کالج کے حمایتی نہیں ہیں ۔ میں یہ مانتا ہوں کہ مولانا آزاد کے سرسید سے سیاسی اختلاف تو جگ جاہر تھے لیکن وہ اس عظیم ادارے کی معنویت اورعظمت کے معترف تھے۔اپنے کانوویکشن کے خطبے میں طلبا اور اساتذہ کے سامنے انھوں نے اس سیاسی نکتے پر سیر حاصل گفتگو کی۔اپنے جذبات اور احساسات کو واضح کرتے ہوئے یہ بھی بتایا کہ سر سید ان کے سیاسی، سماجی اور تعلیمی رہنما تھے۔انیسویں صدی کے اس عظیم مصلح کی عزت اورعظمت مولانا آزاد کی نگاہ میں کیا تھی، اس اقتباس سے بہ خوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے:

’’میں سر سید مرحوم کا مخالف نہ تھا۔ میں ان کے مداحوں میں تھا مگر یہ مداحی مجھے اس سے باز نہیں رکھتی تھی کہ اپنے سمجھ بوجھ کے مطابق ان کی کوتاہیوں اور غلطیوں کا بھی اعتراف کروں ۔آج بھی جب کہ 36؍برس کی مدت اُس دور پر گزر چکی ہے اور اس عرصہ کی پوری داستان ہمارے قبضہ سے نکل کر تاریخ کے قبضے میں داخل ہو چکی ہے، میں پیچھے مڑ کر دیکھتا ہوں تو مجھے اپنی کوئی رائے بھی ایسی نظر نہیں آتی جس کی تبدیلی کا خواہش مند ہوں ۔میرے سامنے بہ یک وقت دونوں باتیں آ رہی ہیں اور مجھے بہ یک وقت ان دونوں کو تسلیم کر لینے میں کوئی دُشواری محسوس نہیں ہوتی۔ میں سر سید مرحوم کی سیاسی رہنمائی کو ان کی زندگی کی سب سے بڑی غلطی یقین کرتا ہوں مگر ساتھ ہی یہ بھی یقین کرتا ہوں کہ ہ انیسویں صدی کے ایک بڑے ہندوستانی مصلح تھے اور انھوں نے ملک کے لیے شان دار اصلاحی اور تعلیمی خدمتیں انجام دیں ۔چھتیس برس پہلے میں نے ان کے سیاسی رہنمائی سے اختلاف کیا تھا۔آج میں یہاں اس لیے حاضر ہوا ہوں کہ ان کی شان دار اصلاح خدمات کا اعتراف کرتے ہوئے اپنا خراجِ عقیدت پیش کروں ۔‘‘(مولانا آزاد، سر سید اور علی گڑھ، ڈاکٹر محمد ضیاء الدین انصاری، صفحہ302، انجمن ترقی اُردو(ہند)اشاعت2002)

 مولانا آزاد، ہندوستان کے اُن نام نہاد مفکرین اور مصلحین سے بے حد خفا تھے جو سر سید کی سماجی اصلاحات کے مقابلے میں راجا رام موہن رائے کو ترجیح دیتے ہیں ۔مولانا آزاد کا ماننا تھا کہ راجا رام موہن رائے نے جو کام اور کارنامے بنگال کی سر زمین میں انجام دیے ان سب سے بھی بڑھ کر کام سر سید نے شمالی ہند میں عملی شکل عطا کی۔ سر سید احمد خاں نے تعلیم اور مذہب دونوں کو اپنا میدانِ عمل بنایااور اپنے خوابوں کومدرستہ العلوم کی شکل میں شرمندۂ تعبیر بھی کیا۔جس کے اثرات ہمیں آج ہندبرصغیر کے مسلمانوں کی زندگیوں میں جا بجا نظر آتے ہیں ۔لیکن افسوس !جو مشن سر سید احمد خاں نے اپنی قوم اور ملک کی فلاح و بہبود اور اصلاح کے لیے شروع کیا تھا، آج بدلتے ہوئے سیاسی حالات میں ذراماند پڑ گیا ہے۔سیاست نے اس ادارے کو ہندو مسلم فرقہ واریت کے درمیان تقسیم کر دیا ہے۔ملک کی آزادی میں اس ادارے کی قربانیوں کو فراموش کرنا سچائی سے منھ موڑنے کے مترادف ہوگا۔اس مسئلہ پر مولانا آزاد کی باریک بینی اور دوربینی کی داد دینا ہوگی کہ کیسے انھوں نے اس مسئلے کی گہرائی اور گیرائی میں جاکر غوطہ زنی کی۔ سر سید احمد خاں نے نہ صرف اپنے کالج میں ہندو مسلم اتحاد کا درس دیا تھابل کہ اپنے ہندو دوستوں کو انھوں نے کالج میں بلا کر تقاریر بھی کرائیں ۔ان میں ایک بڑا نام ہندوستان کی جنگ ِ آزادی کے قدآور قومی سطح کے رہنما سریندر ناتھ بنرجی کا ہے۔سریندر ناتھ بنرجی کو جب انگریز حکومت نے زبر دستی جیل خانے میں ڈال دیا تھا تو ان کی ضمانت کا انتظام و انصرام سر سید احمد خاں نے ہی کیا تھا۔یہاں تک کہ جیل سے رہا ہونے کے بعد طلبا کے سامنے علی گڑھ کالج میں سریندر ناتھ بنرجی کا نہ صرف خیر مقدم کیا بل کہ ا یک جلسے کا انعقاد بھی کیا گیاجس میں سریندر ناتھ بنرجی نے طلبا کے سامنے زبر دست تقریر کی۔

سر سید احمد خاں کے بنائے ہوئے کالج کے دروازے سبھی مذاہب کے طلباکے لیے کھلے ہوئے تھے۔وہ ہندو اور مسلمانوں کو جسم کی دو خوب صورت آنکھوں سے تعبیر کرتے تھے۔لیکن کچھ شر پسند عناصر نے سر سید کے نظریات کو ہندوقوم و مذہب کے خلاف قرار دیا۔لیکن مولانا آزاد نے سر سید کے اس اہم نکات یعنی قومی یک جہتی اور یگانگت کی تشریح کو نئے تنا ظر میں پیش کیا۔ اور یہ ثابت کیا کہ سر سید ہندو اور مسلم قوم کے باہمی اتحادو اتفاق کے حق میں تھے۔ سر سید کا یہ بھی خیال تھا کہ ملک کی ترقی کے لیے دونوں قوموں کو ایک اسٹیج پر آنا ہوگا۔سر سید کا یہ بھی تصور تھا کہ ہندو لفظ کو موجودہ دور میں صرف اور صرف ہندو طبقے سے موسوم کر دیا گیا ہے۔ جب کہ ہندوستان میں رہنے والا ہر ہندوستانی خواہ اس کا مذہب اور نسل کچھ بھی ہو وہ ’’ہندو‘‘ہے۔یہ بات ہمیں معلوم ہونی چاہیے کہ ملک کے پہلے وزیر اعظم پنڈت جواہر لعل نہرو نے بھی سر سید کی سیاسی اور تعلیمی پالیسیوں سے اتفاق کیا ہے۔ تاریخ اس بات کی شاہد ہے کہ دونوں قوموں میں جب بھی انتشار اور نا اتفاقی کا بول بالا رہا تب تب دوسری قومیں ہم پر مسلط ہو گئی۔ مولانا ابوالکلام آزاد نے اپنے خطبے میں ان تمام باتوں کا احاطہ کرتے ہوئے کہاـ:

’’یہ بات ہمیں یاد رکھنی چاہیے کہ اگر چہ سر سید مرحوم نے ملک کی سیاسی تحریک کی مخالفت کی تھی لیکن ان کی مخالفت میں ہندو مسلم سوال کا کوئی رنگ نہیں تھا۔انھوں نے اپنی مخالفت کی سرگرمیوں میں مسلمانوں اور ہندوؤں ، دونوں کو یکساں طور پر شریک کیا تھا وہ مدت العمر ہندو مسلم یگانگت کے حامی رہے اور ہمیشہ ایسی باتوں کی مخالفت کرتے رہے جس سے دونوں جماعتوں کے باہمی اتفاق و یک جہتی میں خلل پڑنے کا اندیشہ ہوتا تھا انھوں نے اپنی تقریر وں میں بار بار یہ خوب صورت استعارہ دہرایا تھا کہ کہ مادر ہند کی دو آنکھیں ہیں ۔ایک ہندو، ایک مسلمان۔ اگر دونوں میں سے کوئی ایک آنکھ بھی بگڑ جائے گی تو اس کے چہرے ک سارا حسن بگڑ جائے گا۔

ہندوستانی قومیت کے متعلق ان کا جو خیال تھا، اس کا اندازہ ہم اس سے لگا سکتے ہیں کہ’’ہندو‘‘لفظ کا مفہوم ان کے ذہن میں کیا تھا؟لاہور کی ایک ہندو انجمن کے ممبروں کو مخاطب کرتے ہوئے انھوں نے کہا تھا’’مجھے افسوس ہے کہ آپ نے ہندو کے معنی بہت محدود کر دیے۔ آپ نے اس کا اطلاق ایک خاص مذہبی گروہ پر کیا ہے مگر میری رائے میں یہ اطلاق صحیح نہیں ہے۔ میں اُن تمام لوگوں کو جو ہندوستان کے باشندے ہیں ، ہندو تصور کرتا ہوں ۔خواہ کسی نسل اور مذہب سے تعلق رکھتے ہوں ۔یہی وجہ ہے کہ میں نہایت خوشی اور فخر کے ساتھ اپنے آپ کو ہندو سمجھتا ہوں ۔‘‘(مولانا آزاد، سر سید اور علی گڑھ، ڈاکٹر محمد ضیاء الدین انصاری، صفحہ304، انجمن ترقی اُردو(ہند)اشاعت2002)

  یہاں یہ بات ملحوظ رہے کہ جب یہ عظیم ادارہ قائم کیا گیا تو اس میں مسلم طلبا کے ساتھ ہندو طلبا کی بھی اچھی خاصی تعداد کا اندراج تھا۔ساتھ ہی ہندو فروفیسران حضرات کے اسما بھی تاریخی حیثیت کے حامل ہیں ۔یہ اس بات کا مسلم ثبوت ہے کہ اس ادارے سے ملک کے تمام طبقات فیض یاب ہو رہے تھے اور موجودہ دور میں بھی ہو رہے ہیں ۔مولانا آزاد نے اپنے خطبے میں طلبا اور اساتذہ کے سامنے اُردو رسم الخط کا بھی تفصیلی تذکرہ کیا۔ کیوں کہ اُس وقت ہندوستان سے اُردو کو باہر کرنے کی صدائے بلند ہو رہی تھیں ۔(کچھ لوگوں نے تو یہاں تک کہہ دیا تھا کہ اُردو کو فارسی رسم الخط کے بجائے دیوناگری رسم الخط اپنا لینا چاہیے)انھوں نے اس معاملے میں علی گڑھ یونی ورسٹی کے کردار کی بھر پور تعریف و ستائش کی۔انھوں نے اپنی بات کوواضح اور مدلل بناتے ہوئے کہا کہ ’’آج دور آ گیا ہے کہ ہندو اُردو سیکھیں اور مسلمان ہندی زبان سے گہری واقفیت حاصل کریں ۔‘‘(بابائے قوم مہاتما گاندھی بھی اسی نظریات کے حامی تھے )انھوں نے اس بات پر خوشی کا اظہار کیا کہ موجودہ دور میں ملک کے بیش تر حصوں سے بہت سارے رسائل و جرائد ہندی اور اُردو زبانوں میں شائع ہو رہے ہیں ۔ مولانا آزاد گاندھی جی کے اس نظریے کے بھی حامی تھے کہ ہندوستان کی ایک قومی زبان’’ ہندوستانی ‘‘ہو۔

مولانا آزاد کے مطابق یہ’’قومی زبان ‘‘ہندوستانی لوگوں کے دلوں کو جوڑنے کا کام کرے گی۔اس ضمن میں انھیں علی گڑھ کے طلبا اور نوجوانوں سے بہت اُمیدیں وابستہ تھیں ۔کیوں کہ یہ طلبا ملک کے مختلف گوشوں سے تعلق رکھتے تھے۔خطبے کا آخری حصہ جو کہ یونی ورسٹی کے طلبا کو نام موسوم ہے بڑا ہی ولولہ خیز اور انقلابی ہے۔وہ ایسے نوجوانوں سے خطاب کر رہے تھے جنھوں نے اپنی تعلم کو مکمل کر لیا تھا۔ مولاناآزاد کے مطابق ایسے طالب علموں پر دُہری ذمہ داری تھی۔ ایک تو یہ کہ جب وہ اس عظیم درس گاہ میں داخل ہوئے تھے تو ملک پر انگریزوں کا تسلط قائم تھا اور آج جب وہ یہاں سے فارغ التحصیل ہو رہے ہیں تو ملک آزاد ہو چکا ہے۔پہلے ان طلبا کے سامنے ملک کو آزاد کرانے کامشن تھا، ان کی فکر بھی محدود تھی۔ لیکن ملک کے آزاد ہونے کے بعد اب ان کے سامنے ملک کی تعمیر و ترقی میں نمایاں کردار ادا کرنے کا مشن اور ہدف ہے۔طلبا کا یہی کردار ہندستانی عوام کی زندگیوں میں مثبت نتائج کا ضامن ہے۔وہ اپنے خطبے کے ذریعے طلبا اور نو جوانوں سے ایک نئے ہندوستان کی تعمیر میں ان کا تعاون حاصل کرنا چاہتے تھے۔ ساتھ ہی طلبا کو اس بات کی بھی یقین دہانی کرا رہے تھے کہ اگر تم اپنے اندر قابلیت رکھتے ہو تو میں آپ کو گارنٹی دیتا ہوں کہ تمھارے سامنے ترقی اور کامیابی کے دروازے کھلے ہوئے ہیں اورروشن مستقبل آپ کا انتظار کر رہا ہے۔مولانا آزاد کے ولولہ انگیز خطبے کا آخری اقتباس ملاحظہ کیجیے:

’’تم ایک غیر مذہبی جمہوری نظام حکومت کے باشندے ہو، جس نے فیصلہ کر لیا ہے کہ ملک کی سیاسی اور اجتماعی زندگی کو غیر مذہبی اور جمہوری طریقے کے مطابق نشو و نمادے گی۔ایک مذہبی جمہوری نظام حکومت کا جوہری خاصہ یہ ہے کہ وہ ملک کے تمام افراد کے لیے یکساں طریقہ پر ہر طرح کی ترقیوں کے موقع پیدا کردیتی ہے۔اس میں مذہب، نسل، ذات اور فرقہ کا کوئی امتیاز باقی نہیں رہتا۔ ایک ایسی حکومت کے باشندے ہونے کی حیثیت سے تم بجا طور پر یہ توقع کر سکتے ہو کہ تمھارے آگے ملکی زندگی کے تمام دروازے کھُل جائیں ۔سیاست، انتظام حکومت، تجارت، صنعت و حرف، مختلف قسم کے پیشے، کوئی دروازہ ایسا نہ ہو جو تم پر بند ہو، میں تمہیں پوری ذمہ داری کے ساتھ یقین دلاؤں گاکہ آج کوئی دروازہ بھی تم پر بند نہیں ہے۔ ملک کی زندگی کا ہر دروازہ کھُلا ہے۔بہ شرط یہ کہ تم قابلیت کی پختگی، محنت کی سر گرمی، اور سب سے بڑھ کر یہ کہ سیرت کی مضبوطی کے ساتھ ساتھ قدم بڑھا سکو۔کل تک ہمارا تعلیمی نصب العین بہت پست اور محدود تھا۔ اس یونی ورسٹی کے سند یافتہ اپنی اُمیدوں کا اس سے زیادہ بلند ہدف نہیں رکھتے تھے کہ کوئی بڑی یا چھوٹی سرکاری ملازمت حاصل ہو جائے۔ لیکن اب ضروری ہے کہ قومی آزادی کی فضا تمہاری ہمتوں کو زیادہ اولو العزم، اور تمہارے ولولوں کو زیادہ وسیع کر دے۔ تمھیں اب پُرانے ہندوستان کے ذہنی ماحول سے نکلنا ہے اور نئے ہندوستان میں اپنی قابلیت اور صلاحیت کا نیا مصرف ڈھونڈھنا ہے۔تمہاری بلند پرواز یوں کے لیے اب پچھلی بلندیاں پست ہو گئیں اور تمہاری جولانیوں کے لیے اب پُرانے میدان تنگ ہو گئے۔ تم نے سعی و عمل کے جو پُرانے پیمانے اپنے ہاتھوں میں رکھے تھے، وہ وقت کی نئی پیمائشوں کے لیے کام نہیں دے سکتے۔تمہیں ابنئے پیمانے ڈھالنے ہیں ۔تمہیں نئے بٹوں سے سعی و عمل کی نئی مقداریں تولنی ہیں ۔ تمھیں اب زندگی کی جد و جہد میں نئے ارادوں اور نئی اولوالعزمیوں کے ساتھ قدم اُٹھانا ہے اور اس قابلیت کو جو تم نے اس درس گاہ سے حاصل کی ہے ایسے کاموں میں لگانا ہے جو تمہارے ملک کی نئی رفعت طلبیوں کا ساتھ دے سکیں ۔میرا دماغ اس بارے میں کوئی شک و شبہہ نہیں رکھتا کہ اگر تم نے وقت کی ترقی پسند قومیت کی روح اپنے اندر پیدا کر لی جو تمہاری غیر مذہبی جمہوری حکومت کا دستور العمل ہے، تو تمہارے وطن کی کوئی بلندی بھی ایسی نہیں ہوگی جہاں تک تمہارا ہاتھ نہ پہنچ سکے اور کوئی کامرانی بھی ایسی نہیں ہوگی جو تمہارا استقبال نہ کرے۔‘‘ (مولانا آزاد، سر سید اور علی گڑھ، ڈاکٹر محمد ضیاء الدین انصاری، صفحہ311تا312، انجمن ترقی اُردو(ہند)اشاعت2002)

  مولانا ابوالکلام آزادکے دیے ہوئے اس خطبے کو 68سال مکمل ہو گئے ہیں ۔لیکن اس کی معنویت، افادیت و اہمیت میں ذرہ برابر بھی کمی نہیں آئی ہے۔2017ء میں مسلم یونی ورسٹی سرسید احمد خاں کے یومِ ولادت کا دو سو سالہ جشن منا رہی ہے اس اعتبار سے اس خطبہ کو قدر کی نگاہوں سے دیکھا جائے بل کہ میرا خیال تو یہ ہے کہ اس خطبے کو ہر وہ طالب علم پڑھے جو کسی نہ کسی یونی ورسٹی میں تعلیم حاصل کر رہا ہے۔یہ خطبہ صرف ایک تقریر نہیں ہے بل کہ یہ طلبا کے سامنے سر سید احمد خاں کے تعلیمی مشن کی روداد اورعکاسی ہے۔ یہ خطبہ مولانا آزاد کی زبانی نثرکا بہترین نمونہ ہے۔اس خطبے سے ہمیں سر سید احمد خاں کے بارے میں مولانا ابوالکلام آزاد کی رائے جاننے کا موقع ملتا ہے جوجہانِ سرسید کو سمجھنے میں معاون و مددگارثابت ہوگا۔اس خطبے سے یہ بات بھی واضح ہوتی ہے کہ مولانا آزاد طلبا کی فلاح و بہبودی کے ہمہ تن کوشاں رہے۔بہ حیثیت وزیر تعلیم انھوں نے تعلیم اور دیگر شعبۂ ذات کے لیے جو بھی پالیسیاں بنائیں یا بنانے کا ارادہ ظاہر کیا ان کے مرکز میں طلبا اور صرف طلبا ہی رہے۔

تبصرے بند ہیں۔