دل سے کی تھی اس نے ہی رخصت طلب

افتخار راغبؔ

دل سے کی تھی اس نے ہی رخصت طلب

دل تو تھا راغب بڑا رغبت طلب

تشنہ کامی چشمِ اہلِ ذوق میں

فکر و فن کا جام تھا ندرت طلب

کتنی عزت صرف کی ہے دیکھیے

کیجیے پھر شوق سے عزت طلب

اور کیا کرتا طلب فرمائیے

جس کے سینے میں تھا دل وحشت طلب

حال کیا شہرِ سخن کا ہو بیاں

ہے ہر اک شہری یہاں شہرت طلب

بن کے سائل ہے کھڑا در پر ترے

اے محبت پاش اک الفت طلب

ایک سا موسم نہیں رہتا سدا

ربط کی دیوار کو ہے چھت طلب

لہلہاتی فصل کی تھی آرزو

مل گئی تھی اک زمیں محنت طلب

حیرتیں لپٹی رہیں اُس شوخ سے

اور دلِ راغبؔ رہا حیرت طلب

تبصرے بند ہیں۔