تعلیم پر خرچ ہونے والا ہر روپیہ پانی میں جارہا ہے

حفیظ نعمانی

2012ء میں جب اکھلیش یادو نے حکومت بنائی تھی تو انہوں نے بھی بیسک تعلیم اور سرکاری اسکولوں کے بارے میں نہ جانے کتنی باتیں کہی تھیں۔ ان میں سے ایک یہ بھی تھی کہ جب تک افسروں کے بچے ان سرکاری اسکولوں میں نہیں پڑھیں گے ان کا معیار نہیں بدل سکتا۔ اس کے چند روز کے بعد ہی معلوم ہوا کہ ان کا لڑکا لامانٹینئر میں اور لڑکی پڑھنے کیلئے لاریٹو میں داخل کرادی گئیں اور لکھنؤ میں یہی دونوں انگلش میڈیم اسکول سب سے زیادہ مہنگے اور سب سے زیادہ معیاری مانے جاتے ہیں اور یہ بات یاد رکھنے کی ہے کہ یہ مشینری اسکول ہیں جو انگریزوں نے اپنے بچوں کے لئے بنائے تھے۔ اس خبر کے بعد ہم نے لکھا تھا کہ اگر وزیراعلیٰ اپنے دونوں بچوں کو اپنے مکان کے قریب جو بھی سرکاری اسکول ہو اس میں داخل کرکے افسروں پر پابندی لگاتے تب ان اسکولوں کا معیار ایسا ہوجاتا کہ ان میں داخلہ کے لئے سفارش ہوا کرتی۔

موجودہ وزیراعلیٰ سے یہ بات کیسے کہیں کیونکہ وہ تو سنیاسی ہیں ان سے اتنی بات کہنا ہے کہ یاتو اپنے خاص اور معتبر آدمیوں کو ان اسکولوں میں بھیج کر تحقیق کرائیں کہ یہ جو شہرت ہے کہ اکثر اسکول ایسے ہیں جن میں دو سے زیادہ ٹیچر نہیں ہیں اور دو اس لئے ہیں کہ اکھلیش یادو نے حکم دیا تھا کہ ہر اسکول میں کم از کم دو ٹیچر تو ضرور ہوں۔ کتنی اہم بات ہے کہ کسی بھی اسکول میں نہ کوئی صفائی کرنے والا ہے نہ یہ خیال کہ کلاس کتنا بڑا ہو اور نہ کوئی پانی پلانے والا۔ پانچ دن پہلے تیلی باغ کے ایک اسکول میں مرغی فارم سے متعلق ایک سیمینار ہونا تھا میرے نواسے جنہوں نے ایک سال پہلے ہی یہ کاروبار شروع کیا ہے اپنے ایک پارٹنر دوست کے ساتھ اس اسکول میں گئے وہاں تین عورتیں بیٹھی سوئٹر بن رہی تھیں ان سے دریافت کیا تو انہوں نے بتایا کہ تھوڑے فاصلہ پر ایک ہال ہے وہاں چلے جاؤ وہ ہال ہمارے گروپ کے اسکولوں کا ہے۔ ان سے جب معلوم کیا کہ بچہ کوئی نہیں کیا وہ بھی وہیں گئے ہیں؟ تو ایک ٹیچر نے بتایا کہ بچے پڑھنے نہیں کھانا کھانے آتے ہیں اور کھاکر چلے جاتے ہیں۔ ہم بھی چار بجے چلے جائیں گے۔ یہ تو وہ بات ہے جو سنی ہوئی ہے۔

بی اے کے بعد جو لڑکیاں بی ٹی سی کررہی ہیں ان میں ایک بچی کا تعلق میری ذات سے ہے پندرہ دن پہلے اس نے بتایا کہ کل سے میں اپنے کالج کے بجائے نشاط گنج کے ایک اسکول میں ایک مہینہ تک پڑھانے جاؤں گی اور میرے ساتھ چار لڑکیاں اور ہوں گی۔ شام کو اس نے اپنی دن بھر کی کہانی سنائی تو وہ میری اور میں اس کی صورت ہی دیکھتا رہا۔ اس نے بتایا کہ چھوٹا سا مکان ہے اس میں دو کمرے ہیں جن میں اسکول ہے ارم کالج سے ہم پانچ گئے تھے ایک دوسرے کالج سے سات لڑکیاں اور آگئی تھیں۔ معلوم کرنے پر اس نے بتایا کہ ہمارے کالج سے اس کا کوئی تعلق نہیں یہ سرکاری محکمہ کرتا ہے۔ ہم پڑھانے والے بارہ تھے اور بچے 22 جب پڑھانے کی بات آئی تو معلوم ہوا کہ پانچ کلاس ہیں ان بچوں میں ہر کلاس کے بچے ہیں آپ چھانٹ کر پڑھایئے۔

دو کمرے ایک پرنسپل دو مستقل ٹیچر بارہ مہمان ٹیچر اب کوئی وزیر تعلیم بتائے کہ کون کس کو پڑھائے کہاں پڑھائے؟ بچوں کے بیٹھنے کے لئے دری ہے جسے جھاڑو دے کر بچوں نے ہی بچھایا ہے اور صرف تین کرسیاں ہیں جن پر اسکول کی پرنسپل اور ٹیچر جلوہ افروز ہیں اور ان بارہ کو شام کے چار بجے تک اس اسکول میں رہنا ہے وہیں کھانا ہے پانی پینا ہے جہاں بیٹھنے کا صرف دری کا ہی سہارا ہے۔ کیا یہ ہیں وہ اسکول جن کے وزیراعلیٰ تعلیمی معیار کی گریڈنگ کرائیں گے یوگی مہاراج؟
جس بچی سے میرا تعلق ہے اس نے بتایا کہ رجسٹر میں 75 بچے لکھے ہیں محلہ میں جب شہرت ہوئی کہ پڑھانے والی آئی ہیں تو 22 کے بجائے تیسرے دن 50 بچے اور اس کے بعد 60 بھی آئے لیکن وہ ہمیں پڑھانے آئے تھے اور کھانا کھاکر پھر 30 ہی رہ گئے۔ اس نے بعد میں دیکھا کہ اس کے کالج سے جو چار لڑکیاں آئی تھیں ان میں سے دو گھر بیٹھ گئیں اور جس کالج سے سات آئی تھیں ان میں سے بھی تین رہ گئیں تو ہم نے سنجیدگی سے پڑھانا شروع کیا۔ اور جب پرنسپل سے معلوم کیا کہ آپ لوگ کیسے کنٹرول کرتی ہیں تو انہوں نے کہا کہ دو ٹیچر پانچ کلاسوں کو کیسے پڑھائیں؟

ہم دوسرے صوبوں کی بات نہیں کرتے ہمارا صوبہ ایک ملک کے برابر ہے اور تعلیم کے معاملے میں صرف اس لئے دوسری ریاستوں سے پیچھے ہے کہ حکومت صرف آنکھ بند کرکے پیسے لٹا رہی ہے اور یہ لوٹ صرف ٹیچروں اور پرنسپل کی تنخواہوں کی وجہ سے ہی نہیں تعلیم کے محکمہ سے جتنے لوگ وابستہ ہیں سب ایک دوسرے سے ملے ہوئے ہیں۔ ہمارے بچوں کے ان لوگوں سے بھی تعلق ہے جن کی بیویاں بیسک اسکول میں پڑھاتی ہیں ان کا کہنا یہ ہے کہ شہر سے 15 کلومیٹر دور آنے اور جانے کی تنخواہ ملتی ہے ہم جس اسکول میں جاتے ہیں وہاں کوئی پڑھنا ہی نہیں چاہتا تو ہم کسے پڑھائیں؟ جاکر سوجاتے ہیں۔

خود میرے گھر میں تین ملازم ہیں جن کے بچے پرائیویٹ اسکولوں میں اس لئے پڑھتے ہیں کہ بیسک سرکاری اسکولوں میں وہ کہتے ہیں کہ پڑھائی نہیں ہوتی وہ ان بچوں کی فیس کتابوں اور یونیفارم پر کتنا خرچ کرتے ہیں اور اس کے لئے کتنی قربانی کرتے ہیں یہ آنکھوں کے سامنے ہے۔ جب یہ بات برسوں سے چرچے میں ہے اور پورے صوبہ میں کہیں بھی سرکاری اسکول میں پڑھائی نہیں ہورہی تو کیا ضد ہے کہ چاہے جتنی بدنامی ہو اسکول ضرور چلائیں گے اور ہر وزیراعلیٰ ہر سال اسکول چلو کی نوٹنکی ضرور کرے گا۔

آدتیہ ناتھ یوگی نے بھی بہت کوشش کی لیکن دو سال میں کچھ بھی نہیں ہوا اور نہ اس کی اُمید کہ آنے والے برسوں میں کچھ ہوجائے گا۔ تو کیا یہ اچھا نہ ہوگا کہ ان کو پرائیویٹ ہاتھوں میں دے دیا جائے اور نگرانی اپنی رکھی جائے یا ہمت کرکے ہر ٹیچر کو ایک ایک سال کی تنخواہ دے کر اس کی چھٹی کردی جائے اور وہ کھنڈر خالی کردیئے جائیں جن کو اسکول کہا جاتا ہے۔ ہمیں یقین ہے کہ ایک نہ ایک دن اس مذاق کو بند کرنا پڑے گا جو کل کرنا ہے اسے آج ہی کیوں نہ کردیا جائے۔
وزیراعلیٰ اگر چاہیں تو 25 ریٹائرڈ نیک نام ٹیچروں کی ٹیم بنائیں ان سے کہیں کہ وہ دس بڑے شہروں، دس قصبوں اور دس دیہاتوں کے سرکاری اسکولوں کو دیکھ کر مخلصانہ رپورٹ دیں۔ دُکھ صرف اس کا نہیں ہے کہ بچے برباد اور بھکاری بنتے جارہے ہیں بلکہ اس کا بھی ہے کہ جتنا روپیہ برباد ہورہا ہے اتنے میں صوبہ والوں کی بھلائی کے سیکڑوں کام ہوسکتے ہیں۔ تعلیم کے نام پر جو روپیہ بھی خرچ ہورہا ہے وہ اندھے کنوئیں میں جارہا ہے۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔