وزیراعظم مودی کے نام ایک کشمیری کا کھُلا خط

شری نریندر بھائی مودی جی!

عزت مآب وزیراعظم ہند

۔۔۔آداب۔۔۔

مودی جی کافی روز تک سوچ وچار کے بعد آپ کو ایک’’ کھُلاخط‘‘ لکھنے بیٹھا ہوں، ممکن تو یہ بھی تھا کہ اس کو نجی طور پر لکھ کر پی ایم آفس کو پوسٹ کر دیا جاتا لیکن آج کل آپ میڈیا کے ذریعے ہی عوام سے روبرو ہیں تو یہی طریقہ صحیح لگا ، نیت یہ بھی ہے کہ انڈیا کے لوگ بھی وہ باتیں جانیں جو میڈیا اکثر اُن کو بتاتا نہیں۔
آپ کو دیوالی کی شُبھ کامنائیں دیتے ہوئیے اس بات کی امید کرتا ہوں کہ آپ میرے اس خط کا نوٹس ضرور لیں گے۔

مودی جی! ْ۔۔۔۔
آج قریب 4 مہینے ہوئے کشمیر بند ہے، سڑک چوراہے ، کھیل کے میدان، کھیت کھلیان، سکول، جھیلیں، پہاڑ، باغ، ریلوے ٹریک اور ائیرپورٹ سب ویران پڑے ہیں ۔۔۔۔:، اگر کہیں بھیڑ ہے تو اُن چوکوں پرجہاں پولیس ، سی آر پی ایف، فوج اور عام کشمیری لڑکے آمنے سامنے ہیں۔ پتھر ، پلیٹ ، خون، چہروں کے نقاب، ماتم، قبریں، جنازے ، احتجاج کی سب سے مضبوط علامت بن چکے ہیں۔ کشمیرمعاملات دیکھنے والے آپ کے قریبی راز دار اور ایجنسیوں کے اہلکارآپ کو روزانہ رپورٹس دیتے ہی ہوں گے۔ اُن رپورٹس میں یہی لکھا رہتا ہوگا کہ آج کتنے ملی ٹینٹ مارے گئے، کتنی پولیس چوکیاں جلی، کتنے کشمیری لڑکے مارے گئے، کتنے اندھے یا زخمی ہو ئے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ آپ ایک نظر فائل پر ڈال کر آگے بڑھا دیتے ہوں گے۔ شاید دُکھی بھی ہوتے ہوں گے (یا نہیں بھی) اور پھر دوبارہ کسی کام میں جُٹ جاتے ہوں گے۔

مودی جی !۔۔ یہ صرف آنکڑے ہیں، اعداد و شمار، جو ہر نئے سال کے پروٹسٹ میں گھٹتے بڑھتے رہتے ہیں۔ کبھی 20 دن کرفیو، کبھی تین مہینے ، کبھی 100 جوان مرتے ہیں کبھی 120 ۔ یہ آنکڑے ہر نئے موسم میں بس بدلتے رہتے ہیں۔ ڈیلی گیشن آتے ہیں، کمیشن بیٹھتے ہیں، ٹریک ٹو ڈیپلومیسی کے ٹھیکہ دار گوشتابے اور وازوان ڈکار کے واپس دلی اُڑجاتے ہیں۔ نیشنل اور انٹرنیشنل میڈیا کی او بی وینز بھی دلی لوٹ جاتی ہیں۔ ۔۔۔۔۔ کشمیر وہیں رہ جاتا ہے۔ اپنی ٹیسوں ، چوٹوں اور زخموں کے ساتھ ، شام تک انڈین میڈیا دُنیا کو وہ سب بتا دیتا ہے جو انہیں پی ایم او کی پی آر ایجنسی نے فیڈ کیا ہوتا ہے۔ ۔۔۔۔۔ اسی ڈھرے پر کچھ سال مہینے گذرتے ہیں۔ حالات پھر ویسے کے ویسے ۔۔۔۔ جب تک کہ کوئی نئی چنگاری بھڑک کے شعلہ نہیں بن جاتی۔

مودی جی! ۔۔ آپ کو معلوم ہے ؟ اس بار جو لڑکے سڑکوں پر ہاتھ میں پتھر سنبھالے دندناتے پھر رہے ہیں اُن کی اوسط عمر کیا ہے؟ 15 سے 20 سال ۔ یعنی یہ وہ لڑکا ہے جس نے کشمیر سٹرگل کا وہ روپ دیکھا ہی نہیں جس سے اُس کے ماں باپ، بڑے بزرگ گذر چکے ہیں۔ اِس پتھرباز لڑکے نے بس سُنا بھر ہے کہ اُس کے ڈیڈی ، انکل یا بھائی انکائونٹر میں مارے گئے تھے یا اُن کو کسی رات آرمی اُٹھا کے لے گئی تھی اور وہ کبھی واپس نہیں لوٹے یا پھر انڈیا کے ساتھ جہاد کرتے ہوئے شہید ہو گئے تھے۔

مودی جی ! ۔۔۔ ہر بات اجیت ڈوول نہیں بتاتے ۔ بہت کچھ علاقے کے ایس ایچ او اور مسجد کے امام سے بھی جانا جا سکتا ہے۔ ہاتھوں میں پتھر اُٹھائے ، کیمرے سے اپنے نقاب پہنے چہرے کو چھپاتا ہوا یہ لڑکا جسے انڈیا سے نفرت ہے، اُسے گیلانی اور پاکستان سے بھی شکوے ہیں۔ وہ اچھے سے جانتا ہے کہ ان تینوں طاقتوں نے مل کر اُس کا اور اُس کے پریوار کا وقت ضائع کیا ہے۔ یہ لڑکے تو مائوں کے پالے پوسے، جینز پہنے والے سمارٹ لڑکے ہیں۔ جن کے رول ماڈل سلمان خان، انڈین کرکٹر پرویز رسول، آئی اے ایس ٹاپر شاہ فیصل اور شاہ رخ خان ہیں۔ یہ لوگ اریجیت سنگھ، راحت فتح علی خان اور ہنی سنگھ کے گانے سُن سُن کر جوان ہو ئے ہیں۔

مودی جی ! ۔۔ آج ان لڑکوں کا رول ماڈل برہان وانی اس لئے ہے کہ کیونکہ یہ لڑکے جانے انجانے ایک ایسے مسیحا کی تلاش میں ہیں جو ان کے بھوشیہ کو سُرکھشت کرنے میں اُن کی مدد کرے، سو اب کی انہیں 21 سال کے ایک انجینئر مجاہد میں وہ ہیرو مل گیا، وہ ہیرو جس کے ہاتھ میں ایپل کے فون کی جگہ چمچماتی AK-47 ہے ، جس کے بڑے بھائی کو کچھ سال پہلے انڈین آرمی نے مار گرایا تھا ،جو بے خوف ہو کر اپنے ویڈیوز یو ٹیوب پر اپ لوڈ کرتا تھا۔ جس کو دھوکے سے مارا گیا۔۔۔۔

مودی جی ! ۔۔۔ انہی لڑکوں میں دوسرا طبقہ وہ ہے جو ان نامساعد حالات میں پڑھ نہیں پایا، بے روز گار رہ گیا۔ سومو ، آٹو ، شکارا چلاتا ہے۔ سنڈے مارکیٹ میں ڈل کے کنارے سیلانیوں کو فرن بیچتا ہے۔ یہ وہ طبقہ ہے جو گیلانی کے کلینڈر کو بھی نہیں مانتا ، یاسین ملک ، شبیر شاہ اور عمر فاروق کو (اُن کی مرضی سے ہی) نظر بند رہنے پر مجبور کرتا ہے۔ نہ کسی کی سُنتا ہے نہ کسی کی مانتا ہے۔ اس کا نہ کوئی لیڈر ہے نہ اس کا کوئی چہرہ ہے۔ اس کی کُل دنیا اُتنی ہی ہے جتنی انڈرائڈموبائل کے ا سکیرین میں سماتی ہے۔

مودی جی ! ۔۔۔۔کشمیر کے اس تازہ پروٹسٹ میں شامل ہوئے ان نو سکھیے جوانوں کے ساتھ کبھی بات کیجئے تو یہ سوالوں کے عجیب و غریب آدھے ادھورے جواب دیتے ہیں۔

مجھے انڈیا کے ساتھ نہیں رہنا ۔۔،،
پاکستان چور ہے۔
پاکستان زندہ باد۔
گیلانی نے ہمارا سودا کیا
گیلانی زندہ باد
برہان وانی کا خون ضائع نہیں جائے گا۔
محبوبہ ، عمر ، آزاد سب دلی کے پٹھو ہیں۔
ہم چھین کے لیں گے آزادی
بس اب بہت ہو گیا۔۔۔۔اب کی بار آر یا پار

مودی جی ! ۔۔۔۔ ان دنگائی لڑکوں کا نہ کوئی چہرہ ہے نہ کوئی لیڈر ، نہ کوئی آفس نہ کوئی اسٹیج، نہ یہ کسی ایجنسی کے اعلیٰ کار ہیں۔۔۔۔ ان میں غصہ ہے، گھٹن ہے، پروٹسٹ ہے، جنون ہے،۔۔۔۔۔ اپنوں کے خلاف ، غیروں کے خلاف ، انڈیا کے خلاف، پاکستان کے خلاف، حریت کے خلاف، مین اسٹریم کے خلاف۔۔۔۔۔۔ یہ آئیڈنٹیٹی کرائسس کی ماری ہوئی وہ نسل ہے جو کچھ مہینے ذہنی طور پر انڈیا کے ساتھ Grow کرتی ہے، آئی اے ایس ٹاپر اور کرکٹر پرویز رسول کو اپنا رول ماڈل مان لیتی ہے ، دوسرے مہینے پاکستان سے امیدیں وابستہ کرلیتی ہے۔ ایک دن خودمختاری کا خوب دیکھ کر آزادی کے گیت گاتی ہے دوسرے دن برہان وانی کی طرح بندوق اُٹھا کر بارڈر پار جانے کو آمادہ ہو جاتی ہے۔ اس کو کچھ نہیں سوجھتا ۔ یہ انڈیا میں سلمان ، شاہ رخ ، جاوید اختر، عامر خان کو مل رہی عزت اور محبت سے خوش بھی ہوتی ہے اور یہ بھی چاہتی ہے کہ ویراٹ کوہلی کو شعیب اختر بار بار کلین بولڈ کرے۔ ان کے من میں سچن اور امیتابھ بچن کے لئے عز ت بھی ہے لیکن نصرت، عابدہ پروین اورراحت فتح علی خان کی قوالی بھی سُننی ہے۔ نئے یوتھ کا یہRepresentative انڈین ہے پر انڈین نہیں، پاکستانی ہے پر پاکستانی نہیں، کشمیری ہے پر کشمیری نہیں۔۔۔۔۔یہ پاکستان زندہ باد کا نعرہ تو لگا سکتا ہے لیکن بھارت ماتا کی جئے جیسی کوئی چیز اُس کے دل میں نہیں ہے۔ ان سب کے پاس ریلائنس کے جیو کا 4جی سِم بھی ہے اور اسکول کی بلڈنگ کیلئے جمع ڈھیر میں سے سڑک کنارے سے اُٹھایا نوکیلا پتھر بھی۔ جن کے ہاتھ میں پتھر نہیں ہے اُن کے دل میں پتھر ہے۔ آرمی کی بھرتی کی دوڑ میں پیچھے رہنے والا لڑکا، آرمی کی گاڑی پر پتھر پھینکنے والوں میں سب سے آگے ہے۔ یہ لڑکے آرمی کی چوکی کو گھیر کر اُس پر پیٹرول بم بھی پھینکتے ہیں لیکن کہیں آرمی کی گاڑی پلٹ جائے تو اُس میں پھنسے جوانوں کو نکالنے کیلئے بھی دوڑ پڑتے ہیں، بلڈ بنک کیلئے خون بھی دیتے ہیں اور سیلاب میں پھنسے ہوئے بہاری کو بھی بچاتے ہیں۔ امر ناتھ یاتری کو تب تک اپنے گھر میں روکے رکھتے ہیںجب تک چوک میں پولیس پر ہو رہا پتھرائو تھم نہ جائے، محلے میں اکیلے پڑے کشمیری پنڈت پریوار کے بوڑھے کا جنازہ اپنے کاندھوں پر شمشان تک بھی لے جاتے ہیں اور پنڈت لڑکے کی شادی میں ڈانس بھی کرتے ہیں۔

مودی جی ! ۔۔۔ ہر شہر گلی محلے دیش کا جوان ایسا ہی ہوتا ہے۔ کشمیر کا بھی ایسا ہی ہے۔ یہ آج کے مودی کے بھارت میں شاید نہیں رہنا چاہتا ہے لیکن انڈیا کے قریب رہنا چاہتا ہے۔ یہ وہ معصوم ٹھگا ہو جذباتی طبقہ ہے جس کو کچھ سوجھ نہیں رہا کہ آخر اُس کو بھوشیہ کیا ہے؟ یہ سب کو گالی دیتا ہے۔ شیخ عبداللہ کو بھی ، مفتی، گیلانی اور مودی کو بھی ،۔۔۔ پاکستان کے ساتھ جاتے ہوئے خوف کھاتا ہے۔ آج والے انڈیا کے ساتھ ریلیٹ نہیں کر پا رہا ہے ۔ آزادی اور اندرونی خودمختاری کی روپ ریکھا سے قطعی ناواقف ہے۔ اسے کچھ بھی سمجھ نہیں آرہا ہے ، آج جب کہ ساری دنیا 2030 اور 2040 کے پلان بنا رہی ہے ، اس کو یہی علم نہیں کہ 2021 میں کشمیر کی زمینی صورتحال کیا ہوگی۔
وہ اسی انڈیا میں ہوگا؟۔۔۔۔Shit
وہ پاکستان میں ہوگا؟۔۔۔۔Ohh
وہ آزاد ہوگا؟۔۔۔۔۔hahahah

مودی جی !۔۔۔۔ یہ ایک بڑی اُلجھی ہوئی ذہنی کیفیت ہے۔ پوری نسل بیمار ہو چکی ہے۔ یہ ٹِک ٹِک کرتا ہوا ایٹم بم ہے جس کے تین چار دعوے دار نکل آئے ہیں۔ پاکستان اور انڈیا تھے ہی ، اب چائنا بھی ہے۔۔ اس کو وقت رہتے ڈی فیوز کیجئے ۔ اب کی بار اس کے حوصلے پست نہیں ہیں۔ یہ لڑکے انڈیا سے نفرت کرتے کرتے بہت دور نکل آئے ہیں۔یہ سب اٹامک پلانٹ ہیں۔۔۔۔۔ اِن کی سنیئے ان کو ایڈریس کیجئے، عزت اور سنمان دیجئے، یہ لاڈ پیار کو ترس چکے بچے کی طرح ہیں۔ آپ شاید جنگ سے زمین کا ٹکڑا جیت لیں گے پر ان کے دل نہیں جیت سکتے ۔ یاد رکھئیے جس کے پاس کھونے کو کچھ نہیں ہوتا وہ دنیا کا سب سے خطرناک ہتھیار ہوتا ہے۔

مودی جی ! ۔۔۔ آپ سوچتے ہونگے، میں یہ خط آپ ہی کو کیوں لکھ رہا ہوں، نواز شریف ، گیلانی یا محبوبہ مفتی کو کیوں نہیں؟ اس لئے کہ سارے انڈیا کی طرح کشمیر کی نئی نسل بھی یہ اچھے سے جانتی ہے کہ مودی کے ہوتے ہوئے کچھ بھی ممکن ہے۔ کچھ بھی ۔۔۔۔۔۔۔ ان کو اس بات کا احساس ہے کہ سالوں بعد ایک ایسا شخص سامنے آیا ہے جو مشکل سے مشکل فیصلے لینے کی ہمت دکھا رہا ہے۔ ایک ایسا شخص جو بغیر ہو ہلا کیے جنگی نفرت کے ماحول میں بھی محض چائے پینے کے بہانے نواز شریف کے گھر میں لینڈ کر سکتا ہے۔

مودی جی ! ۔۔۔ آپ سیلاب کے بعد لگاتار مہینے کے مہینے کشمیر آئے آپ نے اپنے تیج تہوار یہاں منائے ، سیلاب کے وقت اپنی ساری آرمی ویلی میں جھونک دی، یہ سب کچھ اتہاس کے پنوں میں موجود ہے۔ تاریخ میں سب محفوظ رہتا ہے۔ اچھا بھی بُرا بھی ، آپ کے ساتھ گودھرا بھی چلے گا ، لاہور بھی ،

لیکن مودی جی ! اس سب کے باوجود حیرت ہے کہ آج جب قریب چار مہینے سے کشمیر بند پڑا ہے ۔ آپ نے ایک بار بھی اِن لوگوں کو ویزٹ کرنے کی نہیں سوچی۔ کیا آپ تبھی آئیں گے جب آپ کو ووٹ چاہیئے ہوں گے؟ پھر آپ میں اور فاروق عبداللہ میں کیا فرق رہا ۔۔۔ آپ کا پیار بھر 140 اکشر کا ایک خوبصورت اور ایماندارانہ ٹویٹ سارا ماحول بدل کے رکھ سکتا ہے لیکن ایسے موقعوں پر آپ کی انگلیاں تھر تھر کانپ جاتی ہیں۔ اگر آپ ہمیشہ یو پی، بہار، بنگال، پنجاب کے چنائو ہی دیکھتے رہیں گے تو تاریخی کام نہیں کر پائیں گے۔ آپ نے اکیلے دم پر چنائو جیتا۔ لیکن افسوس اب سب کا سب ناگپور کر رہا ہے، آپ کی ایک سپچ نے بلواوادی سادھو ، سنتوں ، یوگیوں کو سین سے باہر کر دیا۔ گائو رکھشا، گھر واپسی ، لو جہادسب ٹھکانے لگ گیاآپ کی ایک لتاڑ سے ۔۔۔۔۔۔ لیکن کشمیر پر آپ خاموش کیوں ہیں؟

جب قوموں میں آکروش ہوتا ہے، اپنوں میں ناراضگی ہوتی ہے؟ اُسے موٹے بجٹ اور روز گار سے دور نہیں کیا جاتا۔ پیار اور محبت کا نیک نیتی بھرا ہاتھ آگے بڑھانا ہوتا ہے۔ کشمیری بڑا غیرتی ہے، وہ ہرروز ہزار بارہ سو کی رسوئی پکاتا ہے۔ سال بھر مارکیٹ بند رکھنے کا ساہس کرتا ہے۔ اپنے پھل ، اپنی فصلوں کو سال کے سال ضائع جانے دیتا ہے۔ لیکن اپنے کاز کا سود ا نہیں کرتا۔

مودی جی !۔۔۔ آپ جانتے ہیں برہان کی موت اور ان 100 سے زیادہ مرنے والے لڑکوں کی موت کے بعد کیا ہوا؟۔۔۔۔۔۔ انڈیا کے ساتھ کھڑے رہنے والا مسلمانوںکا ا یک بہت بڑا غیر کشمیری طبقہ کشمیر کے ساتھ چلا گیا۔ پورے پیر پنجال کے ڈسٹرکٹ، چناب ویلی کے مسلم ڈسٹرکٹ ، جموں اور لداخ کے مسلم اکثریتی بلاک اور تحصیلیں آج کھل کر کشمیر کی ٹون میں بات کرتی ہیں۔ آخر انڈیا کا یہ نقصان کیوں ہوا؟ کس نے کروایا؟ زمینی صورت یہ ہے کہ اب کی بار انڈیا نے وہ نیشنلسٹ مسلم فورسز (گوجر پہاڑی ڈوگری کشمیری ) بھی گنوادی جو ابھی کچھ سال پہلے تک انڈیا کے ساتھ ہوا کرتی تھیں ۔ یہی وہ لوگ تھے جنہوں نے مودی لہر کے وقت بی جے پی کو 25 سیٹیں جتوا کر کشمیر کی حکمرانی کا تاج دیا تھا۔ وہی کارگل، جو پاکستان کے ساتھ یودھ کے وقت انڈین آرمی کے ساتھ شانہ بشانہ کھڑا تھا۔ آج کشمیری نوجوانوں کی موت پر پروٹسٹ ریلیاں نکال رہا ہے۔ مودی جی آپ نے تیزی کے ساتھ گرائونڈ کھویا ہے۔ انڈیا کیلئے یہ سب الارمنگ ہے۔

مودی جی! ۔۔۔ آخری بات۔۔۔۔ آپ سوچیئے تو سہی، کہ بی جے پی اور آر ایس ایس سے نفرت کرنے والا مسلمان آخر اٹل بہاری واجپائی جی سے نفرت کیوں نہیں کرپایا؟ کچھ تو تھا اٹل میں ایسا جو آپ میں نہیں ہے۔ کیاہے وہ؟ آپ اچھے سے جانتے ہیں،اُس کی دوبارہ کھوج کیجئے۔ اپنے لئے ، اپنے مہان دیش بھارت کیلئے ، آپ ہسٹری کے بہت خوبصورت موڑ پر آکھڑے ہوئے ہیں۔

آپ کشمیر کو سچے من سے ایڈریس کیجئے۔ عام کشمیری کے پاس انڈیا ابھی بھی ایک سُرکھشت ویکلپ ہے لیکن ۔۔۔۔۔۔۔ وہ یہ آج والا انڈیا نہیں ہے جہاں مسلمان بات کرتے ہوئے بھی خوف کھانے لگا ہے۔ جہاں مسلم کو قدم قدم پر ایک ہندو سے پرمان پتر لینا پڑتا ہے۔

مودی جی بھارت ایک دیش ماتر نہیں ہے۔ زمین کا ٹکڑا نہیں ہے۔ ہزاروں سال میں پھیلی پیار محبت کی سبھیتا ہے، تہذیب ہے۔ اس کے اتہاسک ڈسکورس کو آپ کے حصے میں آئے یہ چھ آٹھ سال نہیں بدل سکتے۔ آخر یہ وقت بھی گذر جائے گا۔

مودی جی! ۔۔۔ موت کا یہ ننگا ناچ بند کروائیے۔ آپ کر سکتے ہیں ، آپ دنگوں کے جانکار ہیں۔ آپ نفرت کی اس مانسکتا کوسمجھتے ہیں،۔ لگام کسئیے اِن سب پر ۔۔۔۔۔ اگر آپ اس وقت چوکُ گئے تو آپ کا بھارت ورشوں تک کیلئے پٹری سے اُتر جائے گا۔ ۔۔۔ مودی جی! من کی بات پروگرام میں گھنٹوں بولنے کا کیا فائدہ۔۔۔ جب اُنہی مدعوں پر بات نہ کی جائے جو عام عوام کو راحت پہنچا سکیں۔ گذرے سیلابی دنوں میں کشمیر کے درجنوں لڑکوں نے سینکڑوں لوگوں کو ڈوبنے سے بچایا۔ کچھ لڑکے بہہ کر مر بھی گئے۔ کیاآپ نے کبھی اُن کو نیشنل میڈیا میں جگہ دی؟ کسی راشٹریہ ویرتا سنمان سے نوازا؟ آپ لوگ کیوں دل جیتنے والے ایسے موقعے گنوا دیتے ہیں؟ کیسے عام کشمیری آپ سے ریلیٹ کرے گا اور کیوں کرے گا؟ انسانیت ، جمہوریت، کشمیریت جیسے تمام سلوگن بے معنی ہیں، وکاس اور وشواس چنائوی نعرے ہیں۔ جملے بازی تج دیجئے ۔ آپ کے پاس سمے کم ہے۔ پلیز حوصلہ کیجئے ۔۔۔۔۔۔ پاکستان کے ہاتھ لگے اس سب سے بڑے پتے کو ناکارہ کر سکتے ہیں آپ۔ کشمیری کو مان سنمان ، پیار سے ایڈرس کیجئے۔ پورے ہندوستان میں مسلمانوں کی کھوئی شناخت کو واپس لوٹانے میں اپنا یوگدان دیجئے، انڈیا کا 25 کروڑ مسلم آپ کا آبھاری ہوگا۔

ایک بار پھر خوشیوں اور روشنیوں کا تہوار دیوالی مبارک ۔

آپ کا آبھاری
ایک عام کشمیری
ڈاکٹر لیاقت جعفری جموں، اُردو شاعر اور ثقافتی کارکن

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔