اسلام کا عائلی نظام انسانیت کے لیے رحمت ہے!

محمد صابر حسین ندوی

انسانی دنیا کے عروج وزوال کی تاریخ اورسربلندی و سرفرازی اور غلامی وقدم بوسی کی داستان،حوادث وواقعات اور چیلیجیز کی کہانیوں سے لے کر چمن انسانی کا گلہائے سرسبد ہوجانے تک اپنے آپ میں عجب نئے رنگی رکھتا ہے،انسانی کشتی نے وہ دور بھی دیکھا جب طغیانی سمندوروں کے ٹھاٹھے مارتے موجوں نے اسے آن کی آن غرق کردینے کو بیتاب تھا ؛تو وہیں وہ زمانہ بھی پایا جب افق آسمانی نے سب سے متبرک روحوں اور سب سے پاکباز جانوں اور ’’انی اعلم مالا تعلمون‘‘ کی مصداق تھے،عموما یہ وہ عرصہ ہواکرتا تھا جن میں انبیائے کرام کی بعثت ہوتی اور ان کا دعوتی مشن اپنے منصوبے کو پہونچ جاتا تھا،اگر ایسا نہ ہوتا تو پوری انسانیت جاہلیت و حماقت، ظلم وجور اور آپسی نفرت وحسد اور خود کی حقارت وتذلیل اور دوسروں کے پیروں کی گر دیا اپنے مالکوں کے مفاد وخواہش کی تکمیل کیلئے جانور یا اس سے بدتر حالت میں زندگی گزارا کرتے تھے،ان کا معاشرہ میل جول، آپسی روداری، محبت وشفقت یا کہئے کہ انسانیت ومروت سے کوسوں دور ہوتا تھا، ان کا کمزورطاقتوروں کا شکار ہوتے،مزدور امیروں کے زرخرید غلام سے کم نہیں ہوتے،عورتیں بازاروں کی زینت، محفلوں اور مردوں کی تسکین کا سامان بلکہ انتہا تو یہ ہوتی تھی کہ وہ اپنے وجود وحیثیت کے اعتبار سے میراث میں منتقل ہونے والے ترکہ کے مثل ہوتیں، بچوں پر ظلم، بچیوں کے ساتھ ناانصافی کرتے ہوئے انہیں زندہ درگور کردینا اور اس سلسلہ میں اسکی معصومیت ورافت کو تہ تیغ کردینا ہی ان کا مشغلہ ر ہ گیا تھا، ایسے میں ان دردندہ صفت انسانوں سے خاندانی نظام یا کسی عائلی سسٹم کی توقع سراب یا ’’لیت ارجع الشاب ‘‘ کے مثل ہے،فرد وجماعت اور حکمراں ہر ایک کی زندگی کسی ایک رخ پر ہوتی تھی اوروہ ایک ایسا رخ ہوتا جس کی نہ کوئی منزل نہ کوئی ٹھکانا ہوتا، قوم کا ضعیف طبقہ کولہوں کے بیل کے مثل ایک ہی سمت پر چکر لگانے اور دوسروں کی مصلحتوں کی برآری کیلئے اپنی زندگی گنوادیا کرتا، اور اگر کبھی تھک جاتا تو خماری وشراب کے قطروں سے روح وجان کی سیرابی میں سرگرداں یا کسی اجنبیہ کے دولت کدہ کی زینت بن جاتا،حضرت مولانا سیدی ابوالحسن علی ندوی ؒ نے اپنی شہرہ آفاق کتا ب’’انسانی دنیا پرمسلمانوں کے عروج وزوال کااثر‘‘ میں لکھتے ہیں :

 ’’-زمانہ جاہلیت کے-معاشرے پر نظر ڈالئے تو دنیا ہی کا مرقع نظر آتا ہے، ہر چیز غلط شکل یا غلط جگہ پر نظر آئے گی، اس معاشرے میں بھیڑئے کو گلہ کی نگہبانی اور ظالم فریق کو فصل خصومات کا کام سپرد کردیا گیا تھا،اس سوسائٹی میں مجرم خوش قسمت اور آسودہ تھے، اور نیک سیرت زحمت وکلفت میں مبتلا تھے، اس معاشرے میں اخلاق کی پاکیزگی اور نیک چلنی سے بڑھ کر کوئی جرم اور حماقت اور بداخلاقی اور بداطواری سے بڑھ کر کوئی ہنر اور قابلیت کی بات نہیں سمجھی جاتی تھی۔ اس معاشرے کے عادات اور اطوار ہلاکت آفرین تھے، جو دنیا کو ہلاکت کے غارمیں دھکیل رہے تھے، شراب نوشی، بدمستی، بد اخلاقی، جنون، سود خوری لوٹ کھسوٹ اور مال کی محبت بولہوسی اور جوع البقر تک پہنچ گئی تھی، سنگدلی اور بے رحمی اس حد تک پہونچ چکی تھی کہ لڑکیاں زندہ دفن کردی جاتی تھیں اورلڑکے بچپن میں قتل کردئے جاتے تھے، بادشاہ اللہ کے مال کو ہاتھ کا میل اور اللہ کے بندوں کو خانہ زاد سمجھتے تھے، عالم ودرویش خدا بن گئے تھے، لوگوں کا مال کھاتے اڑاتے اور خدا کے راستے سے خدا کے بندوں کو روکنے کے سوا ان کا کچھ مشغلہ نہ تھا۔

جو قابلیتیں انسان کو اللہ تعالی کی جانب سے عطاکی گئی تھیں، وہ بڑی بے دردی سے ضائع کی جارہی تھیں، یا بے محل خرچ ہورہی تھیں، نہ ان سے فائدہ اٹھایا گیا تھا اور نہ ان کو صحیح رخ پر لگایا گیا تھا، شجاعت اور بہادری نے ظلم وزبردستی، فیاضی ودریادلی نے اسراف اور فضول خرچی، خوددارای اور غیرت نے جاہلی حمیت، ذہانت وذکاوت نے دھوکہ بازی اور حیلہ سازی کی شکل اختیار کرلی تھی،عقل کا کام صرف اتنا رہ گیا تھا کہ جرائم کے نئے نئے طریقے اور خواہشات کی تسکین کیلئے نئے نئے راستے پیدا کرے‘‘(ص:۸۷۔ ۸۸)۔ اس زمانے میں دوصنفوں پر سب سے زیادہ ظلم وجور ہواکرتا تھایعنی غلام اور عورت، حضرت مولانابرہان الدین صاحب مدظلہ العالی نے اپنی معرکہ آراء کتاب ’’معاشرتی مسائل دین فطرت کی روشنی میں ‘‘عورتوں پر ہونے والے مظالم اور تمام مذاہب میں ان کی حیثیتوں کا موازنہ کیا ہے،عیسائی، یونانی اور رومی تہذیب نیز ہندو اور بودھ دھرم کا بھی تذکرہ کیا ہے، جنہیں پڑھ کرجبین انسانیت عرق آلود ہوجائے،ایک مقام پرمشہور عیسائی انگریز فلسفی ’’ہربرٹ سپنسر‘‘ کا اقتباس نقل کرتے ہوئے رقمطراز ہیں :’’گیارہویں اور پندرہویں صدی کے دوران (یعنی اسلام کے ظہور کے آٹھ نو سوسال بعد بھی )انگلستان میں عام طور پر بیویاں فروخت کی جاتی تھیں، گیارہویں صدی کے آخر میں عیسائی مذہبی عدالتوں نے ایک قانون کو رواج دیا، جس میں شوہر کو یہ حق دیا گیا تھا کہ وہ اپنی بیوی کسی دوسرے شخص کو عاریۃ دے سکتا ہے، جتنی مدت کیلئے وہ چاہے‘‘(ص:۷۰،بحوالہ:المرأۃ بین الفقہ والقانون :۲۱۱)۔

انسانیت کے انہی پر سوز و جاں سوز اور خاندانی وعائلی نظام کی بدحالی وبدنظمی اور پراگندگی کے دور میں اللہ رب العزت نے شریعت اسلامی اور آفاقی تعلیمات اور فطری تقاضوں کی ہم آہنگی ومعاشرتی زندگی کی سوغات لے کرحضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کو مبعوث فرمایا؛جنہوں نے قرآن وحدیث اور اخلاق عالی، جہد وجہاد، عمل پیہم اور ایثار واستقامت کے ساتھ دین کی تبلیغ واشاعت اور’’ شعار نا الوحید الی اللہ من جدید ‘‘کا نعرہ بلند وکیا، حقوق کی بازیابی، معاشرتی تشکیل اور خاندانی خدو خال کی بحالی پر زور دیتے ہوئے عورتوں، بچوں اور بزرگوں کی عظمت ووقار اور محبت اور ان کے ساتھ حسن سلوک کرنے کی تلقین کرتے ہوئے، موت کے بعد ایک ابدی زندگی اور ا سکے اندر ہر قسم کی نعمتوں وآسائشوں کی بشارت دی، اس سلسلہ میں صبر وتحمل، پاکدامنی وپاکبازی، نکاح کرنے اور اسے زیادہ سے زیادہ رواج دینے پر زورد دیا، بچوں کو’’ ریحان من الجنۃ‘‘ قرار دیا، ماں، بہن اور اور بیوی کی صورت میں عورتوں کو فرش سے عرش تک پہونچا دیا، ان کی تکریم میں جنتوں کو ان کی قدموں میں رکھ دیا، اسی طرح آپسی معاملات میں عفو درگزری کرنے ایک دوسرے کو برداشت کرنے اورمعاف کرنے کو ایمانی شعار بتلاتے ہوئے بہتر سے بہتر طریقے پر ا س کی تشریح وتوضیح کی۔

 واقعہ یہ ہے کہ آپؐؐکو قرآن کریم کا تحفہ اور حکمت یعنی ’’ماینطق عن الھوی ان ھو الا وحی یوحی‘‘کے کل مجموعہ پر اگر غور کیا جائے تو جس قدر ان میں اجتماعیت ومعاشرت کی اہمیت اسکی بقا و ضرورت اور ا سکے تئیں اخلاص وقدر کا تذکرہ ملتا ہے ؛شاید اتنی کثرت سے کسی دوسرے شعبہ کا ذکر نہیں، قرآن کریم میں سورہ نساء،النور اوربنی اسرائیل جیسی سورتوں کے علاوہ متعدد آیات کا گلدستہ انہی دروس پر مشتمل ہے، جن کے اندر مخدومی حضرت مولانا واضح رشید حسنی ندوی دامت برکاتھم کی زبانی:’’جس میں صرف خدائے وحدہ لاشریک لہ کی پرستش ہو اور پھر ا س کے ذریعہ سے اس میں اجتماعی زندگی کی خوبیاں ؛باہمی تعاون، یکجہتی، رواداری، ہمدردی، اخوت وبھائی چارگی اور الفت ومحبت کی جلوہ گری ہو، لیکن ا سکے ساتھ انسان کی ذاتی صلاحیتیں اور شخصی خصوصیات مجروح نہ ہوں ‘‘(نقوش فکر ادب:۵۱)،اس سلسلہ میں اگر صرف سورہ بنی اسرائیل کی ۲۳ تا آیت ۳۹ کو بھی مد نظر رکھا جائے تو ایک عمدہ اور مثالی معاشرہ وجود پذیر ہوسکتا ہے جونہ صرف ملک یاقوم بلکہ پوری انسانیت کیلئے رحمت ثابت ہوگا،اسی طرح قرآن کریم نے ایک طرف ’’وعاشروھن بالمعروف ‘‘(نساء:۴؍۱۹)،اور ’’فامساک بمعروف أوتسریح باِحسان‘‘(بقرۃ:۲۲۹)کہہ کر ایک مصالح معاشرہ کی تشکیل کی طرف رہنمائی کی تودوسری طرف عورتوں کی عزت وتمکنت کا اعلان فرمایا اور یہاں تک حکم ہو اکہ عورتوں کو معروف طریقے کے مطابق وہی حقوق حاصل ہیں، جیسے مردوں کو ان پر حاصل ہیں ’’ولھن مثل الذی علیھن‘‘(بقرۃ:۲؍۲۲۸)،چنانچہ قرآن کریم کی یہی وہ تاثیر تھی اور علم کا وہ خزانہ تھا جس نے عرب کی عربیت اور ان کی نخوت وجاہلیت کو تاریخ کے سنہرے باب میں تبدیل کردیا،پھر عالم یہ تھا کہ وہ پوری انسانیت کو ایک کنبہ اور خاندان تسلیم کرتے تھے ؛کیونکہ ان کے نبی ؐ نے فرمایا تھا :الخلق عیال اللہ ‘‘(شعب الایمان:۴۹۲۱)،اسی طرح حجۃ الوداع کے موقع پر بھی آپؐ نے یہ پیغام دے دیاتھا:لوگو! سن لو تمہارا رب ایک ہے اور تمہارا باپ بھی ایک ہے، سن لو! کسی عربی کو کسی غیر عربی پر یا کسی گورے کو کالے پر کوئی فضیلت نہیں ہے ؛اللہ کے نزدیک سب سے زیادہ باعزت وافضل وہ ہے جو اللہ سے سب سے زیادہ ڈرنے والا ہو(شعب الایمان:۴۹۲۱)۔

 کسی بھی معاشرہ وسوسائٹی کی تشکیل میں اخلاقی تعلیمات اور انس ومحبت اور نرم مزاجی کا وافر حصہ ہوتا ہے، یہ ایک ایسا عنصر ہے جس کے فقدان سے گھروں میں آگ لگ جاتی ہے اور خاندانی نظام درہم برہم ہوکر رہ جاتا ہے، زمانہ جاہلیت میں بھی جہاں ایک طرف سینکڑوں برائیاں تھیں تو وہیں انسانوں کے دلوں میں قساوت وسختی اور رفق ووگداز سے دوری تھی، ان کے سینوں میں دلوں کی دھڑکنیں نہیں بلکہ پتھروں اور بادلوں کی کڑ کڑاہٹ ہوتی، یا برف کی وہ سل ہوتی جو کسی بھی اعتبار سے پگھلنے کو تیار نہ ہو ؛لیکن جیساکہ حضور اکرم ؐ کی تعلیمات نبوی میں انسانی معاشرہ کی بقا وتحفظ کیلئے رنگہارنگ کے نسخہ واکسیراور قواعد کا ذخیرہ دریافت ہے، انہیں میں یہ بات بھی ہے کہ آپؐ نے نرم خوئی ورفق کی تلقین فرمائی اور مردوں کو خواہ’’ قوامہ‘‘ کی حیثیت دی گئی ہو ؛لیکن انہیں یہ بھی باور کرایا کہ اس کا مطلب ترش روئی وخشک مزاجی اور بدخلقی نہیں ہے، علامہ ابی عبداللہ مصطفی بن العدوی نے اپنی کتاب’’فقہ التعامل بین الزوجین وقبسات من بیت النبوۃ‘‘کے اندر ا س سلسلہ میں بڑی شرح وبسط کے ساتھ گفتگو کی ہے اور خانگی زندگی کوبہتر بنانے کے لئے حضور اکرم ﷺکی مختلف روایتوں کو نقل فرمایا ہے۔ فاضل موصوف ’’الوصاۃبالنساء‘‘کے تحت نقل کرتے ہیں ’’آدمی کو چاہئے کہ وہ حسن اخلاق اور رفق ونرمی کے زیور سے آراستہ ہو چنانچہ یہ نبی اکرم ؐ جو سراپا اخلاق کریمانہ کے پیکر ہیں، اس کے باوجودکہ امت کو آپ کی اطاعت وفرماں برداری کا حکم ہے، اللہ رب العزت نے آپ کو نرمی کا حکم دیا اور مؤمنین کیلئے اپنے بازو دراز کردینے کی تلقین کی فرمائی:’’فبما رحمۃ من اللہ لنت لھم ولوکنت فظا القلب لانفضوا من حولک فاعف عنھم واستغفر لھم وشاورھم فی الامر‘‘(آل عمران:۱۵۹)، ایک اور مقام پر ارشاد ہے:’’واخفض جناحک لمن اتبعک من المؤمنین ‘‘(الشعراء:۲۱۵)،حضور اکرم ﷺ نے بھی ارشاد فرمایا:’’علیک بالرفق‘‘(مسلم:۲۵۹۴)،نرم خوئی کو لازم کرلو،اور اس  پر ابھارتے ہوئے ارشاد فرمایا:’’ان الرفق لایکون فی شیئی الا زانہ ولا ینزع من شئی الا شانہ ‘‘(مسلم:۲۵۹۴)اور فرمایا:’’ان اللہ یحب الرفق فی لامر کلہ ‘‘(بخاری‘۶۰۲۴)،’’ویعطی علی الرفق مالا یعطی علی العنف ومالایعطی علی سواہ‘‘اور یہاں تک ہے کہ ’’من یحرم الرفق یحرم الخیر‘‘(مسلم:۲۵۹۳)یعنی انسانی مزاج کیلئے نرم مزاجی ناگزیر ہے، اور ا س پر اللہ تعالی وہ مقام عطا فرماتے ہیں اور انعامات عطا فرماتے ہیں جو بدمزاجی اور ترش روئی پر نہیں دیتے، آج عموماً خاندانی نظام کی بدحالی یا ان کا معاشرہ میں پچھڑجانے میں خصوصا مردوں کے مزاج کا ترش ہوجانا ہوتا ہے جس سے بسااوقات خاندان بکھر جاتے ہیں یا پھر آپسی عزت وتکریم کا جنازہ نکل جاتا ہے۔

 اسلام کی نظر میں خاندان ومعاشرہ کے کمزوروں اور ضعیفوں کی قدر اتنی ہے کہ اگر ان کے ساتھ ظلم وجور کا معاملہ ہو خواہ وہ کسی بھی خطہ یا کسی ملک ومعاشرہ سے تعلق رکھتے ہوں ؛ان کے حق میں مسلمانوں پر فرض ہوتا ہے کہ ان کی جان وعزت اور امن واماں کا بندوبست کریں ارشاد ربانی ہے’’ومالکم لاتقاتلون فی سبیل اللہ والمستضعفین من الرجال والنساء ووالدان الذین یقولون ربنا أخرجنا من ھذہ القریۃ الظالم أھلھا واجعل لنا من لدنک ولیا واجعل لنا من لدنک نصیراً‘‘(نساء:۷۵)علامہ وھبہ زحیلی نے اس آیت کی تفسیر کرتے ہوئے بہت سے مفید نکات پر بحث کی ہے اور یہ ثابت کیا ہے کہ آج بھی اس کا حکم باقی ہے اور یہ مسلمان ومنافقین کے درمیان امتیاز کی ایک کڑی ہے نیزیہ ایک ایسا عمل ہے جس پر اللہ نے نصرت وفتح کی ضمانت دی ہے(دیکھئے:التفسیر المنیر۔ ۵؍۱۵۹)،واقعہ یہ ہے کہ معاشرتی ڈھانچہ میں اکثر سب سے مظلوم اور بے بس عورتوں کا کردار رہا ہے؛ لیکن اسلام نے انہیں اللہ تعالی کی نشانیوں اور مردوں کیلئے باعث رحمت وسکوں قرار دیا ہے ارشاد ہے:’’ومن آیاتہ أن خلق لکم من أنفسکم أزواجا لتسکنوا الیھا وجعل بینکم مودۃ ورحمۃ ‘‘(روم:۲۱)، اور فرمایا:‘‘ھوالذی خلقکم من نفس وواحدۃ وجعل منھا زوجا لیسکن الیھا‘‘(اعراف:۱۸۹)،حضور اکرم ﷺ نے نیک عورتوں کو دنیا ومافیھا سے بہتر قرار دیا :’’الدنیا متاع وخیر متاع الدنیا امرأۃ الصالحۃ‘‘(مسلم:۳؍۶۵۶)،اسی لئے مردوں کو بھی یہ تعلیم دی گئی کہ ان کے ساتھ خیر کا معاملہ کریں ’’أکمل اللمؤمنین ایمان خلقا، وخیارکم خیارکم لنسائھم ‘‘(مسلم:۲؍۴۷۲)،اور ایک جگہ پر ایمان باللہ اور ایمان بالآخرہ سے منسلک کرتے ہوئے نیز ان کو ان ہی کی فطرت کا خیال کرتے وہوئے؛ حسن سلوک کی وصیت کی گئی:’’من کان یومن باللہ ولیوم الآخر فلایوذی جارہ۔۔ ۔ ۔ ۔ واستوصوابالنساء خیرا فانھن خلقن من ضلع وان اعوج شئی فی الضلع اعلاہ،فان ذھبت تقیمہ کسرتہ،وان ترکتہ لم یزل أعوج فا ستو صوابالنساء خیراً‘‘(ترمذی:۱۱۶۳)۔ یہی وجہ ہے کہ حافظ ابن کثیر ؒ نے فرمان الہی’’فان أطعنکم فلاتبغوا علیھن سبیلا ان اللہ کان علیا کبیرا‘‘(نساء:۳۴)کی تفسیر کرتے ہوئے فرمایا:’’جب اہلیہ تمام مباحات ا لہی میں اطاعت کاثبوت دے ایسے میں اسے کسی قسم کی گزند پہونچانا روا نہیں، نا اسے مارسکتا ہے اور ناہی ا سے چھوڑ سکتا ہے، اسی لئے اللہ نے ’’علیا کبیرا‘‘کے ذریعہ ایسے مردوں کی تہدید کی ہے جو بلاکسی مناسب وجہ کہ عورتوں پر ظلم کرتے ہیں، انہیں جان لینا چاہئے کہ اللہ بہت بلند وبرتر ہے‘‘(دیکھئے:تفسیر ابن کثیر ۲؍۲۵۶)،علامہ ابن جریر طبری نے بھی اسی طرح کی تفسیر کی ہے لیکن اس میں یہ بھی اضافہ کیا ہے ’’اگر عورت اس کی اطاعت کرتی ہو لیکن ا س سے محبت نہ کرتی ہو تو اسے ا سکا مکلف کرتے ہوئے اذیت نہ دے ؛کیونکہ وہ اس کے ہاتھوں میں نہیں ‘‘(دیکھئے: تفسیر طبری۔ ۴؍۶۰)۔

قدیم زمانوں میں عورتوں کے ساتھ بربریت کا عالم یہ بھی تھاکہ انہیں میراث میں کوئی حق نہ دیا جاتا تھا لیکن اسلام نے خاندانی نظام کی بہتری کیلئے ہر ایک کی محنت وکوششوں کو سراہا ہے اور کسی کو بھی ان کے حق سے محروم نہیں کیا، یہی وجہ ہے کہ عورتوں کو بھی حق وراثت سے نوازاگیا، ساتھ ہی ا سے روزی روٹی اور معاش کی تمام تکلیفوں سے دور رکھتے ہوئے ایک ملکہ خانہ کی زندگی عنایت کی گئی اللہ تعالی نے فرمایا:’’للرجال نصیب مماترک الوالدان والأقربون وللنساء نصیب مماترک الوالدان والاقربون مما قل منہ أوکثر نصیباً مفروضاً‘‘یعنی بالترتیب والد بھائی اور شوہر کو عورت کے نان ونفقہ کی ذمہ داری سونپی گئی اور ا سکے باوجود انہیں جائداد میں حصہ دار بنایا گیا(نساء:۴؍۷)،نیز اسلام ہی ایک ایسامذہب ہے جس نے اپنی مقدس کتاب میں عورتوں ہی کو مرکزی عنوان بناکر سورہ کو موسوم کیا اور ا سکے اندر ان کے مسائل کے متعدد پہلووں پر گفتگو کی گئی۔

حقیقت یہ ہے کہ اسلام کا عائی نظام سراپا رحمت اور عین فطرت کے مطابق ہے، کیونکہ اس کا نظریہ اجتماع ومعاشرہ کسی فلسفہ وتھیوری سے شروع نہیں ہوتا، وہ زندگی کو روح اور مادہ کی تفریق کا قائل نہیں، وہ پہاڑوں اور غاروں میں رہبانیت کے نام پر زندگی کھپا دینے کاحکم نہیں دیتا،یا انسان کے زندہ رہنے کی خواہش کومنفی جذبہ قرار نہیں دیتا بلکہ اسے تقدس عطاکرتا ہے، اور اخلاقی ومعاشرتی زندگی کی پرزور حمایت وتبلیغ کاا علان کرتے ہوئے صاف اس بات کا حامی ہے کہ ’’ربانیۃ لارہبانۃ‘‘،اسلام کا اصل تصور یہ ہے کہ انسان اس حال میں زندگی گزارے جس کوایک امی شخص نے چودہ سوبرس پہلے کہا تھا اور انسانیت کو یہ ہدایت دی تھی جس خلاصہ یہ تھا’’میں ایک انسان ہوں، لیکن خدا نے جو ا س کائنات کا خالق ہے مجھے حکم دیا ہے کہ میں ا سکا پیغام تم کو پہونچادوں تاکہ تم اس طرز پر زندگی گزارو،جس طرز پر اسے تلقین کی گئی ہے، اس نے مجھے حکم دیا ہے کہ تم کو ا س کا وجود، قدرت اور علم یاددلاؤں اور تمہارے سامنے زندگی کا نظام رکھوں، اگر تمہیں یہ نصیحت اور یہ نظام منظور ہوتو میری پیروی کرو‘‘اس نقطہ کو ذکرکرتے ہوئے ’’لیوپولڈ ویس‘‘یعنی محمد اسد جنہوں نے صنم خانہ سے خاصہ خانہ کا سفر کیاتھا لکھتے ہیں :’’جس اجتماعی نظام کا نقشہ انہوں پیش کیا وہ صرف حقیقی عظمت کے ساتھ چل سکتا تھا، یہ نظام اس منطقی تمہید کے ساتھا شروع ہوتا ہے کہ انسان ایک حیاتیاتی (بیالوجیکل)عنصر ہے، جو کچھ حیاتیاتی تقاضے رکھتاہے، اس کے خالق نے اسکو اس طرح پیدا کیا کہ وہ خاندان اور جماعوتوں کی شکل میں مل جل کر زندگی گزاریں ؛تاکہ اس طرح سب مل کر اپنے جسمانی معنوی اور عقلی تقاضوں کواچھے طریقہ پرپورا کرسکیں، مختصر یہ کہ وہ ایک دوسرے کے تعاون کے محتاج ہیں، اور فرد کی روحانی ترقی (جودین کا بنیادی مقصد ہے )بڑی حدتک اس بات پر منحصر ہے کہ اس کو ان لوگوں سے ہمت افزائی تائید اور معنوی تعاون حاصل ہو، جن کے درمیان وہ رہتا ہے اور جوخود اس کے تعاون کے محتاج ہیں ؛ یہی وہ اندرونی اعتماد ہے جس کی وجہ سے اسلام کو سیاسیات واقتصادیات سے کسی صورت علیحدہ نہیں کیا جاسکتا ہے‘‘(طوفان سے ساحل تک:۱۴۷)۔

مصنف مرحوم مزید اس پرروشنی ڈالتے ہوئے آگے لکھتے ہیں :’’اس نقطہ نظر سے یہ بات بالکل قدرتی اور منطقی معلوم ہوتی ہے کہ محمد ﷺ نے نبوت کے ۲۳ سال میں صرف روحانی شعبوں کی طرف توجہ نہیں کی، بلکہ انفرادی اور اجتماعی جدوجہد کیلئے ایک مکمل نقشہ بھی دیا، انہوں نے صرف فرد کی اصلاح کا تصور نہیں دیا ؛بلکہ ایک منصف اسلامی معاشرہ کاخاکہ بھی ہم کو دیا جو اس اصلاح کے نتیجہ میں قائم ہونا چاہئے، انہوں نے سیاسی سوسائٹی کے بارے میں اجمالی اشارات دئے اس لئے کہ اسلام کی سیاسی زندگی کی تفصیلات زمانہ پر منحصر ہیں، اور ان میں تبدیلی وتغیر ہوتا رہتا ہے، انفرادی حقوق اور اجتماعی ذمہ داریوں کے شعبہ میں بھی ایک نظام پیش کیا جس نے تاریخی ارتقاء کا پورا لحاظ کیا ہے‘‘(طوفان سے ساحل تک :۱۴۸)۔

 دراصل ضرورت ا س بات کی ہے کہ اسلام کے عائلی نظام ومعاشرتی خاکے کو انسانی زندگی میں برتا جائے اور بیرونی ومغربی طرز زندگی کو خیرباد کہتے ہوئے خالص اسلامی زندگی کی طرف قدم بڑھایا جائے، جس کی نہ صرف مشرقی لوگوں کو ضرورت ہے بلکہ یہ یوروپ اور مغرب کیلئے بھی ناگزیر بن چکا ہے جہاں پر معاشرتی نظام ہلاکت وبربادی کے دہانے پر کھڑا ہے،اجتماعیت کے پرخچے اڑ چکے ہیں، انسانیت اور آپسی میل ملاپ نہ رخصت لے لی ہے، باہمی تعاون ونصرت گویا امر موہوم بن چکے ہیں، عورتیں آزادی کے نام پر اپنا تقدس کھو چکی ہیں، ایسے میں اگر کوئی انہیں سمبھالادے سکتا ہے اور عمدہ معاشرتی نظام پیش کرسکتا ہے تو وہ صرف اور صرف اسلام ہی ہے، اب یہ ہمارے ہاتھوں میں ہے کہ ہم کس حد تک اسلامی پیغام کو عام کرتے ہیں اور جہنم کدہ بنی انسانیت کو پیغام محمدی ﷺ کا جام پلا تے ہیں اور باطل پرستوں کی دنیا میں اسلام کی حق پرستی ثابت کرتے ہیں، اورکس حد تک خاندانی نظام کی تباہی کے درمیان اسلامی نظام معاشرت ورحمت کی چادر کا سایہ ان پر دراز کرتے ہیں۔

تبصرے بند ہیں۔